(پختون خواہ میپ کے زیر اہتمام قبائلی جمہوری جرگہ(عالمگیر آفریدی

214

اسلام آباد میں پختون خوا ملّی عوامی پارٹی کے زیراہتمام ہونے والے قبائلی جمہوری جرگے نے نہ صرف فاٹا اصلاحات کے لیے بنائی گئی کمیٹی کو مسترد کردیا ہے بلکہ اس کمیٹی کی رپورٹ کو بھی قبائل کے ساتھ سنگین مذاق قرار دیتے ہوئے قبائل کے مستقبل سے متعلق کسی بھی فیصلے سے قبل قبائل کو اعتماد میں لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ مذکورہ قبائلی جرگے سے قبائلی مشران، علمائے کرام اور منتخب نمائندوں کے علاوہ میپ کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے کہا ہے کہ قبائل پر باہر سے ٹھونسا گیا کوئی بھی نظام مسلط نہیں ہونے دیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ قبائلی علاقوں کا خیبر پختون خوا میں انضمام کسی بھی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔ فاٹا کا وہی حل قبائل کو منظور ہوگا جس میں قبائلی عوام کی خواہشات کو مدنظر رکھا جائے گا۔ جرگے سے اپنے خطاب میں وزیرستان کے ملک خان مرجان مسعود نے مطالبہ کیا کہ قبائلی علاقوں کو خودمختار کونسل یا الگ صوبے کا درجہ دیا جائے، ہمیں دوسرا بنگلادیش نہ بنایا جائے۔ ممتاز قبائلی راہنما ملک بہادر شاہ اتمان خیل نے کہا کہ سرتاج عزیز اور دیگر چار لوگوں کو فاٹا کے متعلق فیصلوں کا کوئی اختیار نہیں ہے، ہم اپنے قبائلی تشخص کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں اور اس مقصد کے لیے الگ صوبہ چاہتے ہیں۔ مرحلہ وار آگے بڑھنے کے لیے قبائل آزاد کونسل قائم کی جائے۔ شمالی وزیرستان ایجنسی سے رکن قومی اسمبلی ملک نذیر احمد خان نے کہا کہ ہم اپنے فیصلے خود کرنا چاہتے ہیں، اپنے اوپر حکمرانی کا اختیارکسی کو دیا ہے اور نہ دیں گے۔ سابق رکن قومی اسمبلی صاحبزادہ تاج محمد نے کہا کہ الگ خودمختار صوبہ ہمارا حق ہے۔ رکن قومی اسمبلی غازی گلاب جمال نے کہا کہ خیبر پختون خوا خود غریب صوبہ ہے۔ بنوں، لکی مروت، ٹانک، دیر سمیت اکثریتی اضلاع پسماندہ ترین علاقوں میں شمار ہوتے ہیں، یہ علاقے فاٹا کو کیسے سنبھال پائیں گے! سابق سینیٹر حافظ رشید احمد نے کہا کہ جو لوگ باہر سے ہمارے متعلق فیصلوں کا سوچ رہے ہیں انہوں نے فاٹا کو تباہ کیا۔ ہمیں اپنے وسائل پر اختیار ملے تو ہر قبائلی ارب پتی بن جائے گا۔ مہمند ایجنسی سے ملک نادر خان نے کہا کہ کس دلیل کی بنیاد پر قبائلی علاقوں کے بندوبستی علاقوں میں انضمام کی باتیں کی جا رہی ہیں؟ ہر وہ نظام جو قبائل کی مرضی کے خلاف ہو ہم اسے کبھی ماننے کے لیے تیار نہیں ہوں گے، ملک بادشاہ خان محسود نے کہا کہ ہم منتخب جمہوری فاٹا کونسل چاہتے ہیں، محمود خان اچکزئی اور مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں قبائلی عوام کو اپنے فیصلوں کا اختیار دیا جائے۔ ایف آر کوہاٹ سے ملک نائب خان آفریدی نے انکشاف کیا کہ چھے ایف آرز میں سے پانچ نے آزاد قبائلی کونسل یا الگ صوبے کا مطالبہ کیا تھا لیکن اصلاحات کمیٹی نے رپورٹ میں پانچ کی جگہ ایک ایف آر کو شمار کیا ہے۔ ہم واضح کردینا چاہتے ہیں کہ اکثریت آزاد کونسل چاہتی ہے۔ جنوبی وزیرستان ایجنسی سے رکن قومی اسمبلی مولانا جمال الدین نے کہاکہ قبائلی علاقوں پر بیرونِ ملک سے مسلط کیا گیا کوئی حل ہم کسی صورت تسلیم نہیں کریں گے، اس بیرونی حل کے ذریعے قبائلی علاقوں کی حیاء، اقدار اور پگڑی کو ختم کرنے کی سازش کی جا رہی ہے، ہم خیبر پختون خوا میں شامل ہونے کے لیے بالکل بھی تیار نہیں ہیں۔ فاٹا کے پارلیمانی لیڈر شاہ جی گل آفریدی نے کہاکہ قبائل کو دربدر کیا گیا ہے۔ میرا یہ سوال ہے کہ بیت اللہ محسود، حکیم اللہ محسود اور منگل باغ جیسے لوگ ہمارے علاقوں میں کیوں پیدا ہوئے؟ کون ان کا ذمہ دار ہے؟ ہمیں فاٹا میں تابوت لے جانا ہو تو اس کے لیے بھی پرمٹ لینا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ میرا سوال ہے کہ اٹھارہویں ترمیم کے موقع پر جب صوبوں کے حقوق کا تعین ہورہا تھا تواُس وقت کے قبائلی اراکین پارلیمنٹ نے فاٹا کے جمہوری حقوق کیوں نہ لیے؟
پختون خوا ملّی عوامی پارٹی کا قبائلی جرگہ ایسے وقت میں منعقد ہوا ہے جب ایک جانب حکومتی سطح پر فاٹا اصلاحات کے نفاذ کی خبریں میڈیا کی زینت بن رہی ہیں اور یہاں تک کہا جارہا ہے کہ سرتاج عزیز کمیٹی کی اصلاحات سے متعلق سفارشات کابینہ کے اگلے اجلاس میں منظوری کے لیے ایجنڈے میں شامل کی جا چکی ہیں، جبکہ دوسری جانب ان اعلانات کے باوجود کہ وفاقی حکومت جمعیت علمائے اسلام (ف) کی قیادت کو فاٹا اصلاحات کے ایشو پر رام کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے، جمعیت (ف) کی قیادت نے نہ صرف اس حکومتی دعوے کو مسترد کردیا ہے بلکہ وہ پہلے سے بھی زیادہ جارحانہ موڈ میں نظر آرہی ہے۔ اسی طرح تیسری جانب وہ سیاسی اور سماجی قوتیں بھی جو فاٹا اصلاحات اور بالخصوص قبائلی علاقوں کے خیبر پختون خوا میں انضمام کے حق میں ہیں، زیادہ زور وشور سے اپنے مطالبے کے حق میں نہ صرف آواز اٹھا رہی ہیں بلکہ باجوڑ، مہمند، خیبر ایجنسیوں سمیت پشاور میں بھی اپنے مؤقف کے حق میں بڑے بڑے احتجاجی مظاہرے کررہی ہیں۔ پختون خوا ملّی عوامی پارٹی نے فاٹا اصلاحات پر جو مؤقف اپنایا ہے وہ تقریباً وہی ہے جو جمعیت (ف) کا ہے، البتہ ان دونوں کے مؤقف میں فرق یہ ہے کہ جمعیت(ف) قبائلی علاقوں میں نہ صرف وجود رکھتی ہے بلکہ وہ وہاں کافی ووٹ بینک اور اثر رسوخ بھی رکھتی ہے، جب کہ اس کے برعکس پختون خوا ملّی عوامی پارٹی کا قبائلی علاقوں میں نہ تو ووٹ بینک ہے اور نہ ہی اس کا وہاں کوئی اور اسٹیک ہے۔ جمعیت (ف) اپنے مؤقف کے حق میں نہ صرف حکومتی سطح پر اثررسوخ استعمال کررہی ہے بلکہ قبائلی علاقوں کے اندر بھی وہ اپنے مؤقف کے حق میں احتجاجی جلسے منعقد کرکے اپنا وجود اور مؤقف منوانے کی کوشش کر رہی ہے۔ جمعیت(ف) کے جارحانہ مؤقف کے برعکس پختون خوا ملّی عوامی پارٹی اب تک قبائلی علاقوں میں تو کجا پشاور میں بھی اپنے مؤقف کے حق میں کوئی سرگرمی کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔ اپنے مؤقف کے حق میں اسلام آباد میں ایک محدود جرگے کے ذریعے اپنی قوت کے مظاہرے سے اس کی سیاسی پوزیشن مضبوط ہونے کے بجائے مزید کمزور ہونے کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔
حکومت کی اتحادی ان دونوں جماعتوں یعنی جمعیت(ف) اور پختون خوا ملّی عوامی پارٹی کی جانب سے فاٹا اصلاحات پر تنقید اور اصلاحات کے نفاذ میں رکاوٹ ڈالنے سے یہ چہ میگوئیاں بھی پروان چڑھ رہی ہیں کہ یہ دونوں حکومتی اتحادی جماعتیں یہ سب کچھ وفاقی حکومت کی شہہ اور آشیرباد سے کررہی ہیں۔ البتہ یہ سوال اٹھاتے ہوئے اِس سوال کا جواب بھی تلاش کیا جانا ضروری ہے کہ اگر وفاقی حکومت کو ان اصلاحات کا نفاذ نہیں کرنا تھا تو اسے اصلاحات کمیٹی بنانے اور قبائل کے جذبات سے بلاوجہ کھیلنے کی کیا ضرورت تھی؟ اور اگر اصلاحات کے ضمن میں اس کے کچھ تحفظات ہیں یا پھر اگر اس ضمن میں کچھ زمینی مشکلات حائل ہیں تو اس کا مشاورت سے کوئی قابلِ عمل حل نکالنا اصلاحات کے عمل کو سرد خانے کی نذر کرنے کی سوچ اور اپروچ سے بدرجہا بہتر ہوگا۔ توقع ہے کہ وزیراعظم قبائلی عوام کے دکھوں اور ان کے احساس محرومی کا ادراک کرتے ہوئے فاٹا اصلاحات کے نفاذ میں مزید کسی لیت ولعل اور قبائلی عوام کے صبر کا مزید امتحان نہیں لیں گے۔
nn

حصہ