(دورجاگ رہا ہے(اسما اشفاق

325

159یرے کانوں میں خوف ناک دھماکوں کی آواز گونج رہی تھی۔ خوف سے میرا پورا جسم کانپ رہا تھا، میری ماں نے مجھے اپنی آغوش میں چھپا رکھا تھا اور ان کے لبوں پر تیز تیز قرانی کلام کا ورد جاری تھا۔ کچھ ہی دیر بعد دھماکوں کی آوازیں تھم گئیں۔ ہم ایک کونے میں چھپے ہوئے تھے، ہمارے گھر کا کوئی حصہ ایسا نہ بچا تھا، جو تباہی کی وجہ سے ملبے کے ڈھیر میں تبدیل نہ ہوگیا ہو۔ گھر مکمل تباہ ہوچکا تھا اور ہم کسی محفوظ جائے پناہ کی تلاش کے متلاشی تھے۔ ہم اور ہم جیسے ہزاروں لوگ ظالم درندوں کے خوف سے کسی انجان منزل کی جانب بڑھ رہے تھے۔ میں نے آنکھیں کھولیں۔ میرے بوڑھے دادا میری والدہ سے کہہ رہے تھے: بٹیا، جلدی کرو ہمیں کسی محفوظ جگہ چلنا ہے۔ سب لڑکھڑاتے ہوئے کسی منزل کی تلاش میں چل پڑے۔ بھوک، پیاس، سردی کے ساتھ خوف ہمارے چہروں سے عیاں تھا۔ ہم جیسے کئی لوگ ہمارے ساتھ تھے اور یہ قافلہ کسی منزل مقصود کی تلاش میں محو سفر تھا۔ اردگرد عمارتیں ملبوں کا ڈھیر بنی عجیب منظر پیش کررہی تھیں۔ ہر فرد دُکھی تھا، کسی کا کوئی عزیز اس دوران شہید ہوچکا تھا تو کسی کا کوئی عزیز زخمی حالت میں تکلیف سے سسک رہاتھا۔ لاشوں کا بکھرنا اور سسکتی انسانیت کا دم توڑنا۔۔۔دیکھا نہیں جارہا تھا۔۔۔نگاہیں متلاشی تھیں تو کسی دردِ دل رکھنے والے ساتھیوں کی۔ اُمت کا درد رکھنے والے کئی افراد مدد کو پہنچے، زخمیوں کو نکالتے اور اسپتال پہنچاتے، کچھ قافلے بیرونِ ملک بھائیوں کی مدد پر رختِ سفر باندھ رہے تھے، میرے دادا کہہ رہے تھے کہ ہمارا قصور صرف ایک لمحہ کا اقرار ہے، مگر شکر ہے اللہ کا یہاں ہر فرد اسی کلمے کی خاطر اپنا سر کٹانے کو تیار ہے کہ اسی میں دونوں جہاں کی سرفرازی ہے، مگر افسوس ایسے لوگوں پر ہے، جو اسی کلمے کو ماننے کے باوجود اس کلمے کی بنیاد پر ایک ہو کر نہیں جڑتے اور افراط و تفریق میں مبتلا ہیں جب کہ کافر کبھی کسی کو مارتے وقت یہ نہیں سوچتا کہ اس کا مسلک کیا ہے؟ وہ تو صرف اور صرف کلمہ گو کو اپنا دشمن مانتا اور اسے ختم کرنے کی سازشیں تیار کرتا ہے۔ پتا نہیں یہ اُمت کب اس حقیقت کو تسلیم کرکے آپس کے اختلافات کو مٹانے میں اپنا فرض ادا کرے گی اور نجانے کب اسے یہ احساس ہوگا کہ جب اپنے حکم رانوں کا انتخاب کرے تو خوف خدا رکھنے والے دردِ مند دل رکھنے والے اور انصاف پسند خدا پرست لوگوں کا انتخاب کرے تا کہ ایسے مسلم حکم راں نہ صرف اپنے ملک و قوم کے لیے مفید ہوں بلکہ ہم جیسی مظلوم اقوام مسلم کے حق میں بھی دنیا کے ہر بڑے پلیٹ فارم پر آواز بلند کرنے اور ہمارے دشمنوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جواب دینے کی ہمت بھی رکھتے ہوں۔۔۔
میں اپنی ننھی ننھی آتی جاتی سوچوں میں یہ سوچ رہا تھا کہ دراصل یہ صرف میرے دادا کی التجا نہیں بلکہ درحقیقت پوری دُکھی ہوئی اُمّتِ مُسلمہ کے دلوں کی آواز ہے اور پھر معصوم آنکھیں آسمان کی جانب اُٹھ کر اپنے ربّ سے کسی ابن قاسم، کسی طارق بن زیاد جیسے حاکم کو بھیجنے کی التجا کرنے لگیں ،جن کے کارنامے میں اپنی والدہ کی زبانی سُنتا ہوا سونے کا عادی تھا۔۔۔میری دادی، جو اللہ میاں کے پاس چلی گئی ہیں، وہ کہتی تھیں کہ پوری دنیا کے مسلمانوں کا درد جاگ رہا ہے، لیکن مسلمان سورہے ہیں!!

حصہ