(معاشرے کی تباہ کاریاں(قاسم ندیم

275

135ب زمین میں سے ایک درخت پیدا ہوتا ہے تو پہلے اس کی جڑ قائم ہوتی ہے۔ اگر جڑ تندرست و توانا ہے تو درخت اچھا پھل دیتا ہے اور اگر جڑ کم زور ہے تو یقیناً درخت بھی کم زور ہی ہوگا۔ پھل نہ دینے کے ساتھ ساتھ وہ درخت تیز آندھیوں اور طوفانوں کا مقابلہ بھی نہیں کر سکے گا۔ کبھی اس کی یہ شاخ ٹوٹی، کبھی وہ شاخ ٹوٹی اور اس طرح کرتے کرتے اسی طرح ایک دن یہ درخت ختم ہوجائے گا۔ اس درخت کو اب بچانے کے لیے ہم طرح طرح کے جتن کریں گے اسے مزید زندگی دینے کی کوشش میں ہم اس درخت سے منسوب شدہ کتب کا انتخاب کر کے وہاں سے مناسب مشوروں کو مد نظر رکھ کے اس کی پرورش پر دھیان دیں تو گے یہ درخت اپنی موت سے پہلے مرنے کو بچ سکتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح سے ہم اپنے بچوں کی بنیاد یقینی بنائیں گے تو ہم ایک اچھا معاشرہ ترتیب دیں سکتے ہیں اور اس معاشرے کو ایک اچھا معاشرہ یقیناً ایک ماں ہی دے سکتی ہے۔کسی بھی معاشرے کو بنانے یا بگاڑنے میں عورت کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔ ہماری مائیں آج کل ایک بہت بڑی غلطی کرتی ہیں۔ اچھائی سمجھ کر کہ بچہ ابھی ٹھیک سے قدم نہیں اٹھا سکتا، اسے اسکول میں بھیجنا شروع کر دیتی ہیں جو کہ سراسر غلط کرتی ہیں، کیوں کہ اللہ رب العزّت نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا کہ سات سال تک بچے کو نماز کے لیے بھی نہ کہو کیوں کہ سات سال تک بچہ جتنی بھی خصوصیات اس کے ماں باپ کے اندر ہوتی ہیں، وہ انہیں دیکھ کر محسوس کر کے اپنے اندر انہیں منتقل کرتا رہتا ہے، چاہے وہ اس کے ماں باپ میں اچھی خصوصیات ہوں یا بری تو پھر یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ بچہ اسکول میں سے شروع سے ہی اچھی تربیت پا سکے اور یہ سات سال تک عمر بھی ایسی ہوتی ہے کہ بچہ کسی بھی معاملے کو دیکھ کر یا محسوس کر کے اس سے سیکھ سکتا ہے، البتہ باتوں سے اسے کچھ بھی سمجھانا بے سود ہوتا ہے اور اب اس بات سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ ماں باپ کو چاہیے کہ وہ اپنے مسائل یا جھگڑے خود حل کریں، بچوں کے سامنے ہرگز نہیں، کیوں کہ مسائل حل کرنے میں آنے والی اونچ نیچ کا اثر بچے ہی پر پڑتا ہے۔ ہمارا معاشرہ ان چھوٹی چھوٹی باتوں کی پروا کیے بغیر ان پر عمل کرتا ہے، جس کا خمیازہ انہیں اپنی ہی اولاد کے ہاتھوں بھگتنا پڑتا ہے۔ اللہ نے قرآن مجید میں ایک اچھی نسل کو بڑھانے کے لیے اعلیٰ سے اعلیٰ نسخے عطا کر رکھے ہیں، مگر ان نسخوں کا تب تک کوئی فائدہ نہیں ہے جب تک ہم لوگ قرآن سے جڑ نہیں جاتے۔
اور بھی بہت سی وجوہ ہیں، جن کے باعث ہمارا معاشرہ نقصان اٹھا رہا ہے۔ اپنے خاندان میں اختلافات کی وجہ سے بچوں پے گہرا اثر ہوتا ہے۔ زیادہ تر مائیں اپنے رشتے داروں کے خلاف اپنے منفی خیالات سے بھی اپنے بچوں کے ذہن کچھ اس طرح سے بنا دیتی ہیں کہ بچے کو سدھرنے کے لیے اس کی اپنی عمر بھی کم پڑ جاتی ہے۔ انہی منفی رویّوں کو لے کر معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے، جس سے ایک تو بندہ خود اس بگاڑ سے متاثر ہوتا اور اپنوں ساتھ دوسروں کو بھی اس لعنت میں ڈبو دیتا ہے اور اسی وجہ سے گھروں میں بھی لوگوں کو سکون نہیں ملتا۔ سب سے بڑی بات یہ کہ آج کل کی مائیں اپنے بچوں کو دنیاوی کام یابی سے روشناس کرواتی ہیں، جس سے انسان دنیا میں تو دولت پیسا اکٹھا کر لیتا ہے، مگر اپنے اصلی امتحان میں فیل ہوجاتا ہے۔ ہماری کام یابی کا انحصار دنیاوی کام یابی پر ہرگز نہیں ہے۔ بچوں کو ڈاکٹر سائنس دان یا کوئی بھی عہدے دار بنانے سے پہلے ایک انسان بنایا جائے تو پھر بے شک ہم ایک اچھے اور سلجھے معاشرے کے باشندے بن سکتے ہیں۔ اگر بچوں کی اسلامی نظریات کے تحت پرورش کی جائے تو ایک اچھا معاشرہ بھی ہماری تحویل میں آتا ہے اور اپنی آخرت بھی بن جاتی ہے۔ بچوں کی تربیت میں خاتونِ خانہ کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے، مگر اس کا یہ مطلب بھی ہرگز نہیں کہ مرد اپنی ذمّے داریوں سے بالکل بری الذمّہ ہو جائے۔ ماں باپ کو چاہیے کہ جس قدر ہوسکے، اپنے بچوں کی پرورش قرآن مجید کی روشنی میں کریں تو اسلامی معاشرہ ہونے کے ساتھ ایک آزاد معاشرہ بھی عمل میں آئے گا!!
nn

حصہ