(کش مجھے ایک موقع اور مل جائے(سید مہر الدین افضل

544

آیت نمبر 53,52 میں ارشاد ہوا:
’’ہم اِن لوگوں کے پاس ایک ایسی کتاب لے آئے ہیں جس کو ہم نے علم کی بنا پر مفصّل بنایا ہے اور جو ایمان لانے والوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے۔ اب کیا یہ لوگ اِس کے سوا کسی اور بات کے منتظر ہیں کہ وہ انجام سامنے آجائے جس کی یہ کتاب خبر دے رہی ہے؟ جس روز وہ انجام سامنے آگیا تو وہی لوگ جنہوں نے پہلے اسے نظرانداز کردیا تھا کہیں گے ’’واقعی ہمارے ربّ کے رسول حق لے کر آئے تھے، پھر کیا اب ہمیں کچھ سفارشی ملیں گے جو ہمارے حق میں سفارش کریں؟ یا ہمیں دوبارہ واپس ہی بھیج دیا جائے تاکہ جو کچھ ہم پہلے کرتے تھے اس کے بجائے اب دوسرے طریقے پر کام کرکے دکھائیں‘‘۔ انہوں نے اپنے آپ کو خسارے میں ڈال دیا اور وہ سارے جھوٹ جو انہوں نے تصنیف کر رکھے تھے آج ان سے گم ہوگئے۔‘‘
اللہ کی ہدایت اور رحمت:
قرآن مجید میں انسانوں کو پوری تفصیل کے ساتھ بتادیا گیا ہے کہ اِس کائنات کا خالق کون ہے۔۔۔ اِس دنیا کی حقیقت کیا ہے۔۔۔ اِس میں انسان کا مقام کیا ہے اور اِسے پیدا کرنے کا مقصد کیا ہے اور اِس کے لیے دنیا کی زندگی میں کون سا رویّہ درست ہے اور صحیح طرزِ زندگی کے بنیادی اصول کیا ہیں؟۔۔۔ اور یہ سب کچھ قیاس، گمان یا وہم کی بنیاد پر نہیں بلکہ علم کی بنیاد پر بتایا گیا ہے۔ قرآن مجید کے مضامین اور اس کی تعلیمات اتنی واضح ہیں کہ آدمی اگر ان پر غور کرے تو اس کے سامنے راہِ حق واضح ہوسکتی ہے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کتاب نے اپنے ایمان لانے والے انسانوں کی زندگی پر حیرت انگیز اثرات مرتب کیے جو صحابہ کرام کی زندگیوں میں ظاہر ہوئے اور آج بھی جو لوگ اس کا اثر قبول کرتے ہیں، ان کی ذہنیت، اخلاق اور سیرت میں بہترین تبدیلی شروع ہوجاتی ہے۔ اللہ کی ہدایت اور رحمت کے موجود ہوتے ہوئے، اور اِنسانی زندگی پر اِس کے مثبت اثرات کو دیکھنے کے باوجود جو شخص، یا انسانیت کا جو دور اِس سے سبق نہ لے اِس کا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ سزا پاکر ہی مانے گا۔ جو شخص ڈاکٹر کی ہدایت پر عمل نہیں کرتا، جب کہ کھلی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے کہ ڈاکٹر کی ہدایات پر عمل کرکے بہت سے مریض صحت مند ہوچکے ہیں، وہ موت کے منہ میں جاکر ہی مانے گا کہ جن طریقوں پر وہ زندگی گزار رہا تھا وہ اس کو ہلا ک کرنے والے تھے۔
مر کے گر چین نہ پایا تو کہاں جاؤ گے:
قرآن مجید میں کئی مقامات پر یہ منظر دکھایا گیا ہے کہ اہلِ جہنم دوبارہ اِس دنیا میں واپس آنے کی خواہش کریں گے، اور کہیں گے کہ۔۔۔ جس حقیقت کی ہمیں خبر دی گئی تھی اور اُس وقت ہم نے نہ مانا تھا، اب حقیقت دیکھ لینے کے بعد ہم جان گئے ہیں، اس لیے اگر ہمیں دنیا میں پھر بھیج دیا جائے تو ہمارا طرزِعمل وہ نہ ہوگا جو پہلے تھا۔ یہ درخواست اور اس کے جوابات ہم جمع کررہے ہیں اِس وضاحت کے ساتھ کہ قرآن مجید یہ منظر ہمیں اس لیے دکھاتا ہے کہ ہم آج ہی اپنی اصلاح کرلیں، ورنہ حقیقت واضح ہونے کے بعد موقع نہیں دیا جائے گا۔۔۔ اور اہل دعوت کے لیے بھی ابھی موقع ہے کہ وہ جن لوگوں میں جی رہے ہیں اُن تک دعوت پہنچانے کا کوئی طریقہ نہ چھوڑیں، اور کوئی موقع نہ جانے دیں۔ سورہ الانعام آیت نمبر 28,27 میں ارشاد ہوا:
’’کاش تم اُس وقت کی حالت دیکھ سکتے جب وہ دوزخ کے کنارے کھڑے کیے جائیں گے۔ اُس وقت وہ کہیں گے کہ کاش کوئی صورت ایسی ہو کہ ہم دنیا میں پھر واپس بھیجے جائیں اور اپنے ربّ کی نشانیوں کو نہ جھٹلائیں اور ایمان لانے والوں میں شامل ہوں۔ درحقیقت یہ بات وہ صرف اس وجہ سے کہیں گے کہ جس حقیقت پر انہوں نے پردہ ڈال رکھا تھا وہ اُس وقت بے نقاب ہوکر ان کے سامنے آچکی ہوگی، ورنہ اگر اِنہیں سابق زندگی کی طرف واپس بھیجا جائے تو پھر وہی سب کچھ کریں جس سے انہیں منع کیا گیا ہے، وہ تو ہیں ہی جھوٹے، اس لیے اپنی اس خواہش کے اظہار میں بھی جھوٹ ہی سے کام لیں گے۔‘‘
سورہ ابراہیم آیت نمبر 45 میں ارشاد ہوا:
’’اے محمدؐ، اُس دن سے تم اِنہیں ڈراؤ جب کہ عذاب انہیں آلے گے۔ اُس وقت یہ ظالم کہیں گے کہ ’’اے ہمارے ربّ، ہمیں تھوڑی سی مہلت اور دے دے، ہم تیری دعوت کو لبیک کہیں گے اور رسولوں کی پیروی کریں گے‘‘ (مگر انہیں صاف جواب دے دیا جائے گا) کہ کیا تم وہی لوگ نہیں ہو جو اِس سے پہلے قسمیں کھا کھا کر کہتے تھے کہ ہم پر تو کبھی زوال آنا ہی نہیں ہے؟ حالانکہ تم ان قوموں کی بستیوں میں رہ بس چکے تھے جنہوں نے اپنے اوپر آپ ظلم کیا تھا اور دیکھ چکے تھے کہ ہم نے ان سے کیا سلوک کیا اور ان کی مثالیں دے دے کر ہم تمہیں سمجھا بھی چکے تھے۔‘‘
سورہ السجدہ آیت نمبر 13,12 میں ارشاد ہوا:
’’کاش تم دیکھو وہ وقت، جب یہ مجرم سر جھکائے اپنے رب کے حضور کھڑے ہوں گے (اُس وقت یہ کہہ رہے ہوں گے) ’’اے ہمارے رب، ہم نے خوب دیکھ لیا اور سن لیا، اب ہمیں واپس بھیج دے تاکہ ہم نیک عمل کریں، ہمیں اب یقین آگیا ہے۔‘‘ (جواب میں ارشاد ہوگا)’’اگر ہم چاہتے تو پہلے ہی ہر نفس کو اس کی ہدایت دے دیتے، مگر میری وہ بات پوری ہوگئی جو میں نے کہی تھی کہ میں جہنم کو جِنوں اور انسانوں سب سے بھر دوں گا۔‘‘
سورہ فاطر آیت نمبر 37 میں ارشاد ہوا:
’’وہ وہاں چیخ چیخ کر کہیں گے کہ ’’اے ہمارے رب، ہمیں یہاں سے نکال لے تاکہ ہم نیک عمل کریں، ان اعمال سے مختلف جو پہلے کرتے رہے تھے‘‘۔ (انہیں جواب دیا جائے گا) کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہ دی تھی جس میں کوئی سبق لینا چاہتا تو سبق لے سکتا تھا؟ اور تمہارے پاس متنبہ کرنے والا بھی آ چکا تھا۔ اب مزا چکھو۔ ظالموں کا یہاں کوئی مددگار نہیں ہے۔‘‘ (اس سے مراد ہر وہ عمر ہے جس میں آدمی اس قابل ہوسکتا ہو کہ اگر وہ نیک و بد اور حق و باطل میں فرق کرنا چاہے تو کرسکے اور گمراہی چھوڑ کر ہدایت کی طرف رجوع کرنا چاہے تو کرسکے۔ اس عمر کو پہنچنے سے پہلے اگر کوئی شخص مرچکا ہو تو اس آیت کی رو سے اس پر کوئی مواخذہ نہ ہوگا۔ البتہ جو اس عمر کو پہنچ چکا ہو وہ اپنے عمل کے لیے لازماً جواب دہ قرار پائے گا، اور پھر اس عمر کے شروع ہوجانے کے بعد جتنی مدت بھی وہ زندہ رہے اور سنبھل کر راہِ راست پر آنے کے لیے جتنے مواقع بھی اسے ملتے چلے جائیں اتنی ہی اس کی ذمہ داری شدید تر ہوتی چلے جائے گی، یہاں تک کہ جو شخص بڑھاپے کو پہنچ کر بھی سیدھا نہ ہو اس کے لیے کسی عذر کی گنجائش باقی نہ رہے گی۔ یہی بات ہے جو ایک حدیث میں حضرت ابوہریرہؓ اور حضرت سہل بن سَعد ساعِدیؓ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل فرمائی ہے کہ جو شخص کم عمر پائے اس کے لیے تو عذر کا موقع ہے، مگر 60 سال اور اس سے اوپر عمر پانے والے کے لیے کوئی عذر نہیں ہے (بخاری، احمد، نَسائی، ابن جریر اور ابن ابی حاتم وغیرہ)۔ سورہ الزمر آیت نمبر 59,58,57,56 میں ارشاد ہوا:
’’یا کہے ’’کاش اللہ نے مجھے ہدایت بخشی ہوتی تو میں بھی متقیوں میں سے ہوتا۔‘‘ یا عذاب دیکھ کر کہے ’’کاش مجھے ایک موقع اور مل جائے اور میں بھی نیک عمل کرنے والوں میں شامل ہوجاؤں‘‘۔ (اور اس وقت اسے یہ جواب ملے کہ) ’’کیوں نہیں، میری آیات تیرے پاس آچکی تھیں، پھر تُو نے انہیں جھٹلایا اور تکبر کیا اور تُو کافروں میں سے تھا‘‘۔ آج جن لوگوں نے خدا پر جھوٹ باندھے ہیں قیامت کے روز تم دیکھو گے کہ ان کے منہ کالے ہوں گے۔ کیا جہنم میں متکبروں کے لیے کافی جگہ نہیں ہے؟ اس کے برعکس جن لوگوں نے یہاں تقویٰ کیا ہے ان کے اسبابِ کامیابی کی وجہ سے اللہ ان کو نجات دے گا، ان کو نہ کوئی گزند پہنچے گی اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔‘‘
سورہ المومن آیت نمبر 12,11 میں ارشاد ہوا:
’’وہ کہیں گے ’’اے ہمارے رب، تُو نے واقعی ہمیں دو دفعہ موت اور دو دفعہ زندگی دے دی، اب ہم اپنے قصوروں کا اعتراف کرتے ہیں، کیا اب یہاں سے نکلنے کی بھی کوئی سبیل ہے‘‘؟ (جواب ملے گا) یہ حالت جس میں تم مبتلا ہو، اس وجہ سے ہے کہ جب اکیلے اللہ کی طرف بلایا جاتا تھا تو تم ماننے سے انکار کردیتے تھے، اور جب اس کے ساتھ دوسروں کو ملایا جاتا تو تم مان لیتے تھے۔ اب فیصلہ اللہ بزرگ و برتر کے ہاتھ ہے۔‘‘
کمزور ارادہ، جھوٹا وعدہ:
یہ ہمارا عام تجربہ ہے کہ ناکارہ طالب علم نتیجے والے دن اپنے آپ سے بھی اور اپنے والدین اور اساتذہ سے بھی یہ وعدہ کرتا ہے کہ بس، اب میں روز پڑھوں گا اور اگلا امتحان اچھے نمبروں سے پاس کروں گا۔ لیکن وہ اِس وعدے پر عمل نہیں کرتا۔ اِسی طرح انسان پر اِس دنیا کی زندگی میں کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ اللہ سے رجوع کرتا ہے، لیکن مصیبت کے ٹلتے ہی اللہ کو بھول جاتا ہے۔ جب کوئی بیماری گھیر لیتی ہے تو عہد کرتا ہے کہ اَب نقصان دینے والی چیزوں کو چھوڑ دوں گا،، لیکن جب وہ بیماری دور ہوجاتی ہے تو پھر بد پرہیزی شروع کردیتا ہے۔۔۔ کیوں کہ وعدہ کرتے وقت ہی اس کا ارادہ نہیں تھا، یا بہت کمزور تھا۔
موت کے بعد دوسری زندگی کا انکار:
زندگی بعد موت کا انکار کرنے والے اس بات کو تو مانتے ہیں کہ ہم (1) بے جان تھے، ہیں (2) زندگی ملی اور ہم (3) مر بھی جائیں گے، کیونکہ یہ روز آنکھوں کے سامنے ہوتا ہے، مگر موت کے بعد (4) دوبارہ زندہ ہونے سے اِنکار کرتے ہیں کیونکہ ایسا یہ دیکھتے نہیں ہیں اور اس کی خبر صرف اَنبیاء علیہم السّلام نے دی ہے۔ قیامت کے روز جب عملاً یہ حالت بھی دیکھ لیں گے تب یہ لوگ اقرار کریں گے کہ واقعی وہی کچھ پیش آگیا جس کی ہمیں خبر دی گئی تھی۔ ہم مانتے ہیں کہ اِس دوسری زندگی کا اِنکار ہماری بڑی بھول تھی اسی لیے ہماری زندگی گناہوں سے بھر گئی۔ کیا اب اِس کا کوئی امکان ہے کہ ہمارے اعترافِ گناہ کو قبول کرکے۔۔۔ ہمیں عذاب کی اِس حالت سے نکال دیا جائے۔ ان کا یہ قول درحقیقت عقل و فکر کے کسی صحیح فیصلے اور کسی حقیقی تبدیلئ رائے کا نتیجہ نہ ہوگا بلکہ حقیقت کو بے نقاب دیکھ لینے کا نتیجہ ہوگا۔۔۔ جس کے بعد ظاہر ہے کہ کوئی کٹّر سے کٹّر کافر بھی انکار کی جرأت نہیں کرسکتا۔
انسان کا امتحان:
اللہ نے انسان کو تمام مخلوقات پر فضیلت دی۔۔۔ اسے سوچنے، سمجھنے اور درست فیصلہ کرنے کے لیے عقل دی۔ امتحان یہ ہے کہ حقیقت کو نگاہوں سے اوجھل اور حواس سے چھپا کر دیکھا جائے کہ اِنسان کائنات میں اور خود اپنے نفس میں اس کی علامات دیکھ کر اپنی عقل سے اس کو پہچانتا ہے یا نہیں؟ اپنے انبیاء اور اپنی کتابوں کے ذریعے سے اِس حقیقت کو پہچاننے میں انسان کی مدد کی۔۔۔ یہ دیکھنے کے لیے کہ یہ اِس سے کچھ فائدہ اٹھاتا ہے یا نہیں؟ اور حقیقت جان لینے اور ایمان لانے کے بعد اپنے نفس پر اتنا قابو پاتا ہے یا نہیں کہ خواہشات اور اغراض کی غلامی سے آزاد ہوکر اس حقیقت کو مان جائے اور اس کے مطابق اپنا طرزِعمل درست کرلے۔ اِس امتحان میں ناکام ہونے والے کو دوبارہ موقع دینے سے کچھ حاصل نہ ہوگا۔ کیونکہ دوسرا امتحان اگر اس طرح لیا جائے کہ (1) اسے وہ سب کچھ یاد رہے جو اس نے عالم آخرت میں دیکھ اور سن لیا تو یہ تو کوئی امتحان ہی نہ ہوا۔ (2) اور اگر پہلے کی طرح اس کے ذہن سے عالم آخرت کا ہر نقش مٹا دیا جائے۔۔۔ اور حقیقت کو نگاہوں سے چھپا کر اسے پھر دنیا میں پیدا کردیا جائے۔۔۔ اور نئے سرے سے اس کا امتحان اسی طرح لیا جائے جیسے پہلے لیا گیا تھا، تو نتیجہ پچھلے امتحان سے کچھ بھی مختلف نہ ہوگا۔ (3) اور اگر اللہ خود ہدایت اور ایمان دے دے تو دوسری مخلوقات اور انسان میں فرق ہی کیا رہا؟ اور پھر جنت کا انعام صرف انسان کے لیے کیوں؟
اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہم سب کو اپنے دین کا صحیح فہم بخشے اور اس فہم کے مطابق دین کے سارے تقاضے اور مطالبے پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔
وآخر دعوانا انالحمد و للہ رب العالمین
(ماخوذ ازسورۃ الاعراف حاشیہ نمبر:36:37:38:39 سورۃ الانعام حاشیہ نمبر: 19 سورۃ السجدۃ حاشیہ نمبر: 23 سورۃ فاطر حاشیہ نمبر: 63 سورۃ المومن حاشیہ نمبر: 15:16:17)

حصہ