(سیرت رسول ﷺاور حسن اعتدال(ڈاکٹر سیّد عزیز الرحمن

426

آپؐ نے خود کس حالت میں زندگی بسر کی؟ حضرت عائشہ رضی آعنہا کی گواہی ملاحظہ ہو۔ حضرت ابو دردا اور حضرت ابوہریرہ رضی آعنہما سے روایت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں حضرت عائشہ رضی آعنہا کی خدمت میں حاضر ہوا تو انھوں نے پیوند لگی ہوئی چادر اور ایک یمن کی بنی ہوئی لنگی پیش کی، اورخدا کی قسم کھا کر کہا کہ آ کے رسولؐ نے انھی دوکپڑوں میں اپنی جان، جانِ آفریں کے سپرد کی تھی۔ (بخاری، ج4، ص 21۔ ابن ماجہ، ج4، ص 487، رقم: 3550)
دوسری جانب آپؐ نے مال دار افراد کو تلقین کی: ’’اگر کوئی شخص خوش حال ہے تو کیا حرج ہے کہ اگر وہ کام کاج کے دو کپڑوں کے علاوہ جمعہ کے دن کے لیے بھی دو کپڑے رکھے‘‘۔ (ابوداؤد، ج4، رقم: 1078)
اسی طرح ایک شخص کو میلے کچلے لباس میں دیکھا تو فرمایا کہ اس سے اتنا نہیں ہوتاکہ کپڑے دھولیا کرے۔ (ابوداؤد، ج4، رقم :4062 )
ایک شخص آپؐ کی خدمت میں حاضرہوا۔ اس کے بدن پرپھٹا پرانا لباس تھا۔ آپؐ نے اس سے پوچھا کہ کیا تمھارے پاس مال ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں۔ آپؐ نے فرمایا : کس قسم کا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ آنے مجھے ہر قسم کے مال سے نواز رکھا ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’جب آ نے تجھے مال دے رکھا ہے تو آ کی نعمت اور سخاوت کااثر بھی ظاہر کر‘‘۔ (ابوداؤد، ج4، رقم:4063)
تاہم، اسلام نے خوش پوشاکی کی حد سے گزر کر اسراف کی حدود میں داخل ہوجانے والی آرایش کی سختی سے ممانعت کی ہے جو دراصل نمایش اور دکھلاوے کی خاطر کی جاتی ہے، کیوں کہ یہ راہِ اعتدال سے ہٹ کر ہے۔ آپؐ کا ارشاد ہے: ’’جس نے دنیا میں شہرت کا لباس زیب تن کیا اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن ذلت کا لباس پہنائے گا اور اس میں آگ بھڑکائے گا‘‘۔ (ابن ماجہ، رقم: 3607)
زیورات خواتین کی فطری خواہش ہے۔ آپؐ نے اس فطری تقاضے پرپابندی عائد نہیں کی، البتہ افراط سے وہاں بھی منع فرمایا۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کی بہن سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے عورتو! کیا زیور بنانے کے لیے تمھارے لیے چاندی کافی نہیں ہے؟ خبر دار! جو عورت بھی سونے کا زیور بنائے گی اور اس کے ذریعے زینت کا اظہار کرے گی اسے اسی زیور سے عذاب دیا جائے گا‘‘۔ (ابوداؤد، ج4، رقم: 4237)
یہ وعید ان عورتوں کے لیے ہے جو زیورات کی دیوانی ہوتی ہیں اور جور نگ و نور کے سیلاب میں کھو کر فرائض اورحقوق سے غافل ہوجاتی ہیں۔
مال دار حضرات کاسب سے زیادہ زور تعمیرات میں صرف ہوتا ہے، اور اس موقعے پرعموماً حد اعتدال کوبرقرار نہیں ر کھا جاتا۔ اس کا ایک مقصد نمایش کے علاوہ عیش کو شی اور آرام طلبی ہوتا ہے۔ آپ صلی آعلیہ وسلم نے اس پہلو کو بھی تشنہ نہیں چھوڑا۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کی جانب گو رنر بناکر روانہ فرمایا تو یہ نصیحت بھی کی: ’’عیش کوشی سے دور رہنا، کیونکہ اللہ کے بندے آرام طلب نہیں ہوتے‘‘۔ (احمد، ج5، ص 244)
یہی وجہ تھی کہ آپؐ نے سونے اورچاندی کے برتنوں میں کھانا پینا حرام فرمادیا اور مردوں کے لیے حریر وریشم کے استعمال کو ممنوع قرار دیا۔
اس پوری بحث کو ایک حدیث میں یوں مختصراً بیان کیا گیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’میری امت میں ایسے لوگ آئیں گے جو رنگ برنگ کے کھانے کھائیں گے، انواع و اقسام کے مشروبات استعمال کریں گے، اورطرح طرح کے لباس زیب تن کریں گے، اور منہ پھاڑ پھاڑ کر باتیں بنائیں گے۔ یہی لوگ میری امت کے بدترین افراد ہوں گے‘‘۔ (المعجم الکبیر، ج1، ص 107)
خود آپؐ نے عملی طور پر اسلامی حکومت کے قیام کے بعد مساوات کا وہ عظیم الشان نمونہ پیش فرمایا کہ تاریخ اس کی نظیر پیش کرنے سے آج بھی قاصر ہے۔ آپؐ کے اور صحابہ کرامؓ کے مابین لباس کے اعتبار سے بھی کوئی فرق نہ تھا۔ اسی طرح آپؐ کی نشست بھی ایسی عام اور کسی امتیاز کے بغیر ہوتی تھی کہ باہر سے آنے والے شخص کو آپؐ کے بارے میں پوچھنا پڑتاتھا۔ صحابہ کرامؓ نے آپؐ کے بیٹھنے کے لیے ایک چبوترا بنانا چاہا تو آپؐ نے اس کو بھی پسند نہ فرمایا۔ (سیّدعزیز الرحمٰن، ’تعلیمات نبویؐ اور آج کے زندہ مسائل‘، القلم، فرحان ٹیرس، کراچی، مئی 2005ء)
دین میں بے اعتدالی
اعتدال اور توازن کا حکم صرف کھانے پینے، کمانے اور معاشرتی امور تک محدد نہیں ہے۔ یہ حکم انسانی زندگی کے ہر ہر پہلو سے تعلق رکھتا ہے۔ چناں چہ دین کے معاملے میں بھی غلو سے بچنے کا حکم بہ راہ راست قرآن کریم میں دیا گیا، اور یہاں غلو سے مراد بھی حد سے بڑھنا ہے۔ دین کے معاملے میں غلو اور حدود سے تجاوز کرنا سخت ناپسندیدہ ہے۔ قرآن کریم میں فرمایا گیا: (النساء4:171) ’’تم اپنے دین کے معاملے میں غلو نہ کرو‘‘۔
اس غلو کا نتیجہ بھی شدت پسندی کی صورت میں نکلتا ہے، اور جو لوگ غلو سے دوچار ہوجاتے ہیں وہ پھر اعتدال سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اس لیے اس سے بھی منع فرمایا: ’’تم دین میں غلو سے بچو، کیوں کہ، پچھلی امتیں دین میں غلو کی وجہ سے ہلاک ہوگئیں‘‘۔ (ابوداؤد، ج4، رقم: 4904)
اسی طرح شدت پسندی بھی عدم توازن کی علامت ہے۔ اعتدال اور توازن پر کار بند شخص کسی حوالے سے شدت پسند نہیں ہوسکتا۔ قرآن و سنت کی پوری تعلیمات اور اسوۂ حسنہ کا پیغام اسی کے گرد گھومتا ہے۔ اسی بنا پر اسلام نے دین کے معاملے میں بھی اس سے بچنے کی تاکید کی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تم اپنے آپ پر سختی نہ کرو ورنہ تمھارے اوپر سختی کی جائے گی، کیوں کہ ایک قوم نے اپنے آپ پر سختی کی، پھر اللہ نے بھی ان پر سختی کی۔ ان ہی لوگوں کے باقیات ہیں جو گرجوں اور خانقاہوں میں نظر آتی ہیں۔ (ابوداؤد، ج4، رقم:4904)
یہ حقیقت ہے کہ حسنِ اعتدال اور توازن ہی حیات انسانی کا حسن ہے، اور اسی کے ذریعے ہماری دنیاوی زندگی کامیابی سے بسر ہوسکتی ہے، جس پر ہماری اخروی دائمی زندگی کا مدار اور انحصار ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے، اور اس پر عمل کی توفیق ارزانی فرمائے۔ آمین!
(جاری ہے)

حصہ