قاضی صیب (قسط-41)۔

339

اسلامک فرنٹ کی تشکیل اور ناکامی

اسلامک فرنٹ کی تشکیل اور پھرناکامی پر ان کو بہت تنقید سننا پڑی، اس موقع پر لگتا تھا کہ سب بکھر جائے گا۔ وہ خاموشی سے عمرے پر چلے گئے اور واپسی پر انھوں نے امارت سے استعفیٰ دے دیا۔ اس فیصلے سے ان کے ناقدین کے منہ بند ہو گئے اورکچھ عرصے کے بعد وہ دوبارہ امیر بھی منتخب ہو گئے۔مگر اب کے ان کے مزاج میں بہت ٹھہراؤ آچکا تھا۔ اس عرصے میں ان کی سیاست اور قیادت میں پاکستان، امت مسلمہ، اتحاد امت، علما کا اکرام اور یک جہتی، (ملی یک جہتی اسی کا دوسرا نام تھی) بے حد نمایاں خوبیوں کے ساتھ ان کی شخصیت کا حصہ بنیں۔ عالم عرب اور اسلامی دنیا میں ان کے تعلقات وسیع ہوئے۔ وہ جگہ جگہ محبت اور اعتبار کے اس مقام پر فائز کیے گئے جسے مصالحت اور ثالث جیسے ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔ سوڈان سے لے کر تیونس تک اور ترکی سے سعودی عرب تک حکمرانوں سے برادرانہ تعلقات استوارہوئے۔ ہر تحریک اور تنظیم کی نئی قیادت پہلے ان کے پاس آتی رہی۔ وہ حماس کے خالد مشعل ہوں یا سوڈان کے ڈاکٹر علی، منصورہ میں قیام اور ان کی رہنمائی کے لیے وہاں کی تحریکیں اپنے نوجوان قائدین کو بطور خاص پاکستان بھجواتیں۔
۲۰۱۳ء میں جماعت کے کارکنان اور قائدین محسوس کر رہے تھے کہ ہمیں اپنے نام اور نشان کے ساتھ الیکشن میں اترنا چاہیے۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں نے اسلامک فرنٹ کے تجربے کے بعد اپنے ہاں سیاسی جماعتیں الگ سے قائم کیں، اتحاد بنائے اور کامیابی حاصل کی۔ حتیٰ کہ جماعت اسلامی ہند نے بھی الگ سے سیاست کے لیے ویلفیئر پارٹی بنا لی ہے۔ جو کام قاضی صاحب نے برسوں پہلے کر لیا تھا جلد یا بدیر جماعت کو اسی راستے کی طرف لوٹنا ہے، جس میں اس کی اپنی فکر تو ہو، نام اور قیادت سیاسی اُفق پر الگ مگر نمایاں ہو۔
دل اور ظرف دونوں بڑے تھے
مشرف دور کے سابق وزیر اطلاعات محمد علی درانی سے بات ہوئی تو میں نے پوچھا
’’درانی بھائی! قاضی صاحب کے ساتھ آپ کا بہت وقت گزرا۔‘‘
ان کا جواب تھا ’’وہ ہمیشہ یاد آتے رہیں گے۔ اس قد وقامت اور سوچ کے لوگ ہمارے ہاں ہیں ہی کتنے؟ ۱۹۷۸ء میں جب میں پشاور میں انجینئرنگ کی تعلیم کے لیے گیا تو تب قاضی صاحب سے تعارف ہوا جو جلد ہی محبت کے تعلق میں بدل گیا۔ یہ تعلق سالوں پہ محیط ہے۔ پاسبان کا آئیڈیا لے کر ہم ان کے پاس گئے تو انھوں نے کسی تاخیر کے بغیر اسے پسند کیا اور کام کی اجازت دے دی۔ اسلامی تحریک کے نفوذ کے کسی بھی کام کو وہ بہت جلدی قبول کر لیتے تھے۔‘‘
درانی صاحب اسلامک فرنٹ کی ناکامی کے بعد جماعت اسلامی سے علیحدہ ہو کر فاروق لغاری، پھر مسلم لیگ ق اور بعد میں مشرف حکومت کا حصہ بنے۔ میں نے پوچھا: قاضی صاحب سے جماعت کے بعد تعلق کیسا رہا؟ ان کا عجیب والہانہ جواب تھا۔ ’’ان سے تعلق اور محبت میں کبھی فرق نہیں آیا۔ بیٹوں کی طرح سلوک رکھا۔ ان کا دل اور ظرف بہت بڑے تھے۔ وہ محبت دینے والے تھے، جاتے جاتے بھی جماعت کو ہر طبقہ فکر کے عام و خاص کی محبت تھما گئے۔‘‘
زرداری حکومت کے آخری مہینوں میں قاضی صاحب کا نام نگران وزیراعظم کے طور پر متواتر لیا جانے لگا تو انھوں نے معذرت کر لی۔ اس دوران میں انھوں نے مسلم لیگ ن کی قیادت کے ساتھ ہونے والی شکر رنجی بھی بھلا دی۔ جو آئی جے آئی سے علیحدگی کا باعث بنی تھی اور مسلم لیگ کے الزامات بھری سیاست کے باعث تعلقات میں آنے والی خلیج بہت بڑھ گئی تھی۔ان کے دور میں خود پیپلز پارٹی کے ساتھ نفرت اور دشمنی والے روایتی جذبات بہت کم ہوئے اور برابری کی بنیاد پر سیاسی مباحثے اور تعلق کی بنیاد پڑی۔
سیالکوٹ میں تعزیتی ریفرنس
قاضی صاحب جس شب فوت ہوئے، مجھے صبح سیالکوٹ میں ایک تربیت گاہ کے لیے جانا تھا۔ قدرت خدا کی کہ پشاور کے بجائے ان کی نمازِ جنازہ میں نے سیالکوٹ میں ادا کی۔ اس روز ملک کے طول و عرض میں، ہر بڑے شہر اور قصبے میں ہی نہیں، حرم پاک میں امام عبدالرحمن السدیس سے لے کر ترکی، مصر، سوڈان، انڈونیشیا، بوسنیا ہر جگہ انھیں لاکھوں لوگوں نے اپنی دعاؤں کے ساتھ رخصت کیا۔ سیالکوٹ کے تعزیتی پروگرام کا چونکہ میں خود حصہ تھا۔ حیرت سے مائیک پہ آنے والے مہمانوں کو دیکھ اور سن رہا تھا اور پیپلز پارٹی کے صدر، مسلم لیگ کے ایم پی اے، وزیر اعلیٰ پنجاب کے تب مشیر اور موجودہ وزیر میاں منشا بٹ، جمعیت اہل حدیث کے سربراہ، تاجروں کی انجمن، تحریک انصاف، زندگی کے ہر شعبے کے نمایاں لوگ اپنی اپنی محبت کا اظہار کر رہے تھے۔ قاضی صاحب زندہ تھے تو بھی سرخیوں اور محفلوں کی جان تھے۔ جماعت اسلامی کو صف اول کی سیاسی پارٹیوں میں لے آئے تھے۔ یہ وہی تھے جنھوں نے جمعیت العلماء اسلام کے ساتھ مل کر صوبہ سرحد (آج خیبر پختونخواہ) کی تاریخ میں پہلی مرتبہ حکومت بنائی۔
ڈاکٹر پرویز اقبال خلیل کی گواہی
پشاور سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر پرویز اقبال خلیل نے ایک شام کیا خوب بات کہی ’’پہلے الیکشن ہوتے تھے تو ہم دور دور سوات، دیر، مالاکنڈ جا کر اپنے جیتنے والے ساتھیوں کو مبارک باد دینے جاتے۔‘‘
یہ ایسا الیکشن تھا کہ جدھر سے خبر آتی، جیت کی خوشی ساتھ لاتی۔ میرا اپنا سات ہزار روپیہ مٹھائی کھلانے پر خرچ ہو گیا۔ یہاں تک کہ ہمارا اقلیتی ایم پی اے بھی جیت گیا۔ اس کا فون آیا تو بولا کہ ذرا تیار ہو کر آئیے گا۔ وہاں خوب رونق تھی اور ڈھول بجنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ میں چار پانچ جیپوں کو لے کر گیا۔ پھر ہماری خواتین بھی جیت گئیں۔ قاضی صاحب کی بصیرت اور قیادت نہ ہوتی تو کب یہ ہونا تھا؟ ڈاکٹر پرویز خود پشاور ضلع کونسل کے نائب ناظم بھی منتخب ہوئے۔ وہ قاضی صاحب کی شخصیت اور قیادت پہ بات کرتے ہیں تو وقت کا حساب بھول جاتے ہیں۔ ’’ہم ۶۰؍سال میں پہلی بار مولانا مودودیؒ کا نام اب اپنی تقریروں اور جلسوں میں لے سکتے ہیں۔ عوام ہم سے ہماری خدمت کی وجہ سے ہی نہیں قاضی صاحب کی قیادت کے باعث بھی محبت کرنے لگے ہیں۔ ہر سیاسی پارٹی کے رہنما یہ چاہتے ہیں کہ وہ ہمارے ساتھ ایڈجسٹمنٹ کریں، قاضی صاحب نہ ہوتے تو کب ہونا تھا؟‘‘جماعت نے بہت سال نفرت بھگتی، مخالفانہ پروپیگنڈہ جو مسجد و محراب سے ہوتا، اسے جھیلا۔عوامی سطح پر بہت مدافعانہ طرز عمل ہوتا تھا، وضاحتیں کر کر کے تھک جاتے تھے۔
بھرپور اننگز
صحافی اور دانشور جناب مجیب الرحمن شامی نے قاضی صاحب کے بارے اپنے جذبات و احساسات کا اظہار کرتے ہوئے خوب کہا کہ اللہ تعالیٰ نے جتنی توانائی انھیں بخشی، انھوں نے اللہ کی راہ میں استعمال کی۔ انھوں نے بھرپور اننگ کھیلی اور ایک مطمئن شخص کے طور پر دنیا سے رخصت ہوئے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ قاضی حسین احمد کی شخصیت اقبال کے اس شعر کی عملی تصویر تھی:
تو رہ نوردِ شوق ہے، منزل نہ کر قبول
لیلیٰ بھی ہم نشیں ہو، تو محمل نہ کر قبول
عمران خان سے معذرت
جہاں وہ وسیع الظرف اور وسیع النظر تھے وہاں عدل اور انصاف کے معاملے میں بھی ان کا ثانی نہیں تھا۔ پنجاب یونیورسٹی میں اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکنوں کے ہاتھوں عمران خان کے ساتھ بدتمیزی کا واقعہ پیش آیا تو اظہر اقبال حسن سے جو اسی روز پنجاب کے قائم مقام امیر بنے تھے، پوچھا کیا معاملہ ہے؟ انھوں نے بتایا: یہ یہ سنا ہے، فوراً کہا، برا ہوا، بہت برا ہوا۔ یہ زیادتی نہیں ہونی چاہیے تھی۔ آپ عمران خان کے گھر جائیں اور معذرت کر کے آئیں۔ اسے حوصلہ دیں، دلاسہ دیں۔ نتیجتاً امیر العظیم، حافظ سلمان بٹ اور اظہر اقبال حسن جو اب پنجاب جماعت کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ ہیں، حفیظ اللہ نیازی کے گھر پہنچے۔
دو گھنٹے وہاں رہے۔ وہاں کارکنان کا مزاج بے حد بگڑا ہوا تھا۔ قاضی صاحب نے خود بھی عمران خان سے بات کی، نہ صرف اسے حوصلہ دیا، معذرت کی اور تالیف قلب اور انصاف پسندی سے کام لیتے ہوئے اگلے روز ان کا مضمون روزنامہ جنگ میں شائع ہوا۔ اسلامی جمعیت طلبہ کے بعض لڑکے اپنی غلطی ماننے پر آمادہ نہیں تھے۔ مگر قاضی صاحب نے اس تحریر میں اپنے بچوں کو ڈانٹا، غلطی پر تنبیہ کی اور گرفت کی۔ یہ کسی اسلامی تحریک کے قائد کا ہی خاصہ ہو سکتا ہے۔ عام سیاسی جماعت کا قائد ایسی تحریر اور ایسا اقرار کرنے کا کبھی سوچ بھی نہ سکتا۔ کافی عرصے بعد اس ساری سازش کے سرغنے کا پتا چلا کہ جس نے اپنے طور پر یہ پلان بنایا اور جمعیت کے ماتھے پہ ایک بڑا داغ لگانے کا باعث بنا۔
نجم سیٹھی صاحب کی حیرت
نجم سیٹھی صاحب اپنے پس منظر ڈیلی ٹائمز کی ادارت اور ٹی وی پروگرام کی میزبانی سے زیادہ اپنی امریکا نوازی اور اسٹیبلشمنٹ سے اپنے تعلقات کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔ انھوں نے قاضی صاحب کی وسعت قلبی کا ایک عجیب واقعہ سنایا۔ یہ نواز شریف کا عہد تھا۔ ان پہ بہت سختی کے دن تھے۔ 1999ء میں سیف الرحمن نے جعلی کیس بنا کر گرفتاری کی راہ ہموار کی تھی۔ پولیس تک اٹھا کر لے جا چکی تھی مگر چھوٹ گئے تھے۔ فرائیڈے ٹائمز کے پریس پہ آئی بی والوں کا دباؤ اتنا شدید تھا کہ اس نے چھاپنے سے انکار کردیا۔ پورے لاہور میں سے کسی نے ہامی نہ بھری۔ اعجاز حیدر کے فون سے قاضی صاحب کو پتا چلا تو انھوں نے کہا آپ پریشان نہ ہوں ہم چھاپ دیتے ہیں۔ سیٹھی صاحب کی حیرت ابھی ختم نہ ہوئی تھی کہ قاضی صاحب کی ہدایت پر امیر العظیم صاحب نے رابطہ کر لیا اور راتوں رات پرچہ چھپوا کر پہنچا دیا۔ حکومت حیرت سے سوچتی ہی رہ گئی کہ کس نے چھاپنے کی جرأت کی ہے۔سیٹھی صاحب نے آن ایئر اپنے پروگرام میں کہا ’’وہ بہت عمدہ اور اعلیٰ شخصیت تھے۔ فراخ دل اور خوشگوار پلیزینٹ شخصیت، وہ بے حد نفیس آدمی تھے۔ ان کی وفات پر صدمہ ہوا، میرے اور ان کے درمیان نظریے کا سمندر حائل تھا مگر اس کے باوجود بہت پیار سے ملتے تھے۔ وہ مسکراتے بھی تھے۔ ناراض بھی ہوتے تھے، اکثر کہتے تھے تم بڑے خبیث ہو، ناراض بھی ہوتے تو آواز لاؤڈ (بلند) نہیں کرتے تھے۔ ہمیشہ بات سننے کے لیے تیار رہتے تھے۔ میں انھیں بڑا مس کروں گا۔ انھوں نے جماعت کو جمہوری بنایا اور اسے ہیومن فیس (Human face) دیا۔ میں انھیں بڑا مس کروں گا۔‘‘
فیض کی شاعری
قاضی صاحب کو اقبال کے کلام پہ جس قدر عبور تھا، اس کی تو ایک دنیا گواہ ہے۔ اواری میں منعقدہ ایک محفل میں انھوں نے فیض احمد فیض کی بیٹی کی دعوت پر شرکت کی تو بے نظیر بھی سامنے آ کر بیٹھ گئیں۔ وہاں قاضی صاحب نے مسلسل ۱۶؍اشعار ایسے پڑھے جو فیض نے انقلاب، تبدیلی اور عوام کے لیے لکھے تھے اور کہا ’’بے نظیر صاحبہ! چلیں، اقبال اور اسلام نہ سہی، فیض ہی سہی،اسی کی بات مان لیں۔ یہی نظام نافذ کردیں۔‘‘
اقبال اور فیض
وش اسلام آباد کے سربراہ پروفیسر طیب گلزار صحافیوں کے ساتھ سجی ایک محفل میں خود بھی شریک تھے۔ بتانے لگے کہ ایک صحافی نے کہا ’’آپ کو شاعری میں کون سب سے زیادہ پسند ہے۔‘‘جواب ملا: ’’اقبال اور فیض دونوں پسند ہیں۔‘‘’’فیض کے تو سارے خیالات ہی روسی نظام اور سوشلزم کے حق میں ہیں۔‘‘صحافی نے چڑانے کے انداز میں کہا ’’اب آپ کیا کہتے ہیں؟‘‘قاضی صاحب مسکرائے اور بولے
’’سچ تو وہی ہے جو میں نے کہا، کیا میں جھوٹ بولوں پھر۔۔۔‘‘
موجودہ امیر جماعت کا اکرام و احترام
وفات کے بعد تو قاضی حسین احمد کی سو خوبیوں پر لکھنے کہنے والوں کی نظر ہے۔ جماعت کے ہر حلقے سے ان کی تعریف اور توصیف ہو رہی ہے اور برملا کہا جا رہا ہے کہ اس دور میں جماعت کا ان سے بڑا کوئی محسن نہیں ہے کہ جس نے زندگی بھر نظم جماعت میں رہ کر کام کیا اور جاتے ہوئے بھی جماعت کی عزت اور پذیرائی کا باعث بنا۔ سیالکوٹ میں مسلم لیگ ن کے ایم پی اے عمران نے جو پروفیسر ڈاکٹر افضل اعزاز (سابق صوبائی وزیر) کے داماد ہیں یہ بتا کر حیران ہی کر دیا کہ ہمارے ہاں وہ آنے والے تھے کہ مقامی امیر جماعت نے منور حسن صاحب سے شکایت کر دی کہ مجھے علم ہے نہ اطلاع اور وہ سیالکوٹ آ رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا۔
منور صاحب نے قاضی صاحب کو یہ کہہ کر منع کر دیا کہ مقامی امیر کہیں تو جائیے، ورنہ نہ جائیے اور قاضی صاحب امیر جماعت کے کہنے کے بعد سیالکوٹ نہیں گئے۔ انھوں نے معذرت کر لی۔ ایک واقفِ حال نے بتایا کہ پشاور میں امیر جماعت کے دورے کے موقع پر ایک محدود محفل میں،جس میں منتخب شخصیات شامل تھیں، منورصاحب کے لیے قاضی صاحب ایسے مؤدب کھڑے تھے جیسے کارکن امیر کے لیے کھڑا ہوتا ہے۔ یاد رہے منور صاحب کو کراچی سے لاہور لانے اور اپنا قیم یا جنرل سیکرٹری بنانے والے قاضی صاحب ہی تھے۔
اپنے بیٹے اور بیٹی کو انھوں نے اوفات سے قبل دو بار کہا کہ جماعت اسلامی اگر انھیں دریاں بچھانے پر بھی لگائے تو خوشی سے کرنا اور تحریک سے جڑے رہنا۔
(جاری ہے)

حصہ