(کراچی کتب میلہ اور حریم ادب(عالیہ شمیم

354

میلہ کے نام سے عموماً رنگ برنگے پیراہن میں ملبوس خواتین، مختلف کھیلوں میں مگن بچے اور کھانے پینے کے بے شمار اسٹال اور ان میں دلچسپی لینے والے لوگوں کا ہجوم نظر آتا ہے۔۔۔مگر یہ کتب میلہ تھا، کراچی انٹرنیشنل بک فیئر کا بارہواں عالمی کتب میلہ، جس کے داخلی حصے میں کتابوں کے درجنوں اسٹال، ہر سو لفظوں کی روشنی، ہر طرف ادب کی چاشنی، اطراف میں لوگوں کا ازدحام۔۔۔ کیا بڑے، کیا بوڑھے اور کیا جوان، عمر و جنس کی تخصیص سے مبرا مرد و زن، کالج، یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات اور مونٹیسوری و اسکول کی معصوم بچیوں کی قطاریں، جوق در جوق لوگوں کی آمد و غیر معمولی رش ان کی کتاب دوستی کو ظاہر کررہا تھا۔ اس کتب میلے میں حریم ادب اصلاحی، ادبی انجمن خواتین پاکستان (جس کا قیام1950ء میں علمی و ادبی ذوق رکھنے والی خواتین کے لیے حلقہ بزم تعمیر ادب اسلامی خواتین کی صورت میں عمل میں آیا تھا) کا اسٹال لگایا گیا تھا۔
ایکسپو سینٹر میں ببن الاقوامی کتب میلے میں ہال نمبر 2، اسٹال نمبر 14، 15، صبح 9 سے رات 9 بجے تک پانچ دن تسلسل کے ساتھ جاری رہنے والا حریم ادب کا اسٹال اپنی غیر معمولی آرائش و سجاوٹ کی وجہ سے وزیٹر کی توجہ کا مرکز بنا رہا۔ آن لائن ریڈنگ، ای بک سیریز اور مسنون دعائیں، اسٹیکرز، سی ڈیز اپنی بہار دکھا رہی تھیں، خاص کر سائیڈ میں چلنے والی ملٹی اسکرین پر حریم ادب کے تعارف پر مبنی خوبصورت پریزنٹیشن پر اسٹال کے آگے سے گزرنے والے ہر فرد کی نگاہ ضرور ٹھیرتی تھی۔ ملٹی لائٹس کی روشنی میں چمکتی دمکتی کتب اپنی جانب متوجہ کررہی تھیں، اسٹال پر اطراف میں بے بی پنک غباروں اور آرائشی ستاروں نے بہت نرم و ملائم تاثر دے رکھا تھا۔ ایک جانب بڑی سی میز پر بنت الاسلام، عفت قریشی، شگفتہ بھٹی، اُم ایمان، قانتہ رابعہ، ثریا اسماء، صائمہ اسماء، و دیگر اراکین حریم ادب کی تصنیف شدہ کتابیں اپنی بہار دکھا رہی تھیں، اور بہت تیزی کے ساتھ خریداروں کی دلچسپی کا محور بنی رہیں، دوسری جانب چھوٹی میز پر حریم ادب کی مصنوعات کی چین، بیگ، فولڈر، بک مارک اور تعارفی ہینڈ بل رکھے ذمہ دارانِ حریم ادب سینکڑوں وزیٹرز کو خوش آمدید کہنے اور حریم ادب کے اغراض و مقاصد، و نظریۂ ادب کو بلیغ و فصیح انداز میں بتارہی تھیں کہ حریم کے پُرعزم قلمکاروں کے لشکر کے ذریعے معاشرے کی اصلاح و خیر کے پھیلاؤ کی کوشش کی جائے گی۔ نیز اس ضمن میں کی جانے والی سرگرمیوں کے انعقاد کی بھی اطلاع دے رہی تھیں۔سب سے زیادہ دلچسپی معصوم بچوں کو وائٹ بورڈ پر موجود جملے پر کہانی لکھنے، اور اظہارِ خیال کرنے پر تھی، اور لاتعداد طلبہ و طالبات کی چین و نوٹ بک انعام میں حاصل کرنے کے لیے سرگرم رہے۔
اسٹال کے پہلے دن صبح ہی سے اسکول و کالج کے نونہالانِ وطن کی بڑی تعداد میں آمد شروع ہوگئی تھی، اپنی اسکول ٹیچرز و میڈم کے ہمراہ ننھے بچوں کے پاس ایسا لگ رہا تھا کہ وقت کم ہے اور مقابلہ سخت۔ وہ کم وقت میں کتابوں کو ٹٹول کر اپنی پسند کی مطلوبہ کتب تلاش کرنے کے ساتھ ساتھ انعام جیتنے کی مختلف سرگرمیوں میں حصہ لینے کے لیے بے تاب تھے۔ بچوں میں کتب بینی کا شوق بدرجۂ اتم نظر آرہا تھا، اور کتاب دوستی کو ظاہر کررہا تھا۔ دوپہر تک خواتین اور پھر آخر تک فیملیز بھی گویا اپنی ذاتی لا ئبریری کی زینت و شان بڑھانے کے لیے ہر منتخب و تنوع والی کتابوں کا چناؤ کرنے میں منہمک رہیں اور اپنے ذوقِ مطالعہ کے لیے کتاب خریدنے میں کسر نہیں چھوڑی۔ ہمیں تو سر اٹھانے کی بھی فرصت نہ تھی سوائے اس دھن کے کہ ہر آنے والا خالی ہاتھ نہ جائے۔ معلوماتی سوالات پوچھنے کی بھی سرگرمی میں ہر عمر کے افراد نے حصہ لیا۔ مختلف ادارہ جات و رسائل کے مدیران، شاعرات، و مصنفات نے بھی حریم ادب کے اسٹال کا وزٹ کیا، موجود کتابوں میں سے انتخاب کرتے ہوئے کتابیں خریدیں اور اسٹال کی تزئین و آرائش و حریم ادب کے اغراض و مقاصد کو سراہتے ہوئے تاثرات تحریر کیے اور ممبر شپ فارم بھی بھرا۔
کتب میلہ کا دوسرا دن 16 دسمبر تھا اور صبح ہی سے اسٹال میں یوم سقوطِ ڈھاکا منایا جارہا تھا۔ ملٹی میڈیا پر مسلسل چلنے والے ترانے ’’یہ وطن ہم کو آدھا گوارا نہیں‘‘ نے ماحول کو سوگوار کررکھا تھا۔۔۔اور اسٹال پر اس روز دیگر کتابوں کے ساتھ سقوط ڈھاکا کے موضوع پر مبنی کتابیں رکھی گئی تھیں جن میں ’’میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا‘‘، ’’شکستِ آرزو‘‘، ’’پاکستان ناگزیر تھا‘‘، اور ’’سقوطِ ڈھاکا سے سقوطِ بغداد‘‘۔۔۔اور تحریک پاکستان سے متعلق کتب رکھی گئی تھیں، جن کو شائقین ادب نے بڑھ چڑھ کر خریدا۔
بچوں کے لیے اس دن کی مناسبت سے کوئز مقابلہ رکھا گیا تھا جس میں بچوں نے خوب بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اس سرگرمی کے ذریعے ملک کے اس المناک باب سے بچوں کو روشناس کروایا گیا، بھولا سبق یاد دلایا گیا اور اپنے وطن کی تاریخ کے انمٹ نقوش واضح کیے گئے۔
تیسرے دن ہفتہ تھا اور مانٹیسوری و نرسری کی ننھی کلیاں قطار باندھے کتاب سے اپنی محبت کا اظہار کررہی تھیں۔ اس روز ادارہ جات، ایڈیٹر حضرات اور مدرسہ کے منتظمین کی کثیر تعداد اپنی منتخب کتابوں کی خریداری میں مصروف تھی، نیز یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات کا رش بھی نظر آرہا تھا۔ مختلف یونیفارم میں ملبوس قطار در قطار اسکولوں کے بچے اپنی ٹیچرز کی پیروی میں بک اسٹالز کا دورہ کررہے تھے، اور سی ڈیز کے حصول میں بھی مصروف تھے۔
چوتھے روز اتوار تعطیل والے دن گویا شائقینِ ادب کی عید تھی، بے انتہا جم غفیر، لوگوں کا ازدحام تھا جو امڈ امڈ کر سی ڈیز، فکشن، ناولز و تاریخی موضوعات و دیگر اصناف پر کتابیں چھانٹنے و خریدنے میں مشغول تھا۔ اس روز اسٹال پر کتب ختم ہونے لگی تھیں اور مزید کتب لائی گئیں۔ چھوٹی سی ادبی دنیا میں لوگ مصروف تھے اور ہر ایک اپنی پسندیدہ کتاب حاصل کرنا چاہ رہا تھا۔ عمومی افراد و شائقینِ ادب کے علاوہ اسٹال کا معروف کالم نگاروں، قلمکاروں، تجزیہ نگاروں، صحافیوں، شاعرات و ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں نے وزٹ کیا، ممبر شپ فارم بھرے اور وزیٹرز بک میں اپنے تاثرات درج کیے۔ حریم ادب کے اسٹال میں متعارف کروائی جانے والی آن لائن بک سیریز میں بھی شائقینِ ادب کی دلچسپی نظر آتی رہی۔
پانچویں اور آخری روز حریم ادب کے سالانہ میگزین کی رونمائی تھی اور صبح ہی سے اسٹال کی سجاوٹ کی جارہی تھی، شائقینِ ادب کا رش اپنی جگہ برقرار تھا۔ تقریبِ رونمائی کے لیے مدعو کی گئی مہمانانِ گرامی کو خوش آمدید کہنے کے لیے تازہ پھولوں کے گجروں کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اسٹال کے اندر دو رویہ قطار در قطار کرسیاں لگاکر نشست کا اہتمام کیا گیا تھا، کرسیوں کے پیچھے درمیان میں تقریب رونمائی کے بیک بینر میں مہمانِ خصوصی ڈاکٹر عنبرین حسیب عنبر اور سرپرستِ اعلی دردانہ صدیقی کے نام افراد کی توجہ اپنی جانب مبذول کرا رہے تھے۔ دردانہ صدیقی کو ادب سے لگاؤ ہے۔ وہ ادیبوں کی قدر کرتی ہیں اور تخلیقی و علمی خزانوں میں اضافے کے لیے کوشاں ہیں۔ جبکہ ڈاکٹر عنبرین حسیب عنبر ماہنامہ ’’اسالیب‘‘ کی مدیرہ ہیں اور ادب کی دنیا میں ابھرتا ستارہ، عہدِ حاضر کی نمائندہ شاعرہ، نقاد اور محقق و ٹی وی کی معروف اینکر پرسن۔ کتنے ہی وزیٹرز محض ان کے نام کو دیکھتے ہوئے ملاقات کے لیے بے تاب نظر آئے۔ پروفیسر سحر حسن کی صاحبزادی عنبرین حسیب کی شاعری کا مجموعہ ’’دل کے افق کے پار‘‘ منظرعام پر اکر مقبولیت حاصل کرچکا ہے، اسے پروین شاکر ایوارڈ سے نوازا گیا۔ نیز ایک تنقیدی مجموعہ عصری ادب کے رجحانات اور اردو میں ترقی پسند تنقید کا تحقیقی مطالعہ بھی شائع ہوچکا ہے۔ انہوں نے پھولوں کی پتیوں میں چھپے مجلہ کا افتتاح سرپرستِ اعلی و ادب کی شائق دردانہ صدیقی کے ہمراہ کیا۔ اور اس یادگار و اچھوتی تقریب کے شرکاء سے اپنے خطاب میں کہا کہ ادب انسان کو عرفانِ ذات دیتا ہے اور اخلاق اسے اچھا انسان اور معاشرہ حسین بناتا ہے۔ ادب معاشرے کی ضرورت ہے۔ ایک زندہ ادیب صرف لکھتا نہیں بلکہ سیر بھی کرتا ہے۔کسی بھی معاشرے میں تخلیق ہونے والا ادب ایک طرف تو اس کی معاشرتی زندگی کا عکاس ہوتا ہے اور دوسری جانب معاشرے پر اثرانداز ہونے والے اہم ترین ذریعے کی حیثیت بھی رکھتا ہے۔ قلم کی ایک جنبش معاشرے کو سنوار سکتی ہے، جبکہ ذرا سی لغزش نسلوں کے بگاڑ کا سبب بن جاتی ہے۔ صاحبِ قلم کے لیے احسن طریقے سے اپنی ذمہ داری ادا کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اپنے لفظوں کی حرمت کا پاس کیجیے کہ یہ آپ کی شخصیت کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔
دردانہ صدیقی نے مہمانان کو حریم ادب کے سالانہ مجلہ کی اشاعت پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ ادب برائے زندگی، زندگی برا ئے بندگی، زندگی بے بندگی شرمندگی، اس پیغام کے فروغ کے لیے حریم ادب کی کوششیں گرانقدر ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ ادب کے حوالے سے ادیب بھی معاشرے پر اثرانداز ہونے کی اہلیت رکھتا ہے، جہاں یہ اس کے لیے اعزاز ہے وہیں ایک بھاری ذمہ داری بھی ہے جس سے عہدہ برا ہونے کے لیے قلم بڑا ہتھیار ہے۔ میری اپنی قلم کی شہسواروں سے گزارش ہے کہ اپنی تخلیق کے حسن سے خیر کو اجاگر کرکے روشن مستقبل کی ضمانت بنائیں۔
تقریب کے شرکا میں مقامی اخبارات کی نیوز رپورٹر غزالہ فصیح، غزالہ عزیز، شاعرہ عابدہ زارا صنم، مقالہ نگار تنویر عشرت، کالم نگار افشاں نوید، قلم کار عشرت زاہد، فرحی نعیم، کرن، رنگ ادب کے شاعر علی شاعر، ایڈووکیٹ ہائی کورٹ محمد رفیع احمد، محشر اخبار کے کالم نویس ابن نسیم، افسانہ نگار و مصنفہ طیبہ حیدر، سعدیہ عزیز آفندی، ناول نگار شگفتہ بھٹی، زرینہ مشتاق، بچوں کے کہانی نویس غیور احمد خان، لیومینیری لرننگ سرکل فاؤنڈیشن کی جوائنٹ سیکرٹری ثمرین خان، مقامی چینل کی سدرہ، کراچی یونیورسٹی کی کوآپریٹو ٹیچر ارم نیر اور شائقین ادب جن میں لائبریرین پاکستان نیوی کے فریدالدین، جنگ سنڈے میگزین کے طاہر حبیب، سابق میگزین ایڈیٹرغلام محی الدین، سلیم آزر کے علاوہ شرکاء کی کثیر تعداد موجود تھی، جبکہ ناول نگار زروہ احسن نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ بعد ازاں حریم ادب کی صدر عالیہ شمیم (راقم الحروف) نے معزز مہمانان کی آمد کا شکریہ ادا کرتے ہوئے مجلہ کی اشاعت میں اپنی تمام معاون بہنوں اور میڈیا سیل کی ٹیم کے جذبوں کو سراہا اور کہا کہ حریم ادب قلم کار خواتین کے لیے بہترین پلیٹ فارم ہے اور اس کا عزم قلم کاروں کا لشکر تیار کرنا ہے، اور اس کاوش میں آپ سب کا حصہ گراں قدر ہے۔ دعا کے ساتھ ہی تقریب اختتام کو پہنچی۔

حصہ