(حیاء اور حجاب(حمیرا خالد

331

حیا یا حجاب اس صفت کو کہتے ہیں جس کی وجہ سے انسان برائی اور گناہوں سے بچتا ہے۔ آپؐ نے فرمایا ’’الحیاء من الایمان‘‘۔ حیا تو وہ صفت ہے جو دماغ میں آنے والی سوچوں، دل میں پیدا ہونے والے خیالات اور پیٹ میں جانے والے لقمے تک رسائی رکھتی ہے۔
حجاب محض لباس کی کسی ظاہری شکل کا نام نہیں بلکہ نازیبا گفتگو، عریاں لباس، مخلوط مجالس بھی بے حجابی کے زمرے میں آتی ہیں۔ گویا آنکھیں حیا سے ہٹ کر دیکھنے نہ پائیں، زبان بے حیائی کی بات نہ کہے۔ عورت کا مطلب ہی چھپا کر رکھنے والی چیز ہے۔ عورت کا بے پردہ، بن سنور کر نکلنا شیطانیت کو دعوت دیتا ہے۔ حجاب اس کی ضرورت ہے۔ یہ بات قابلِ غور ہے کہ کوئی قوم اُس وقت تک زوال پذیر نہیں ہوتی جب تک کہ اس کی عورت کو بے پردہ (بے حیا) کرکے گھر سے نکالا نہیں جاتا۔ اسی لیے آج دشمنانِ اسلام کی پوری توجہ اس طرف ہے۔ سارے مسائل میں آج انہیں صرف عورت کا حجاب مسئلہ نظر آتا ہے۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ ’’عورت کی خوبی یہ ہے کہ نہ وہ غیر محرم کو دیکھے، نہ غیر محرم اسے دیکھیں۔‘‘
اگر آپ ماضئ قریب میں مسلمان ہونے والی نومسلم خواتین کے حالات پڑھیں تو دیکھیں مسلمان ہوتے ہی انہوں نے نقاب اوڑھنے میں ذرا تاخیر نہ کی۔
ہر دین کا ایک وصف ہوتا ہے، اور اسلام کا وصف ’’حیا‘‘ ہے (ابن ماجہ)۔ حیا کا جذبہ اللہ نے انسان کے اندر ودیعت کیا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جن معاشروں میں فحاشی اور عریانی پھیل چکی ہے وہاں اس جذبے کو بچپن سے ختم کیا جاتا ہے۔ برلن (جرمنی) کے اسکولوں میں نرسری کلاس سے بچوں کو سوئمنگ کے لیے انڈرویئر تک پہننے کی اجازت نہیں ہے۔
ایک ویب سائٹ پر والدین کی گفتگو کا موضوع تھا کہ ’’برہنگی ایک فطری عمل ہے، اس کی ترغیب کیسے ہو؟‘‘ اس پر مائیں بتا رہی تھیں کہ کیسے وہ اپنے بچوں کو چند گھنٹوں کے لیے ضرور برہنہ رکھتی ہیں۔
گویا انسان کی فطری حیا سے بے حیائی کے اس سفر کے لیے ابتدا سے ہی ماحول بنانا پڑتا ہے، اور جب حیا رخصت ہوجاتی ہے تو معاشرہ فحاشی اور عریانی کی راہ پر چل نکلتا ہے۔ عالمی مقابلۂ حُسن منظرعام پر آتے ہیں تو حُسن نمایاں کرنے کی فکر عام ہوتی ہے اور کوچہ و بازار مجسم بازار حسن بن جاتے ہیں۔ نتیجتاً جنسی خواہشات بے لگام، ناجائز تعلقات عام ہوتے ہیں۔ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں میں ذہنی و جسمانی امراض وجود میں آتے ہیں۔ لڑکیوں کی قدر و قیمت ان کے ظاہری خدوخال اور دل کش لباس سے کی جاتی ہے۔ مایوسی، مقابلہ اور شکست خوردگی ایسے ذہنی دباؤ میں مبتلا کرتی ہے کہ خودکشی تک کی نوبت آجاتی ہے۔
مخالفینِ پردہ کا کہنا ہے کہ شرم و حیا تو دل میں ہوتی ہے۔ آنکھوں کی پاکیزگی کے لیے حجاب کیا ضروری ہے؟
بے شک یہ درست ہے، لیکن جس طرح صحت و توانائی کے لیے غذا کھانا ضروری ہے، اور کھانے کے لیے منہ میں لقمہ ڈالنا لازم ہے اسی طرح حیا اور پاکیزگی پیدا کرنے کے لیے سر اور جسم کو ڈھانپنا ضروری ہے، تب ہی آنکھوں میں حیا اور دل میں پاکیزگی پیدا ہوگی۔ ظاہر کے اثرات باطن پر اثرانداز ہوتے ہیں۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ پردہ کی وجہ سے ہماری آدھی آبادی گھروں میں محصور ہوجائے گی جب کہ عورت کا کسبِ معاش کرنا وقت کا تقاضا ہے۔
تو معاملہ یہ ہے کہ آپریشن یا سرجری جیسے نازک کام کو جب سر اور منہ ڈھانپ کے کیا جاسکتا ہے تو معاش کے لیے حسب ضرورت باپردہ کیوں نہیں رکھا جاسکتا! مولانا مودودیؒ کہتے ہیں کہ تجزیے بتاتے ہیں کہ عورت نے گھر میں رہ کر جتنا فائدہ پہنچایا ہے، معاش میں حصہ لے کر معاشی اضافہ نہیں کیا۔ اسی لیے عورت کو اسلام نے معاشی حقوق کے لحاظ سے مستحکم کیا ہے اور اندرونِ خانہ رہنے کو پسند کیا ہے۔
اسلام بے پردگی اور بے حیائی کو جہالت قرار دیتا ہے خواہ عورت کتنی بھی پڑھی لکھی ہو اور معاشی میدان میں کتنے ہی اونچے منصب پر ہو۔ آج کے دور میں اسے اگرچہ ماڈرن اور جدیدیت کا نام دیا جارہا ہے لیکن اصطلاحات وہی حقیقی معنی رکھتی ہیں جو قرآن کے آئینے میں ہوں۔ وہاں حجاب سے مراد وہ پردہ ہے جو عورت کو محفوظ بنائے۔ عزت کے بلند مقام پر فائز کرکے ’’محصنات‘‘ کے لقب سے نوازے۔

حصہ