(جہیز ایک لعنت(رمشا اکبر

418

ہمارے معاشرے میں جہیز ایک لعنت کی شکل اختیار کرگیا ہے۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں شان و شوکت یا امارت کا اظہار، نمود و نمائش، شہرت اور تفاخر کا اظہار، اسراف کی حد تک اس کا اہتمام اور وراثت سے محروم کرنے کا جذبہ یا محض ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی رسم کے طور پر عدم استطاعت کے باوجود قرض لے کر اس کا اہتمام کرنا شامل ہیں۔
آج کے دور میں لوگوں کی حیثیت اور مرتبے کا اندازہ اس بات سے لگایا جاتا ہے کہ وہ اپنی بیٹی کو کتنا جہیز دے سکتے ہیں۔ شادی پر کتنا خرچ کرسکتے ہیں۔ لوگ خود بھی اپنی بیٹی کو جہیز دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ والدین کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنی بیٹی کو زیادہ سے زیادہ جہیز دیں تاکہ وہ اپنے سسرال میں پریشان نہ ہو اور اس کو وہاں طعنے نہ سننے پڑیں۔ سونے پر سہاگہ لڑکے والے بھی کوشش کرتے ہیں کہ ایسے خاندان میں شادی کی جائے جہاں ہمیں ہمارے مرتبے کے مطابق جہیز مل سکے۔
میری نظر میں اس لعنت کے فروغ کے ذمہ دار ہر وہ اپرمڈل کلاس اور امیر طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں جو اپنی بیٹیوں کو جہیز دے کر باقی تمام لوگوں کو پابند بنادیتے ہیں کہ اب وہ بھی اپنی بیٹیوں کو بھر بھر کر جہیز دیں۔ امیر لوگ تو اپنی بیٹیوں کو انتہا سے زیادہ جہیز دے دیتے ہیں جس کی وجہ سے غریب لوگ بھی اس مصیبت کا شکار ہوجاتے ہیں اور وہ اپنی ناک اونچی رکھنے کے لیے ایسے اقدامات کرکے جہیز دیتے ہیں جن کی وجہ سے بعد میں بہت سی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
کاش ہم مسلمان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر عمل کرکے جہیز کی اس روایت کو ختم کردیں تو لالچی لوگوں کے ہاتھوں یوں کسی کی بیٹی کی جان نہ جائے۔
کراچی میں عائشہ کو اُس کے سسرال والوں نے اسی جہیز کے لیے قتل کردیا۔ تقریباً ہر روز ہم ٹی وی اور اخبارات میں ایسے واقعات دیکھتے اور پڑھتے ہیں۔ میں پوچھتی ہوں آخر کب تک جہیز کے لیے لالچی لوگوں کے ہاتھوں بیٹیاں اپنے والدین کو بھکاری بناتی رہیں گی؟
آخر کب تک اس جہیز کی وجہ سے بیٹیوں کا سکھ، چین اور ان کی زندگی چھینی جاتی رہے گی؟
ہمارے معاشرے کے لیے ضروری ہوگیا ہے کہ لڑکی والے چاہے امیر ہوں یا غریب، اللہ کے واسطے جہیز نہ دیں۔۔۔ مگر ہمارے معاشرے کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ لڑکیاں خود اپنے والدین سے یہ خواہش رکھتی ہیں اور بعض اوقات انھیں مجبور بھی کردیتی ہیں کہ ان کے والدین ان کو گھر کا سارا سامان، پیسے، زیور اور پتا نہیں کیا کیا دیں۔ جہیز کے معاملے میں نہ ہی والدین کچھ سمجھنے کو تیار ہیں اور نہ ہی ایسی لڑکیاں۔۔۔ میں سمجھتی ہوں کہ لڑکی والوں کی یہ شرط ہونی چاہیے کے ایک ’’لعنت‘‘ کے ساتھ ہم لڑکے والوں کو اپنی بیٹی نہیں دیں گے۔ ہمیں اپنے بیٹوں کو اتنا خوددار اور اس قابل بنانا چاہیے کہ وہ خود گھر کا سامان خریدیں اور اپنی بیویوں کی تمام ذمہ داریاں پوری کریں۔ لڑکی کا شوہر گھر کے سامان کا انتظام کرے چاہے ایک بستر اور باورچی خانے کا کچھ سامان ہی خریدنے کی اس کی حیثیت ہو۔۔۔ اور ہم اپنی بیٹیوں کی تربیت اس انداز سے کریں کہ وہ ہر چیز پر صبرو شکر اور قناعت اختیار کریں اور اپنے شوہر سے اُس کی حیثیت سے بڑھ کر اور غیر ضروری چیزوں کی ڈیمانڈ نہ کریں۔ شاید پھر اس معاشرے اور بیٹیوں کے گھروں میں سکون ہوگا۔
اب ہم کچھ لڑکے والوں کی چالاکیوں کے بارے میں بھی بات کرتے ہیں۔ آج کل انہوں نے جہیز مانگنے کا نیا انداز اختیار کیا ہے۔۔۔ یعنی لڑکے والے کہتے ہیں کہ ’’ہمیں تو کچھ نہیں چاہیے، آپ جو کچھ بھی دیں گے اپنی بیٹی کو دیں گے‘‘۔ یا ’’ہمیں جہیز نہیں چاہیے، بس آپ تھوڑی سی لڑکے کو ذرا سیٹ ہونے میں مدد کردیں‘‘۔ مدد میں آپ انھیں جوتا مارلیں مگر جہیز نہ دیں۔ ہم نے ہی اپنی پھول جیسی بیٹیوں کو ان لالچی لوگوں کے سامنے بوجھ بنا کر پیش کردیا ہے کہ یہ لوگ اب اعلانیہ ہم سے کار اور بنگلے تک کی ڈیمانڈ کرنے لگے ہیں۔
میری یہی التماس ہے کہ جیسے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہؓ کا نکاح کیا تھا، اتنا آسان نکاح اور شادی ولیمہ کرلیں تو ہر بیٹی خوش رہے گی حضرت فاطمہؓ کی طرح۔
یہاں ایک بات باور کرنا بہت ضروری ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کسی بیٹی کو جہیز نہیں دیا تھا۔ حضرت فاطمہؓ کے علاوہ آپؐ کی اور بیٹیاں بھی تھیں۔ لوگوں نے یہ غلط فہمی پالی ہوئی ہے کہ آپؐ نے حضرت فاطمہؓ کو جہیز دیا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دراصل حضرت علیؓ کے ولی بھی تھے، حضرت علیؓ کی کفالت کرنے والے بھی ہمارے نبیؐ تھے۔ حضرت علیؓ کے پاس حضرت فاطمہؓ کو دینے کے لیے حق مہرکی رقم تک نہ تھی تو ان کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مشورہ دیا کہ جنگ میں حاصل ہونے والے نیزے کو فروخت کرکے حق مہر کی رقم حاصل کریں اور اس رقم سے ہی گھر کا کچھ ضروری سامان خریدا جائے گا۔ لہٰذا حضرت علیؓ بازار کی طرف گئے، راستے میں انھیں حضرت عثمانؓ ملے۔۔۔ حضرت علیؓ نے انھیں سارا معاملہ بتایا، لہٰذا حضرت عثمانؓ نے ان سے مہنگے دام میں وہ نیزہ خرید لیا۔ اس رقم سے حضرت علیؓ نے حضرت فاطمہؓ کو حق مہر ادا کیا اور اسی رقم سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ کے کفیل کی حیثیت سے گھر کا کچھ ضروری سامان خرید کر دیا۔ کیا ہمارے نبیؐ نے اس معاملے میں ہمیں تعلیم نہیں دی؟ کسی صحابیؓ یا ازواج مطہراتؓ کے جہیز کے بارے میں ہم نے کبھی پڑھا یا سنا ہے کبھی؟
بھرپور جہیز دینے میں وراثت سے محروم کرنے کا جذبہ بھی کارفرما ہوتا ہے، بالخصوص صاحبِِ حیثیت لوگ اس نیت سے لاکھوں روپے جہیز کی نذر کردیتے ہیں، پھر ان کے بیٹے اپنے صاحبِِ جائداد باپ کی وفات کے بعد اپنی بہنوں کو وراثت سے ان کا شرعی حق نہیں دیتے اور یہی کہتے اور سمجھتے ہیں کہ باپ نے جہیز کی صورت میں اپنی بیٹیوں کو جو دینا تھا دے دیا، اب یہ ساری جائداد صرف بیٹوں کی ہے۔ یہ رسم ہندوؤں کی تقلید ہے۔ خدارا اس ہندوانہ رواج سے چھٹکارا حاصل کریں۔
nn

حصہ