(تعلیم اور معاشرتی انقلاب کی راہ(ڈاکٹر انیس احمد

505

(دوسرا اور آخری حصہ)
تحریک اسلامی کی کام یابی کا راز اس منصوبہ بندی میں ہے، جو زمینی حقائق کے پیش نظر، مطلوبہ اہداف کا حصول ایک مقررہ وقت کی میعاد میں کر سکے۔ یہ تعلیمی حکمت عملی نابغہ (genius) افرادپیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، اس لیے اس کی اہمیت کے پیش نظر ترجیحات کی فہرست میں اسے سب سے اوّل ہونا چاہیے۔ ابلاغِ عامہ کو ہم نے اس بنا پر اس کے ساتھ وابستہ کر دیا ہے کہ تعلیمی مقاصد ابلاغ کی مناسب حکمت عملی کے بغیرحاصل نہیں ہوسکتے۔
اس مہم میں نہ کسی بڑی مالی امداد کی ضرورت ہے اور نہ نئے سرے سے پہیّا ایجاد کرنے کی حاجت ہے۔ صرف ترجیحات کی ترتیب پر غور اور موجودہ آزاد اداروں کی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے ان کی فکری تنظیم بندی، اہداف پر یکسوئی اور اساتذہ کی تربیتی حکمتِ کار، نصابی کتب اور نصاب پر نظر ثانی کرنا ہے۔ پھر ان تمام مصادر کو اس طرح استعمال کرنا ہے، جو تحریک کے نصب العین سے مطابقت رکھتے ہوں۔ تحریک کا نصب العین، در حقیقت پاکستان کا نصب العین ہے، اس لیے نصب العین کے اس اتحاد کی بنا پر تحریک کو اپنے کام کے لیے مکمل اخلاقی جواز حاصل ہے، شرط صرف یہ ہے کہ اس کام کو ذمّے داری سے کیا جائے، تاکہ یہ محض رسمیت (formality) کا شکار نہ ہو اور اپنی اصل روح کے ساتھ ملک گیر بنیادوں پر زیر عمل لایا جاسکے۔ ہر اس انسانی کوشش اور سعی کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ جو خلوصِ نیت سے اور کسی دنیاوی اجر ، تمغے اور اعزاز کے حصول کی طمع کے بغیر صرف اللہ کی رضا کے لیے کی جائے گی تووہ اس میں کام یابی دے گا۔ یہ ابدی اصول ہے، اس میں کسی قوم اور زمانے کی قید نہیں، تعلیمی حکمت عملی ہی کام یابی کا راستہ اور اسوۂ حسنہ کی پیروی ہے۔
قرآن کریم نے بے شمار مقامات پر اس بات کو دہرایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مقررکردہ انبیاے کرامؓ اپنی دعوتی سرگرمی میں دن رات تمام قوتوں کے ساتھ مصروف رہنے کے باوجود، لوگوں سے کسی اجر کی توقع نہیں رکھتے تھے۔ تحریک اسلامی سے وابستہ افراد کی دعوتی سرگرمی بھی اگر خلوصِ نیت کے ساتھ اللہ کی رضا کے لیے ہے، تو وہ خود اپنے فضل و کرم سے تحریک کے لیے مشکلات کو دور کرے گا، آسانیاں پیدا کرے گا، لیکن اگر نیت محض شہرت یا مادی ہدف ہو تو پھر ممکن ہے کہ دنیاوی ہدف تو حاصل ہوجائے، لیکن آخرت کا معاملہ مشکوک ہوجائے گا۔ دوسری جانب اگر تمام تر کوشیش، خلوصِ نیت سے رضاے الٰہی کے لیے ہیں، تو پھر چاہے فور ی نتائج حاصل نہ ہوں لیکن وہ جو پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کرنے کی قوت رکھتا ہے، اس کا فرمان ہے: ’’ دل شکستہ نہ ہو، غم نہ کرو، تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو‘‘۔(آل عمران139:3)
تحریکِ اسلامی سے وابستہ کسی قائد یا کارکن کے لیے ذہن میں اس تذبذب کا پیدا ہونا کہ اللہ کی مدد کب آئے گی، ہم کب تک یوں ہی جدو جہد کرتے رہیں گے، اسلامی تبدیلی اور انقلاب آکیوں نہیں جاتا؟ ایک عاجلانہ نفسیات کا پتا دیتا ہے۔ تحریکی نفسیات اُخروی زندگی کی کام یابی سے منسوب ہوتی ہے، جس میں یہاں کی ہر ناکامی اس کے جوش اور ولولے میں غیر محدود عزم و ارادے کا اضافہ کرتی ہے۔ تحریکی نقطۂ نظر کی اصل کام یابی رضاے الٰہی کا حصول ہے اور اِس دنیا میں کام یابی اس کی طرف سے اضافی انعام ہے۔
علوم کی تدوینِ جدید
تعلیمی حکمتِ عملی کا ایک اہم مقصد اور ہدف علوم کی تدوینِ جدید ہے۔ علوم چاہے معاشرتی علوم ہوں یااطلاقی (applied)، جب تک ان کے بنیادی تصورات کودرست نہ کیاجائے، وہ ذہن اور معاشرہ پیدا نہیں کرسکتے، جو صرف اللہ کو رب مانتا ہو اور اصلاحِ احوال پر منتج ہو۔ غورو فکر اس بات پر ہونا چاہیے کہ ہم نے اب تک کن علوم کو اسلامی بنیادوں پر نئے سرے سے مدون کیا ہے اور بقیہ علوم کی اسلامی تشکیل جدید کا بنیادی کام کتنے عرصہ میں کرلیا جائے گا؟ یہ وہی عمل ہے جس کے لیے قائد تحریک اسلامی نے خود بیش قیمت کام کیا، زندگی کے مختلف شعبوں کے لیے فکر اسلامی کی روشنی اور تشکیلِ نو کے خطوط کی نشان دہی کی اور فکر کو ایک نئے رُخ سے آشنا کیا۔ علومِ اسلامی کی تشکیلِ نو کے لیے واضح خطوطِ کار بھی متعین کیے، اس کام کو مختلف میدانوں میں کرکے دکھایا اور نئے چراغ روشن کیے۔ اس کے لیے ملک اور ملک سے باہر اداروں کے قیام کی فکر بھی کی، لیکن اس کام کو جاری رکھنے اور نئی رفعتوں سے روشناس کرانے کے لیے کیا کیا جارہا ہے ؟ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے اور جو کمی کوتاہی ہے، اس کی تلافی کی فکر ہم سب کو بلا تاخیر کرنا چاہیے۔
اس وقت وطنِ عزیز میں مروجہ تعلیمی نظام کی بنیاد، زندگی میں تقسیم کے اصول پر ہے۔ چناں چہ اس طرح جو ذہن پیدا ہوتا ہے، وہ انسانی زندگی کو دنیاوی اور روحانی خانوں میں تقسیم کرتا ہے۔ ایک کا تعلق اس کے ذاتی روحانی سکون سے ہے اور دوسرے کا تعلق مادی ترقی ، قوت اور دولت سے۔ اسلام اس تقسیم کو شرک سے تعبیر کرتا ہے اور تمام علوم کو وحیِ الٰہی کی روشنی میں مادّی اور تجرباتی معیار کی جگہ ابدی اخلاقی اصولوں کے ساتھ ہم آہنگ کرنا چاہتا ہے۔ معاشرے میں عدلِ اجتماعی کے قیام کے لیے تمام اطلاقی علوم (Applied Sciences) کی تدوینِ جدید کے ذریعے ایک ہمہ گیر فکری انقلاب کو ضروری قرار دیتا ہے۔ اسلام رنگ و نسل، جنس اور زبان کی قید سے بلند ہو کر معاشرے کے ہر فرد پر کم ازکم اتنی تعلیم کا حصول فرض قرار دیتا ہے، جس سے وہ شعوری طور پر ہرعمل کے اخلاقی یا غیر اخلاقی ہونے کا فیصلہ کرسکے اور حلال و حرام میں تمیز کے قابل ہو اور اسے طہارت اور نجاست کا فرق معلوم ہو۔ یہ طہارت محض جسمانی نہیں، فکری بھی ہے اور معاملات کی بھی۔

خدمتِ خلق کا وسیع تر معاشرتی تناظر
تعلیم کے ذریعے معاشرتی اصلاح اور انقلاب کے عمل میں قرآن کریم، اللہ کے بندوں کی معاشی، معاشرتی،سیاسی، ثقافتی ضروریات کو پورا کرنا بھی ایک فرض قرار دیتا ہے۔ جس طرح انسانوں پر اللہ کا حق ہے کہ رب العالمین کو وحدہ لاشریک مانتے ہوئے اپنا سر اطاعت اس کے سامنے جُھکا دیا جائے، اسی طرح اللہ کے بندوں کا حق یہ ہے کہ ہر ضرورت مند، مسکین، فقیر، غریب کی اس حد تک امداد ہو جائے کہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہوسکے۔ یہی زکوٰۃ کا فلسفہ ہے اور اسی بنا پر صدقات ہوں یا انفاق، ان کے بارے میں فرما دیا گیا کہ جو کچھ ایک فرد کی اپنی ضروریات سے زاید ہو، وہ اسے اللہ کی خوش نودی کے لیے ضرورت مندوں پر خرچ کردے، تاکہ اس مال کے بدلے اسے 70 گنا یا اس سے بھی زیادہ اجر آخرت میں مل جائے۔
اسلام خدمت خلق اور حقوق العباد کو ایک وسیع تر معاشرتی تناظر میں دیکھتا ہے، خصوصاً اسلامی تحریکات، بنیادی دعوتی مقصد کے حصول کے لیے اس پہلو کو اپنی سرگرمیوں میں خصوصی ترجیحی مقام دیں۔ اس حوالے سے سب سے پہلے صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے اللہ کے بندوں کو طبّی سہولتیں فراہم کرنے کی طرف توجہ کی جائے۔
یہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی ہے کہ ’’الخدمت‘‘ کے زیر انتظام شفا خانے اور طبّی مراکز ملک کے بعض حصوں میں خدمتِ خلق کے لیے موجود ہیں۔ یہاں پھر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان کو مریضوں کو فکری اور روحانی صحت کے لیے بھی استعمال کیا جا رہا ہے؟ ملک گیر منصوبہ بندی کے ذریعے ہر مریض کے احوال کا تجزیہ اور حاصل شدہ معلومات کی بنا پر اس تک دعوتی معلومات پہنچانے کے لیے کاوشوں کا میدان کھلا ہے؟ یہی شکل تعلیم گاہوں میں اختیار کی جانی چاہیے کہ والدین کے ساتھ کس درجے کا رابطہ رکھا گیا ہے؟ تعلیم اور خدمت خلق دراصل دعوت کے وسیلے ہیں۔ ان کا مقصد نہ صرف اللہ کے بندوں کی جسمانی صحت ہے بلکہ ان کی اخلاقی و روحانی ترقی اور فکری اصلاح بھی اس کا ایک اہم مقصد ہے۔
طبّی سہولتیں مختلف شکلوں میں فراہم کی جاسکتی ہیں۔ بہترین شکل تو مفت طبّی امداد کے مراکز کا قیام ہے۔ تاہم، کام کے آغاز کے لیے ایسے علاقوں میں، جہاں دور دور تک ہسپتال کا وجود نہیں ہے، مقامی افراد سے مشورہ کر کے باآسانی انتظام کیا جاسکتا ہے کہ کوئی صاحبِ خیر اپنے گھر کا کوئی ایک کمرا، جس کا دروازہ باہر کھلتا ہو ،اس میں طبّی معائنے کی میز رکھنے اور طبیب کے بیٹھنے کی جگہ نکل سکتی ہو، رضاکارانہ طور پر استعمال کر نے کی اجازت دے سکتا ہے۔ اس طرح بغیر کسی مالی بوجھ کے جگہ کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ ایسے ہی ایک دو مستند ڈاکٹروں سے رضاکارانہ طور پر ہفتہ میں ایک یا دو دن کا وقت مانگا جاسکتا ہے۔ علاقے کے میڈیکل اسٹورز سے بات کی جاسکتی ہے۔ ایسے افراد جو قیمتی ادویہ نہیں خرید سکتے،خصوصی رعایت کرکے اور بعض ادویہ اس طبّی مرکز کو عطیے کے طور پر بھی دینے کی تدبیر کریں۔ یہ سارا کام قیاسی نہیں ہے بلکہ ذاتی تجربے پر مبنی ہے۔ تعلیم کے میدان میں گھر، اسکول اور بیٹھک سکول کا تجربہ بھی اس سلسلے میں مشعلِ راہ بن سکتا ہے۔
طبّی امدا د کے لیے سوزوکی کیری میں ایک پورا سفری شفاخانہ بنایا جاسکتا ہے، جو مقررہ دنوں میں کم آمدنی والوں کی بستیوں میں جا کر دو یا تین گھنٹے صرف کرے اور خصوصاً بچوں میں امراض کے تدارک کے لیے عوام کو تعلیم و تربیت دے اور ساتھ ہی بچوں کے مفت معائنے کے بعد انہیں ادویہ بھی تجویز کرے۔ ایسے معاملات، جن میں علاج کے لیے اسپتا ل میں داخلہ ضروری ہو، انہیں کسی قریبی اسپتال تک پہنچایا جائے اور ادویہ کے حصول میں ان کی امداد کی جائے۔
ملکی یونی ورسٹیوں میں تعلیم پانے والے طلبہ وطالبات کو رضاکارانہ طور پر الگ الگ وفود کی شکل میں قریبی اسپتالوں کا دورہ کرایا جائے اور طلبہ مردوں کے وارڈ میں اورطالبات خواتین کے وارڈ میں جا کر ان کی عیادت کریں اور انہیں کوئی تحفہ دیں، چاہے وہ کوئی پھل یا ایک پھول ہی کیوں نہ ہو۔ اس معمولی عملِ خیر کے نتیجے میں طلبہ وطالبات کو زندگی کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملے گا۔ جب وہ اپنی جیب سے پھل خرید کر مریضوں میں تقسیم کریں گے توجذبۂ انفاق پیدا ہوگا اور باہمی اخوت کو تقویت ملے گی۔ اس پوری مشق کا مقصد طلبہ اور طالبات کو عملی دعوت سے روشناس کرانا اور خدمتِ خلق کے ذریعے متحرک کرنا ہے۔ تعلیم بالغاں بھی کرنے کا ایک اہم کام ہے، مناسب منصوبہ بندی کی جائے تو رضاکارانہ طور پر طلبہ کے ذریعے خصوصاً گرمیوں کی تعطیلات میں تعلیم بالغاں کے مراکز قائم کیے جاسکتے ہیں۔
ملک میں معاشی عدم استحکام نے ہر شخص کو کرب ناک معاشی دوڑمیں لگا دیا ہے۔ معاشی ضروریات کو تسلیم کرتے ہوئے تحریک ایسے اداروں کے قیام کی حوصلہ افزائی کرسکتی ہے، جو چھوٹے کاروباروں کے لیے غربت اور بے روزگاری میں کمی لاسکیں اور جو لوگ اس طرح ان کے رابطے میںآئیں، ان کی فکری تربیت کے ذریعے تحریک کی قوت میں اضافہ کر سکتے ہیں۔
اداروں کی تعمیرِ نو
ہمارے ابلاغِ عامہ کے اداروں نے گذشتہ 20برسوں میں جس طرح قوم کو بداخلاقی، بد اطواری اور بد معاملگی کی تعلیم دی ہے، اس سے قوم کو نجات دلانے کے لیے تعمیری اور مثبت کام کی ضرورت ہے، محض تنقید اور احتجاج سے کام نہیں چل سکتا۔ بغیر کسی مزید تاخیر کے دعوتِ دین کے حوالے سے یہ چیز اب واجب کا مقام رکھتی ہے کہ تحریک سے وابستہ افراد کم ازکم ایک میڈیا ہاؤس قائم کریں، جو تعلیمی، اصلاحی اور معاشرتی موضوعات پر ایسے پروگرام بنائے، جو فنّی طور پر اعلیٰ معیار کے ہوں اور تحریک کی دعوت کو پیش کرتے ہوں۔
جب تک ابلاغِ عامہ کے ہم خیال ادارے نہیں قائم ہوتے، کم ازکم جو روایتی ادارے موجود ہیں، انہیں شعوری طور پر توسیعِ دعوت ، تعمیر فکر و کردار کے لیے استعمال کیا جائے۔ اس غرض کے لیے خصوصی تربیتی پروگراموں کا ایک سلسلہ شروع کرنا ہوگا۔ اس کے لیے مساجد اور کمیونٹی کے مراکز (چوپال) استعمال ککیے جاسکتے ہیں کہ عوام میں مسائل کا شعور اور ان کے حل کے لیے آگاہی پیدا ہوسکے۔ مفت مشاورت فراہم کرنے والے مراکز ہرگاؤں اور شہر میں قائم کیے جائیں، جن میں مقررہ اوقات میں رضاکارلوگوں کے مسائل سُنیں اور انہیں قرآن و سنت کی روشنی میں حل کریں۔
موجودہ معاشرتی مسائل کچھ اس رُخ سے الجھتے جارہے ہیں کہ خاندان میں معمولی معمولی اختلاف کے نتیجے میں طلاق کو ایک کھیل بنالیا گیا ہے۔ قرآن و سنتِ رسولؐ کی روشنی میں جو چیز سخت ناپسندیدہ ہے، اسے ڈراموں، فلموں اور ٹی وی شوز میں مضحکہ خیز شکل دے کر لوگوں کو دین سے دُور کیا جا رہا ہے۔ نہ صرف طلاق بلکہ سگریٹ نوشی نے بھی صحت کے مسائل کھڑے کر دیے ہیں۔ اس نوعیت کے معاشرتی مسائل کا مقابلہ کرنے کے لیے عوام کی آ گاہی کے لیے وقتاً فوقتاً کسی ایک مسئلے پر ملک گیر مہم چلانے کی ضرورت ہے، جس میں علمی بحث بھی ہو اور جمہوری ذرائع سے عوام کی تعلیم بھی۔ جب تک ہم مقامی مسائل کو سمجھنے کے بعد مثبت حل پیش نہیں کریں گے، ہماری دعوت نامکمل رہے گی اور تحریک کی متوقع دعوتی کام یابی کی منزل قریب نہیںآسکے گی۔
مختلف شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ افراد کے لیے ایسی تنظیمیں قائم کرنی ہوں گی، جن میں ماہرین فن اپنی پیشہ وارانہ ضرورت کے طور پر ان اداروں سے وابستہ ہوں اور معاشرتی تعلیم و انقلاب کے عمل میں ہمارے ساتھ شامل ہوجائیں۔ اس حوالے سے پہلے سے قائم تنظیموں کا جائزہ اور ان کے کام کی رفتار، اہداف کا تعیّن اور حکمتِ عملی پر غور کرنا ہوگا کہ انہیں کس طرح مزید مؤثر بنایا جائے۔ مختلف پیشہ وارانہ تنظیموں کا مقصد بھی غیر سیاسی انداز میں تربیت اور اصلاحِ اخلاق ہو نا چاہیے تاکہ خلوص اور بے غرضی کا احساس ان اداروں سے وابستہ افراد میں راسخ کیا جاسکے۔ دعوت کے کام کے غیر سیاسی پہلو سے قطعاً یہ مراد نہیں کہ سیاسی کام دعوتی کام سے مختلف ہے۔
خواتین کی فکری تطہیر و تنظیم
تعلیمی اور معاشرتی انقلاب اور اصلاح کے کام کی کام یابی کے لیے ضروری ہے کہ خواتین کے مسائل کے صحیح شعور کے ساتھ، قرآن و سنت کی روشنی میں ایسے حل تجویز کیے جائیں، جو جدید تعلیم یافتہ خواتین کو مطمئن کرسکیں۔ بیرونی امداد پر چلنے والے بے شمار رفاہی اداروں نے حقوق نسواں کے نام پرخواتین میں اشتعال اور اسلام سے دُوری پیدا کرنے کو اپنا نصب العین بنالیا ہے۔ تحریک اسلامی کو ان موضوعات پر اپنا مؤقف اور زیادہ واضح انداز سے پیش کرنا ہوگا اور بلاکسی معذرت کے اسلامی تعلیمات کو جدید زبان میں اس طرح پیش کرنا ہوگا کہ عقلی دلائل اور تاریخی شواہد کی بنیاد پر اسلام کے صحیح خدوخال کا فہم عام کیا جاسکے۔ موجودہ صورتِ حال میں خواتین میں ملک گیر بنیادوں پر ایک واضح تبدیلی کا آغاز ہوچکا ہے۔ ایک جانب بہت سی وہ خواتین ہیں، جو کل تک اسلام کے بارے میں مخصوص پروپیگنڈے کے زیر اثر ہچکچاہٹ کا شکار تھیں، اب اسلام سے قریب آئی ہیں۔ دوسری طرف این جی اوز کلچر نے بہت سی نوجوان خواتین کو اسلام سے دُور بھی کیا ہے۔ اس پہلو سے بھی مناسب حکمت عملی کے ساتھ خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔ خواتین کی فکری تطہیر اور تنظیم غیر معمولی اہمیت کی حامل ہیں۔

حصہ