(مصر کی صورت حال(ڈاکٹر محمد اقبال خلیل

387

ممبر بورڈ آف ڈائریکٹرز انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل اسٹڈیز پشاور
2011ء کی عرب بہارکا ایک مظہر مصر بھی رہا جہاں تیونس سے اٹھنے والی عوامی بیداری کی تحریک نے خوب رنگ جمایا اور 1981ء سے اقتدار پر براجمان حسنی مبارک کی حکومت کا دھڑن تختہ ہوا، اور ملک میں پہلی مرتبہ آزادانہ انتخاب کے ذریعے ڈاکٹر مرسی کا صدر منتخب ہونا دنیائے عرب میں بہت بڑی تبدیلی تھی، کیونکہ10کروڑ کی آبادی کا ملک مصر اس خطے کا سیاسی وثقافتی مرکز اور سب سے اہم ملک ہے۔ مصر دنیا کا قدیم ترین ملک ہے جس کی تاریخ3000 سال قبل مسیح کے زمانے کی ہے۔ فراعنہ مصر اور اہرام مصر انسانی تاریخ کا ایک اہم باب ہے۔ قرآن نے حضرت موسیٰؑ اور حضرت یوسفؑ کے واقعات میں اس کو رقم کردیا ہے، اور اِس دور میں بھی ہر سیاحتی نقطہ نظر سے دنیا کا سب سے بڑا ٹورسٹ پوائنٹ ہے۔ عیسائی دنیا میں بھی مصر بہت اہمیت کا حامل ہے اور اس وقت بھی قبطی قوم مصر کی آبادی کا ایک اہم جزو ہے۔ اسلامی تاریخ میں مصر کو ایک اہم مقام حاصل ہے۔ خلیفہ دوم حضرت عمر فاروقؓ کے دور میں جب صحابئ رسول حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کی قیادت میں اسلامی لشکر نے مصر کو فتح کیا تو یہ اسلامی تاریخ کی فتوحات میں ایران اور روم کی فتوحات کے بعد ایک شاندار فتح تھی۔ اس کے بعد سے مصر اسلامی خلافت کا ایک اہم حصہ رہا۔ حضرت امام شافعیؒ کا تعلق بھی سرزمین مصر سے تھا۔ 525ء سے مصر خلافتِ عثمانیہ کا حصہ بن گیا اور پہلی جنگِ عظیم تک اس کی یہ حیثیت برقرار رہی۔ اس کے بعد سے یہ سلطنتِ برطانیہ کے زیر اثر چلا گیا۔ مصر کو نیم آزادی ملی اور یہاں بادشاہت کا نظام بحال رہا۔ اسی دور میں عالم اسلام میں احیائے اسلام کی عظیم الشان تحریک’’اخوان المسلمون‘‘کا آغاز ہوا، لیکن 1948ء میں ایک سازش کے تحت اخوان کے موسس رہنما اور امتِ مسلمہ کے بطلِ جلیل امام حسن البناء ؒ کو شہید کردیا گیا جو فلسطین کی آزادی میں مفتی اعظم فلسطین امین الحسینی ؒ کی کوششوں سے ہونے والی مساعی میں ایک اہم کردار تھے۔
1952ء میں ایک فوجی بغاوت کے نتیجے میں شاہ فاروق کا تختہ الٹ دیا گیا اور جنرل نجیب اور کرنل جمال عبدالناصر کی قیادت میں فوج کے افسروں کے ایک گروپ نے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ جنرل نجیب کی معزولی کے بعد جمال عبدالناصر مصر کے صدر بن گئے۔ وہ کچھ عرصے میں بلادِ عرب کی ایک مقبول ترین شخصیت بن گئے۔ انہوں نے دنیا کی سب سے بڑی نہر سویز پر مصر کا کنٹرول قائم کیا اور اس اہم ترین آبی گزرگاہ پر عالمی طاقتوں سے ٹکر لی، لیکن 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ مصر کی تاریخ کا ایک افسوسناک باب ہے جس میں چھوٹی سی ریاست اسرائیل نے اپنے سے کئی گنا بڑے عرب ممالک کی کثیر افواج کو شکست دی، جن میں مصر سرفہرست ہے۔ امریکا، برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک کی پشت پناہی سے بننے والے ملک اسرائیل نے مصری برّی اور فضائی افواج کو بدترین شکست سے دوچار کیا، جس سے دلبرداشتہ ہوکر جمال عبدالناصر اس دنیا سے رخصت ہوگئے اور ان کی جگہ انورالسادات نے عنانِ اقتدار سنبھالی، جنہوں نے جمال عبدالناصر سے بالکل مختلف پالیسیاں اختیار کیں۔ کمیونسٹ بلاک اور روسی دوستی سے آزادی حاصل کی اور نسبتاً آزادانہ خارجہ پالیسی اختیار کرنے کے ساتھ انہوں نے اسرائیل سے بدلہ لینے کے لیے اس پر 1973ء میں ایک جوابی حملہ بھی کیا۔
اگرچہ اس فوجی کارروائی کے ذریعے وہ اپنے مقاصد میں تو کامیاب نہ ہوسکے اور مصر اسرائیل سے اپنے قبضہ شدہ علاقے واپس لینے میں ناکام رہا لیکن بہرحال مصر کی فوجی قوت کا اظہار ضرور ہوا۔ اس کے بعد انورالسادات نے بالکل مختلف ٹریک اختیار کرتے ہوئے امن کی پالیسی اختیار کی اور امریکی لابی میں شامل ہوکر اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا، جس کے نتیجے میں 1979ء میں مشہور زمانہ’’کیمپ ڈیوڈ‘‘ سمجھوتا طے پایا، جس کے بعد مصر نے اسرائیل کو تسلیم کرلیا اور بدلے میں صحرائے سینا اور غزہ کی پٹی اس کو واپس مل گئی۔
مصری حکومت کو اس فیصلے پر دیگر عرب ممالک کی جانب سے سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور اس کو عرب لیگ کی تنظیم سے نکال دیا گیا۔ خود مصر میں بھی اس کے خلاف شدید ردعمل ہوا۔ 1981ء میں صدر انورالسادات کو ایک فوجی پریڈ کے معائنے کے دوران ایک فوجی نے گولی کا نشانہ بناکر اس دنیا سے رخصت کیا اور اُن کی جگہ اُن کے نائب اور دستِ راست حسنی مبارک کرسئ اقتدار پر قابض ہوگئے۔ حسنی مبارک گو کہ ہر پانچ سال بعد ایک نام نہاد قومی انتخابات میں 100فیصد ووٹ حاصل کرکے کرسئ صدارت پر بیٹھتے رہے لیکن وہ کبھی بھی مصر کے مقبول رہنما نہ رہے۔ ان کا دورِ حکومت بدعنوانی، ذاتی اور خاندانی مفادات، قومی مفادات پر سودے بازی اور ملک میں اپوزیشن کو دبانے اور جمہوری اداروں کو فروغ نہ دینے سے عبارت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب عرب بہار کی عوامی تحریک نے مصر میں زور پکڑا تو حسنی مبارک اس کا مقابلہ نہ کرسکے اور ان کو کرسئ اقتدار چھوڑ کر عدالتوں کے کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑا۔ قاہرہ کا تحریر اسکوائر اس عظیم عوامی جدوجہد کا مرکز تھا اور اس کو استعارہ بناکر پوری دنیا نے علامت کے طور پر اختیار کیا۔ جب 2012ء میں ڈاکٹر مرسی نے صدارتی انتخابات جیتنے کے بعد عنان اقتدار سنبھالی تو ان کو شروع دن سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ چونکہ ملک میں ایک طویل عرصے تک ڈکٹیٹر شپ کا دور رہا تھا اس لیے لوگ جمہوری اقدار سے آشنا نہ تھے۔ عدلیہ، فوج، انتظامیہ غرض یہ کہ ہر شعبۂ حکومت میں سابق ڈکٹیٹر حسنی مبارک کے پروردہ عناصر موجود تھے جو قدم قدم پر ڈاکٹر مرسی کی حکومت اور ان کے اٹھائے گئے اقدامات اور اصلاحات کی مزاحمت کررہے تھے۔ اس صورت حال کا اخوان المسلمون کی قیادت کو ادراک تھا، اس لیے شروع میں ان کا خیال تھا کہ وہ پہلی جمہوری حکومت میں شامل نہیں ہوں گے اور صدارتی انتخابات میں اپنا امیدوار بھی کھڑا نہیں کریں گے۔ چنانچہ اخوان ہی کے ایک اہم رکن ڈاکٹر عبدالفتاح اسماعیل نے اخوان سے علیحدگی اختیار کرکے پہلے سے صدارتی امیدوار بننے کا اعلان کردیا تھا۔ وہ حسنی مبارک کے دور میں بھی اپوزیشن کے اہم رہنماؤں میں شامل تھے اور ان کو اپنے علاقے میں خاصی مقبولیت حاصل تھی۔ لیکن بعد میں اخوان نے بعض ساتھیوں کے اصرار پر اپنی حکمت عملی تبدیل کی اور صدارتی امیدوار کھڑا کردیا۔ خیرالشاطر ان کے صدارتی امیدوار تھے جن کو مصری عدلیہ نے حسنی مبارک دور میں سزا بھگتنے کے الزام میں مسترد کردیا جو ایک مضحکہ خیز فیصلہ تھا۔ پھر مجبوراً اخوان کو اپنا دوسرا امیدوار امریکی تعلیم یافتہ ڈاکٹر مرسی کو لانا پڑا جو ان کے اندرونی حلقوں سے تعلق نہیں رکھتے تھے۔ ڈاکٹر مرسی نے پہلے مرحلے میں مطلوبہ ووٹ حاصل نہیں کیے، لیکن وہ سرفہرست رہے۔ دوسرے مرحلے میں دو امیدواران سابقہ فوجی افسر شفیق اور ڈاکٹر مرسی کے درمیان مقابلہ ہوا جو انہوں نے جیت لیا۔ اس مرتبہ ان کو سلفیوں کی نور پارٹی کے علاوہ اخوان کے منحرف رہنما ڈاکٹر اسماعیل کی حمایت بھی حاصل رہی جنہوں نے پہلے مرحلے میں 10فیصد ووٹ حاصل کیے تھے اور چوتھے نمبر پر تھے۔
ڈاکٹر مرسی کا پہلا معرکہ عدلیہ ہی سے پیش آیا جو حسنی مبارک دور کے نامزد کردہ ججوں پر مشتمل تھی۔ انہوں نے پہلے مرحلے میں منتخب پارلیمنٹ کو ساقط کردیا جس میں اخوان کی اکثریت تھی۔ جب صدر مرسی نے ایک صدارتی فرمان کے ذریعے ایوان کو بحال کیا تو اس کے بعد بھی انہوں نے اس کے خلاف فیصلہ دیا۔
ڈاکٹر مرسی کی حکومت نے جب مستقل قومی آئین کی تیاری کا کام شروع کردیا جو کہ ملک کی اصل ضرورت تھی تو ہر طرف سے ان کے خلاف محاذ کھل گئے۔ لبر ل اور سیکولر طبقے نے منظم ہوکر ان کے خلاف مہم کا آغاز کردیا۔ انہوں نے تحریر اسکوائر میں پڑاؤ ڈال کر حکومت کے خلاف تحریک کا اعلان کیا۔ ڈاکٹر مرسی کو عوامی اکثریت کی حمایت حاصل تھی لیکن پھر بھی آئین کی تدوین و تیاری میں انہوں نے ملک کے تمام طبقات کو شامل کیا۔ قبطی عیسائیوں کے نمائندے بھی ان کی کابینہ میں شامل تھے۔ صدر مرسی مسلسل ایک متفقہ آئین و دستور کی تیاری کاکام کرتے رہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے انہوں نے ہر طرح کی قربانی دی اور اخوان کے بنیادی مقاصد کو ایک طرف رکھ کر ایک متفقہ دستور بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ ایک ریفرنڈم کے ذریعے ایک بار پھر مصری قوم نے اس دستور کو منظور کرلیا۔ لیکن اس کے باوجود مرسی کی حکومت کے خلاف ملکی اور غیر ملکی سطح پر سازشیں جاری رہیں۔
ڈاکٹر مرسی نے صدارت کی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد ملکی افواج کا سربراہ جنرل عبدالفتاح السیسی کو مقرر کیا تھا جو سینیارٹی کے لحاظ سے چوتھے نمبر پر تھے۔ اس طرح ان کو ڈاکٹر مرسی نے قابلیت اور اعتماد کی بنیاد پر مقرر کیا تھا۔ لیکن یہی فیصلہ ان کے لیے اور پوری مصری قوم کے لیے بہت مہلک ثابت ہوا۔
میں ڈاکٹر مرسی کے دور میں دسمبر2012ء میں مصر گیا تھا۔ ICRC کے زیراہتمام قاہرہ میں’’ طبی عملے کے خلاف جنگوں میں کارروائیاں اور ان کا تحفظ‘‘ کے موضوع پر ایک بین اقوامی سہ روزہ کانفرنس میں شرکت کے دوران ہماری مصری میڈیکل سنڈیکیٹ کے دوستوں سے ملاقات ہوگئی جو پاکستان میں سیلاب زدگان کی امدادی مہم میں الخدمت فاؤنڈیشن کے ساتھ کام کرتے رہے تھے۔ ان میں صدارتی امیدوار ڈاکٹرعبدالفتاح اسماعیل اور ان کے ساتھی ڈاکٹر زعفرانی بھی شامل تھے۔ اسی طرح ایک نوجوان ساتھی عبدالرحمن سے بھی رابطہ ہوگیا جو ریلیف کے کام میں پاکستان میں رہ چکے تھے۔ انہی کے ذریعے میں نے سرجن ڈاکٹر پروفیسر اقبال خان کے ساتھ غزہ کا ایک دن کا دورہ بھی کیا جو میری زندگی کا ایک یادگار سفر ہے۔ اسی دوران ہماری تفصیلی ملاقاتیں دو اہم اخوانی ڈاکٹر ساتھیوں سے بھی ہوئیں جو پاکستان آچکے تھے، ان میں سے ایک ڈاکٹر رکن پارلیمنٹ بھی تھے۔ ان سے اخوان کی پالیسی اور حکومت کے تجربے پر تفصیلی تبادلہ خیال رہا۔ اس دوران جب ہم نے ان سے پاکستان میں فوجی جرنیلوں کے اقتدار پر بار بار قبضے کے تجربے سے مصر میں اس کے آئندہ امکان پر بات کی تو وہ اس پر خاصے برہم ہوئے اور ناراضی کا اظہار کیا۔ میں نے حسب عادت موشگافیاں کرتے ہوئے ان کو کہا کہ آپ کے پاس زیاد سے زیادہ دو سال ہیں اور جیسے ہی آپ کی حکومت کے مستحکم ہونے کا وقت آئے گا آپ کی حکومت پر شب خون مارا جائے گا۔ ظاہر ہے اس بات پر وہ کیسے خوش ہوسکتے تھے!
دو مزید مشاہدات ان دنوں قاہرہ میں دیکھنے کو ملے، ایک تحریر اسکوائر پر اپوزیشن کا احتجاجی کیمپ اور دوسرا اسرائیل کی 10 منزلہ سفارتخانے کی سوختہ عمارت جو احتجاجی تحریک کے دوران جلائی گئی تھی اور اس کے بعد سے اسرائیل کا سفارتخانہ قاہرہ میں بند ہے اور اسرائیلی سفیر زیادہ وقت تل ابیب میں گزارتا ہے۔ اخوانی ساتھی کے اس جملے پر میں نے یہ اضافہ کیا۔۔۔’’اور شب و روز آپ کی حکومت کے خلاف سازش بنانے میں مصروف ہے۔‘‘
تحریر اسکوائر میں بیٹھنے والے اپوزیشن ارکان کے بارے میں اخوانی ساتھیوں کی رائے یہ تھی کہ ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے، یہ کرائے کے لوگ ہیں، ان کو روزانہ دیہاڑی ملتی ہے۔ میں ایک مرتبہ رات کو ہوٹل سے چپکے سے نکل کر ٹیکسی میں تحریر اسکوائر چلا گیا اور وہاں چہل پہل اور گہماگہمی نظر آئی۔ میڈیا کے کیمرے بھی موجود تھے۔ بالآخر جولائی 2013ء میں ڈاکٹر مرسی کے خلاف سازش کامیاب ہوگئی اور فوج نے ایک بار پھر اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ اِس بار فوج کو ملک کے لبرل، سیکولر اور آزاد خیال طبقات کی حمایت حاصل تھی۔ اسرائیل کی حمایت تو اس لیے واضح تھی کہ ڈاکٹر مرسی کی حکومت نے واضح طور پر فلسطینیوں اور حماس کے حق میں اقدامات کیے تھے اور رفح کراسنگ پر فلسطینیوں کو آزادانہ نقل و حمل کی اجازت دے کر ان کے خلاف اقتصادی پابندیاں ختم کردی تھیں۔ جب ہم وہاں سے غزہ جارہے تھے تو بتایا گیا کہ حسنی مبارک دور میں یہاں اسرائیلی اہلکار بیٹھے ہوتے تھے، اور ان کے کہنے پر مطلوبہ افراد کو ان کے حوالے کردیا جاتا تھا۔
ڈاکٹر مرسی مصر کے پہلے آزاد منتخب صدر تھے۔ انہوں نے ملکی قانون کے مطابق حکومت چلائی تھی۔ اخوان نے ملک میں پانچ مرتبہ مختلف قسم کے انتخابات جیتے تھے، ان کو ہر لحاظ سے عوامی مینڈیٹ حاصل تھا، اس کے باوجود جب ان کی حکومت کو ختم کیا گیا تو بین الاقوامی سطح پر اس فوجی اقدام کی اس طرح سے مذمت نہ کی گئی جس طرح ہونی چاہیے تھی۔ امریکا کے صدر بارک اوباما نے مذمتی بیان جاری کیا اور مصر کی فوجی امداد بند کرنے کا اعلان کیا جو بعد میں بحال کردی گئی۔ یورپی یونین نے جنرل السیسی کو صدر ماننے سے انکار کردیا اور ڈاکٹر مرسی ہی کو قانونی صدر قرار دیا، لیکن کسی عملی اقدام سے گریز کیا۔ اقوام متحدہ نے بھی کوئی صدائے احتجاج بلند نہ کی۔ پڑوسی ملک سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک نے کھل کر فوجی انقلاب کی حمایت کی، جنرل السیسی کی پیٹھ ٹھونکی اور ان کو بڑے پیمانے پر اقتصادی امداد فراہم کی۔
مصری فوج نے نہ صرف اقتدار قبضہ کیا بلکہ اس فوجی اقدام کے خلاف اٹھنے والی صدائے احتجاج کو سختی سے کچلا۔ الرابعہ میدان میں ہونے والی عوامی ریلی پر براہ راست فائرنگ کرکے ہزاروں مرد و زن اور بچوں کو گولیوں سے بھون ڈالا جو مصری تاریخ کا ایک خوفناک دن ہے۔ اخوان کی ہر سطح کی قیادت مردوں، عورتوں، جوانوں اور بچوں تک کو پابندِ سلاسل کردیا۔ پچاس ہزار سے زائد افراد کو قید کرکے ان کے خلاف بے بنیاد الزامات گھڑ کر ان کو سزائیں سنادی گئیں۔ ایک ہی دن میں ایک ہی مقدمے میں ایک ہی واقعہ کی بنیاد پر ایک ہی جج نے سینکڑوں افراد کو بیک وقت سزائے موت سنادی جو دنیا کی تاریخ کا ایک عجوبہ ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ لیکن مصر کے اخوانیوں نے بھی عزم و استقلال کی ایک نئی تاریخ رقم کردی۔ 1950ء اور 1960ء کی دہائیوں میں اُس وقت کی طاغوتی طاقتوں نے جبر و استبداد اور ابتلا و عقوبت کے جو مظاہرے کیے تھے اور ان کے مقابل اخوان کے جن رہنماؤں اور کارکنوں نے عزیمت و استقامت کا جو کردار پیش کیا تھا موجودہ دور کے اخوانی ساتھیوں نے بھی اس کا نشر مکرر پیش کردیا اور ثابت کردیا کہ نظریاتی کارکن ہر دور اور ہر زمانے کے فرعون سے ٹکر لینے اور اس کا ظلم برداشت کرنے کی قوت اور صلاحیت رکھتا ہے۔
(جاری ہے)

حصہ