خیال آفاقی کی گراں قدر تصنیف

403

پروفیسر خیال آفاق کی نہایت گراں قدرتصنیف و تالیف پر کلمہ ہائے تحسین کے سوا کچھ بھی لکھنا سوئے ادب ہے کیونکہ کتاب کا عنوان ہی ایسا ہے ’’رسول اعظمؐ۔‘‘ خیال آفاقی مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے اسلاف اور پیر طریقت کی خواہش کو بحسن و خوبی عملی جامہ پہنایا۔ اس حوالے سے آغازہی میں ’’اظہار واقعی‘‘ کے عنوان سے پروفیسر مقصود نے لکھا ہے کہ ’’دراصل کتاب کی تحریک اس طرح پیدا ہوئی کہ محترم خیال آفاقی کے والد بزرگوار قبلہ شیخ صوفی ’’علاؤ الدین‘‘ نقشبندی مجددیؒ کی دیرینہ خواہش تھی کہ آپ کا بیٹا جو صاحبِ طرز قلم کار‘ طرح دار شاعر‘ نقاد و دانشور بھی ہے‘ جو ڈھیروں ناول‘ ڈرامے اور افسانے تخلیق کرچکا ہے‘ کئی شعری مجموعوں کا خالق بھی ہے‘ اسے نبیؐ محترم کی حیات کے کسی پہلو پر بھی لکھنے کی سعادت حاصل کرنا چاہیے۔‘‘ اسے خود ستائش تو نہیں کہنا چاہیے کیونکہ یہ رائے کسی اور کی ہے‘ لیکن اس کی اشاعت میں جناب خیال آفاقی کی منشا بھی شامل ہوگی۔
پروفیسر مقصود صاحب کا اظہار واقعی اور دوسرے پروفیسر خیال آفاقی کا اس پر صاد چنانچہ دونوں ہی کو مشورہ ہے کہ علاؤالدین کا املا تو درست کرلیں۔ شاید ان پروفیسر حضرات کو ابھی تک یہ علم نہیں ہوا کہ علاء الدین بہاء الدین وغیرہ میں واؤ نہیں آتا۔ اتنے جید علما کو یہ تو معلوم ہی ہوگا کہ واؤ کا مطلب ہے ’’اور‘‘ اب غور فرمایئے کہ ’’علا‘‘ اور ’’الدین‘‘ کا مطلب کیا ہوا۔ کیا ہمارے محترم خیال آفاقی کے مرحوم والد قبلہ و کعبہ بھی اپنا نام غلط لکھتے رہے یا یہ خیال آفاقی کی خیال آرائی ہے۔
اتنی معتبر‘ موقر اور مفید کتاب پر تنقید تو کسی طرح بھی زیبا نہیں ہے لیکن املا اور زبان و بیان کی غلطیوں کی نشاندہی اس لیے ضروری ہے کہ کہیں پڑھنے والے ان کو سند نہ بنا لیں اور کوئی اصلاح کرنے لگے تو کہہ بیٹھیں کہ اتنے بڑے پروفیسروں نے ایسے ہی لکھا ہے‘ آپ کون اصلاح کرنے والے۔ اس کا تجربہ ہمیں ہوچکا ہے۔
کتاب کی تالیف کا دوسرا سبب ایک پیر طریقت سید محمد اصغر شاہ کی محبت و مودت اور تائید میں بن گیا جو بقول پروفیسر مقصود پرویز خیال آفاقی سے اپنی کئی کتابیں تالیف کروا چکے تھے۔ شاہ صاحب کی ہدایت تھی کہ بیان کو سادہ اور سہل رکھا جائے ایسا ہی ہوا ہے۔ لیکن کاش درست املا کی ہدایت بھی فرما دیتے۔ مثلاً چاہیئے پر ہمزہ کا کیا جواز ہے؟ لیے‘ دیے‘ کیے کو لئے‘ دئے‘ کئے لکھنے کی غلطی تو اتنی عام ہوگئی ہے کہ حضرت خیال آفاقی سے بھی جگہ جگہ سرزد ہوئی ہے۔ بھلا بتایئے تو ’’لئے‘‘ کا تلفظ کیسے کریں گے؟ پروفیسر صاحب کسی اردو لغت ہی میں ان کا املا دیکھ لیتے یا کسی اچھے ادیب کی تحریر ملاحظہ کرلیتے۔ ہم پھر وضاحت کر دیں کہ یہ تنقید نہیں ہے اور یقین ہے کہ اگلی اشاعت میں ان کی تصحیح ہوجائے گی۔
محترم خیال آفاقی نے آغاز ہی میں پیر مہر علی شاہ کی نعت کا مشہور شعر درج کیا ہے لیکن غلط۔ یہ شعر پوٹھوہاری زبان میں ہے اسے درج کرنے سے پہلے کسی سے پوچھ ہی لیا ہوتا۔ دوسرا مصرع یوں درج کیا ’’گستاخ انکھیاں کتھے جا اڑیاں۔‘‘ ’’لڑیاں‘‘ کی جگہ ’’اڑیاں‘‘ لکھ کر تمام حسن ختم کر دیاہے۔ مصرع میں انکھیاں نہیں ’’انکھیں‘‘ ہیں۔ صفحہ 7 پر ان کا اپنا ہی شعر ہے لیکن یہ مصرع ’’کہ جن کے درمیان محبوب رب العالمین ہوں گے‘‘ پروفیسر صاحب تو بہت اچھے شاعر ہیں۔ اس مصرع میں ’’درمیان‘‘ کا نون غنہ ہے۔ یہ کمپوزنگ کی غلطی ہوگی جس کی تصحیح ضروری تھی ورنہ تاثر خراب ہوگا۔ پہلے مصرع میں وہی عمومی غلطی ’’کیجئے۔‘‘ جناب یہاں بھی ہمزہ نہیں بلکہ اس کا املا کیجیے (کی جیے) ہے۔
’’رسول اعظمؐ‘‘ کے عنوان سے یہ تحریریں ایک ماہنامے میں قسط وار شائع ہوتی رہی ہیں اور یہ سلسلہ کئی سال چلا۔ اس کے بارے میں یہ دعویٰ غلط نہیں کہ ’’ایک ایسی تحریر جو قاری کو اپنے ساتھ لے کر چلتی ہے اور وہ ان واقعات کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے۔‘‘ سیرت النبیؐ کے واقعات کو کہانیوں کی شکل میں پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔ اسے تنقید نہیں مشورہ سمجھا جائے کہ بڑی تقطیع میں 1363 صفحات پر مشتمل اس کتاب کا سنبھالنا ہی مشکل ہے‘ خاص طور پر طلبہ و طالبات کے لیے اس سے گمان ہے کہ اتنی بہترین کتاب محض الماری کی زینت بن جائے گی۔ اچھا ہوتا اگر اسے کم از کم دو حصوں میں شائع کیا جاتا۔
کئی بار کی پروف ریڈنگ کے باوجود کمپوزنگ کی کچھ غلطیاں رہ گئی ہیں۔ ’’عقال کا رومال‘‘ (صفحہ 11) کی ترکیب مناسب نہیں ہے یا تو عقال لکھا ہوتا یا رومال۔ ویسے عقال رومال کی شکل میں نہیں ہوتا بلکہ اس کا دوہرا دائرہ سا ہوتا ہے جو رومال کو اُڑنے سے بچانے کے لیے سر پر رکھ لیا جاتا ہے اور آج بھی مستعمل ہے۔ اس رومال کو ’’غترہ‘‘ کہے ہیں۔ یہ بتانے کی ضرورت تو نہیں کہ عقال کا مادہ عقل ہے۔ اونٹوں پر سفر کرنے والے عرب جب اپنے اونٹ کو کہیں بٹھاتے تھے تو اس کے مڑے ہوئے گھٹنے پر رسی باندھ دیا کرتے تھے تاکہ وہ کہیں اِدھر اُدھر نہ بھاگے۔ چلتے ہوئے یہ دائرہ نما رسی اٹھا کر سر پر رکھ لیتے تھے تاکہ گم نہ ہو اور سر پر بندھا ہوا رومال بھی ہوا میں اُڑ جانے سے بچا رہے۔ برسبیل تذکرہ‘ عقل کا مطلب ہے اِدھر اُدھر بھٹکنے سے روکنا۔ اسی لیے اونٹ کو بھٹکنے سے روکنے والی رسی کو عقال کہتے ہیں۔
صفحہ 23 پر ہے ’’حرص و حوس۔‘‘ یہ حوس کیا ہے؟ احتیاطاً لغات بھی دیکھیں کہ شاید ہمیں ہی یہ لفظ معلوم نہ ہو لیکن کسی میں حوس نہیں ہے۔ غالباً ’’ہوس‘‘ ہوگا۔ ہم ایک بار پھر وضاحت کر دیں کہ اتنی ضخیم کتاب میں چھوٹی موٹی غلطیوں کا رہ جانا عجیب بات نہیں ہے اور امید ہے کہ اگلی اشاعت میں یہ عیب نکل جائے گا۔ ہمیں صرف یہ اندیشہ ہے کہ نئی نسل‘ جس کی اردو پہلے ہی قابل رحم ہے‘ ایک پروفیسر‘ ایک شاعر اور بہت کچھ کی غلطیوں کو سند نہ سمجھ لے۔ کئی کئی بار پروف ریڈنگ کا ادّعا کچھ صحیح نہیں لگتا۔ خیال آفاقی صاحب کو بخوبی علم ہوگا کہ تعقید لفظی شاعری میں ایک عیب ہے لیکن یہ عیب نثر میں بھی در آیاہے۔ اخبارات میں تو یہ عام ہے۔ جناب آفاقی کا یہ جملہ دیکھیے ’’اونچے اونچے کھجور کے درخت۔‘‘ اس میں بھی تعقید کا عیب ہے۔ ’’کھجور کے اونچے اونچے درخت‘‘ لکھنے میں کیا قباحت تھی۔
صفحہ 659 پر دو جملے ہیں ’’چہرہ اٹھا کر دیکھا‘‘ اور ’’اثبات میں چہرہ ہلایا‘‘ پروفیسر صاحب یہ کہاں کی اردو ہے؟ یہ چہرہ کیسے ہلاتے ہیں؟ جناب دونوں جگہ ’’سر‘‘ آنا چاہیے تھا۔ ’’سر اٹھا کر دیکھا‘‘ اور ’’سر ہلایا‘‘ کسی اور نے ایسا لکھا ہوتاتو کوئی بات نہیں تھی لیکن ایسا جید عالم‘ صاحب طرز قلم کار‘ طرح دار شاعر اور نقاد و دانشور ایسی غلطیاں کرے تو ہم جیسے لوگ کہاں جائیں گے جو ایسے استادوں ہی سے خوشہ چینی کرتے ہیں۔
عمرہ میں حلق کروانے والوں کے لیے جمع کا صیغہ ’’محلقین‘‘ آیا ہے۔ لیکن جنہوں نے بال کتروائے ان کے لیے ’’قصر‘‘ کرانے والے بھی لکھنا چاہیے تھا۔ حلق کرانے والے تو محلقین ہوگئے اور قصر کرانے والے؟ اس کے لیے بھی کوئی لفظ ہوگا۔
’’رسول اعظمؐ‘‘ کے نام سے خیال آفاقی کی یہ ضخیم کتاب نہ صرف بہت دل چسپ ہے بلکہ رسول اکرمؐ کے دور کے حوالے سے معلومات سے بھرپور ہے۔ ہم نے اس کتاب کو پوری دلچسپی سے پڑھا ہے امید ہے کہ خیال آفاقی ہماری جسارت کو نظر انداز کرکے اگلی اشاعت میں کسی پڑھے لکھے شخص سے پروف ریڈنگ کروائیں گے۔ کتاب کی قیمت ہر چند کہ 1,800 روپے ہے لیکن جس خوب صورتی سے اور عمدہ کاغذ پر شائع کی گئی ہے اس کے مقابلے میں یہ قیمت زیادہ نہیں ہے۔ کتاب کے پبلشر بیت السلام‘ کراچی والے ہیں۔ دعا ہے کہ خیال آفاقی کی یہ کاوش قبول ہو اور بہت سوں کی رہنمائی کا سبب بھی بنے۔ اندازِ بیاں میں جدت اور تنوع ہے۔

حصہ