(استاد محترم کو میرا سلام کہنا(حفصہ شریف

272

129ساتذہ کے ساتھ عموماً احترام ومحبت کا سلسلہ جڑا ہوتا ہے۔ بعض اساتذہ تو اپنے رویّے، علم اور برتاؤ کی بدولت اتنے قابلِ احترام اور محبوب ہوجاتے ہیں کہ ان کا اخلاص سے کہا ہوا ایک جملہ پوری زندگی پر محیط محسوس ہوتا ہے اور بڑی تبدیلیوں کا موجب بنتا ہے۔ میرے ساتھ کچھ ہوا یوں کہ میری کزن سعودی عرب سے ایک عطر لائی اور میں نے بہت شوق سے اس سے مانگا اور اس نے بھی فراخ دلی سے پیش کیا بلکہ بہت سارا لگا کر مجھے معطر کردیا۔ اگلے دن جب میں کلاس میں گئی تو ایسا لگ رہا تھا کہ ہر فرد میرے عطر سے معطر ہو، خود میرا بھی سر خوشبوؤں کے تیز ہونے کے باعث پھٹ رہا تھا، مگر اب کچھ بھی ہو نہیں سکتا تھا۔ خیر جیسے تیسے کرکے اسمبلی تو گزر گئی، مگر اب تفسیر کی کلاس ہونی تھی اور معلمہ بھی تھیں وہ، جنہیں خوشبو کا احساس جلد ہوجاتا تھا۔ میں بھی اصول کی خلاف ورزی پر خوفزدہ تھی، سوچا کہ بس آج بچ جاؤں، آئندہ کبھی نہیں لگاؤں گی۔ اور بس اللہ سے مدد اور دعاؤں کی بارش شروع ہوئی۔۔۔ یااللہ، بس آج بچ جاؤں، آج عزت رکھ لے، آئندہ کوئی شکایت نہیں ہوگی۔ ہماری پیاری سی معلمہ کلاس میں تشریف لائیں اور آتے ہی ذرا چونکیں، اور پھر وہی کہہ ڈالا جس کا ڈر تھا: یہ پرفیوم کس نے لگایا ہے؟
اُس وقت میرے نفس و ضمیر کے درمیان جنگ چھڑگئی۔ نفس کہتا تھا: خاموش بیٹھی رہو، کچھ نہیں ہوگا۔ اور ضمیر کہتا کہ غلط بات ہے، نہ ٹیچر کو ناراض کرنا ہے، نہ ان سے جھوٹ بولنا ہے۔۔۔ میں ابھی اسی کشمکش میں تھی کہ اللہ کو مجھ پر رحم آگیا اور مس نے اس بات کو نظرانداز کرکے پڑھانا شروع کردیا۔ کچھ دیر پڑھانے کے بعد اچانک انہوں نے کہا: ساری لڑکیاں کلاس سے باہر نکلیں اور ایک ایک کرکے اندر آئیں۔۔۔ یہ سنتے ہی میرے اوسان خطا ہوگئے اور دل میں یہ بات پیدا ہوئی کہ اب اگر میں پکڑی گئی تو مس کا رویّہ میرے ساتھ کیا ہوگا؟۔۔۔ ایک تو غلط کام کیا، اوپر سے اعتراف بھی نہیں کیا، اب تو رنگے ہاتھوں پکڑی جاؤں گی۔
اسی وقت زبان پر ’’حسبنا اللہ و نعم الوکیل‘‘ کا ورد جاری ہوگیا۔ بالآخر وہ مرحلہ آگیا جب صرف میں ہی رہ گئی تھی اور مجھے مس کے سامنے سے گزر کر جانا تھا (گویا کہ پلِ صراط سے گزرنا تھا) اور پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا، میں ابھی مس کی طرف آئی ہی تھی کہ مس نے مجھے پکڑ لیا اور میں نے شرمندگی اور خوف کے مارے آنکھیں بند کرلیں۔ مگر مس نے میری توقعات کے برعکس بس ایک پیارا جملہ کہا: ’’بیٹا! اتنی تیز خوشبو اور وہ بھی گھر سے باہر، لڑکیوں کے لیے قطعاً مناسب نہیں، یہ اچھی لڑکیوں کے کام نہیں‘‘۔ معلمہ نے بچیوں سے پوچھا کہ کون سی خوشبو جائز ہے؟ کچھ نے ہاتھ اٹھایا اور کچھ سر جھکائے بیٹھی رہیں۔ معلمہ گویا ہوئیں: حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مردوں کی خوشبو تو وہ ہے کہ جس کی بو معلوم ہو لیکن اس میں رنگ نہ ہو، اور خواتین کی خوشبو وہ ہے کہ جس کا رنگ ہو لیکن بو نہ ہو‘‘ (نسائی)۔ بچیو!کیا آپ کو معلوم ہے کہ خوشبو صرف خوشبو ہی نہیں بلکہ اس میں نفسیات کے ساتھ جذبات واحساسات بھی جڑے ہوتے ہیں، اور اسی تیز خوشبو کی بنا پر خواتین نامحرم حضرات کو اپنی طرف متوجہ کرنے کا باعث بن جاتی ہیں۔ پیاری بچیو! حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جو خاتون عطر (یا خوشبو) لگائے اور پھر وہ لوگوں کے پاس جائے اس لیے کہ وہ اس کی خوشبو سونگھیں، وہ زانیہ ہے (یعنی اس کی اس حرکت کا گناہ، گناہِ کبیرہ اور زنا کی طرح ہے)کیونکہ اس نے غیر مردوں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔‘‘ (نسائی)
معلمہ نے مزید ایک اور حدیث کا حوالہ دیا کہ آپؐ نے فرمایا ’’جو عورت خوشبو لگاکر باہر جائے تو وہ واپس آکر غسلِ جنابت نہ کرے تو وہ پاک نہیں۔‘‘
تو پیاری طالبات ہمیں اللہ اور اس کے رسولؐ کے طریقے کو اپناتے ہوئے اس پر چلنا چاہیے اور آئندہ جامعہ کی بچیاں اس معاملے کو مدِنظر رکھیں گی۔
کیونکہ ابھی آپ کی عمر اور وقت ایسا نہیں۔آپ کے مقاصد صرف اورصرف علم حاصل کرنا اور عمل کی راہوں کو تلاشنا ہے۔ وقت آنے پر اپنی حد میں خوشبوئیں ضرور استعمال کیجیے گا، یہ وقت تو اُس سے کہیں فائق تر مقاصد کے لیے متعین ہے۔
مس کے اس لیکچر نے مجھ پر وہ اثر کیا کہ وہ دن تھا اور آج کا دن ہے میں نے تیز خوشبوکو ہاتھ تک نہیں لگایا۔۔۔ اور اگر کسی کو لگاتا دیکھوں تو اسے بھی یہ پیغام پہنچانا ضروری سمجھتی ہوں۔
nn

حصہ