(آرٹیکل 62-63 اے (ابن حنیف

350

26 جنوری کے اخبار کی کتنی سادہ سی خبر ہے کہ ’’آرٹیکل 62۔63 میں ترمیم پر غور شروع کردیا گیا ہے۔ انتخابی اصلاحات کمیٹی نے ارکان کو اپنی سیاسی جماعتوں کی جانب سے تحریری سفارشات دینے کی ہدایت کردی ہے کہ ایسے ہی رہنا دیا جائے یا پرانی شکل میں بحال کیا جائے؟ یعنی اس میں ’’صادق‘‘ اور ’’امین‘‘ کی جن اصطلاحات کا اضافہ ضیاء الحق کے دور میں کیا گیا تھا، اُنہیں نکال دیا جائے یا نہیں؟
نام نہاد دانش ورانِ قوم کہہ رہے ہیں کہ صادق اور امین کی اصطلاح تاریخی طور پر صرف ایک ہی مقدس ترین ہستی سے منسوب رہی ہے اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہستئ مطہر ہے۔ چونکہ ساڑھے چودہ سو برس کی تاریخ صادق اور امین کا کوئی نمونہ پیش ہی نہیں کرسکی ہے لہٰذا ان فرمودات پر اعتذار کرنا چاہیے، اور یہ وقت ہے نئی قانونی اور سیاسی ثقافت مرتب کرنے کا۔
بات ہمیشہ سادہ ہی ہوتی ہے مثلاً یہ کہ اگر ملک پاکستان کو نہ اسلامی بنا سکے نہ جمہوری، تو آئین سے لفظ ’’اسلامی‘‘ ہی خارج کردیا جائے۔ جمہوریہ پاکستان ہوگا تو قوموں کی برادری میں سر اٹھانے کے قابل ہوجائیں گے۔ لفظ ’’اسلامی‘‘ سے تو ’’نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم۔۔۔‘‘ بات سادہ سی ہے کہ جمہوریت کا پودا بڑی مشکل سے نمو پا رہا ہے، کچھ لوگوں کا اقتدار کچھ دوسرے لوگوں کو ہضم نہیں ہوتا۔ حکومت کو کٹہرے میں کھڑا کرکے دراصل اقتصادی ترقی کی راہ میں روڑے اٹکائے جارہے ہیں۔ حکومت کے سر پر لٹکتی پاناما کیس کی تلوار اس کی کارکردگی کو متاثر کررہی ہے۔ وقت تھا کہ وہ اپنے جاری منصوبوں کو یکسوئی سے مکمل کرتی، مگر کیا کریں کہ عدلیہ ایسے سوال پے در پے پوچھ رہی ہے کہ ہتھیلیوں پر ہی نہیں ایڑیوں پر بھی پسینہ آرہا ہے۔ اس سے آنے والا کل متاثر ہورہا ہے۔ وقت تھا کہ موٹر ویز، اورنج ٹرین اور سی پیک کے منصوبوں سے قوم کی تقدیر بدلنے کا نظارہ کیا جاتا۔۔۔ مگر کیا کریں کہ لوگ اخلاقی انحطاط کی رٹ لگائے ہوئے ہیں۔ خوامخواہ ساری دنیا کے میڈیا کی نظریں پاکستان پر لگی ہوئی ہیں اور پاکستانی قوم کی حالت تو وینٹی لیٹر پر پڑے مریض جیسی ہے کہ آکسیجن ماسک اترتا ہے تو دیکھیں باقی کچھ بچتا بھی ہے کہ نہیں۔۔۔؟
عدالت کے جج نے یہ کہہ کر کہ ’’دفعہ 62۔63 کا اطلاق ہوا تو سراج الحق کے سوا کوئی نہیں بچ سکے گا‘‘ معاشرے کے اخلاقی انحطاط پر مہرِ تصدیق ثبت کردی ہے۔ اب اگلا مرحلہ یہی ہونا تھا کہ دفعہ 62۔63 پر بھی غور کرلیا جائے۔ جیسے کچھ دانش ورانِ قوم آج تک اس بات پر مُصر ہیں کہ قراردادِ مقاصد کو آئین کا حصہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ پاکستان کو اوّل دن سے آزاد فضا میں سانس لینا نصیب ہی نہیں ہوا۔ قائداعظم کی 11 اگست (1947) کی تقریر پر روشن خیال دانش ور اتنا کچھ لکھ چکے ہیں کہ انسائیکلو پیڈیا آف برٹانیکا جتنی کئی جلدیں تیار ہوسکتی ہیں کہ بقول ان کے، قائداعظم کے روشن خیال اور سیکولر پاکستان کے خواب کی تکمیل کی راہ میں کچھ مولوی شروع سے کمر کس کے میدان میں آگئے۔ اب قراردادِ مقاصد بھی کئی عشرے گزرنے کے بعد آج بھی ان کے حلق کی ہڈی بنی ہوئی ہے۔ دفعہ 62۔63 میں صادق اور امین کی اصطلاحوں کی بھی بھلا کوئی ضرورت تھی! آپ خوامخوا نہ صرف آئین ساز اداروں بلکہ قوم کے سامنے بھی آئینہ رکھ دیتے ہیں۔۔۔ اس لیے ان اصطلاحوں کو ہی خارج کردیا جائے، کہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔۔۔ کیونکہ ہفتوں جاری رہنے والی اس کارروائی اور دلائل کے دفتر کے دفتر تقاضا کرتے ہیں آرٹیکل (F)62 کے تحت وزیراعظم کی نااہلی کا۔ دفعہ 62 کو پڑھتے جائیں اور قوم کے ان حکمرانوں کو خراج تحسین پیش کرتے جائیں جن کے لاکھوں کروڑوں کے نہیں اربوں کے گھپلے اور فراڈ سامنے آتے ہیں۔ دفعہ 62 کہتی ہے کہ رکن اسمبلی عقل مند، ذی فہم، خوش اطوار، پرہیزگار، متقی اور قانون کا پابند و پاسدار ہو، نیز عیاشی، آوارگی اور بدچلنی و فضول خرچی سے دور ہو، صادق اور امین ہو۔
صادق اور امین تو بہت معتبر اصطلاحیں ہیں، عیاشی اور فضول خرچی سے تو ہر گھر میں بچوں کو منع کیا جاتا ہے۔ مگر 26 جنوری کے اخبار کی خبر ہے کہ پی ٹی آئی کے سیکرٹری جنرل جہانگیر ترین نے 2009ء سے 2013ء کے درمیان اہلِ خانہ اور دیگر اقارب سے ایک ارب 64 کروڑ 70 لاکھ روپے کے لین دین تحائف کی شکل میں کیے جس کا ذکر ان کی جائداد کے بارے میں جمع کرائے گئے گوشواروں میں کیا گیا ہے۔ انہوں نے 2009ء میں اپنے بیٹے فرزند علی کو 7 کروڑ 28 لاکھ روپے تحفے میں دیے۔ جواباً بچوں نے باپ کو 4 کروڑ 56 لاکھ روپے کا تحفہ دیا۔ ان کی اہلیہ نے بیٹے کو 70 لاکھ روپے کا تحفہ دیا۔ 2011ء میں انہوں نے 86 کروڑ 74 لاکھ روپے کسی نامعلوم کو تحفے میں دیے۔ ان کے بچوں نے 9 کروڑ 15 لاکھ روپے کے تحائف نامعلوم لوگوں کو دیے۔ ان کی اہلیہ نے بھی کچھ ’’مسکین و فقیر‘‘ نامعلوم لوگوں کو 5 کروڑ 40 لاکھ روپے بطور تحفہ دیے۔ ہر سال کے تحائف جو اہلِ خاندان نے باہم اور ’’نامعلوم‘‘ لوگوں کو فراخ دلی سے دیے وہ کروڑوں میں ہی ہیں۔ کون کہتا ہے کہ تھر میں بچے بھوک اور پیاس سے مر رہے ہیں، اور کس سروے نے بتایا کہ پاکستان اسٹریٹ چلڈرن کی تعداد کے حساب سے دنیا کا تیسرا ملک ہے! طیبہ جیسی معصوم بچیاں جو خدمت بھی کررہی ہیں اور جسم و جاں کے عذاب بھی جھیل رہی ہیں، یہ کسی اور ہی معاشرے کا عکس ہے۔ ہمارے معاشرے کی حقیقی تصویر تو ’’ترین فیملی‘‘ ہے جہاں اہلِ خانہ ایک دوسرے کو کروڑوں کے تحفے دے کر اعلیٰ ترین، عظیم ترین اور بہترین مثالیں قائم کررہے ہیں۔
ہماری اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے لوگ ہر فن مولا ہیں۔ صداقت، دیانت کو جانے دیں ’’فنی مہارتوں‘‘ میں ان کا ہم پلہ کوئی نہیں۔ صادق اور امین کے الفاظ کتابوں میں اچھے لگتے ہیں یا ’’اسلامیات‘‘ کی ٹیچر کی زبان پر۔ ہاں جمعہ کے خطبوں میں بھی ان کا ذکر آجائے تو بجا ہے کہ جمعہ کا خطبہ سنتے ہی کتنے ہیں، اور سمجھتے ان میں سے کتنے فیصد ہیں!
اب اگر قرآن میں یہ لکھا ہے کہ (ترجمہ) ’’اللہ یہ حکم دیتا ہے کہ اپنی امانتیں اہل لوگوں کے سپرد کرو‘‘ (سورۃ النسا: 58) تو قرآن میں تو لکھا ہونا چاہیے۔ وہ ہماری مذہبی کتاب ہے اور ہم اپنی مذہبی کتاب مُردوں کے سرہانے پڑھتے ہیں یا سوئم اور چالیسویں کی تقاریب میں اس کا ختم کراتے ہیں، یا برکت کے لیے مدرسے کے طالب علموں کو بلا کر ختم قرآن کی محفل کراکے دیگیں چڑھواتے ہیں، یا تعویذ بنانے کے لیے اس کی پاک آیات کو استعمال کرتے ہیں۔ ایک وفاقی وزیر کو قوم نے ہر چینل پر دیکھا کہ وہ سورۃ اخلاص تک درست نہ پڑھ سکے۔
معاشرے میں صداقت اور امانت کے چلن برکت کے لیے ہونے چاہئیں، جیسے ہر محلے میں ایک مسجد اور مدرسہ اور مولانا صاحب باعثِ برکت تصور کیے جاتے ہیں، جو قرآن و حدیث کا علم رکھنے والے ہوتے ہیں یقیناًوہ صادق بھی ہوں اور امین بھی، اس لیے کہ دینی تعلیمات کا تقاضا ہی یہ ہے کہ ان کے مطابق عمل کیا جائے۔ مگر مسجد کے مولانا لاکھ پرہیزگار سہی، ان سے خدمت بچوں کے کان میں اذان دلوانے، جنازہ پڑھنے، ختم شریف اور بچوں کو حفظ ناظرہ کی ہی لی جائے گی۔ ان کو کسی لوکل باڈی کے الیکشن کا بھی اہل نہیں گردانا جائے گا۔ ہم مذہب کو برکت کی حد تک ہی سماج میں جگہ دینے کے قابل ہیں۔ ہماری خوشی کی تقریبات کے موڈ اور مزاج الگ ہی ہوتے ہیں اور غم کی تقریبات کے الگ۔ یہ مائنڈ سیٹ ہے اور اس کو بدلنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
اخبار میں شائع دستاویزات کے مطابق ایک طرف 2012ء تک 4 سال کے عرصے میں شریف خاندان نے 51 کروڑ روپے کا بطور تحائف تبادلہ کیا، جب کہ ریاست کا کاروبار قرضوں کے سہارے چل رہا ہے۔ دوسرے ملکوں میں اربوں کے فلیٹس کی خریداری کی جاتی رہی جب کہ زراعت، صنعت اور ایکسپورٹ انڈسٹری پچھلے کئی سال سے روبہ زوال ہیں۔ توانائی کا بحران، بجلی، گیس کی قلت، مہنگائی، بے روزگاری کا جن بوتل سے باہر آچکا ہے، پاکستانی کرنسی عالمی منڈی میں ہر دن روبہ زوال ہے۔ بیرون ملک کے سرمایہ دار داخلی امن کی تشویش ناک صورت حال کے باعث اس طرف کا رخ کرنے پر آمادہ نہیں۔۔۔ نہ صرف سرمایہ بلکہ برین ڈرین بھی نفسیاتی حد کو عبور کررہا ہے۔
ہم اپنی کچی دیواروں کو دھکے پہ دھکا لگا رہے ہیں اور پڑوسی ہمارے صحن میں رستے بنانے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔ بھارت نے لائن آف کنٹرول پر اودھم مچایا ہوا ہے اور ہمیں پانی کی بوند بوند کو ترسانے کی نہ صرف دھمکیاں دے رہا ہے بلکہ عملاً ڈیم پر ڈیم بناکر اپنے خوابوں میں حقیقت کا رنگ بھر رہا ہے۔ دوسری طرف ہمارا حکمران طبقہ عدالت میں پیشیوں پر پیشیاں بھگت رہا ہے۔ وکیل پر وکیل بدلے جارہے ہیں۔ دوسری طرف قوم مائیکرو اسکوپ لگائے پاناما کے ریگستانوں میں صداقت و دیانت کے ذرے تلاش کررہی ہے۔
وزیراعظم کی پاناما بے بسی پر اُن کے وزیر و مشیر کہتے ہیں یہ جمہوریت کے لیے خطرہ ہے۔ جب کہ جو کرپشن جمہوریت کے لیے اصل خطرہ ہے اس کے مقابلے کی تیاری کے بجائے آرٹیکل 62۔63 میں ترمیم کے لیے سفارشات مانگی جارہی ہیں۔
مجھے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا وہ مکتوب یاد آگیا جو انہوں نے بصرہ کے حاکم عثمان بن حنیف کو لکھا تھا جب انہیں علم ہوا کہ انہوں نے کسی پُرتکلف دعوتِ ولیمہ میں شرکت کی ہے:
’’حمد و ثنا و سلام مسنون کے بعد مجھے معلوم ہوا ہے کہ بصرہ کے دولت مند خاندان نے آپ کو دعوتِ ولیمہ میں مدعو کیا اور آپ چلے گئے، آپ کے لیے عمدہ عمدہ کھانے تیار کیے گئے اور انہیں نفیس برتنوں میں پیش کیا گیا۔۔۔ دیکھیے ہر قوم کا ایک سربراہ ہوتا ہے جس کی وہ پیروی کرتی ہے۔ آپ کے امام و سربراہ نے تو دنیا میں صرف دو بوسیدہ کپڑوں اور دو روٹیوں پر اکتفا کیا ہے۔ (صلی اللہ علیہ وسلم) آپ اس روش پر نہیں چل سکتے تو کم از کم پرہیزگاری اور پاکیزگی اختیار کریں۔ خدا کی قسم میں نے دنیا میں کوئی سونا چاندی جمع نہیں کیا، نہ مالِ غنیمت میں سے کوئی مال اپنے لیے رکھا، نہ زائد کپڑے بنوائے، نہ زمین کا کوئی ٹکڑا ہی حاصل کیا، بلکہ میں نے اپنی ضروریات کے لیے صرف اتنا لیا جتنا ایک مریل اور کمزور جانور کھاتا ہے، کیونکہ میری نظر میں دنیا کی حیثیت ایک تنکے کے برابر بھی نہیں ہے۔۔۔ حقیقت تو یہ ہے کہ انسان جس نفس کی آسائش کے لیے شب و روز لگا رہتا ہے اس کا انجام قبر کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ وہ قبر جو چاروں طرف سے مٹی کی دیواروں سے گھری ہوئی ہے اور جس میں کوئی سوراخ اور روشن دان تک نہیں ہے، اس کے سوا کیا چارہ ہے کہ انسان وسعتِ قبر کی دعا کرے۔ میں تو اپنے نفس کو تقویٰ کی مشق کراتا رہتا ہوں تاکہ قیامت کی ہولناکی میں امن کی صورت نکل سکے اور پلِ صراط پر ثابت قدمی نصیب ہو۔۔۔ میرے لیے بڑا مشکل ہے کہ مجھے امیرالمومنین کہا جائے اور میں اس جانور کی طرح ہوجاؤں کہ عمدہ گھاس کی تلاش میں پھرے اور جہاں اچھی گھاس دیکھے، وہیں منہ مارنے لگے۔۔۔ اے دنیا اپنی راہ لے اور میرے راستے سے ہٹ جا۔۔۔ میں تیرے جال میں نہیں پھنس سکتا۔ آج وہ قوم کہاں ہے جسے تُو نے خوشیوں اور مسرتوں کے سبز باغ دکھائے، آج کہاں ہیں وہ امتیں جو تیرے فریب میں آکر سونے اور چاندی میں کھیلتی رہیں۔ زمانے کی گردش نے انہیں منوں مٹی تلے دفن کردیا۔ اے دنیا! اگر تُو مادّی وجود رکھتی تو میں تجھ پر حد جاری کرتا کہ تُو نے بہت سے بندگانِ خدا کو شدید گمراہ کردیا، سبز باغ دکھائے اور دھوکے میں رکھ کر لاتعداد قوموں اور ان کے بادشاہوں اور والیوں کو گمراہی اور ہلاکت کے گڑھے میں دھکیل دیا۔ اے دنیا ناممکن ہے کہ کوئی تیری وادی میں قدم رکھے اور پھسل نہ جائے، یا تیری موجوں پر سوار ہو اور غرق نہ ہوجائے۔
خدا کی قسم، میں اپنے نفس کو اس کا عادی بناؤں گا کہ تھوڑے پر راضی اور قانع ہوجائے۔ ایسا قانع کہ اس کے پاس انواع و اقسام کے کھانے ہوں تو بھی نمک کو سالن کے طور پر استعمال کرسکے۔
کیا اونٹ نے سیر ہوکر اپنا چارہ کھا لیا اور بیٹھ گیا؟ بکری نے گھاس کھا لی اور بیٹھ گئی؟ علی نے اپنا کھانا کھا لیا اور سوگیا، یا اس کی آنکھ اُس وقت ٹھنڈی ہوگی جب وہ عمر کے آخری حصے میں جانور کی مانند ہوجائے؟ خوش قسمت ہے وہ جس کی نیندیں آخرت کے خوف سے اُڑ گئی ہوں۔۔۔ اے ابن حنیف، خدا سے ڈریے کہ آپ کو آگ سے نجات مل جائے۔‘‘ (لازوال نصیحتیں۔ عاصم نعمانی)

حصہ