(عالم دوسرت اور دوست(آشنا طاہر مسعود

277

اسے کوئی خوبی سمجھے یا خرابی، لیکن اپنی عادت اور مزاج کچھ ایسا ہے کہ انسانوں کو عقیدے، نظریات اور خیالات کی بنیاد پر قبول یا رد نہیں کیا جاتا۔ اور اگر سچ کہوں تو وہ سچ یہی ہے کہ مخالف نظریے اور مخالف خیالات کا حامل شخص جس کے نظریے اور افکار و تصورات کی بنیاد علم و معلومات اور دلائل و شواہد پر ہو، اسے مخاطب کرنے، اس سے گفتگو کرنے میں میری دل چسپی اُس آدمی کی نسبت جو میرا ہم خیال ہو، بڑھ جاتی ہے۔ اپنے ہم خیالوں سے گفتگو کرنا تو گویا اپنے آپ ہی سے مخاطب ہونا ہے۔ اپنی صدا کی بازگشت سننا ہے۔ لیکن اُس سے جو یہ کہہ سکے کہ نہیں جناب! آپ سے مجھے اختلاف ہے، میرا جی چاہتا ہے کہ اس کے اختلافِ فکر کو سنوں، کیا خبر وہ ٹھیک ہی کہہ رہا ہو۔ اور اگر اس کی دلیل درست نہ بھی ہو تو کم سے کم مجھے یہ تو معلوم ہو ہی جائے گا اس سے مکالمہ کرکے کہ خود میرے دلائل میں کتنا وزن ہے، کتنی جان ہے۔
شاید یہی وجہ بنی میری ڈاکٹر سید جعفر احمد سے قریب ہونے کی، اور جلد ہی یہ قربت دوستی اور پھر گہری دوستی میں تبدیل ہوتی گئی۔ ڈاکٹر سید جعفر احمد لبرل، سیکولر، ترقی پسند دانش ور، نہایت صاحبِ علم، متعدد کتابوں کے مصنف، نہایت عمدہ گفتگو کرنے والے، مقرّر بھی اچھے اور ذاتی اوصاف میں ایک ایمان دار، صاحبِ کردار، مہذب، شائستہ اور خوش اطوار انسان ہیں۔ ان سے مراسم قائم ہوئے اب کچھ نہیں تو تیس پینتس برس سے زیادہ ہی عرصہ گزرا۔ نوجوانی کا زمانہ تھا، وہ نئے نئے پاکستان اسٹڈی سینٹر میں لیکچرار ہوئے تھے، سینٹر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر حسین محمد جعفری ان کے علم اور ذہانت، سنجیدگی اور مستقل مزاجی کے گرویدہ و دلدادہ تھے۔ وہی انھیں سینٹر میں لے کر آئے تھے۔ غالباً لیکچرار ہونے کے کچھ ہی عرصے بعد ڈاکٹر جعفر پی ایچ ڈی کرنے کیمبرج یونیورسٹی لندن سدھارے۔ ان سے ہماری دوستی نئی نئی ہوئی تھی۔ میں اکثر سینٹر میں ان سے ملاقات کے لیے حاضر ہوتا تھا اور ملکی سیاست، ادب، سماجی معاملات سبھی ہماری گفتگو میں زیربحث آتے تھے۔ وہ کیمبرج چلے گئے تو میں کچھ اداس سا ہوگیا۔ لیکن ڈاکٹر جعفر نہایت وضع دار آدمی ثابت ہوئے۔ وہاں جاکر بھی فراموش نہ کیا۔ کبھی کبھار ان کا کوئی نہ کوئی خط آجاتا تھا، مزے مزے کی باتیں ہوتی تھیں، لندن کی ادبی محفلوں کے اکا دکا لطائف بھی ہوتے تھے۔ ہمارے ڈاکٹر صاحب یوں تو بہت سنجیدہ سے آدمی ہیں لیکن قدرت ہر ذہین آدمی پر جب کچھ زیادہ ہی مہربان ہوتی ہے تو اسے ذوقِ لطیف کے ساتھ حسِ مزاح کی نعمت بھی ضرور عطا کرتی ہے۔ یہ صحیح ہے کہ علم طبیعت میں خشکی پیدا کرتا ہے اور بعض اہلِ علم میں تو یہ یبوست تکلیف دہ بھی محسوس ہونے لگتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب میں ظرافت اور طنز کا ملا جلا امتزاج ہے جو ان کی صحبت کو پُرلطف بنا دیتا ہے۔
ڈاکٹر جعفر لندن سے پی ایچ ڈی ہوکر واپس آئے تو پاکستان اسٹڈی سینٹر نئی عمارت میں منتقل ہوگیا۔ جہاں آکر انھوں نے سینٹر سے اردو میں ایک تحقیقی مجلہ شائع کیا، اس کے لیے انھوں نے فرمائش کرکے مجھ سے ایک تحقیقی مقالہ لکھوایا اور نہایت اہتمام سے شائع کیا۔
موصوف تہذیبِ مغرب کا مشاہدہ اور ان کی معتبر ترین یونیورسٹی کی اعلیٰ ترین سند لے کر کیا لوٹے یہ خاکسار الٹے قدموں چلتے چلتے ماضی کی جنتِ گم گشتہ میں کھو گیا۔ وہ حلیہ جسے آج انتہا پسندی اور فنڈامنٹلزم وغیرہ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور جس کو اپنانے کے بعد یہ خاکسار دوستوں اور دشمنوں، اپنوں اور بیگانوں میں موضوع گفتگو بن گیا۔ دیرینہ تعلقات و مراسم میں بھی اتار چڑھاؤ آئے۔ لیکن اس زمانے میں بھی اگر میرے حلیے اور ظاہری شکل و شباہت کو جن معدودے چند دوستوں نے تبصرہ و تنقید کے آزار سے محفوظ رکھا، بلاشبہ اُن میں ڈاکٹر جعفر سرفہرست تھے۔
مجھے یاد ہے ایک دن میں ان سے ملنے سینٹر گیا تو ان کے کمرے میں ڈاکٹر جعفری تشریف فرما تھے۔ ان سے بھی میری اچھی خاصی واقفیت یا یوں کہہ لیں کہ نیازمندی تھی۔ دیکھتے ہی کہنے لگے:
’’کیوں بھئی، یہ تمہیں کیا ہوگیا۔ آخر اتنی لمبی داڑھی رکھنے کی کیا ضرورت تھی؟‘‘
تب مجھے معلوم نہ تھا کہ ایسے تبصرے نما استفسار کا سنجیدہ جواب نہ دینا چاہیے، ہنسی مذاق میں شگفتگی سے ٹال دینا چاہیے۔ لیکن ادھر جوش و جذبہ تقریباً نومسلموں جیسا تھا۔ لہٰذا اسی اعتماد سے عرض کیا:
’’جناب یہ سنتِ رسولؐ کی پیروی میں ہے‘‘۔
ڈاکٹر جعفری ذرا جھنجھلا کر بولے:
’’میاں کیسی باتیں کرتے ہو۔۔۔‘‘
اور یہ کہہ کر ایک ایسی دلیل دی جس کا نقل کرنا احتیاط کے تقاضے کے منافی ہے۔ ڈاکٹر جعفری کا فقرہ سن کر میری نگاہ جو ڈاکٹر جعفر پر گئی تو اُن کے چہرے کو متغیر پایا۔ اگلے ہی لمحے انھوں نے بڑھ کر میرا ہاتھ تھاما اور ڈاکٹر جعفری سے معذرت کرتے ہوئے مجھے کھینچ کر باہر لے گئے۔ حالانکہ ڈاکٹر جعفر جانتے تھے کہ جواب میں خاموشی اختیار کرنے کے سوا میرے پاس چارہ ہی کیا تھا۔ لیکن انھوں نے ایسا فقط اس لیے کیا کہ وہ مجھے دل آزاری سے بچانا چاہتے تھے۔ ان کی شخصیت کا یہ رخ میرے لیے انوکھا بھی تھا اور نہایت دل ربا بھی۔ یہ بات اخلاق کی تھی جس کا اوّلین تقاضا دوستوں کی دل داری ہے۔ احباب کے آبگینۂ دل کو ٹھیس پہنچنے سے بچانا اور خیال خاطر احباب ہر دم کرنے کے لیے کمربستہ اور چوکنا رہنا، کاش یہ ہم سب کو آجائے تو حقِ دوستی ادا کرنے کے سلیقے سے بھی ہم آشنا ہوجائیں۔
اس سے آگے کی سنیے۔ ہم جوشِ مسلمانی میں ان ہی دنوں اتنے جذباتی ہوگئے کہ ایک دن وائس چانسلر کے پاس یہ سناؤنی دینے پہنچ گئے کہ حضور! مخلوط تعلیم میں پڑھانا ہمارے لیے اب ممکن نہ رہا۔ ہوسکے تو ہمیں اس پریشانی سے نجات دلائیے۔ وائس چانسلر ڈاکٹر ظفر زیدی مرحوم تھے، اللہ بخشے وہ یہ سن کر حیران ہوئے، کچھ مضطرب بھی ہوئے لیکن جواباً انکار نہ کیا۔ ہاں کچھ ایسے سوالات ضرور کیے جس سے لگا کہ یہ کرید اس فکر میں ہے کہ اس دینی جوش و جذبے کے پردے کے پیچھے کون معشوق چھپا بیٹھا ہے۔ الٹا سیدھا جو جواب بن پڑا، دیا۔ اب تو ٹھیک سے یاد بھی نہیں کہ سب باتیں خواب سی لگتی ہیں۔ وائس چانسلر صاحب نے ’’سوچنے اور کچھ کرنے‘‘ کی مہلت لے کر مجھے رخصت کیا۔ باہر نکلا تو ڈاکٹر جعفر سے ملاقات ہوگئی۔ انھیں دیکھتے ہی خیال آیا کہ یہ یقیناًمیرا ’’دکھ‘‘ سمجھ سکیں گے کہ اہلِ دل ہیں، دوستوں کی دلداری کی فکر رہتی ہے۔ ان سے دفتر میں ملاقات کی خواہش ظاہر کی، مقصد یہ جاننا تھا کہ میرے مطالبے یا خواہش و فرمائش کی جو بھی نام دے لیں، قانونی اور دستوری حیثیت کیا ہے؟ اور اب میں اپنے دوست کی کشادہ نظری کو یاد کرتا ہوں تو شرمندہ شرمندہ سا ہوجاتا ہوں، جب دفتر میں ان سے مل کر اپنی ’’پریشانی‘‘ بیان کی تو انھوں نے اپنی مخصوص پُروقار سنجیدگی سے جواب دیا:
’’اگر میں وائس چانسلر ہوتا تو یقیناًآپ کے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرتا‘‘۔
انھوں نے دستوری پوزیشن بھی بیان کی۔ عجیب سی بات، عجب ہی ادا کہ چڑھا ہوا دریا اترا اور میں کیفیتِ اعتدال میں لوٹا تو بھی ڈاکٹر صاحب نے کبھی اُن دنوں کی میری کیفیت کو یاد نہ دلایا، یہ تک نہ پوچھا کہ کیا ہوگیا تھا حضرت! آپ کو؟ ایک دن میں نے ہی اس تذکرے کو چھیڑا تو مذکورہ واقعہ، جس ترتیب سے میرے ذہن میں تھا تو اسے ڈاکٹر صاحب نے اپنی یادداشت کی روشنی میں واقعے کی ترتیب کو نشان دہی کرکے درست کردیا۔ انھوں نے کسی تجسس کا مظاہرہ نہیں کیا، میری ذہنی جذباتی کیفیت کی کسی کھوج کرید میں نہ پڑے۔ یہ ان کے کردار اور شخصیت کا ایسا دل نشیں پہلو ہے جسے جب بھی یاد کرتا ہوں، ان کی محبت سے میرا دل سرشار ہوجاتاہے۔ مخالف خیال، مخالف نظریہ دوست کا یہ اکرام، یہ دل داری اگر میں نے دیکھی تو سیکولر خیالات کے حامل دوستوں میں دو ہی نام ایسے ہیں جنھیں میں نہایت عزت و احترام کے ساتھ بتا سکتا ہوں، ایک تو اپنے ڈاکٹر سید جعفر احمد اور پھر اپنے مہربان دوست ڈاکٹر توصیف احمد خاں۔ یہ دونوں حضرات مخصوص خیالات، نظریات رکھنے کے باوجود انسانی تعلق، انسانی رشتے کو کبھی نظریات و افکار کے تابع نہیں کرتے۔ ہونا بھی ایسا ہی چاہیے۔ ہم کیوں نہیں سوچتے کہ سارے انسانی تصورات و نظریات انسانوں ہی کی بہتری، ان ہی کی اصلاح اور ان ہی کی فلاح و بہبود کے لیے ہیں۔ اور کوئی مکتبۂ فکر کتنا ہی اعلیٰ و ارفع کیوں نہ ہو، وہ بلند ہوکر بھی انسان سے، اس کی ہستی سے، یہاں تک کہ اس کی کمزوریوں اور لغزشوں سے بھی بلند نہیں ہوسکتا۔ انسان کی عظمت اور اس کی بلندی کے گیت ایسے معاشرے میں الاپنا جہاں انسانوں کی تذلیل و توہین عام ہو، بے وقت کی راگنی سی معلوم ہوتی ہے۔ لیکن کوئی مانے نہ مانے، ہمارے دکھوں اور اذیتوں کی نجات انسانی احترام اور انسانی وقار وعزت کو تسلیم کرنے اوراس کی پاسداری کرنے ہی میں مضمر ہے۔ مساواتِ انسانی اور حقوقِ انسانی کے دعوے اور نعرے بہت آسان ہیں لیکن اپنے پاس کھڑے انسان کو عزت دینا اور اس کی تعظیم کرنا شاید اتنا آسان نہ ہو، خصوصاً اُس وقت جب وہ میرا ماتحت بھی ہو۔ ڈاکٹر جعفر احمد کو میں نے اپنے سینٹر میں ملازمین کے ساتھ بہ حیثیت ڈائریکٹر معاملہ کرتے ہوئے بھی دیکھا ہے اور آدمی کو پہچاننے کا ایک گر جو بتایا گیا ہے جس سے اس کی حقیقت کھلتی ہے وہ ماتحتوں، ملازموں اور ان لوگوں، ان کمزور لوگوں سے معاملہ کرنا ہے جو اس کے دستِ نگر ہوں۔ تو اس کسوٹی پر بھی اپنے ڈاکٹر صاحب کھرے نکلے۔ ان کی طبیعت کچھ ایسی ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ دو مخالف نظریات رکھنے والے آدمیوں میں تبادلہ خیال ہونا چاہیے۔ اس کی خواہش یا تمنا ان میں اس درجہ ہے کہ ایک دن کسی محفل کا تذکرہ کرتے ہوئے بتانے لگے کہ اس محفل میں پروفیسر غفور احمد اور فوزیہ وہاب صاحبہ موجود تھے (اب تو دونوں اللہ کو پیارے ہوئے مگریہ واقعہ پرانا اور ان کی زندگی ہی میں سنایا تھا) یہ دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہوئی کہ دونوں دیر تک کسی مسئلے پر آپس میں نہایت خوشگوار ماحول میں باتیں کرتے رہے۔
جب کبھی میں ڈاکٹر صاحب سے اپنی دوستی اور قربت کے حوالے سے سوچتا ہوں تو یہی قدرِ مشترک ان میں اور خود میں پاتا ہوں کہ اختلافِ فکر انقطاعِ تعلق کا سبب کسی طرح نہ بننا چاہیے۔ اصل میں فکر کا ارتقا اتفاق سے نہیں اختلافِ فکر سے ہوتا ہے۔ کسی حرفِ انکار سے گھبرانا اور ہراساں نہ ہونا چاہیے۔ اور نہ اسے مراسم و تعلقات میں کسی حجاب یا جھجک کا سبب بننا چاہیے۔ ہر انسان محترم ہے کہ اس میں اللہ کی پھونکی ہوئی روح موجود ہے۔ اور ہر شخص کسی بھی تبدیلی اور تغیر سے دوچار ہوسکتا ہے یا کیا جا سکتا ہے جس کا امکان فاصلہ قائم کرنے سے بہرحال معدوم ہوجاتا ہے۔ یوں بھی محبت کا ہر تعلق تجارتی زبان میں ’’پیکیج ڈیل‘‘ ہوتا ہے، اس میں خوبیوں اور خرابیوں کی بیلنس شیٹ بنانے کے بجائے آدمی کو بقول افتخار عارف ’’سموچا‘‘ قبول کرنے ہی میں عافیت بھی ہے اور محبت و قدر شناسی کی روح بھی یہی ہے۔
کم ہی لوگ اس حقیقت کو جانتے ہوں گے کہ ہمارے لبرل، سیکولر، ترقی پسند ڈاکٹر سید جعفر احمد جماعت اسلامی کے نائب امیر اور معروف دانش ور پروفیسر خورشید احمد کے انتہائی قریبی عزیز ہیں۔ پروفیسر صاحب رشتے میں ان کے پھوپھی زاد بھائی ہوتے ہیں۔ ایک دن ڈاکٹر صاحب جنھیں میری اک ذرا سی بے احتیاطی اور کج ادائی سے تکلیف پہنچی تھی، اس کی تلافی کے لیے انھیں اپنے غریب خانے پر مع ان کے اہلِ خانہ عشائیے پر مدعو کیا۔ خواتین ڈرائنگ روم میں اور ہم دونوں لان پہ کرسیاں ڈالے محوِ گفتگو ہوئے۔ موسم خوشگوار تھا، ڈاکٹر صاحب کا موڈ بھی موسم ہی کی طرح تھا۔ موقع مناسب جان کر میں نے ان کے ذہنی ارتقاء کے حوالے سے کچھ باتیں دریافت کیں۔ ان کے بچپن، ان کی تعلیم و تربیت، وہ صحبتیں جو انھوں نے اہلِ علم کے ہمراہ گزاریں۔ انھوں نے میرے ہر سوال کا تفصیل سے اور نہایت اطمینان بخش جواب دیا۔ والد مرحوم کی بابت بھی بتایا کہ نہایت مذہبی آدمی تھے اور چاہتے تھے کہ صاحبزادے بھی مذہبی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں، لیکن بہ قول ڈاکٹر صاحب ان کے تجربے میں وہ اہلِ علم آئے جو غیر مذہبی مگر بہ حیثیت انسان نہایت عمدہ تھے، اسی مشاہدے نے انھیں اس نتیجے پر پہنچایا کہ اخلاقی طورپر عمدہ اخلاق کا حامل ہونے کے لیے مذہبی ہونا ضروری تو نہیں۔ جب ڈاکٹر صاحب یہ سب کچھ بتا رہے تھے تو مجھے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیث یاد آئی کہ آپؐ نے فرمایا تھا کہ تم میں وہی لوگ اسلام میں اچھے ہیں جو جاہلیت میں بھی اچھے تھے۔ ہاں اب میری رائے بھی کچھ ایسی ہی بنی ہے، ممکن ہے صحیح نہ ہو کہ آدمی اپنے ماحول، اپنی طبیعت، اپنی وراثت، اپنی تعلیم اور تربیت سے اچھا یا برا بنتا ہے۔ اسی لیے بعض لوگ مذہبی ہوکر بھی بہ حیثیت انسان اچھے نہیں ہوتے۔ مذہب کے غلط نمائندہ بن جاتے ہیں اور مذہب کی بابت مایوسی پھیلانے میں اپنا حصہ بٹاتے ہیں۔ غیر مذہبی ہو کر بھی ڈاکٹر جعفر اپنے نام کے ساتھ ’’سید‘‘ لگانا کبھی نہیں بھولتے۔ ایک دن باتوں باتوں میں کہنے لگے کہ ’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی عقیدت ہے کہ ان کے ذکر سے آنکھیں اشکبار ہو جاتی ہیں‘‘۔
پتا نہیں وہ کیا کیفیت تھی جس میں وہ یہ کہہ گئے۔ ان کی کیفیت سے اپنی کیفیت کا موازنہ کیا تو خود کو نادم ہی پایا۔
ڈاکٹر جعفر احمد جیسی اچھی تقریر کرتے ہیں ویسا ہی اچھا لکھتے ہیں۔ کم ہی شخصیتیں ایسی ہوتی ہیں جو بہ یک وقت تقریر و تحریر پر قدرت رکھتی ہیں۔ انھیں باخبر رہنے کے لیے انگریزی و اردو کے کم و بیش اکثر اخبارات و رسائل کا مستقل قاری پایا۔ مطالعے میں بھی وہ ہر مکتبۂ فکر یا جس مکتبۂ فکر سے ان کی ذہنی دل چسپی ہو، اہتمام سے اس کی علمی یا صحافتی سرگرمیوں سے باخبر رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک دن یہ بتا کر انہوں نے مجھے حیران کردیا کہ وہ زمانہ طالب علمی سے ’’اردو ڈائجسٹ‘‘ کے باقاعدہ قاری ہیں۔ ’’ترجمان القرآن‘‘ اور ’’فرائیڈے اسپیشل‘‘ جو جماعت اسلامی کے ترجمان رسائل ہیں، وہ پابندی سے انھیں بھی پڑھتے ہیں۔ اردو ڈائجسٹ، تکبیر، چٹان اور زندگی وغیرہ جو دائیں بازو کے نظریاتی رسائل ہیں، ہمارے ڈاکٹر صاحب کی لائبریری میں ان کے پرانے شماروں کا باقاعدہ ریکارڈ محفوظ ہے۔ ا لطاف حسن قریشی صاحب کی تحریروں اور تجزیوں سے ان کی دل چسپی اور انس کا جو حال دیکھا تو میں نے ایک دن ٹیلی فون پر الطاف صاحب سے اس کا تذکرہ کیا۔ یہ سن کر انھوں نے بھی استعجاب آمیز مسرت ظاہر کی اور پھر کچھ ہی دنوں بعد انھوں نے اپنے انٹرویو کی کتاب ’’ملاقاتیں کیا کیا‘‘ کا پیش لفظ لکھنے کے لیے ڈاکٹر صاحب کا انتخاب کیا۔ ڈاکٹر جعفر صاحب نے نہایت کشادہ دلی سے پیش لفظ تحریر کرنے پر آمادگی ظاہر کی اور یوں اب کتابِ مذکور اسی پیش لفظ سے مزین ہے۔ کئی اخباری کالم نگاروں نے اس ’’اجتماعِ ضدّین‘‘ پر اظہارِ مسرت بھی اپنے کالموں میں کیا اور دو ایک نے تو اسے ملک میں اعتدال اور میانہ روی اور تحمل و برداشت کی روایت کی نئی داغ بیل کے حوالے سے خوش آئند بھی قرار دیا۔
ڈاکٹر جعفر اس ماہ اپنے سینٹر کی ڈائریکٹر شپ سے ریٹائر ہوچکے ہیں۔ سینٹر میں رہتے ہوئے ان کا سب سے بڑا کارنامہ وہ کثیر مطبوعات ہیں جو نہایت اہتمام سے سینٹر سے شائع ہوئیں۔ حیرت انگیز اور افسوس ناک واقعہ یہ بھی ہے کہ سینٹر کے ڈائریکٹر بننے کی تمام اہلیت و صلاحیت رکھنے اور ایک طویل عرصے تک بحسن و خوبی اس عہدے پر رہ کر اس کی ذمہ داریاں نبھانے کے باوجود انھیں قائم مقام ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کرنا پڑا، انھیں اس عہدے پر اُس وقت مستقل کیا گیا جب ان کی ریٹائرمنٹ میں بہت تھوڑا عرصہ رہ گیا تھا۔ ڈاکٹر جعفر احمد کے مراسم و تعلقات جن بااثر حلقوں میں رہے ہیں، اگر وہ چاہتے تو اس عہدے پر اپنی حیثیت کو مستقل کرنا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا، لیکن انھوں نے اس معاملے میں کسی کو کہنا سننا یا کہلوانا نہ صرف پسند نہ کیا بلکہ کسی نے ایسی کوئی پیش کش بھی کی تو اپنی عدم دلچسپی سے حوصلہ شکنی کا رویہ اختیار کیا۔ اب ہمارے ملک کے اعلیٰ اختیاراتی مناصب پر جو شخصیات فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہیں انھیں اتنے بڑے بڑے قومی مسئلوں کی فکر کھائے جاتی ہے کہ بے چاروں کو ان چھوٹے چھوٹے مسائل کی جانب نظر کرم کی فرصت ملے تو کسی بے انصافی، کسی ظلم، کسی انتظامی نالائقی کی اصلاح و درستی کی جانب متوجہ ہوں۔ یہاں حق دار کو کون بنا کوشش و سفارش کے اس کا حق دینے کا روادار ہوتا ہے، اور مزید یہ کہ کون بے غرضی اور بے نفسی سے کسی کے حق کے لیے، کسی ناانصافی اور ظلم کے خلاف اٹھ کھڑا ہونے یا کم از کم آواز ہی اٹھانے کو اپنی ذمہ داری سمجھتا ہے۔ ہماری نظروں کے سامنے انصاف کا خون ہوتا ہے اور حق دار کا حق مارا جاتا ہے اور ہم ہیں کہ ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم۔ بہرکیف، ان باتوں کا کیا رونا۔ میں نے تو کبھی اس کا کوئی گلہ کرتے خود ڈاکٹر صاحب ہی کو نہیں پایا۔ اور قصہ تو یہ ہے کہ جو کام کرتے ہیں، ان کے پاس گلے شکوے کی مہلت ہی کہاں؟ اگر مدتوں انھیں قائم مقام کے طور پر کام کرنا پڑا تو یہ دھبہ تو خود ادارے کے دامن کو داغ دار کرتا ہے، اپنے ڈاکٹر صاحب کا دامن تو سفارش اور اثر رسوخ کے استعمال کے داغوں سے پاک صاف ہی رہا۔
ڈاکٹر سید جعفر کی ذہنی نشوونما میں جس شخصیت نے مرکزی کردار ادا کیا، وہ معروف دانش ور اور محقق و مصنف سید سبط حسن کی ہے۔ سبط حسن کی علمی کتابوں کی اہمیت سے کسے انکار ہوگا۔ اختلاف و اتفاق تو فکری زندگی کا لازمہ ہیں۔ لیکن زمانہ طالب علمی اور بعد میں بھی سید سبط حسن مرحوم کو میں نے کراچی یونیورسٹی کی لائبریری میں مطالعہ و تحقیق کے لیے پابندی سے آتے اور گھنٹوں کام کرتے دیکھا ہے، اس علمی لگن اور انہماک کی وجہ سے میرے دل میں جب ان کا احترام ہے تو ڈاکٹر صاحب تو ان کے معنوی شاگرد ہیں، انہوں نے ان سے فیض بھی اٹھایا اور ان کی غیرمطبوعہ اور منتشر تحریروں کو یکجا کرکے مرتب و مدون کرنے میں بھی انھوں نے نہایت علم دوستی اور فرض شناسی کا مظاہرہ کیا ہے، جس کی داد نہ دینا کم ذوقی ہوگی۔ دوسری شخصیت جن سے ان کا علمی ربط ضبط بہت گہرا ہے، ڈاکٹر مبارک علی ہیں۔ ڈاکٹر مبارک کے خیالات سے مجھے بھی اختلاف رہا ہے، اب بھی ہے لیکن ان کی عزت بھی میرے دل میں اسی لیے ہے کہ ایک علم اور کتاب بیزار معاشرے میں اگر ایک شخص نے اپنی ساری زندگی کتاب پڑھنے اور کتابیں لکھنے میں گزاری ہے تو وہ ہماری توجہ، التفات اور احترام کا مستحق ہے۔ خیالات کا، افکار و تصورات کا اختلاف اپنی جگہ لیکن عالم کا احترام علم کا احترام ہے۔ اور علم کشادگی، وسیع القلبی اور وسیع النظری پیدا کرتا ہے۔ جو علم آدمی کو تنگ دل، تنگ نظر بناتا ہو، وہ کہاں کا علم اور کیسا علم؟
پس علم کی عظمت کا اعتراف عالم کی تعظیم میں مضمر ہے اور علم ہی اختلاف کی راہ سجھاتا اور اختلاف کرنے اور اسے برداشت اور گوارا کرنے کے آداب بھی سکھاتا ہے۔
مجھے اس امر پر اطمینان رہے گا کہ ڈاکٹر سید جعفر احمد میرے دوست اور ایک ہی تعلیمی ادارے سے ہم دونوں وابستہ اور رفیق سفر رہے ہیں۔ ان کی اور میری دوستی جو ہر قسم کے تکلفات سے آزاد، بے تکلفی کی دوستی رہی ہے، لیکن میں کبھی انھیں بے تکلفی سے مخاطب نہ کرسکا۔ اس کی وجہ؟ یہ جاننے کی کبھی میں نے کوشش نہیں کی۔ لیکن لگتا کچھ ایسا ہے کہ اس میں میری طبیعت کے ادب آداب کا دخل نہیں، اس میں اگر کوئی قصور ہے تو ان ہی کا ہے۔ کوئی آدمی اپنے علم اور حسن اخلاق سے خود کو معزز و محترم بنا لے تو بے تکلف دوست بھی کیا کریں۔
nn

حصہ