(استاز الاساتزہ (جیکب آباد) (محمد طارق

212

27-mt
صوبہ سندھ کے قدیم اور تاریخی شہر لاڑکانہ کی ایک ہم وجہ شہرت یہاں کابھٹو خاندان اور اس سے واسبتہ سیاسی حوالہ ہے۔ اس ایک بڑے پہلو نے اس شہر’’بے نظیر‘‘ کے دیگر کئی قابل ذکر اور لائق توجہ پہلوؤں کو قدرے دھندلا دیا ہے ۔ طبی ادارہ چانڈکا میڈیکل کالج (یونیورسٹی) اور اسپتال بھی ہے جس کی وجہ سے اس شہر کو ڈاکٹرز کا شہر بھی گردانا جاتا ہے۔ اسی شہر کے لوح میں ’’موہن جودڑو‘‘ کے شہرۂ آفاق آثار قدیمہ سے ذرا فاصلہ پر علم و ادب اور تعلیم کی ایک مایہ ناز درس گاہ کیڈت کالج لاڑکانہ بھی واقع ہے جس نے اپنے سابق بانی پرنسپل پروفیسر شیخ محمد یوسف جیسی قدرآور علمی اور ادبی شخصیت اور حد درجہ متحرک و فعال منتظم کی زیر قیادت مسلح افواج سمیت ہر شعبہ حیات میں باقاعدہ طور پر تربیت یافتہ اور صحیح معنوں میں پڑھے لکھے افراد کار کی ایک ایسی بڑی کھیپ مہیا کرکے دی ہے جو ملک و قوم کی اپنے اپنے شعبہ میں تندہی کے ساتھ خدمت سرانجام دینے میں مصروف ہے۔ اس فوجی‘ تعلیمی ادارے سے فارغ التحصیل طلبہ نے معتدبہ تعداد میں پاک فوج میں شمولیت کے بعد ملک و قوم کے لیے اپنے خون کا نذرانہ تک پیش کیا ہے۔ جن میں ’’شہیدسلالہ‘‘ میجر مجاہد میرانی کا نام نامی سرفہرست ہے۔ اور وہاں اسی لاڑکانہ شہر کے سرہو محلہ کے ایک گھر کے سادہ اطوار مگر علم و فضل میں یکتا ایک مکین 6 بار اپنی تصانیف صدارتی انعام یافتہ 92 سالہ پروفیسر ڈاکٹر عبدالہادی سرہو بھی ہیں جنہوں نے اپنی ساری حیات مستعار سلسلۂ تعلیم و تعلیم کو فروغ دیتے ہوئے گزاردی ہے او رجو علم و ادب کے میدان میں اپنی نمایاں اور شاندار خدمات کے باعث لاڑکانہ کا ایک قابل فخر حوالہ اور نمایاں شناخت بن چکے ہیں۔ سرہو صاحب اس عالم پیری میں بھی اور اپنی ایک ٹانگکے عمل جراحی کے مرحلے سے گزرنے کے باوصف اب بھی پہلے کی طرح علمی اور ادبی میدان میں فعال اور متحرک ہیں اور اس وقت ’’لغت القرآن‘‘ کے موضوع پر سندھی اور انگریزی زبان میں تحقیقی کام کررہے ہیں گویا ڈاکٹر صاحب موصوف نے علامہ اقبالؒ کے اس شع کو حزر جاں بنالیا ہے کہ
چلنے والے نکل گئے ہیں
جو ٹھہرے ذرا کچل گئے ہیں
12 جولائی 1928 ء کو لاڑکانہ کے کپڑوں کے ایک بڑے تاجر سیٹھ عبدالغفور مرحوم کے گھر جنم لینے والے نومولود کا نام تو باغ علی رکھا گیا تھا لیکن اسکو ل کے ریکارڈ میں بہ وقت داخل اسے تبدیل کرکے اس بچہ کے نام کا اندراج عبدالہادی سرہیو کے نام سے گرای اگیا اور پھر یہی نام تعلیمی ‘ ادبی اور علمی دنیا مین بڑی شہرت کا حمال قرار دپایا۔ عبدالہادی سرہیو نے اپنے محلہ کی مسجد سے ناظرہ قرآن مجید پڑھا اور چند سپارے بھی حفظ کیے۔پرائمری کی تعلیم گورنمنٹ پرائمری شاہ محمد اسکول لاڑکانہ سے حاصل کی۔ میٹرک 1944 ء میں میونسپل ہائی اسکول لاڑکانہ اور انٹر کا امتحان 1946 ء میں سی اینڈ ایس کالج شکارپور کے ہاسٹل میں رہتے ہوئے بمبئی یونیورسٹی کے زیراہتمام پاس کیا۔ انہوں نے بعد ازاں 1948 ء میں ہارون گوٹھ باقرانی لاڑکانہ میں واقع کیا۔ 1948 ء میں سرہیو صاحب نے ایس ایم کالج کراچی سے بے اے کا امتحان سندھ یونیورسٹی کے زیراہتمام پاس کیا۔ جس کے بعد انہوں نے ایم اے عربی فرسٹ کلاس میں کرنے کے بعد فارسی اور مولوی اور عالم فاضل عربی کے امتحانات بھی (As a teacher Candidate) پاس کیے۔
سرہیو صاحب نے اپنا پی ایچ ڈی کا مقالہ بہ عنوان “Ethical Teaching of Holy Quran”اپنے دور کی نامور علمی اور ادبی شخصیات ڈاکٹرہالیپوتو اور علامہ مولان اگلام مصطفی قاسمی کی زیرنگرانی مکمل کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔ جن کی علمیت اور قابلیت نیز رعب دار شخصیت کا انہوں نے گہرا اثر قبول کیا جس کا تذکرہ وہ اب بھی کیا کرتے ہیں۔
انہوں نے اپنی سرکاری ملازمت کا باقاعدہ آغاز1951ء میں گورنمنٹ ٹریننگ کالج مٹھیانی ضلع نوشہرو فیروز سے کیا جہاں وہ فارسی پڑھانے کے لیے مامور ہوئے تھے۔1953 ء میں کراچی سے B.T کا امتحان پاس کرنے کے بعد انہیں گورنمنٹ ٹریننگ کالج لاڑکانہ میں فارسی زبان کے لیکچرز کے طور پر تعینات کیا گیا۔ اب تو ہمارے ہاں کالجز میں فارسی اور عربی کی تعلیم و تعلم کا سلسلہ متروک ہوگیاہے اور انہیں لبرل اور روشن خیال حکمران طبقہ نے اپنی طرف سے تقریباً خارج البلذکر دیا ہے۔ اس ’’نئی روشنی‘‘ سے قبل لیکن اس زمانے میں ان دینی‘ تہذیبی اور علمی سرمایہ سے مالا مال زمانوں اور ان کے اساتذہ کرام کی بڑی ضرورت و اہمیت اور وقعت ہوا کرتی تھی۔ بہرکیف سرہو صاحب کئی دہائیوں تک علم و ادب کے چراغ روشن کرتے رہنے کے بعد بالاخر 11جولائی 1988 ء کو اپنی مدت ملازمت پوری کرکے گورنمنٹ ایلیمنٹری کالج لاڑکانہ سے ریٹائرڈ ہوگئے اور اس طرح ان کی زندگی کا ایک اہم ترین دور بحسن خوبی تکمیل کو پہنچا۔
پروفیسر ڈاکٹر عبدالہادی سرہیو اردو‘ سندھ ‘ عربی‘ فارسی اور انگریزی زبان پر یکساں دسترس رکھتے ہیں۔ ان کے بلامبالغہ سینکڑوں شاگرد ملک او ربیرون ملک مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ ان میں سے ایک خاص تعدادمختلف تعلعیمی اداروں میں پیشۂ تعلیم سے بھی وابستہ ہے۔ بلکہ اب تو ان کے شاگردوں کے بھی شاگر سلسلۂ تعلیم و تعلم سے منسلک ہوکر علم کی شمعیں فروزاں کرنے میں مصروف ہیں۔ گویا اس طرح سے سرہیو صاحب بجا طو رپر ’’استاذ الاساتذہ‘‘ کے لقب کے سزاوار قرار پاتے ہیں۔ موصوف شروع ہی سے مطالعہ کے بے حد شائق تھے اور ان کی عمر عزیز کا بیشتر حصہ اس ’’دشت کی سیاحی‘‘ میں بیت چکا ہے۔ انہوں نے بطور ایک ادیب‘ شاعر اور محقق کے اپنے کام کی بہ دولت بڑی نیک نامی اور شہرت کمائی ہے۔ ان کی تاحال مختلف دینی‘ علمی ادبی اور اصلاحی موضوعات پر سندھی‘ اردو ‘ عربی‘ فارسی اور انگریزی زبان مین سے 40 سے زائد کتب اشاعت پذیر ہوکر سند پذیرائی حاصل کرچکی ہیں۔ سرہیو صاحب کی اولین تصنیف’’نصیحت نامہ‘‘ کے عنوان سے 1970 ء میں منصۂ شہود پر آئی تھی اور پھر چل سو چل ۔ ڈاکٹر صاحب موصوف کی حسب ذیل کتب کو صدارتی انعام یافتہ قرار دیا جاچکا ہے۔
سندھی کمپوزنگ

ان کی تحریر کردہ چند دیگر معروف کتب کے نام یہ ہیں۔
(1) اسرار نامہ
(2) قانون اسلام
(3) جگ سدھار صلی اللہ علیہ وسلم
(4) ہادی اعظم صلی اللہ علیہ وسلم(اردو)
(5) سید الرسل صلی اللہ علیہ وسلم (عربی)
(6) مکی مدنی صلی اللہ علیہ وسلم
(7) اسوۂ حسنہ صلی اللہ علیہ وسلم
(8)”The great Revolution of Prophet (P.B.U.H)
(9 ) بارن جو ادب
(10) تحریک پاکستان
انہیں اپنی تصنیفات پر ’’پاکستان رائٹرز‘‘ لاہور ’’سندھ یونیورسٹی‘‘ جامشورو‘’’سیرت کانفرنس‘‘ اسلام آباد‘ ’’وزارت تعلیم‘‘ اسلام آباد‘ ’’وزارت مذہبی امور‘‘ اسلام آباد اور ’’سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ‘‘ جامشورو کی جانب سے بھی اعزازات اور انعامات سے نوازا جاچکا ہے۔ لیکن سب سے بڑا اعزاز اور انعام تو جس کا اوپر بھی ذکر ہوچکا درحقیقت ان کے وہ بے شمار شاگرد ہیں جو ہر شعبہ میں اپنے اپنے انداز اور طریقہ سے ملک و قوم کی خدمت بجالانے میں مصروف کار ہیں۔ یہ اس کی دین ہے جسے پروردگار دے ڈاکٹر سرہیو طبعاً اور مزاجاً ایک سادہ اطوار‘ مہض اور ملن سار فرد فرید ہیں۔ حق اور سچ بات منہ پر کہہ دینے کے خوگر ہیں۔ عالموں‘ ادیبوں اور شاعروں کے قدر داں واقع ہوئے ہیں۔ نوآموز لکھنے والوں کی ہمت اور حوصلہ افزائی میں بخل سے کام نہیں لیتے۔ اس پیرانہ سالی میں بھی ان کا بیشتر وقت حسب سابق علمی اور ادبی امور کی انجام دہی میں ہی صرف ہوتا ہے۔ جب ان سے پسندیدہ شعراء اور مصنفین کے بارے میں دریافت کیا گیا تو موصوف کا جواب کچھ یوں تھا ’’میں نے شاعروں اور ادیبوں کا باہم موازنہ کبھی نہیں کیا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر سے میرا دوستی اور خلوص و محبت کا رشتہ استوار ہے۔ بعض سے باہمی خط و کتابت کا سلسلہ بھی جاری رہتاہے۔ میری نظر میں بہتر ادیب اور شاعر وہ ہے جو حق اور سچ بات کی پاسداری کرے اور بدی یا برائی کو ختم کرنے میں اپنا مثبت کردار سرانجام دے۔‘‘پروفیسر ڈاکٹر عبدالہادی سرہیو کو اپنے اساتذہ کرام میں سے غلام حسین عباسی مرحوم اور محمد ہارون تنیو کا مشفقانہ انداز اور پڑھانے کا طریقہ بے حد پسند تھا۔ موصوف 1950 ء میں رشتۂ ازواج میں منسلک ہوئے اور ان کے ہاں 7بیٹوں اور 4بیٹیوں کی اولاد ہوئی۔ پسندیہ کتاب: کلام‘ سنت صلی اللہ علیہ وسلم اور سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق کتب۔
سچ ت ویہ ہے کہ اس دورِ قحط الرجال میں ڈاکٹر موصوف جیسی علمی اور ادبی شخصیت کا دم غنیمت بلکہ بساغنیمت ہے۔ انہی جیسے علم و عمل کے معدودے چند روشن چراغوں نے ہمارے معاشرے میں بتدریج بڑھتی ہوئی تاریکی اور اندھیرے کو پورے طور سے چھا جانے سے روک رکھا ہے۔
اللہ پاک انہیں تادیر سلامت رکھے۔ آمین

حصہ