احباب کراچی

385

کراچی کا موسم مکمل انگڑائی لے چکا تھا۔ برسات اور وہ بھی لگا تار دو دن، ساتھ ٹھنڈ کا مکمل پروگرام، کراچی کی تباہ حال سڑکیں، ٹریفک۔۔۔ بس آگے کیا کہا جائے۔ خیر ہمارا موضوع یہ نہیں ہے، بات یہ ہے کہ Karachi Konnect 2017کے عنوان سے کراچی کی حقیقی معنوں میں سب سے بڑی منظم طلبہ تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ کراچی کے سابقین کا ایک بہت بڑا اجتماع منعقد ہونے کو ہے۔ جی ہاں سابقین یعنی وہ لوگ جو کبھی اپنے زمانہ طالب علمی میں اسلامی جمعیت طلبہ کراچی کے وسیع نیٹ ورک کا کسی شکل میں حصہ رہے اور اِس وقت اپنی عملی زندگی میں مختلف محاذوں پر مصروف ہیں۔ اِسلامی جمعیت طلبہ کراچی ایک نظریاتی جدوجہد کا عنوان ہے، اِس قافلے میں شامل ہونے والے جس عظیم ’’نصب العین سے وابستہ‘‘ ہوتے ہیں اُس کا تقاضا ہے کہ اُس ’’وابستگی‘‘کی تذکیر کی جاتی رہے۔ اسی مقصد کے پیش نظر اسلامی جمعیت طلبہ نے اپنے سابقین کے لیے حلقہ احباب قائم کیا ہے اور بلاشبہ اِسے دنیا کا سب سے بڑا المنائی قرار دیا جا سکتا ہے۔ اسلامی جمعیت طلبہ کراچی کی مختلف سیاسی حوالوں سے اپنی ایک تاریخ، شناخت اور منفرد رنگ ہے۔ طلبہ یونین کا سنہری دور ہو یا اُس کے بعد کراچی کی مخصوص سیاسی فضا، تعلیمی مسائل، ملکی معاملات، امتِ مسلمہ کے حوالے سے کوئی ایشو ہو، جمعیت ایک توانا آواز نظر آتی رہی ہے۔ اسلامی جمعیت طلبہ حلقہ احباب کراچی کے ناظم ڈاکٹر محمد واسع نے کراچی جمعیت کے سابقین کو بڑے پیمانے پر ایک یادگار اجتماع میں جمع کرنے کا اعادہ کیا۔ تین ماہ پر محیط بھرپور تیاریاں کی گئیں، کئی کمیٹیاں بنائی گئیں، 1960ء سے قبل کے سابقین سے رابطے بحال کیے گئے اور اس پروگرام کی دعوت پہنچائی گئی۔ اپنی نوعیت کا ایک منفرد پروگرام ترتیب دیا گیا جس کی خاص بات یہ تھی کہ پروگرام پورے دن کا رکھا گیا اور احباب کو فیملی کے ساتھ مدعو کیا گیا تھا۔ پروگرام کے انعقاد کے لیے کراچی کے معروف ایکسپو سینٹر کو منتخب کیا گیا۔ دو روز قبل شہر میں ہونے والی برسات نے گو کہ تیاریوں پر اثرڈالا لیکن جمعیت پھر جمعیت ہے موجودہ ہو کہ سابق۔۔۔ ڈاکٹر واسع نے پروگرام کے انعقاد کے لیے مکمل یکسوئی اور تیاریوں کی ازسرنو منصوبہ بندی کرڈالی اور موسم کی مناسبت سے ایکسپو سینٹر کے باہر والے حصے کو اندر منتقل کرا دیا۔ اطلاعات کے نظام کو اور پروگرام کے یقینی انعقاد کو تمام تر سماجی رابطوں کے ذرائع استعمال کرکے بھرپور مشتہر کیا اور 15 جنوری کی صبح آ ہی گئی۔
اتوار کا دن، ٹھنڈا موسم، اور جب صبح دس بجے ہال میں داخل ہوا تو منظر دیکھ کر یقین آگیا کہ ’’جو طوفانوں سے لڑ جائیں وہ دیوانے جی دار ہیں ہم‘‘۔ توقع سے کہیں زیادہ احبابِ جمعیت جمع تھے اور جس گرم جوشی سے آپس میں ملاقاتیں کررہے تھے وہ منظر دیدنی تھا۔ فوئیر حصے میں بائیں جانب طویل رجسٹریشن ڈیسک لگائی گئی تھی جہاں احباب اپنی رجسٹریشن کرواکر، پروگرام کا زرِ تعاون جمع کرا رہے تھے۔ وہیں سے ایک فوڈ کوپن اُنہیں دیا جاتا اور ایک خوبصورت سا تحفہ بھی، جو کہ اس پروگرام کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ الخدمت کراچی اس پروگرام میں بطور گولڈ اسپانسر کیٹگری میں تھا اور ایک خوبصورت بیگ جس میں مولانا مودودی ؒ کا ایک یادگار کتابچہ، احباب کراچی کے نام سے اس پروگرام کے لیے خصوصی تحاریر کے ساتھ تیار کیا گیا خوبصورت مجلہ تحفہ میں دیا جا رہا تھا۔ رجسٹریشن ڈیسک کے ساتھ ہی عنایت اللہ اسماعیل صاحب عمرہ کی قرعہ اندازی کے لیے ایک فارم تقسیم کروا رہے تھے۔ شرکاء اس موقع کا فائدہ اٹھا کر اپنے اور اپنی فیملی کے فارم جمع کراتے رہے۔ اس فوئیر ایریا میں بائیں جانب ہی اسلامی جمعیت طلبہ کراچی نے اپنی ماضی کی جدوجہد پر مبنی ایک تاریخی تصویری نمائش لگائی تھی جو کہ شرکاء کی توجہ کا خصوصی مرکز بنی ہوئی تھی۔ احباب اُن تصاویر کو دیکھ کر اپنے ادوار کی یادیں تازہ کرتے رہے اور ہم نے موبائل کیمروں کا خوب استعمال ہوتے دیکھا۔ اس نمائش کی خصوصیت میں دو مزید باتیں تھیں جو سب احباب کے قدم کچھ دیر وہیں جما دیتیں، جہاں جمعیت کی مختلف سرگرمیوں اور نمایاں تحریکوں کی یادیں تصاویر میں سموئی ہوئی تھیں وہیں ایک مکمل حصہ کراچی کے سابق ناظم نصراللہ خان شجیع شہید کی یادگار تصاویر پر مبنی تھا۔
وہی جواں ہے قبیلے کی آنکھ کا تارا
شباب جس کا ہے بے داغ ضرب ہے کاری
اسی طرح جمعیت کی اس نمائش کا ایک اور حصہ کراچی جمعیت کے تمام شہداء کی تصاویر پر مبنی تھا۔ یہ نمائش کے وہ دو اتنے حساس حصے تھے کہ اس نمائش کے گرد ہم نے دیکھا کہ سب آنکھوں میں نمی لے کر وہاں سے آگے بڑھتے۔ یہ درحقیقت اس پورے 70 سالہ سفر کے روشن باب ہیں جن کے پاک لہو کی بدولت اسلامی جمعیت طلبہ زندہ و توانا ہے۔ ہال نمبر6میں داخلے کے لیے فوئیر کے دائیں جانب اسٹالز کی قطار تھیں۔ احباب کو موجودہ جمعیت سے تعارف کے لیے کراچی جمعیت نے بھی اپنا ایک اسٹال ترتیب دیا تھا جس میں جمعیت کی مختلف یادگار مصنوعات، سی ڈیز، اسٹیکرز اور کتب رکھی گئی تھیں۔ اسلامی جمعیت طلبہ کراچی کے ناظم ہاشم یوسف ابدالی، معتمد حافظ فصیح اللہ حسینی، ناظم جامعہ کراچی حمزہ صدیقی سمیت جمعیت کے کارکنان یہاں احباب کو خوش آمدید کہنے اور کراچی جمعیت کے حوالے سے معلومات و باہمی تعارف میں مصروف تھے۔ فوئیر حصہ میں موجود شرکاء کو اسٹیج کی کارروائی سے جوڑے رکھنے کے لیے ایک بڑی ڈیجیٹل اسکرین ہال نمبر6 کے داخلی دروازے کے ساتھ نصب کی گئی تھی جس نے شرکاء کو پروگرام سے جوڑے رکھا۔
چونکہ پروگرام پورے دن پر محیط تھا، اس لیے شرکاء کی سہولت کے لیے ہال کے بائیں جانب بالائی منزل پر فوڈ کورٹ بھی لگایاگیا تھا۔ ہال کے اندرونی حصہ کو جمعیت کے نصب العین اور ڈاکٹر اورنگزیب رہبر کی لکھی گئی نظم ’’مری جمعیت‘‘ سمیت دیگر دعوتی مواد سے سجایا گیا تھا۔ پروگرام کا پہلا سیشن اسلامی جمعیت طلبہ کے سابق ناظم اعلیٰ اور جماعت اسلامی پاکستان کے سابق امیر سید منور حسن کی زیر صدارت شروع ہوا۔ پروگرام کی نظامت کے فرائض سابق ناظم جامعہ کراچی و زمانہ طالب علمی کے معروف مقرر ڈاکٹر اسامہ رضی نے انجام دیئے۔ نعمان شاہ نے سورۃالفجر کی خوبصورت تلاوت سے پروگرام کا آغاز کیا، جس کے بعد میر واصف علی نے ’’پیغمبرِ انقلاب‘‘کے عنوان سے اپنی تحریر کردہ نعتِ رسول مقبول ؐ کے اشعار پیش کیے۔ ڈاکٹر واسع کے افتتاحی کلمات سے قبل منیب ذیشان نے نعت رسول مقبولؐ پیش کی۔ پہلے سیشن کے مہمانان میں سابق ناظم اعلیٰ اسلامی جمعیت طلبہ اور نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان راشد نسیم، معروف دانشور و کالم نگار شاہنواز فاروقی، اکاؤنٹس اور آڈٹ کی دنیا کا معروف نام بشیر جمعہ، آئی ٹی کی دنیا میں اسلامی تعلیمات کو اسلام 360 کی ایپلی کیشن میں یکجا کرنے والے زاہد چھیپا، دنیا ٹی وی کے معروف اینکر پرسن انیق احمد نے اسلامی جمعیت طلبہ کے مختلف پہلوؤں پر خطاب کیا۔ اس سیشن میں اسلامی جمعیت طلبہ کراچی کے جنرل سیکریٹری حافظ فصیح اللہ حسینی نے بھی اسلامی جمعیت طلبہ کراچی کا ایک تعارف پیش کیا۔ اس سیشن کی خاص بات زاہد چھیپا کی اسلام 360 کے بارے میں مفصل پریزنٹیشن تھی جس میں قرآن، حدیث، دُعائیں اور عبادات پر مشتمل ایک علمیِ خزانے کو شرکاء کے سامنے پیش کرکے استعمال کا طریقہ سکھایا گیا۔
پروگرام کی ایک اور منفرد بات یہ تھی کہ ہر سیشن کے اختتام پر تین قسم کے ایوارڈ تقسیم کیے گئے۔ پہلی قسم پرائڈ آف پاکستان کے عنوان سے تھی، جس کے نام سے ہی ظاہر تھا کہ یہ اُن افراد کو دیا گیا جن کی کاوشوں سے پاکستان کا نام بلند ہوا۔ دوسری قسم میں ایکسی لینس ایوارڈ تھا جو کہ اپنے شعبہ جات میں نمایاں کارکردگی دکھانے والوں کو دیا گیا۔ تیسرا ایوارڈ گیسٹ آف آنر کی کیٹگری تھا جو سیشن کے مقررین پر مشتمل تھا۔ معزز پرائڈ آف پرفارمنس کے ضمن میں پہلے سیشن میں سابق سٹی ناظم نعمت اللہ خان، شہید نصراللہ شجیع، شہید اسلم مجاہد، شہید پاشا گل اور شہید ڈاکٹر پرویز محمود کے نام ایوارڈ دیا گیا۔ اسی طرح پروگرام کے دوسرے سیشن میں عبدالستار ایدھی اور شہید جنید جمشید اور دیگرکو ایوارڈ دیا گیا۔ جنید جمشید کا ایوارڈ شہید جنید جمشید کے بیٹے تیمور نے وصول کیا۔ تیسرے سیشن میں ڈاکٹر غفار بلو، ڈاکٹر شموئیل اشرف، یحییٰ پولانی، ڈاکٹر باری اور ابراہیم قاسم کو ایوارڈ دیے گئے۔ اسی طرح کئی لوگوں کو ایکسی لینس ایوارڈ بھی دیے گئے۔ دوسرے سیشن کے گیسٹ آف آنر میں شامل تھے صدرِ سیشن جناب ڈاکٹر فرید پراچہ، سابق ناظم اعلیٰ اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان امیرالعظیم، حلقہ احباب پاکستان کے ناظم وقاص انجم جعفری، معوذ صدیقی (امریکہ)، وجاہت رانا (آسٹریلیا)، نجیب ہارون۔ تیسرے سیشن میں امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق، امیر جماعت اسلامی سندھ و سابق ناظم اسلامی جمعیت طلبہ کراچی ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی، امیر جماعت اسلامی کراچی و سابق ناظم اعلیٰ حافظ نعیم الرحمن اور اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے موجودہ ناظم اعلیٰ صہیب الدین کاکاخیل تھے۔ ہر سیشن کے اختتام پر صدرِ محفل کے ہاتھوں شرکاء کے بھرے گئے فارم میں سے قرعہ اندازی ہوتی رہی اور تین سیشن میں تین خوش نصیب احباب جمعیت نے عمرہ کا ٹکٹ حاصل کیا۔
کراچی ہمیشہ سے علم و ادب کا گہوارہ رہا ہے اور اسلامی جمعیت طلبہ اس کی امین رہی۔ اس کے بطن سے نکلنے والے گوہر ہائے نایاب نے زندگی کے تمام شعبہ جات میں نمایاں مقام حاصل کیا۔ اسی طرح علم و ادب میں بھی جمعیت کا بڑا حصہ ہے۔ اس یادگار اجتماع میں شرکاء کی دلچسپی کے لیے ایک ایسا مشاعرہ ترتیب دیا گیا جس میں تمام شعراء جمعیت کے احباب تھے، انہوں نے اپنا کلام سنایا اور پوری محفل میں جان ڈال دی۔ شعراء کرام میں نجیب ایوبی، ڈاکٹر محمود غزنوی، اجمل سراج، شہیر سلاسل، مومن کے علاوہ علاالدین خانزادہ اور لاہور سے خصوصی طور پر تشریف لائے ہوئے شاعر جمعیت افضال صدیقی نے محفل کو خوب گرمایا اور بھرپور داد وصول کی۔ مشاعرے کی نظامت کے فرائض شکیل خان نے اپنے منفرد لب و لہجے میں انجام دیئے، جبکہ مشاعرے کے صدر پروفیسر عنایت علی خاں صاحب نے جمعیت کے حوالے سے خصوصی یادگار کلام پیش کیا۔
اس محفل میں ایک اور خوبصورت لمحہ اُس وقت آیا جب تیسرے سیشن میں امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق کے خطاب سے قبل اُن کا استقبال جمعیت کے روایتی نعروں کی گونج میں ہوا۔ مگر یہ استقبال کراچی جمعیت میں اُن روایتی نعرے لگانے والوں میں سب سے بڑے نام شہید نصراللہ شجیع نے لگائے جب اسٹیج کے عقب میں نصب اسکرین پر نصراللہ شجیع شہید کے یادگار نعروں کی یادگار ویڈیو چلائی گئی۔ تین منٹ کی اس ویڈیو نے پورے ہال میں جمعیت کے نعروں کی گونج کا ایسا سماں باندھا کہ بیشتر آنکھیں اشک بار تھیں اور جو اس منظر کو دیکھ رہے تھے وہ اپنے درمیان شہید کو محسوس کرنے لگے۔ ترانوں اور جمعیت کا بڑا خصوصی اور الفاظ میں نہ بیان کیا جانے والا تعلق ہے جسے نہایت خوبصورتی سے اس پروگرام میں نبھایا گیا۔ شاعرِ جمعیت افضال صدیقی پروگرام میں خصوصی طور پر شرکت کے لیے لاہور سے تشریف لائے اور انہوں نے اپنے ترانوں کے ذریعے سماں باندھ دیا۔ ان کے علاوہ نعمان شاہ، اسرار احمد، ایاز صدیقی، منیب ذیشان، عبدالعزیز ہاشمی اور عارف منیر سمیت ماضی کے تمام یادگار ترانے پڑھنے والوں نے بھرپور محفل جما کر رکھی اور شرکاء کی توجہ مرکوز رکھنے کے لیے اسٹیج کے عقب میں موجود اسکرین پر ترانوں کے دوران جمعیت کی سرگرمیوں کے مناظر چلائے جاتے جنہوں نے ترانوں کا مزا دوبالا کیے رکھا۔
یہ ایک یادگار محفل اور نہ بھولنے والے مناظر تھے جب دور دراز سے آئے ہوئے، بلکہ کئی تو شہر سے باہر اور کچھ بیرونِ ملک سے آئے ہوئے ہزاروں شرکاء کم و بیش بیس سے تیس سال کے وقفے کے بعد اس پروگرام میں باہم ملتے نظر آئے۔ یہ سب آپس میں ایک ہی رشتے سے جڑے ہوئے تھے۔یہ سب جمعیت ہی کی بدولت ممکن تھا اور ہے۔اسی لیے ہم اس اجتماعیت کو دنیا کی سب سے بڑی المنائی قرار دے سکتے ہیں۔ nn

حصہ