قاضی صیب (قسط-2)۔

328

ان کے آنے سے بہار آ جاتی تھی
وہ ہر قسم کے تعصب سے ماورا انسان تھے۔ انھیں وقت کے جابروں اور طاغوت کے نمائندوں سے کوئی خوف اور خطرہ لاحق نہ تھا۔ وہ ظالموں اور فرعونوں سے ٹکرا جانے والے اور ان کے رعب و دبدبے کو خاک میں ملانے والے نڈر اور جی دار آغا جان تھے۔ مگر ساتھ ساتھ وہ اپنے آپ کو کسی خاک نشین سے برتر نہ سمجھتے۔ گھر میں کام کرنے والوں کے لیے ایک شفیق باپ کی مانند تھے۔ منصورہ کے خاکروب ان کو یاد کرکے بلک بلک کر روتے تھے۔ اس لیے کہ ان کے لیے وہ ایک بڑے پیار کرنے والے شفیق والد کی مانند تھے۔ گھر میں ان کے آجانے سے جیسے بہار آجاتی۔ ہم سب بھی ان کی خوبصورت اور گونج دار آواز میں استقبال کے انداز کو یاد کرکے ان سے ہمیشہ کہتے کہ جنت میں اچھے استقبال کا اللہ نے اسی لیے خصوصی ذکر کیا ہے کہ اس سے انسان کو بہت پذیرائی کا احساس ہوتا ہے۔ باہر سے کبھی خالی ہاتھ نہ آتے اور ہمارے لیے دنیا بھر کی چیزیں تحفے میں لاتے۔ وہ بذاتِ خود میرے لیے کائنات کا عظیم ترین تحفہ تھے۔
میرا اپنے رحیم رب سے گمان ہے کہ ان کی مغفرت کے لیے تو ان شاء اللہ میں اور میرے دونوں بچے کافی ہوں گے۔ جس پیار، شفقت اور سب سے بڑی بات یہ کہ جس عزت اور وقار سے انھوں نے ہمیں پالا اور خاندان اور معاشرے میں ہماری عزت بنا کر رکھی وہ صرف میرے آغا جان کا خاصہ تھا۔
میرا اللہ سے گمان ہے کہ وہ میری ہی وجہ سے آپ کو اگلے جہان کے تمام مرحلوں سے بہت محبت اور عزت کے ساتھ سرخروئی سے سفر طے کرائے گا اور آپ کا روشن چہرہ ان شاء اللہ قیامت کے دن اسی طرح مزید روشن ہوگا جب آپ کو یتیموں کی سرپرستی کی وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں بلایا جائے گا۔ کیونکہ اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ قیامت کے دن یتیموں کی سرپرستی کرنے والا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایسے قریب ہوگا جیسے یہ دو انگلیاں آپس میں قریب ہیں۔
اسی لیے میری بیٹی، ریام قاضی نے ان کے بارے میں لکھا ’’آغا جان آپ نے ساری زندگی ہمیں زمانے کی گرم ہوا سے بچائے رکھا۔ آپ کے استقبال کے انداز اور آپ کے شفیق سینے پر سر رکھ کر میں زمانے کے سارے غم بھول جاتی تھی۔ اصل میں تو میں آج آپ کے جانے کے بعد یتیم ہوئی ہوں۔‘‘
بچے شفقت والے لمس اور محبت بھرے انداز کو کبھی نہیں بھولتے؛
قاضی صاحب کے گھر کے بچوں کا تو جو بھی معاملہ رہا ہو میں خود کئی سال عید پر صرف اس لیے منصورہ جا کر نماز پڑھتا رہا کہ میری بیٹی انشراح عباس چمکتی آنکھوں والے اس شفیق بابے سے ملنے اور پیار لینے کی تمنائی ہوتی تھی جو گہرے براؤن کلر کا گاؤن پہنے، ایک ہاتھ میں عصاتھامے عید کا خطبہ دیا کرتا تھا۔ بڑوں سے تو بندہ مروتاً بھی مل لے تو وہ خوش ہو جاتے ہیں، بچے اس لمس اور محبت بھرے انداز کو کبھی نہیں بھولتے۔ اٹک میں اسلامی جمعیت طلبہ کا سالانہ اجتماع ہوا تو نصر اللہ اولکھ امور مربین کے انچارج تھے۔ مقامی ڈاکٹر پرویز صاحب کی خواہش پر ان کا ڈرائنگ روم اندرون و بیرونِ ملک سے آنے والے اہم مہمانوں کے لیے وقف کیا گیا تھا۔ قاضی صاحب آئے تو ڈاکٹر صاحب نے دھیرے سے نصر اللہ اولکھ سے کہا: بچے قاضی صاحب سے ملنا چاہتے ہیں۔ کیا چند لمحوں کے لیے ممکن ہو سکے گا۔ اپنی عمر سے زیادہ زیرک اور معاملہ فہم اولکھ نے اس عالم میں قاضی صاحب سے اس بات کاذکر کیا جب وہ غیر ملکی مندوبین کے ساتھ مصروف گفتگو تھے۔ قاضی صاحب لمحہ بھر کی تاخیر کیے بنا گھر کے اندر چلے آئے۔ ایک پہلو میں ایک بیٹے کو اور دوسرے میں دوسرے بیٹے کو بٹھایا۔ ان کے ماتھے پہ بوسہ دیا۔ بیٹی سے احوال پوچھا۔ ڈاکٹر پرویز کے دل میں ہی نہیں، ان کے بچوں کے ماتھے پر بھی وہ بوسے زندہ ہیں۔آج بھی وہ ان کی شفقت کو یاد کرتے ہیں تو آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔
یہ ان کا یہ مزاج اور معمول ہر اس جگہ پر رہا جہاں جہاں ان کے کارکنان اور احباب انھیں اپنے گھروں میں لے جاتے۔ الخدمت اورغزالی کے زیر اہتمام غریب و مستحق بچوں کو تعلیم و تربیت دینے والے کسی ادارے کے دورے کے دوران بچوں کو ان کی شفقت کا وافر حصہ میسر آتا۔ سرگودھا سے تعلق رکھنے والے ہائی کورٹ کے ایک نوجوان وکیل کے گھر کی دیوار پر دو تصویریں آویزاں ہیں۔ ایک دکھی کرنے والی، جب اسلام آباد دھرنے کے دوران قاضی صاحب کے سرسے ٹوپی گر چکی تھی اور پولیس کے لوگ ان پر لاٹھیاں برسا رہے تھے اور ان کے ساتھ دوسری تصویر بچوں کی ایک محفل میں بچوں کو گود میں لیے وہ مسکرا رہے ہیں۔‘‘ یہ مسکراہٹ پہلی تصویر کے دکھ کو ہمیشہ کھا جاتی ہے۔‘‘ اس نے ٹشو سے اپنی آنکھیں صاف کرتے ہوئے کہا :
فیصلے لینے میں جلدی
کچھ لوگوں کو ان کے فیصلوں پر ہمیشہ سے اعتراض رہا، جن کا انھیں بھی علم تھا۔ کبھی مسکرا کر ٹال جاتے، کبھی ضبط کو آزماتے۔ایسے ایسے لوگوں کو ہم جانتے ہیں کہ جنھوں نے زندگی صرف اپنے لیے بسر کی۔ دن رات کے سارے قیمتی گھنٹے اور گھڑیاں ان کی ذاتی زندگی اور مقاصد کے لیے وقف تھے۔ مگر محفلوں میں قاضی صاحب سے وہ یوں بات کر گزرتے جیسے وہ سب کے نمائندے ہوں اور ساری دانش انہی کا دم بھرتی ہو اور انہی کے دم قدم سے ساری تنظیم چل رہی ہو اور جیسے قاضی صاحب اسے نقصان پہچانے نکلے ہوئے تھے۔ جمعیت کے ایک سابق معتمد عام نے کہا فیصلوں میں جلدی،قیادت کا وصف ہوتا ہے۔ فیصلے نہ کرنے والے کب قائد کہلاتے ہیں۔ میں ان کے پاس نوجوانوں کے لیے سول سروس اکیڈیمی بنانے کی تجویز لے کرآیا۔ انھوں نے کہا ’’15لاکھ سے ابھی آغاز کر لیں‘‘ پھر بولے ’’مالی مانیٹرنگ کے لیے ڈاکٹر حسن صہیب مراد سے کہہ دیتے ہیں۔‘‘ ڈاکٹر حسن صہیب نے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ ’’پہلے سے 18کمیٹیوں میں ہوں۔‘‘ امیر العظیم صاحب نے بھی مصروفیات بتائیں ورنہ انہوں نے جو فیصلہ لیا تھا اس کے بڑے عمدہ نتائج ہوتے۔
جناب عبدالشکور کی ناراضی اور رائے بدلنے کی کوشش
پنجاب یونیورسٹی کے سابق صدر اور کھاریاں میں واقع الفلاح سکالر شپ پراجیکٹ کے روح رواں میاں عبدالشکور اپنی طرز کے خوب آدمی ہیں۔ جنگل میں منگل کرنا اللہ نے ان کی قسمت کا حصہ بنا دیا ہے۔ اسی لیے چنن نامی گاؤں میں وزڈم اسکول اور کالج بنا کر ہر سال چار ہزار بچے اور بچیوں کے دل و دماغ روشنی سے بھر دیتے ہیں۔ انھیں پتا چلا کہ قاضی صاحب گجرات کے قریب کسی پیر صاحب کے بیٹے کی دعوت پر ان کے گھر جا رہے ہیں۔ انھوں نے فوراً قاضی صاحب کو فیکس کیا اور دلائل دئیے کہ وہاں نہ جائیں، قاضی صاحب نے ان کے دلائل سے اتفاق نہ کیا۔ انھوں نے پوری مہم چلائی، سبھی لوگوں سے کہا، فون کروائے، خطوط لکھوائے کہ دورہ تحریک کو نقصان پہنچائے گا۔ متوقع میزبان خوش نام نہیں ہے۔ قاضی صاحب نہیں مانے،صرف اتنا کہا ’’میں وعدہ کر چکا ہوں، جانا تو ہو گا۔‘‘
عبدالشکور صاحب نے کہا مجبوراً مجھے بھی ساتھ جانا پڑا۔ وہاں پیر صاحب کے سیکڑوں مریدوں کا ہجوم تھا۔ قاضی صاحب کا شاندار استقبال ہوا۔ خطاب شروع ہوا تو ہم حیران رہ گئے۔ انھوں نے اس عمدگی اور حکمت سے بات کی کہ میں نے سوچا اگر وہ یہاں نہ آتے تو ظلم کرتے۔جس خوبی سے انھوں نے مریدوں سے بات کی، اللہ رسول ﷺ کی تعلیم اور پسند بتائی، اس نے حاضرین کے دل موہ لیے۔ اب انھیں اپنی بات نہ ماننے کا جو گلہ تھا۔ وہ جاتا رہا، اپنی رائے پر بے جا اصرار پر تاسف ہوا۔
تحریک اور تنظیم کے حلقوں کے باہر انھیں جو پذیرائی اور احترام میسر آیا، اس سے قبل جماعت کے کسی رہنما کو ایسی قبولیت نصیب نہیں ہوئی تھی۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ یقیناًیہ رہی ہو گی کہ اللہ جب کسی سے محبت کرتا ہے تو انسانوں کے دل اس کی محبت کے لیے کھول دیتا ہے۔
کئی سخت مقام آئے
قاضی صاحب کی اپنے قائد سید ابو الاعلیٰؒ سے محبت، پیروی اور جماعتی پالیسی پر عمل درآمد کے ان طویل ماہ و سال میں کئی سخت مقام آئے۔ انھیں بھی ’’ماچھی گوٹھ‘‘ کا سامنا کرنا پڑا۔ شوکت اسلام کی طرح کے عظیم جلوسوں کے بعد اسلامک فرنٹ کو عوامی سطح پر ہزیمت کا صدمہ سہنا پڑا۔ اپنے بیٹوں کی طرح کے عزیز نوجوان پیروکاروں کی طرف سے کیے گئے غلط اقدام پر اپنے قائد سید مودودیؒ کی طرح برأت کا اظہار کرتے ہوئے اخبار میں بیان ہی نہیں مضمون بھی لکھنا پڑا،جیسا کہ مولانا نے علامہ علاؤالدین کے ساتھ پنجاب یونیورسٹی میں حافظ محمد ادریس کو یونین کے زمانے میں ہونے والی بدسلوکی پہ علی الاعلان لکھا تھا۔ انھیں بھی اپنی مرکزی شوریٰ اور عاملہ کے مخلص اور متقی اور صالح ساتھیوں کی طرف سے مزاحمت کے ساتھ بدگمانی کا سامنا کرنا پڑا۔ یہاں تک کہ انھوں نے مستعفی ہونے کا کڑا فیصلہ کر ڈالا۔ یہ بھی ایک دلچسپ تاریخی حقیقت ہے کہ مولانا کی طرح انھیں بھی فراغت کے بعد جماعتی طور پر اپنے عہد سے بالکل مختلف پالیسیوں کو دیکھنا اور بالکل خاموش رہنا پڑا۔
ذات کی انرجی اور شخصیت کا انرجی لیول
دنیا بھر میں تعینِ مقصد (Motivation) پر لکھنے اور بولنے والے بڑے بڑے ٹرینرز اور گروز جس انرجی کا ذکر کرتے ہیں کہ وہ شخصیت میں ہو تو ملنے اور سننے والا بھی energizeہوتا ہے اور اس کی سوچ اور فہم کو قبول کرتا ہے۔ اس فکری رہنمائی کو قبول کرنے کے نتیجے میں اس کی شخصیت میں بنیادی تبدیلیاں رونما ہونے کا امکان ہوتا ہے۔ قاضی حسین احمد سے ملنے انھیں سننے اور ان کے ساتھ برسوں تک کام کرنے والے جس بات کی بار بار گواہی دیتے اور اقرار کرتے ہیں وہ ان کی ذات کی انرجی اور کام کا انرجی لیول ہے۔ جس نے انھیں کبھی رکنے نہیں دیا۔ دل کے آپریشن ہوں، یا کوئی اور جسمانی بیماری، حتیٰ کہ چپکے سے دستک دیتا بڑھاپا بھی ان کی نوجوانوں جیسی رفتار اور سرگرمیوں میں حائل نہ ہو سکا۔ آخری رات بھی، جس کی صبح وہ اپنے رب کے حضور حاضری کے لیے خاموشی اور سکون کے ساتھ روانہ ہو گئے، وہ اپنے بیٹے ڈاکٹر انس کے ساتھ کسی پروگرام میں جانے کا ذکر کر رہے تھے۔ جس کا وہ وعدہ کر چکے تھے۔
5 سے 25 ہزار اراکین کی قیادت
جماعت اسلامی کے لیے کام کرنے والوں کو ایک مشکل کا ہمیشہ سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جونہی جماعت کو سیاسی سطح پر کسی طرح کی پذیرائی ملنے لگتی ہے وہ ایک دم سے ٹھٹک کر رک جاتے ہیں اور سوچتے ہیں۔ یہ ضرور آزمائش ہو گی۔ خالص دینی اور دعوتی کام کرتے ہوئے انھیں سیاسی فوائد اور حمایت کا حصول ذہن سے خارج کرنا پڑتا ہے۔ سوچ کی یہ کشمکش انفرادی طور پر ہی نہیں اجتماعی طور پر اور تنظیم یااداروں تک میں رُوبہ عمل رہتی ہے۔ یوں ایک خاص طرح کا تنقیدی ذہن اور نقاد کی آنکھ جنم لیتی ہے۔ قاضی صاحب پہ ایک بڑا اعتراض یہ کیا جاتا تھا کہ جماعت کی تربیت اور دعوت متاثر ہوئی ہے۔ سیاسی سرگرمی بڑھی ہے۔ چونکہ انفرادی آرا ءPerception)) ہی تنظیموں اور گروہوں میں اجتماعی رائے بناتی ہیں،ایسی آراء کا تحقیقی جائزہ لینے کا موقع کم ہی ڈھونڈا جاتا ہے۔ پہلی بار 5 ہزار اراکین کے ووٹوں سے امیر منتخب ہونے والے قاضی حسین احمد جماعت سے رخصت ہوئے تو اراکین کی تعداد حیران کن حد تک بڑھ کر پچیس ہزار ہو چکی تھی۔ اراکین وہ افراد ہوتے ہیں جن کے ایمان، تقویٰ، مطالعہ، اخلاص اور تربیت کی جماعت کا نظام اور نظم پوری تسلی کر چکا ہوتا ہے۔ یقیناًیہ کسی اچھی ٹیم اور معیاری تربیتی نظام کے ساتھ ہی ممکن ہوا ہو گا۔ کیونکہ سنا ہے رکنیت کے معاملے میں جماعت میں اب بھی کسی رعایت کا گزر نہیں۔

(جاری ہے)

حصہ