یہ جمعیت میری جمعیت ہے (نون۔ الف )

489

آج کے مادہ پرست دور میں لوگوں کو آپس میں جوڑے رکھنے کے دو ہی طریقے ہو سکتے ہیں۔ ماہرین عمرانیات کے مطابق ایک معروف طریقہ تو مالی منفعت ہے دوسرا اگر کوئی ہو سکتا ہے تو وہ ہے کسی قدرِ مشترک گروہ یا جتھے کا خوف!
مگراحباب (سابقین) جمیعت کے معاملے میں ماہرین عمرانیات کی یہ توجیہات غلط۔ یہاں معاملہ ہی کچھ اور دکھائی دیتا ہے۔
عجب معاملہ ہے کہ ساٹھ ستر سال کی عمر کا بوڑھا بھی اپنے آپ کو کسی نہ کسی ا عتبار سے احباب جمعیت کہلوانے میں فخر محسوس کرتا دکھائی دیتا ہے۔ عمر کے اس حصے میں اس کے پاس نہ تو مالی منفعت کا لالچ ہے نہ ہی کسی گروہ کا خوف۔
بس ایک ماضی کے تعلق کا وہ حسین بندھن ہے جو تا عمر کسی بھی سابق کارکن کو “جماعتی” جسیی اٹوٹ ڈور سے باندھ دیتا ہے۔ وقت کے ساتھ مضبوط اور کمزور ہوتی تعلق کی یہ ڈور زندگی میں ایک دو مرتبہ تو ضرور ہی شدید ترین آزمائش کا شکار بھی ہوچکی ہوتی ہے مگر اس کے باوجود “اخوت” کا یہ رشتہ مزید مستحکم ہوتا چلا جاتا ہے۔
آج جب کچھ احباب یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے تو اس وقت تک ایکسپو آڈ وٹوریم میں کراچی کنیکٹ۔2017 کا میلہ سج چکا ہوگا۔
اللہ بخشے مولانا نصراللہ خان عزیز (مرحوم) کو جن کے مشورے پر اسلامی جمعیت طلبہ کا نام رکھا گیا۔ ایک اور اہم بات یہ بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ مولانا سید ابو الاعلی مودودی کی رائے تھی کہ اس تنظیم کا نام انجمن طلبائے اسلام رکھا جائے مگر جمعیت سے وابستہ چند ساتھیوں کو سید مودودی کا دیا ہوا نام پسند نہیں آیا اور پھر مولانا نصراللہ خان عزیز (مرحوم) کو اس مسئلے پر اظہار کا موقع ملا۔ انہوں نے اسلامی جمعیت طلبہ تجویز کیا۔ اس اخلاقی جرأت اور اختلا ف رائے کی آزادی میں اسلامی جمعیت طلبہ نے آنکھ کھولی اور پھر اسی دن سے تعلیمی اداروں میں اس دور کے درپیش مسائل یعنی غیر اسلامی نظریات بہ شمول سرمایہ دارانہ ذہنیت اور کمیونزم کی یلغار کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ جمعیت نے طلبہ اور تعلیم یافتہ طبقے کے اندر یہ سوچ پروان چڑھائی کہ اسلام آج بھی واحد ذریعۂ نجات ہے اور قرآن وسنہ ہمارے تمام مسائل کا حل ہے۔
یہی نہیں بلکہ اس سے آگے بڑھتے ہوئے طلبہ حقوق کے لیے جدوجہد کا ایک طویل اور صبر آزما راستے کا انتخاب کیا۔
اس جدوجہد میں خواتین یونیورسٹی کا قیام، مخلوط نظام تعلیم کا خاتمہ، اسلامی نظام تعلیم کا نفاذ، تعلیمی اداوں میں نئے آنے والے طلبہ کو فول ڈے کے نام پر تضحیک کا نشانہ بنانے کی روک تھام شامل ہیں۔ مختلف تعلیمی اداوں میں طلبہ کو سہولیات کی فراہمی کے لیے بھی تنظیم نے جدوجہد کی اور تعلیمی اداروں میں بدعنوانیوں کو بے نقاب بھی کیا اور اس کی روک تھام کے لیے جدوجہد کی۔ مسائل اور مطالبات کے حوالے سے چارٹر آف ڈیمانڈ کے نام سے مطالبات کی فہرست مرتب کی جاتی رہی اور طلبہ میں جائز اور قانونی حقوق کے حصول کے لیے شعور کو بیدار کیا گیا۔
بہت سوں کو یاد ہوگا کہ جمعیت نے کئی مقامات پر طلبہ کے لیے مفت ٹیوشن اور امتحانات کی تیاری کے لیے تجربات کا انتظام بھی طویل عرصے شروع کر رکھا ہے۔
“آؤ پھر سے ملیں، آؤ ساتھ چلیں” کے سلوگن کے تحت احباب کے کنیکٹ کراچی 2017 کے فیملی پروگرام میں اگر مجھ جیسے بہت سوں کے لیے کوئی کشش ہے تو وہ ہے”یادوں کی کہکشاں”۔ یادیں جو جب بھی آتی ہیں دنیا و مافیہا سے بے نیاز کرکے اپنے حصار میں جکڑ لیتی ہیں۔
پروگرام کا ہر شریک اپنے اپنے دور کی گمشدہ یاد کے چکر میں ہوگا۔ پچاس کی ساٹھ کی دہائی کے احباب اگر شریک ہوں گے تو انہیں وہ عظیم اسلامی آئین کی جدوجہد والی مہم کی یاد آرہی ہوگی جو اسلامی جمعیت طلبہ نے تعلیمی اداروں کی سطح پر چلا کر ملک بھر میں رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے چلا ئی تھی۔ یہ بات 54۔ 1953 کی ہے۔
اسی سال ایک اور مہم چلائی گئی جو امریکا کے ساتھ پاک امریکا فوجی تعاون کے معاہدے کے خلاف تھی اس مہم میں اس معاہدے کو آئندہ پاکستان کی بقاء اور آزادی و خود مختاری کے خلاف سمجھتے ہوئے اس کی بھرپورانداز میں مخالف کی گئی تھی۔
یہ دہائی جمعیت کے لیے بہت اہم تھی۔ یہیں سے اسلامی جمعیت طلبہ کا سیاسی کردار اور دھارا متعین ہوا تھا۔ اس سال طلبہ یونین کے انتخاب میں جمعیت نے پہلی مرتبہ الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا اور اردو سائنس کالج کے انتخابات میں بھرپور کامیابی حاصل کی اور مدمقابل تنظیموں میں کھلبلی مچ گئی۔
پہلا قدم اٹھانے کی دیر تھی پھر تو جمعیت ایک کامیابی کا استعارہ بن کر طلبہ و طالبات کے دلوں پر راج کرنے لگی۔ بلکہ یوں کہیے کہ جمعیت تعلیمی اداروں کا فیشن بن چکی تھی۔ جہاں تعلیمی صلاحیت کی معراج بھی ملتی تھی،کردار کی پاکیزگی اور اسلامی شعار سے سچی اور بے لوث وابستگی کا حسین امتزاج سب کچھ ملتا تھا۔
قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی ابتدائی تحریک بھی اس ٹرین پر حملے سے شروع ہوئی تھی جو ربوہ اسٹیشن پر رکی تھی جس میں اسلامی جمعیت کے نوجوان سوار تھے۔
اسی طرح بنگلہ دیش نامنظور تحریک کا ذکر کرتے ہوئے قیصر خان بھی سناتے ہیں کہ جہانگیر پارک کا میدان تھا۔ بھٹو صاحب تھے جن کا پروگرام تھا کہ بنگلہ دیش کو منظور کرنے کا اعلان کریں مگر اسلامی جمعیت کے نوجوا ن پیپلز پارٹی کے جھنڈے لیے سب سے آگے براجمان تھے اور جیسے ہی بھٹو صاحب نے بنگلہ دیش کی بات کی سامنے بیٹھے سینکڑوں طلبہ اٹھ کھڑے ہوئے اور نامنظور نامنظور کے نعرے بلند کردیے۔ اس تاریخی جلسے میں بھٹو صاحب نے طلبہ کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہوئے نامنظور کرنے کا اعلان کردیا۔
پھر ضیاء الحق کا مارشل لا آیا۔ اسلامی جمعیت نے بھرپور انداز سے اس کی مزاحمت میں اپنا موقف پیش کیا۔
مجھے فخر ہے کہ آج بھی مجھے یہ کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی کہ “یہ جمعیت میری جمعیت ہے” میرے کانوں میں آج تک ڈاکٹر اورنگزیب رہبر بھائی کا یہ ترانہ گونجتا ہے اور رگ و پے میں زندگی دوڑ نے لگتی ہے، میں ویسے ہی جوان اور تروتازہ ہوجاتا ہوں جیسے1980 میں تھا۔ میں کیسے بھول سکتا ہوں کہ جب میں ناظم آباد گورنمنٹ کالج کا ناظم تھا امیدوار رکن تھا تو جمعیت نے میری ذمہ داری لگائی تھی آبادی اورنگی ٹاؤن میں نگرانی کی۔ اس وقت نا ظم آباد سے اورنگی جانا اتنا آسان نہ تھا جتنا اب ہے۔ شام میں نکلتا اور دوسرے دن فجر میں گھر واپس آتا۔ رات قیام مسجد رومی میں ہوتا اور چائے پاپے کا ناشتہ۔ کتنا اچھا تھا سب کچھ۔ کوئی مصنوعیت اور بناوٹ نہیں تھی۔ کوئی لالچ اور منفعت کا پہلو نہیں تھا۔
پھر مجھے یاد ہے تحریک نظام مصطفیٰ کا وہ زمانہ بھی جب بھٹو کی آمریت کے خلاف پورا پاکستان ایک متحدہ پلیٹ فارم پر یکجا تھا۔ جمعیت اس تحریک کا ہراول دستہ تھی۔
میں یہ بھی نہیں بھول سکتا کہ آج کا بچوں کا مقبول رسا لہ “جسے سب ساتھی کے نام سے جانتے ہیں۔ پیامی کے نام سے نکلتا تھا اور سائکلو اسٹائل کی صورت چار صفحات میں نکلتا تھا۔ قیمت تھی صرف دو پیسے۔ میں اسکول میں اس کو فروخت کرتا اور ہر ماہ اگلے پرچے کی جستجو میں ہوتا۔
ایک میں ہی کیا ہر کارکن کے ذہن میں ان یادوں کا بہت بڑا خزانہ موجود ہے۔
حافظ اسلم بھائی کی شہا دت پر ہمقدم کا شمارہ اب بھی پڑھتا ہوں جس میں میرا مضمون شائع ہوا تھا “یہ سرخ سرخ گرم گرم تازہ نوجواں لہو”
اور پھر یہ لہو رکا نہیں اور نہ ہی یہ عظیم کارواں تھما۔ الحمدللہ
جمعیت سے فارغ ہونے والے نوجوان اس نرسری سے تربیت پاکر جس بھی ادارے اور محکمے میں گئے اپنے نقش پا چھوڑ آئے۔ جو آنے والے نوواردوں کے جذبوں کو مہمیزدیتے رہیں گے۔
قاضی حسین احمد مرحوم، سابق سربراہ آئی ایس آئی جنرل حمید گل،کیپٹن کرنل شیر خان شہید نشان حیدر کہ جن کو کارگل کے محاذ پر حکومتی فیصلے کے برخلاف ہتھیار پھینکنے سے انکار کرنے والے پاک فوج کے جرات مند سپاہی، جسے ہندوستان کے فوجی جنرل نے بھی اس کی جرأت پر سیلوٹ کیا۔ سید منور حسن جیسے مرد درویش، اسلامی اسکالر مرحوم ڈاکڑ اسرار احمد، خرم جاہ مراد۔ مرحوم بیت اللہ کی تعمیر کی سعادت اور فرش کا منفرد ٹھنڈا ماربل تلاش و پیوست کرنے والے معروف انجینیر، بانی ینگ مسلمز برطانیہ۔ احسن اقبال جامعہ پنجاب، لیاقت بلوچ، پروفیسر خورشید احمد، عبدا لملک مجاہد، زاہد بخاری، ڈاکٹر اعجاز شفیع گیلانی، ڈاکٹر مسعود محمود خان عالمی ایوارڈ یافتہ انجینئر، سابق جنرل سکریٹری این ای ڈی یونیورسٹی اور آسٹریلیا میں نامور پاکستانی انجینئر، الطاف شکورسابق صدراین ای ڈی یونیورسٹی، جاوید ہاشمی، سید علی گیلانی، مشاہد حسین، عامر چیمہ جرمنی میں توہین رسالت پر احتجاج کرنے والا نوجوان اور اس کی پاداش میں جیل کے اندر مبینہ طور پر قتل کے جانے والے، ممتاز صحافی، پاکستانی بیوروکریٹ اور معروف کالم نگار و دانشور اوریا مقبول جان، دیانت داری سے شہرت پانے والے ظہور نیازی، امیر جماعت اسلامی سراج الحق، تسنیم عالم منظر شہید، نجیب پیجی مرحوم، اور ان کے علاوہ بے شمار افراد معاشرے کے ماتھے کا جھومر بن کر پاکستان اور اسلامی پاکستان کی جدوجہد میں شامل رہے ہیں۔
اس موقع پر انتہائی شدت کے ساتھ سینئر صحافی ایڈیٹر روزنامہ جسارت جناب اطہر ہاشمی صاحب کے الفاظ یاد آرہے ہیں جو انھوں نے جمعیت کے حوالے سے کسی کالم میں لکھے تھے۔
’’میں طالب علمی کے زمانے ہی سے اسلامی جمعیت طلبہ سے کتراتا رہا ہوں۔ ظالم پکنک پر بھی لے جائیں تو نمازیں پڑھوا دیتے ہیں۔ پھر سب کے سامنے ریکارڈ بھی چیک کرتے تھے کہ آج کتنی نمازیں پڑھیں، نہیں پڑھیں تو کیوں؟ اب بندہ کہاں تک جھوٹ بولے گا!‘‘
اسلام آباد یونیورسٹی، جو اب قائداعظم یونیورسٹی کہلاتی ہے، وہاں ہوسٹل میں قیام تھا، ایک دن نمازوں کا حساب ہونے لگا تو عذر کیا کہ میں راولپنڈی چلاگیا تھا۔ فوراً کوئی بولا:‘‘ ہاں، وہاں تو مساجد نہیں ہیں۔’’اب بھلا بتائیے اس کا کیا جواب! ان دونوں جاوید اقبال غوری جمعیت کے ناظم ہوا کرتے تھے۔ ہنس کر ٹال گئے۔ اب تو بڑے سرکاری افسر ہیں لیکن جمعیت ان کے اندر سے نکلی نہیں۔ اس میں ایک خرابی یہ بھی ہے کہ جڑوں میں بیٹھ جاتی ہے۔ دنیاوی ماحول میں گم ہونے کے باوجود کوئی بھی غلط کام کرتے ہوئے ایک کھٹک سی ضرور ہوتی ہے۔ اب دیکھیے ناں، جمعیت کے دوستوں کے درمیان بیٹھ کر تو نماز نہ پڑھنے یا کسی اور کوتاہی کا جواز پیش کرکے ٹال مٹول کی جاسکتی ہے، مگر جب بڑا حساب کتاب ہوگا تو وہاں کوئی بہانہ نہیں چلے گا۔”
آج افراد کی ایک بڑی تعداد یہ کہتی دکھائی دیتی ہے کہ طلبہ کو صرف اور صرف تعلیم حاصل کرنی چاہیے اور سیاست سے دور رہنا چاہیے مگر وہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ تحریک پاکستان کی جدوجہد بھی اس وقت کے طلبہ نے ہی چلائی تھی۔ درحقیقت ضیا الحق صاحب کا خیال تھا کہ اگر مارشل لا کو طول دینا ہے تو طلبہ کی نرسری اور طلبہ تنظیموں کو فوری طور پر روکنا ہوگا۔ چناچہ اس خیال سے طلبہ تنظیموں کو سیاسی کاموں سے دور رکھنے کا عمل شروع ہوا۔ اور یہی کام آج تک جاری ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج ملک کے سیاسی ایوانوں میں بزنس مین اور تاجر حضرات اور جاگیر دار وڈیرے اپنے پنجے مضبوط کر چکے ہیں۔
اس کے مقابلے پر اسلامی جمعیت نے قومی سیاست پر جو اثرات مرتب کیے اس سے کسی کو کوئی انکار ہو ہی نہیں سکتا۔ اسلامی جمعیت طلبہ نے اسلامی فکر رکھنے والے طلبہ کی ایک بہت بڑی تعداد کو طلبہ کے پلیٹ فارم سے تربیت فراہم کی جو آج پاکستان کی مختلف سیاسی اور مذہبی جماعتوں میں شامل ہوکر ملک و قوم کی خدمت میں مصروف عمل ہیں۔ جمعیت طلبہ پر بعد از تعلیم کسی بھی مخصوص سیاسی جماعت بشمول جماعت اسلامی میں شمولیت کی پابندی عائد نہیں کرتی نہ ہی ان سے کوئی وعدہ لیا جاتا جس کے باعث جمعیت کے سابقین آج پاکستان کی مختلف سیاسی جماعتوں میں شامل ہیں۔
آج جب احباب جمعیت ایکسپو میں ایک چھت تلے جمع ہوں گے تو کچھ رفیق بہت یاد آئیں گے۔ جن میں حافظ اسلم شہید، دانش غنی، نصراللہ شجیع، پرویز محمود، اور جمعیت کے بے شمار کارکنان اور اراکین جو اب اپنے رب کے حضور پیش ہو چکے ہیں۔
میری دعا ہے کہ اللہ ان شہداء کی قربانیوں کو قبول فرمائے اور اس تقریب کے منتظمین کو اجر عظیم دے۔

حصہ