(ابھی گواہی کو نقش دوام بننا ہے(اسماصدیقہ

303

عمیرہ احمد نے اپنے ناول میں مکالمے کی صورت ایک کمال بات کہی ہے: اللہ خود پر کوئی احسان نہیں رکھتا۔۔۔!
اگر آپ نے اس کے لیے کوئی چیز چھوڑی ہے تو وہ آپ کو اس سے بہتر شے سے نوازے گا‘‘۔ (واضح ہو کہ یہاں احسان نیکی کے معنوں میں اس کے احساس کو نمایاں کرنے کے لیے استعمال ہوا ہے) آگے چل کر مصنفہ کہانی میں یہ ثابت کر دکھاتی ہیں کہ ربّ العزّت واقعی کسی کا اجر ضائع نہیں کرتا، وہ بڑا قدرداں ہے، مگر اس کے لیے اپنی پسندیدہ چیز چھوڑنا بہت بڑا امتحان اور کڑی آزمائش ہے، چاہے مال و دولت چھوڑنا ہو یا دل، یعنی بے پناہ شوق کی قربانی وہ بھی اس دنیا کو چھوڑ دینا، جہاں نفس پرستی کی رنگینیاں اور عیش و عشرت کی کیف و مستیاں انسان کو بے خود کیے دے رہی ہوں، کمال ضبط کی ایک مثال ہے۔
ہاں، مگر اس بات کو کھلی آنکھوں سے سب ہی نے دیکھا، خدا کے اجر کا مشاہدہ لاکھوں لوگوں نے کیا۔ تبدیلی کا آغاز حیرت انگیز بھی تھا اور خوش کن بھی، پھر اسی سال ماہ دسمبر ساری قوم کے لیے حیران کن غم زدہ خبر لے کر آیا، جس نے سب کو ہی دہلا دیا، جب چترال سے اسلام آباد کا سفر ہول ناک ’’سانحہ حویلیاں‘‘ میں بدل گیا، پی آئی اے کا بدنصیب طیارہ انجن میں خرابی کی وجہ سے پہاڑیوں پر گرکر تباہ ہوگیا، جس میں 47 افراد شہید ہوگئے۔ 47 خاندانوں پر قیامت صغریٰ گزر گئی، جن پر گزری، اُن پر کیا کیا نہ گزری ہوگی۔ اللہ شہدا کے درجات بَلند کرے اور لواحقین کے دل صبر و سکنت سے بھردے۔۔۔
ہر فرد بہت اہم تھا، لیکن معروف مبلّغ اور ثنا خواں جنید جمشید، جو قومی اثاثے کی طرح تھے، وہ بھی اپنی اہلیہ کے ساتھ شہدا میں شامل تھے۔ قوم بڑے سوگ کی کیفیت میں تھی کہ تبدیلی کے کٹھن مرحلوں سے گزر کر مٹی سے سونا اور سونے سے کندن بننے والا ماضی کا پاپولر سنگر جو، اب معروف اور مقبول شخصیت کے طور پر سماج کے تمام حلقوں میں معتبر تھا، بچھڑ گیا، ہر ایک کو اس کے بچھڑنے کا غم یوں لگ رہا تھا، جیسے وہ اس کا قریبی عزیز ہو۔۔۔ یہ اس بات کی گواہی تھی کہ اللہ سے زیادہ اپنا کون ہے اور پھر وہ جو اس سے ڈرے، اس کی دعوت کی طرف لوگوں کو بلائے اور پھر اسی راہ میں جان دے دے۔ وہ واقعی سب کا اپنا ہوتا ہے۔ ’’انسان دوستی‘‘ اس کا نام ہے۔ ماضی میں آنے والی تبدیلی کی خوش کن خبر سے اس دلدوز خبر تک سب کچھ حیران کن حقیقت تھی۔
ابھی، جب کیبل نہیں آیا تھا، آیا تو اتنا عام نہیں ہوا تھا، اس دور میں پاپ سنگرز کے کئی گروپ ٹی وی پر چھائے رہتے، جن میں سرفہرست وائٹل سائنز گروپ تھا۔ ابتدا تو قومی نغمے دل دل پاکستان۔۔۔ سے ہوئی، جس نے مقبولیت کے ریکارڈ توڑ دیے اور اس کا کریڈٹ شاعری کو تو اتنا نہیں، البتہ ترنّم اور آواز کو جاتا تھا، اپنا ٹی وی آف کردیں تو پڑوس کے گھروں سے یہی آوازیں آتی تھیں، نوجوان دیوانے ہورہے ہوتے اور جو موسیقی اور شور شرابے سے گریز کرنے والے ہوتے، وہ اس دیوانگی سے پریشان ہو جاتے کہ بہرحال یہ دنیا گُم راہی کی طرف لے جاتی ہے۔
1996کے ورلڈ کپ کے دوران ٹی وی پر کلچرل شو کی کثافت نے ڈیرے ڈال لیے تھے۔ کئی سنگرز طوفان مچائے رکھتے، جن میں نمبر ون پاپ سنگر جنید جمشید اور اُن کے ساتھی تھے، جو ہجوم کو اپنا فین بنائے رہتے۔ بہت سے اعتراض کرنے والوں نے مختلف فورم میں اس کے خلاف آواز اٹھائی، اس وقت کی وزیراعظم کو بھی توجہ دلائی گئی، بہ ظاہر انہوں نے بھی اتفاق کیا کہ مخلوط رقص و موسیقی نئی نسل کو خراب کررہی ہے اور ایک ماں کی حیثیت سے وہ بھی اتنی آزاد خیالی کو پسند نہیں کرتیں۔ لوگ دُعا بھی کرتے تھے، احساس بھی دلاتے رہے کہ ہدایت کی طرف راغب کرنا بہر حال سب کا ہی فرض ہے۔
پھر سال ڈیڑھ گزرا اور کایا پلٹنے لگی، ایک بڑے اخبار میں خبر آئی کہ معروف و مقبول سنگر جنید جمشید تبلیغ کی محافل میں شرکت کرنے لگے ہیں۔ گانے سننے کے دیوانے بھی اور موسیقی سے بچنے والے دونوں ہی یہ خبر جان کر حیرت زدہ ہوئے۔
’’نہیں، یہ خبر جھوٹی ہے!‘‘ ایک شوقین نے کہا۔
’’نہیں کچھ نہ کچھ تو اس میں سچائی ہوگی، اللہ پاک جسے چاہے ہدایت دے، ہمیں تو خوشی ہے!!‘‘ ایک تبصرہ یہ بھی تھا۔
’’نہیں، گانا نہیں چھوڑیں، تبلیغ میں جانا بھی ہوتا رہے‘‘۔ ایک دیوانے کی آرزو تھی۔
’’دو کشتیوں کا سوار کون ہوگا؟ ان شاء اللہ اچھی تبدیلی آئے گی اور دوسروں میں بھی نظر آئے گی!‘‘
یہ بھی ایک رائے تھی، بے ہودہ اُچھل کُود اور بد تہذیبی کے ٹرینڈ سے نالاں طبقوں کی طرف سے تھی۔
پھر کچھ دنوں بعد ٹی وی کے ایک شو میں جنید جمشید بہ طور مہمان شریک تھے۔ باوقار انداز اور حُلیہ تبدیلی کی تصدیق کررہا تھا، حالاں کہ ابھی وہ باریش نہیں تھے۔ میزبان نے سوال کیا کہ کیا آپ اپنے سُننے اور دیکھنے والے شیدائیوں کو چھوڑ کر جارہے ہیں؟ جواب ملا کہ افواہیں تو اُڑتی رہتی ہیں، میں اپنے شائقین کو چھوڑ کر کہیں نہیں جارہا، بس خود کو روحانی طور پر مینشن کررہا ہوں!‘‘ اس میں کچھ بھی غلط نہیں تھا، اس کے بعد گانے کی پُرزور فرمائش پر الگ اور مہذب انداز میں دھیمے سُروں کا گیت سنایا، جو زبانِ حال سے تبدیلی کے آغاز کا اظہار تھا، پھر وہ اسکرین پر کم کم آتے، گیت گاتے، مگر الگ انداز اور مضامین کے۔ ان کے قریبی دوست گلوکار ان کو موسیقی اور ہلے گلے کی طرف لانے کی کوشش کرتے، کٹا چھنی چلتی، ترغیبات بُلاتیں، ضروریات ستاتی رہیں، کیا کچھ راستے کا پتھر بن کر چٹانوں کی طرح حائل نہ ہوتا رہا، مگر جنید جمشید کروڑوں کی آفر کو ٹھوکروں میں رکھتے رہے۔ شام کے اخبارات میں خصوصاً یہ خبریں چھپتی رہتیں کہ بس وہ واپس آجائیں گے۔
جس چیز سے انسان کی شناخت اس کے تعلقات، حتیٰ کہ اس کا روزگار جڑا ہو، اس کو چھوڑنا کتنا مشکل ہے۔۔۔واقعی یہ افواہ نہیں تھی، تبدیلی کی خبر سچی تھی اور یہ دل دل پاکستان کی منزل تھی، اس کا عملی ثبوت تھا کہ پاکستان دراصل ایک نظریے کا نام ہے۔
واقعی لوگوں نے یہ سچ دیکھا کہ اللہ کسی کا احسان خود پر نہیں رکھتا، وہ تو نیکی کے اجر کو کئی گنا کرکے لوٹاتا ہے اور یہ بھی سچ تھا کہ وہ اپنے شائقین کو کہیں چھوڑ کر نہیں گئے، اللہ نے انہیں اس سے کئی گنا سُننے والے عطا کیے، جو موسیقی کی دنیا سے گریز کرنے والے تھے، وہ ان کے سامعین اور ناظرین میں شامل ہوتے گئے۔ دولت اور شہرت ہی نہیں، مقبولیت ایسی ملی کہ بڑے بڑوں کو یہ ہر دلعزیزی نہ مل سکی۔ ترنّم کی خداداد صلاحیت کو بھی دعوت و تبلیغ کے لیے استعمال کیا، حمد و نعت اور مناجات کی سماعت لوگوں کو خدا اور اس کے حبیب سے قریب کرتی رہی، قبر اور آخرت کی یاد دلاتی رہی۔ یہ انسان دوستی کا سچا اظہار ہے، گانے کو چھوڑ دیا، مگر گانے والوں کو نہیں چھوڑا اور ان کو بھی ہدایت کی طرف بلاتے رہے۔ ہر خاص و عام ہر مکتبہ فکر کے لوگ دل کی گہرائیوں سے گواہی دے رہے تھے۔۔۔ بے شک، ایسے اخلاق والی شخصیت کا اُٹھ جانا قوم کا بڑا نقصان ہے۔ ایک سینئر کامیڈین نے روتے ہوئے کہا کہ اس کے جانے کا غم یوں زیادہ ہے کہ وہ لوگوں کو اللہ کی طرف بلاتا تھا، یہ سب سے اچھی بات ہے۔
لاکھوں درود و سلام ہو، آقائے دوجہاں حضرت محمد مصطفیؐ پر، جن کا فرمان مبارک کتنا سچا ہے: ’’تم میں سب سے معزز اللہ کے نزدیک وہ ہے، جو اس سے ڈرے۔۔۔‘‘
واقعی یہ عشق کی منزل ہے، تقویٰ کا راستہ ہے کہ اللہ کی خاطر حسین و رنگین دنیا کو ہمیشہ کے لیے خیر باد کہہ دیا جائے، یہ عشق مصطفیؐ کا اظہار ہے، میں تجھ کو چاہوں اور اتنا چاہوں کہ سب ہی کہیں، تیرا نقش پا ہوں، تیرے نشانِ قدم کے آگے کوئی حسین راہ گزر نہ ٹھیرے۔
رسول پاکؐ کا فرمان ہے: ’’میں آلاتِ موسیقی کو توڑنے کے لیے بھیجا گیا ہوں!‘‘ انہوں نے اسی کو نشان قدم بنالیا۔ جنید جمشید کے اعلیٰ اخلاق اور کردار کی گواہی سب ہی نے دی، ان پر شرپسندوں نے پچھلے دنوں قاتلانہ حملہ تک کیا اور انہوں نے ان کو بھی معاف کردیا، سماجی فلاحی کے کام میں بھی نوجوان نسل کو لے کر آگے بڑھے، ہر ایک کو عزّت دے کر مخاطب کیا، جھاڑو اور کدال تک اُٹھائی، دیواروں کی سیاہی تک صاف کی، واقعی یہی قائدانہ صلاحیتیں قوم ہر الیکشن میں ڈھونڈتی ہے، مگر لٹیرے، قاتل، خود غرض اور لالچی افراد تخت نشین بن جاتے ہیں۔ وہ دعوت حق کے لیے محو سفر تھے کہ سفر آخرت آگیا، یہ جاں جاں پاکستان کی منزل تھی اور اس کا عملی اظہار تھا۔ زمین و آسماں دیکھ رہے تھے کہ پاکستانیوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر آہوں اور سسکیوں میں پاکستان کے قابل فخر سپوت کی نماز جنازہ میں شریک تھا اور اجتماعی توبہ کررہا تھا۔
مولانا طارق جمیل فرط غم سے نڈھال تھے، کیا سچ کہہ رہے تھے: ’’ایسا جنازہ تو بادشاہوں کا بھی نہیں ہوتا‘‘۔ سنگرز، کھلاڑی، علمائے کرام، سیاست دان اور میڈیا کے نمائندے بچھڑنے پر پھوٹ پھوٹ کر روتے رہے۔ ان کی سسکیاں، ان کی آہیں گواہی دے رہی تھیں کہ ہر دلعزیز کون ہے؟ بہت سارے شکوک ختم ہوگئے تھے اور سچائی چھٹ کر سامنے آگئی تھی۔ کون بنے گا حکم ران، اب کے کس کی باری ہے، اس کے قیافے لگانے والوں نے بھی کم ازکم اسکرین پر تو دیکھا ہی ہوگا کہ قوم اپنے قائدین میں کس طرح کے اوصاف دیکھنا چاہتی ہے؟ وہ جو اپنے عیش و عشرت کے لیے دشمن سے یار گانٹھ کر عوام دشمن میں دور تک چلے جائیں، غیرت اور نظریے کا سودا کرکے وطن کی عزّت داؤ پر لگادیں یا وہ، جو اللہ کی خاطر بڑی بڑی پیش کش ٹھکرا دیں، لوگوں کو اللہ سے ملانے اور اس کے نام پر سب کو آپس میں شیروشکر کردیں۔
اقبالؒ کی بات سچی ثابت ہورہی تھی، جو شہید نے ترنم سے پڑھی ہے:
تو نے پوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے
حق تجھے میری طرح صاحب اسرار کرے
ہے وہی تیرے زمانے کا امام برحق
جو تجھے حاضر و موجود سے بیزار کرے
موت کے آئینے میں تجھ کو دِکھا کر رُخِ دوست
زندگی تیرے لیے اور بھی دُشوار کرے
دے کے احساسِ زیاں تیرا لہو گرما دے
فقر کی سان چڑھا کر تجھے تلوار کرے
فتنہ ملّتِ بیضا ہے امامت اُس کی
جو مسلماں کو سلاطیں کا پرستار کرے
ہر پارٹی الیکشن میں ان قائدانہ صلاحیتوں کا جائزہ لے لے، ووٹرز اسی کو معیار بنالیں کہ کون ہر دلعزیز ہے۔۔۔؟ تو تبدیلی مشکل نہیں۔ مائیں ان کی زندگی میں اپنے بچوں کو جنید جمشید بنانا چاہتی تھیں، تزکیہ نفس اور تربیت کے کٹھن مراحل سے گزرا ہوا نکھرا سُتھرا انسان۔
ایک میگزین میں چند سال قبل دیے گئے انٹرویو میں اپنے سامعین اور ناظرین کو پیغام دیا تھا کہ دین داری کی زندگی ایسی ہے، جیسے مچھلی پانی میں چلی گئی ہو اور بے دین زندگی ایسی ہے، جیسے مچھلی پانی سے باہر آگئی ہو۔۔۔اللہ اللہ۔۔۔!!
بہت سے ذہنوں میں خیال آتا ہے کہ ایسے اور بھی ہیں، جو عشق کی اِس راہ پر چلے اور چل رہے ہیں، مگر پردہ اسکرین پر خال خال نظر آتے ہیں، لوگ کہتے ہیں کہ یہ مسترد شدہ لوگ ہیں، مگر پاکستان کی ہر دلعزیز شخصیت کا جنازہ اُٹھا تو گواہی جیسے سامنے آگئی کہ اقتدار اور اختیار کس طرح کے کرداروں کو ملنا چاہیے، اس کا نام ہے پاکستان کا مطلب کیا؟ لاالہ الااللہ۔۔۔
یہی دراصل، انسان دوست لوگ ہیں، غالب آنے اور چھا جانے کے اصل حق دار۔۔۔میڈیا نے جنید جمشید کو ابھی سے بھلانا شروع کردیا ہے، یہ گواہی چھپانے لگا ہے، حالاں کہ اس گواہی کو زندہ رکھنا اس کا فرض ہے، وہ ان کے حمدیہ، دُعائیہ اور نعتیہ کلام کو نظر انداز نہ کرے، ان کے دعوتی خطابات کو وقتاً فوقتاً دکھاتا رہے کہ شہید کبھی مرا نہیں کرتے، تبدیلی کی اس حیرت انگیز داستان کو ہمیشہ تازہ رکھنا ہے کہ یہ دل دل پاکستان کی بات ہے اور پاکستان کے عوام پر اس گواہی کا وقت پھر آئے گا کہ یہ گواہی وقتی نہیں تھی، جب چناؤ کا وقت آئے، جب تبدیلی کی بات ہو، جب بھی انقلاب کا نعرہ لگے تو گواہی زندہ ہی رہنی چاہیے، اس عملی اظہار کے ساتھ کہ یہ پاکستان کی تاریخ میں چوتھی بڑی شخصیت تھی، جس کی میت کو پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر پورے فوجی اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا۔ یوں قومی اُفق پر چھایا ایک روشن سورج ڈوب گیا کہ ہر ایک کو فنا ہے، ماسوائے اللہ ربّ العزت کے، مگر گواہی کے چراغ سدا جلتے رہتے ہیں، غم زدہ قوم کی گواہی کو نقش دوام میں ڈھلنا ہے۔۔۔
شاید نہیں، یقیناً انقلاب یہیں سے آئے گا۔۔۔انشاء اللہ!!

حصہ