(گھر ٹوٹنے کے اسباب(نیلم حمید

647

خالقِ کائنات نے دنیا میں عورتوں کو جو مقام و مرتبہ بخشا ہے اور جن خوبیوں اور گوناگوں صفات سے نوازا ہے، اس دنیا میں انسانی خوش گوار زندگی اور پُرسکون حیات کے لیے عورت کو جو اساس و بنیاد کا درجہ دیا ہے وہ اہلِِ بصیرت اور اصحابِ معرفت سے مخفی نہیں۔
دورِ حاضر میں اس اساس اور بنیاد کو مغربی تمدن اور نئی تہذیب نے پاش پاش کردیا ہے، اور گھریلو و معاشرتی نظام جو بگڑا ہے اور گھریلو پُرسکون ماحول میں جو فساد پیدا ہوا ہے اس میں نئے تمدن کا عظیم دخل ہے۔ امن و سکون اور عافیت و عفت کی زندگی کو خاک میں ملا ڈالا ہے۔ عورت خواہ کسی حیثیت میں ہو۔۔۔ ماں ہو، بیٹی ہو، بہن ہو، بہو ہو یا بیوی۔۔۔ اس کا بلند مقام ہے جہاں وہ دنیاوی تفکرات سے فارغ ہوتی ہے۔
ہمارے معاشرے میں بیٹی کو ایک امانت سمجھا جاتا ہے۔ ایک وقت آتا ہے کہ لڑکی کو دلہن بنادیا جاتا ہے، اور لڑکی گھر سے رخصت ہوکر، اپنے ماں باپ، بھائی بہنوں کو چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے ایک نئے گھر میں چلی جاتی ہے، جہاں کا ماحول میکے کے ماحول سے بالکل ہی الگ ہوتا ہے، جہاں اسے مختلف مزاج کے لوگوں کا سامنا ہوتا ہے اور تلخ، تیز اور طرح طرح کے تجربے ہوتے ہیں۔ ساس، نندوں کی دل جوئی، خاوند کی ناز برداری، بچوں کی دیکھ بھال اور گھر کی ذمے داریوں کا بھاری بوجھ ہوتا ہے۔ ایک اچھی بیٹی، اچھی بہو، اچھی بہن، اچھی بیوی اور اچھی ماں بننے کی تربیت دی جانی چاہیے۔
ہمارے معاشرے میں بیٹی کو امانت سمجھا جاتا ہے، کسی اور کی ملکیت، ایک محدود مدت کے لیے مہمان۔ ایسے خیالات سے متاثر ہونے والی مائیں اپنی بیٹیوں پر ڈھیروں پیار نچھاور کرتی ہیں اور انہیں نکما بناکر اور برباد کرکے رکھ دیتی ہیں۔ ماں کا بے جا پیار بیٹی کے لیے مسئلہ بھی بن سکتا ہے اور آگے جاکر اس کے لیے مہلک ثابت ہوتا ہے۔ بیٹی گھر کے کام کو ہاتھ نہیں لگاتی اور ماں فخر سے کہتی ہے کہ سسرال جاکر تو اس کو ساری زندگی کام کاج کرنا ہے، کیوں ناں اپنے گھر میں اسے آرام پہنچایا جائے۔
ایک ایسے گھر میں جہاں بہو موجود ہو، ماں کی حوصلہ افزائی کی وجہ سے بیٹی گھر کے کاموں میں ہاتھ نہیں بٹاتی، اور نہ گھریلو ذمے داریوں کو سنبھالنے میں اپنی بھابھی کی مدد کرتی ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ کبھی کوئی کام سرانجام دینا نہیں سیکھ سکتی، اور بعض اوقات وہ ماں کے بگاڑنے کی وجہ سے مکمل طور پر پھوہڑ اور گستاخ ہوجاتی ہے، اور شادی کے بعد سسرال میں اپنی ذمے داریوں کا بوجھ اٹھانے سے قاصر رہتی ہے۔ اس طرح سے گھر کا امن و سکون تباہ ہوجاتا ہے۔ بہتر یہی ہے کہ ماں اپنی بیٹی کے معاملات میں بے جا مداخلت سے باز رہے اور بیٹی کو اپنے گھر کا نظم و نسق اپنے طور پر چلانے دے۔
مائیں اپنی بیٹیوں کو ایسی تربیت دیں کہ وہ نیک، فرماں بردار اور سلیقہ شعار بنیں اور دیکھنے والے کہہ اٹھیں کہ لڑکی ہو تو ایسی۔ ماؤں کو چاہیے کہ وہ اپنی بیٹیوں کو ایسی نصیحت کریں کہ وہ ان کے دلوں میں نقش ہوجائے۔
لڑکیوں کے سپرد بچپن ہی سے ایسے کام کریں جنہیں وہ شوق اور بہتر طریقے سے کریں۔ اور جو لڑکیاں سینا پرونا، کھانا پکانا جانتی ہوں اور نرم مزاج اور صبر و ضبط کرنے والی ہوں تو یہ دنیا ان کے لیے جنت بن جائے۔
عورت کا دائرۂ عمل اس کا گھر ہے۔ اگر میاں بیوی میں کوئی رنجش ہوگئی ہے، ایسے موقع پر کسی نے شوہر کو چڑھایا، کسی نے بیوی کو اکسایا، دونوں میں صلح کرانے کے بجائے معمولی سی رنجش کو ناقابلِ عبور سمندر بنادیا تو ایسی حرکتِ بد سے میاں بیوی قریب آنے کے بجائے دور ہوتے چلے جائیں گے۔ ایسا کام کرنے والے اجنبی نہیں ہوتے بلکہ فریقین کے رشتے دار ہی ایسی حرکتیں زیادہ کرتے ہیں۔ اکثر ماں باپ یا بہن بھائی مرد کو اس کی بیوی کے خلاف ابھار دیتے ہیں۔ بیوی کی ماں، بہن یا محلہ کی عورتیں اسے شوہر کے خلاف ابھارتی ہیں۔ ان باتوں سے دونوں میاں بیوی کا دل کھٹا ہوجاتا ہے، آپس میں لڑائی جھگڑے شروع ہوجاتے ہیں، اور بد مزگی بڑھتے بڑھتے طلاق کی نوبت آجاتی ہے۔ بہرحال جن کا گھر بگڑا وہ مصیبت جھیلتے ہیں، اور یہ بھڑکانے اور اکسانے والے تماشا دیکھتے ہیں۔ شیطان اپنی حرکتیں انسانوں سے بھی کرا لیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ شیطان کے کاموں سے سب کو بچائے، آمین۔
میاں بیوی کے درمیان لڑائی جھگڑے کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ بیوی زبان دراز ہوتی ہے اور وہ دکھی اور پریشان رہتی ہے۔ اور گھر کو توڑ کر نکلنے والی لڑکی ساری عمر اپنی بقا کی جنگ لڑتی رہتی ہے۔ لہٰذا لڑکیوں کا فرض ہے کہ شوہروں کے گھروں کو اپنا گھر سمجھیں اور اس گھر کی رونق بڑھائیں۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’قریش کی عورتیں کیا خوب عورتیں ہیں جو بچوں پر نہایت مہربان ہیں اور شوہر کے گھر بار کی انتہائی حفاظت کرنے والی ہیں۔‘‘
ایک اور حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مومن کے لیے خوفِ خدا کے بعد سب سے زیادہ مفید اور باعثِ خیر نعمت نیک بیوی ہے، کہ جب وہ اسے کسی کام کو کہے تو خوش دلی سے انجام دے اور اس پر نگاہ ڈالے تو خوش کردے، اور جب وہ کہیں چلا جائے تو اس کے پیچھے اپنی عزت و آبرو کی حفاظت کرے اور شوہر کے مال و اسباب کی نگرانی میں شوہر کی خیرخواہ اور وفادار رہے۔
اسلام عورت سے کہتا ہے کہ تمہاری صحیح جائے قیام تمہارا گھر ہے، اور تم سکون و آرام اور وقار کے ساتھ اپنے گھروں میں رہو اور خانگی زندگی کے فرائض ادا کرو۔ اگر آج یہ وصف عورت میں پیدا ہوجائے تو گھر جنت بن جائے۔ ایک لڑکی کو اپنی خوش اخلاقی اور نرم مزاجی کو جانچنے کا اصل میدان اس کا گھر ہے۔ گھریلو زندگی میں گھر والوں سے اُس کا واسطہ ہر وقت رہتا ہے، اس زندگی میں اُس کے مزاج اور اخلاق کا رخ سامنے آتا ہے۔ اسے چاہیے کہ خوش اخلاقی، خندہ پیشانی، مہربانی اور دل جوئی کا برتاؤ کرے اور پیار و محبت سے پیش آئے۔ اور خوش قسمت ہے وہ لڑکی جس کو قدردان خاندان مل جاتا ہے۔

حصہ