(چین کے قیدی(سید اقبال چشتی

183

کراچی سے خیرپور جاتے ہوئے پورے راستے سڑک کی تعمیر اور کہیں مرمت ہوتے دیکھی تو دل خوش ہوا کہ سپرہائی وے کی بھی قسمت کھل گئی ہے۔ ان سڑکوں کو پاکستانی اور چینی انجینئروں کی نگرانی میں بنایا جارہا ہے۔
ہم نے سڑک کی تعریف کی تو ڈرائیور نے پوچھا کہ ’’یہ سڑک کون بنارہا ہے؟‘‘
جس پر میں نے جواب دیا کہ ’’یقیناًیہ منصوبہ حکومت کا ہے۔‘‘
ڈرائیور نے کہا ’’میرا مطلب ہے چین سے جو لوگ آئے ہیں وہ کون ہیں؟‘‘ اس سوال پر کچھ حیرانی ہوئی اور میں سوچنے لگا کہ اس سوال کے پیچھے لازمی کوئی بات ہے۔ ہم نے بچوں کی طرح فوراً ہتھیار ڈال دیے کہ نہیں معلوم یہ کون ہیں۔ اس پر ڈرائیور نے بتایا کہ ’’انجینئروں کے سوا چین سے آئے تمام مزدور چین کے وہ افراد ہیں جو سزا یافتہ ہیں اور قیدی ہیں، انھیں مختلف مقامات پر کام کے سلسلے میں پاکستان بھیجا گیا ہے۔‘‘
ہم اس انکشاف پر سوچنے لگے کہ ایک ہمارے قیدی اور جیلیں ہوتی ہیں جہاں معمولی جرم میں بھی جانے والا پکا مجرم بن کر نکلتا ہے، اور اکثر مجرم مزے سے سزا کاٹتے ہیں۔ بلکہ ہم نے تو یہ بھی سنا ہے کہ عادی مجرم آرام کی غرض سے جیل جاتے ہیں تاکہ کچھ عرصہ سکون کے ساتھ گزرے۔
ہر ملک میں جرائم ہوتے ہیں اور جرم کرنے والوں کی اصلاح کے حوالے سے اقدامات بھی کیے جاتے ہیں۔ پاکستان میں بھی ہم نے جیل سے قیدیوں کو مختلف امتحانات دیتے اور ہنرمند بنتے ہوئے دیکھا ہے، اور شاید چین کے یہ ہنرمند قیدی اپنے لیے اور پاکستان کی ترقی کے لیے محنت کررہے ہیں اور سزا کے ساتھ ساتھ آمدنی بھی پارہے ہیں۔ قیدیوں سے کام لینے کا رواج زمانۂ قدیم سے ہے اور دنیا میں بڑے نامور عجائبات جو مشہور ہیں ان میں سے اکثر کو قیدیوں ہی نے بنایا ہے، مگر پاکستان میں ایسا نہیں ہے۔ جو حکمران پاکستان کی ترقی کے دعوے کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کی ہیں، ان حکمرانوں نے ملک کا نام صرف کرپشن میں روشن کیا ہے۔ اس لیے قیدوبند کے مراحل سے گزرنے والے حکمران اور چین کے قیدی مل کر پاکستان میں تعمیر و ترقی کے نئے باب کا آغاز کررہے ہیں۔ دیکھیں پاکستان میں خوشحالی کا یہ خواب کب شرمندۂ تعبیر ہوتا ہے۔
ستّر سال سے پاکستانی قوم ترقی اور خوشحالی کے صرف نعرے اور وعدے سن رہی ہے اور شاید مزید ستّر سال تک سنتی ہی رہے، کیونکہ جو حکمران خود سر سے پاؤں تک کرپشن میں ڈوبے ہوئے ہوں وہ ملک کو ترقی اور خوشحالی کے سفر پر نہیں ڈال سکتے۔ لیکن کہا جارہا ہے کہ سی پیک منصوبہ پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کا باعث ہوگا۔ سی پیک منصوبے سے حاصل ہونے والی ترقی اور خوشحالی سے چاروں صوبوں کو فائدہ ہوگا۔ یہ دعویٰ کتنا سچ ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن ہمارے لیے بدقسمتی کی بات ہے کہ ہم اور ہمارے کئی بار منصبِ حکمرا نی پر بیٹھنے والے حکمران کیا پاکستان کو ترقی اور خوشحالی کے راستے پر نہیں ڈال سکتے! سوچنے کی بات ہے کہ بے شمار منصوبے جو کئی سالوں سے تیار تھے اور جن کی فزیبلٹی بھی بن چکی تھی، لیکن ہماری نااہلی اور کرپشن کی وجہ سے وہ تمام منصوبے تاخیر کا شکار ہوگئے۔ سابق سٹی ناظم کراچی نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ نے کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کے لیے خاصا کام کیا لیکن مخالفین کو شاید شہر کی ترقی منظور نہیں تھی، اس لیے اس منصوبے کو ہائی جیک کرکے بڑے بے ہنگم انداز میں پیش کیا گیا، اور اُس وقت کے وزیراعظم شوکت عزیز کو ایک لوکل ٹرین پر رنگ و روغن کرکے سفر کرایا گیا۔ اس طرح سرکلر ریلوے کا افتتاح کردیا گیا، لیکن بعد میں یہ کراچی سرکلر ٹرین منصوبہ کہاں پوشیدہ ہوگیا، اس کے ثمرات عوام تک کیوں نہیں پہنچے، اس کا آج تک کسی نے جائزہ نہیں لیا۔ اور اب وزیراعلیٰ سندھ نے چین جاکر سی پیک کے ایک اجلاس میں کراچی سرکلر ریلوے منصوبے کو سی پیک میں شامل کرایا ہے تو سب بیانات دے کر کریڈٹ لینے کی کوشش کررہے ہیں۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس سے قبل کس منصوبے کا افتتاح کیا گیا تھا؟ اگر اس سرکلر ریلوے منصوبے کو حکمران کامیابی کے ساتھ نہیں چلا سکے تو آئندہ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ سی پیک میں شامل تمام منصوبے کامیابی کے ساتھ چلتے رہیں گے! جس طرح گرین بس سروس نعمت اللہ خان نے چین کے تعاون ہی سے شروع کی تھی، لیکن ان کے جاتے ہی سب کچھ کرپشن کی نذر ہوگیا اور ملک و قوم کے پیسے کو ضائع کرنے والے ذمے داران اب تک سزا سے بچے ہوئے ہیں۔ کرپشن کے جن کو قابو کیے بغیر ترقی کا سفر ممکن نہیں، یا پھر سی پیک کے منصوبوں کو چلانے کے لیے بھی چین سے حکمران درآمد کیے جائیں گے؟
چین میں معمولی کرپشن پر سزائیں دینا عام سی بات ہے، اور ہم اکثر اخبارات میں پڑھتے ہیں کہ چین میں فلاں سرکاری ملازم اور وزیر کو کرپشن کے الزام میں سزا۔ لیکن ہمارے ملک میں کرپشن کے کیس برسوں چلتے ہیں اور کرپشن کے تحفظ کے لیے نت نئے قانون متعارف کرائے جاتے ہیں، بلکہ یوں کہا جائے کہ حکومت کرپشن کرنے والے کا تحفظ کرتی ہے تو غلط نہ ہوگا۔ کیونکہ کرپشن کے اس دھندے میں سب ملوث ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کو پیرس اور لندن بنانے کے دعوے کرنے والوں کی اپنی جائدادیں پیرس اور لندن میں بن جاتی ہیں، یعنی عوام کی قسمت بدلے یا نہ بدلے، حکمرانوں کی قسمت ضرور بدل جاتی ہے۔ اسی لیے شاید چین نے پاکستان اور اس کے عوام کی ترقی کے لیے کئی سال پر محیط دوستی کا حق ادا کرتے ہوئے ترقی اور خوشحالی پر مشتمل راہ داری کا منصوبہ پیش کیا ہے اور اس پر عمل درآمد کے لیے پیش رفت شروع ہوچکی ہے۔ اس راہ داری منصوبے میں جس کو ’’سی پیک‘‘ کا نام دیا گیا ہے، پاکستان کا انفرا اسٹرکچر، ہائی ویز کی تعمیر، آپٹیکل فائبر، پائپ لائنوں کا جال اور دیگر منصوبے زمینی اور سمندری راستے سے تجارت شامل ہیں، تاکہ دوستی، امن اور تجارت کو آگے بڑھایا جائے۔
جب ایک ملک کی تجارت کسی دوسرے ملک کی تجارت اور فوائد سے جڑی ہوگی تو یقیناًان ممالک کے درمیان دوستانہ تعلقات ہوں گے اور اس سے خطے میں امن کی فضا قائم ہوگی۔ یہ خوش آئند بات ہے، لیکن ساتھ ہی ہمارے لیے یہ امر باعثِ شرم ہے کہ ستّر سال میں بھی ہم اپنا انفرااسٹرکچر نہیں بنا سکے، ملک اور قوم کی ترقی کے لیے کوئی روڈمیپ نہیں دے سکے۔ اب چین ہمارے ملک کا انفرااسٹرکچر بنائے گا۔ لگ یہی رہا ہے، کیونکہ ’’کراچی الیکٹرک‘‘ اب ’’شنگھائی الیکٹرک‘‘ کے پاس جارہی ہے۔ کراچی کا کچرا اٹھانے کا ٹھیکہ بھی چین کی کمپنی کو دے دیا گیا ہے۔ چین کی ائرلائن متعارف ہوچکی ہے، اسٹیل مل کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے، اس حوالے سے کئی دوستوں کا کہنا ہے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح ہم چائنا اینڈ کمپنی کے غلام نہ بن جائیں، کیونکہ چین کی جو کمپنیاں کچرا اُٹھانے میں دل چسپی رکھتی ہیں کیا وہ کمپنیاں کھانے پینے کی اشیاء خرید کر ایکسپورٹ کرنے میں دل چسپی نہیں لیں گی۔ اس حوالے سے ایک کالم نویس یہ لکھ چکے ہیں کہ ’’سی پیک سے پاکستان کوکم اور چین کو زیادہ فائدہ ہے‘‘۔ مگر یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ کس کو کتنا فائدہ ہے۔ بہرحال جو حکمران تیس برسوں میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کا خاتمہ اور شہروں سے کچرا نہیں اُٹھا سکتے وہ غربت کیا ختم کریں گے! انہی وجوہات کی بنا پر عوام کا پُرزور مطالبہ ہے کہ جس طرح چھو ٹے بڑے منصوبے سی پیک میں شامل کیے جارہے ہیں اُسی طرح کرپشن سے پاک پاکستان کے حکمران سی پیک منصوبے میں شامل کیے جائیں تاکہ سی پیک کامیابی سے ہم کنار ہو اور ان منصوبوں کے لیے لیا جانے والا قرضہ بھی بآسانی ادا ہوسکے، کیونکہ منصوبے تو بن جاتے ہیں لیکن ہمارے کمیشن مافیا اپنا حصہ لے کر مزے کرتے ہیں اور قرضہ عوام ادا کر تے ہیں۔ قرضوں کے بوجھ تلے پاکستانی قوم پہلے ہی دبی ہوئی ہے، اگر سی پیک کے لیے لیا جانے والا قرضہ کرپشن کی وجہ سے بروقت ادا نہیں کیا گیا تو ملک میں ترقی کے ساتھ ساتھ مہنگائی کا طوفان بھی آسکتا ہے۔ جس طرح آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک پاکستان کو ڈکٹیشن دیتے ہیں کہ گیس مہنگی کرو، بجلی مہنگی کرو، فلاں ٹیکس لگاؤ، ایسا کرو، ویسا کرو۔۔۔ اسی طرح چین کے بینک بھی ہمیں ڈکٹیشن دے رہے ہوں گے، اور یقیناًپھر قرضوں کا یہ بوجھ پاکستان کے عوام پر ہی پڑے گا اور اس کے بعد احتجاج کی سیاست ملک کو ایک بار پھر پیچھے لے جائے گی۔
ابھی کوئی سی پیک کے حوالے سے تحفظات نہیں رکھتا۔ سی پیک کے لیے یہاں اپوزیشن کوئی نہیں ہے، کیونکہ پیپلز پارٹی سندھ میں اور پی ٹی آئی خیبر پختون خوا میں برسراقتدار ہے اور راہ داری منصوبہ چاروں صوبوں سے منسلک ہے، اس لیے کوئی بھی اس کے آئندہ فوائد اور نقصانات کا جائزہ نہیں لے رہا۔ جس طرح نہر سوئز جب بنائی جا رہی تھی تو کہا جارہا تھا کہ مصر میں اس کے ذریعے معاشی انقلاب برپا ہوجائے گا، ترقی اور خوش حالی مصر کا مقدر ہے۔۔۔ لیکن بعد میں جب مصر کے ہاتھ کچھ نہ لگا بلکہ غیر ملکی طاقتوں نے نہر سوئز سے صرف اپنا ہی مفاد پورا کیا تو پھر مظاہرے بھی ہوئے اور اب تک مصر معاشی ترقی اور خوش حالی کا خواب دیکھ رہا ہے۔
راہ داری منصو بے میں کئی ممالک شامل ہیں۔ چین سری لنکا میں بھی کثیر سرمایہ کاری کررہا ہے اور وہاں کی اپوزیشن اپنی بندرگاہیں چین کو دینے کے حوالے سے احتجاج کررہی ہے، کیونکہ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ اداروں کو ٹھیکے پر دینا ملک کو فروخت کرنے کے برابر ہے۔ ہمیں بھی ملکی سلامتی کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلے کرنے کی ضرورت ہے، اللہ نہ کرے کہ راہ داری منصوبہ پاک، چین دوستی میں کسی خلل کا باعث بنے۔
اگر کوئی خلل ہوسکتا ہے تو بھارت کو اس منصوبے میں شامل ہونے کی چینی پیشکش ہے، اور یہ اس بات کی نشاندہی ہے کہ چین اپنے ملک اور قوم کی بہتری کے لیے یہ سب کررہا ہے۔ اس منصوبے کی کامیابی کے لیے پاکستان یا بھارت جو بھی ساتھ دے‘ چین سب کو ساتھ لے کر چلنا اور ہر حال میں اپنی قوم اور ملک کا مفاد مقدم رکھنا چاہتا ہے، اسی لیے روس سمیت کئی ممالک اپنی قوم اور ملک کی ترقی اور خوش حالی کی خاطر اس منصوبے میں شامل ہونے کے خواہش مند ہیں۔ اگر مسلم ممالک امتِ مسلمہ کے تحفظ اور مفاد کو مدنظر رکھ کر اس منصوبے میں شامل ہوتے ہیں اور یقیناًان کی شمولیت کے بغیر راہ داری منصوبے کی کامیابی ممکن نہیں، تو وہ دنیا میں اپنی حیثیت اور طاقت کو منوا سکتے ہیں جس سے امتِ مسلمہ ہی کو فائدہ ہوگا۔ مگر یہ فائدے اس وقت ہی کارآمد ہوں گے جب مسلم ممالک ایک اتحاد کے ساتھ آگے بڑھنے کی منصوبہ بندی کرکے چلیں اور اپنی حیثیت اور وزن محسوس کرائیں، ورنہ مسلم حکمرانوں کی حالت تو بدل جائے گی عوام کی نہیں، اورمسلم دنیا کے عوام ورلڈ اکنامک گیم کے اندر ایک استعمار کی قید سے نکل کر دوسرے استعمار کے قیدی بن جائیں گے۔
nn

حصہ