برصغیر میں اسلامی احیاء اور آزادی کی تحاریکنجیب

452

ریشمی رومال تحریک کا راز آشکار ہوچکا تھا، جس کو بنیاد بنا کر سرکارِ برطانیہ نے ہندوستان میں بڑے پیمانے پر گرفتاریوں اور سزاؤں کا سلسلہ شروع کردیا تھا۔ اس تحریک کے دو اہم ترین کردار شیخ الہند مولانا محمود حسن اور مولانا عبیداللہ سندھی ہیں۔
عبیداللہ سندھی 28 مارچ 1872ء کو ایک سکھ گھرانے میں پیدا ہوئے۔ دورانِ تعلیم اسلامی تعلیمات سے متاثر ہوکر حلقہ بگوش اسلام ہوئے، اور پھر مزید تعلیم کے حصول کے لیے دیوبند چلے آئے۔
ایک عظیم کردار شیخ الہند مولانا محمود حسن کا ہے جنہوں نے عسکری بنیادوں پر مسلمانوں کو منظم کرنا شروع کیا اور مولانا عبیداللہ سندھی کا انتخاب کیا۔ قائدینِ تحریک اس بات پر یکسو تھے کہ مشترکہ طور پر انگریزوں کے خلاف جہاد کرنا چاہیے۔ لیکن مسلمانوں میں ہی موجود کچھ عناصر اس تحریک کے حوالے سے خبریں انگریز حکام تک پہنچا رہے تھے، جس کے سبب انگریزوں کے خلاف اس تحریک کو بھی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔ مگر اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ اس تحریک نے برصغیر کے مسلمانوں میں بیداری کی نئی روح پھونک دی۔
ہندوستان میں شیخ الہند کی گرفتاری کا ڈر مستقل طور پر موجود تھا، اس خیال سے شیخ الہند نے مولانا ابوالکلام آزاد سے بھی مشاورت کی کہ ان حالات میں کیا راستہ اختیار کیا جائے؟ مولانا آزادؔ کا مشورہ تھا کہ ہندوستان میں رہ کر ہی آزادی کی جدوجہد جاری رکھی جائے، اور اگر گرفتاری ہوتی بھی ہے تو کوئی پروا نہ کی جائے۔ جبکہ شیخ الہند اور کچھ احباب کا خیال تھا کہ ان حالات میں گرفتاری سے تحریک کا کام متاثر ہوسکتا ہے۔ لہٰذا انھوں نے طے کیا کہ حجاز جایا جائے۔ چناچہ شیخ عازم حجاز ہوئے، جہاں آپ نے حج کی سعادت حاصل کی اور ترک حکام سے ملاقاتیں کیں۔ غالب پاشا جو حجاز کا گورنر تھا اُس سے بھی ملاقات کی۔ انور پاشا اور جمال پاشا سے بھی ملاقاتیں کیں اور منصوبے سے آگاہ کیا۔ جس پر انور اور جمال پاشا نے اپنی مکمل حمایت کا یقین دلایا۔
غالب پاشا نے ہندوستان کی کامل آزادی کے لیے ایک اچھی تجویز پیش کی کہ ایک کامل آزادی کانفرنس کا انعقاد کیا جائے جس میں ہندوستان کی آزادی کی قرارداد منظور کروائی جائے، اور اس کے لیے ترک حکومت کے بھرپور تعاون کا یقین بھی دلایا۔
شیخ الہند نے اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کی غرض سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ انہیں کسی طرح افغانستان پہنچایا جائے، کیونکہ ہندوستان سے ہوکر جانا خطرے سے خالی نہ تھا۔ مگر انور پاشا نے منع کرتے ہوئے حضرت شیخ الہند کو بتایا کہ روس نے اپنی فوجیں ایران کی سرحد پر کھڑی کی ہوئی ہیں اور ڈر یہ ہے کہ اس طرح آپ ایران اور افغانستان کے راستے میں ہی گرفتار کرلیے جائیں گے۔ لہٰذا مناسب ہوگا کہ آپ ترک علاقے میں ہی قیام کریں تاوقتیکہ سرحدوں کے حالات بہتر ہوجائیں۔
اس مشورے پر عمل کرتے ہوئے شیخ الہند نے حجاز میں رکنے میں عافیت جانی، مگر بہت کام کی تحاریر اور حکومتی اہلکاروں کے خطوط جن میں سفراء اور حکام کی جانب سے بہت اہم باتیں درج تھیں اور جن میں مستقبل کے لائحہ عمل سے متعلق دستاویز بھی شامل تھیں (ان کو ہم آزادئ ہند کے منشور سے تعبیر کرسکتے ہیں) کو محفوظ رکھنے کے خیال سے لکڑی کے ایک صندوق میں چرمی جامے میں محفوظ کرنے کے بعد لکڑی کو چیر کر چرمی جامہ اس کے اندر چھپا دیا گیا، اس طرح کہ دیکھنے والے کو معلوم ہی نہ ہوسکے کہ اس کے اندر کیا ہے۔ یہ صندوق بمبئی کی بندرگاہ پہنچا اور تلاشی کے مراحل سے ہوتا ہوا بحفاظت بندرگاہ سے باہر آگیا۔ صندوق میں موجود خطوط رازداری کے ساتھ جن جگہوں پر پہنچانے تھے، پہنچ چکے تھے۔ مگر اس دوران ایک صاحب نے، جنہیں اس تمام تر کارروائی کا علم ہوچکا تھا، اس اہم راز کو حکام تک پہنچا کر اپنی وفاداری کی پوری قیمت وصول کرلی، جس کا خمیازہ بہت سے رہنماؤں کی گرفتاری کی صورت میں چکانا پڑا۔
شریفِ مکہ حسین بن علی، جس نے انگریزوں سے اندرونِ خانہ سازباز کی ہوئی تھی اور ایک طریقے سے وہ حجاز میں انگریزوں کے نمائندے کا کردار ادا کررہا تھا، اُس نے شیخ الہند مولانا محمودحسن کو تفتیش کے بہانے روک لیا اور پھر گرفتاری کا اعلان کرکے جدہ پہنچایا، جہاں سے سرکارِ برطانیہ کے حوالے کردیا۔ اور یوں یہ گرفتار شدگان مالٹا کے قید خانے میں منتقل کردئیے گئے۔ گرفتار شدگان میں شیخ کے ہمراہ چار شاگرد بھی تھے، جن میں شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی بھی شامل تھے۔ اس موقع پر مولانا محمود حسن نے سید حسین مدنی اور دیگر کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ’’انگریز سرکار کی نگاہ میں مَیں تو مجرم ہوں، مگر تم بے قصور ہو، اپنی رہائی کی کوششیں کرو۔ اس پر چاروں نے جواب دیا: حضرت جان تو جا سکتی ہے مگر آپ سے جدائی کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔
شیخ الہند محمود حسن اور دیگر اسیرانِ مالٹا کی ایک علیحدہ داستان ہے جس پر پھر کسی مضمون میں بات کی جاسکتی ہے۔ یہاں تاریخ کے اس سلسلے میں اشارتاً ہی بات ہوسکتی ہے۔ (تحریک سید احمد شہید۔ سرگزشت مجاہدین میں اس کا تفصیل کے ساتھ تذکرہ موجود ہے)
جنگِ عظیم اول کے اختتام پر جب کچھ گرد بیٹھی اور انگریز سرکار معاشی دباؤ کا شکار ہونے لگی تب کہیں جاکر سیاسی اقدامات کرنے پر مجبور ہوئی۔ چنانچہ جنگ ختم ہونے کے ساڑھے تین سال بعد شیخ الہند اور ان کے تمام ساتھیوں کو بالآخر انگریز کی قید سے رہائی مل گئی۔
اب ذرا ان حالات پر نگاہ ڈالتے ہیں جو عبیداللہ سندھی کے ساتھ پیش آئے۔ سب سے پہلا مرحلہ تو کابل کے سفر کے اخراجات کا تھا۔ پھر ایک لمبی مدت تک کے قیام اور دیگر معاملات کے لیے بھی ایک خطیر رقم کی بہرحال ضرورت پڑنی تھی۔ دوسرا مسئلہ رازداری کا تھا۔ دونوں ہی بہت اہم توجہ طلب امور تھے۔
مالی معاملات میں مدد کے لیے مولانا ابوالکلام آزاد نے پہل کی اور معروف تاجر حاجی عبداللہ ہارون مرحوم سے مدد طلب کی، جنہوں نے بلا تامل پانچ ہزار روپے نقد مولانا آزاد کے حوالے کیے۔
رقم کا بندوبست تو ہوگیا تھا مگر اس ممکنہ سفر کو رازداری مطلوب تھی۔ لہٰذا طے پایا کہ کسی کو بتائے بغیر نجی مصروفیت کا کہہ کر سندھ کی جانب روانہ ہوجائیں۔ چنانچہ اوائل 1915ء میں بہاولپور کے راستے سندھ میں داخل ہوئے اور ایک دیہات میں اپنی شناخت چھپاکر کچھ عرصہ قیام کیا۔ یہاں غالباً تین ماہ قیام رہا، اور پھر یہاں سے نکلے تو اچانک 15 اگست کو سورایک (بلوچستان) کے بارڈر سے افغانستان پہنچ گئے۔ ان کا یہ پانچ ماہ کا دورانیہ سرکارِ برطانیہ کے مخبروں کی نظروں سے بچتے بچاتے گزرا۔ عبیداللہ سندھی کے ساتھ شیخ عبدالرحیم سندھی بلوچستان تک گئے، اور کہا جاتا ہے کہ وہ افغانستان بارڈر کراس کرانے تک عبید اللہ سندھی کے ساتھ تھے۔ جب مولانا عبیداللہ سندھی کے بحفاظت کابل پہنچ جانے کی خبر ملی تب مولانا عبدالرحیم واپس لوٹ آئے۔ (حاجی عبداللہ ہارون بہت بڑے تاجر تھے اور مسلمانوں کی ہر نازک موقع پر ہر ممکن مالی مدد کرتے تھے۔ اسی طرح مولانا عبدالرحیم سندھی نومسلم تھے اور ہندو گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ اسلام لانے کے بعد تمام عمر اسلام کی ترویج و تبلیغ میں صرف کی)
مولانا عبیداللہ سندھی منصوبے کے مطابق قندھار سے ہوتے ہوئے اکتوبر میں کابل پہنچے۔ کابل کے بارے میں جو تاثر آج قائم ہے کہ یہ ایک لٹا پٹا اجڑا ہوا شہر ہوگا، ایسا ہرگز نہ تھا۔ اس کے برعکس اُس وقت کابل مشرق وسطیٰ اور برصغیر کا جدید ترقی یافتہ شہر تھا جس کی بہت بڑی سیاسی اہمیت بھی تھی۔ ایران، روس،بھارت۔۔۔ ان سب کے سیاسی جوڑ توڑ کا مرکز کابل ہی تھا۔ یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ جمال الدین افغانی جس پان اسلامائزیشن کی بات کرتے تھے اُس میں بھی کابل کو نمایاں اہمیت دی گئی تھی۔ دوسرے الفاظ میں جمال الدین افغانی کے فلسفے اور تحریک کو عملی جامہ پہنانے کا وقت قریب سے قریب تر آتا جارہا تھا۔ (یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ جمال الدین افغانی کی زندگی میں عثمانی سلطان نے ان کی اس تجویز کو ہمیشہ شک کی نگاہ سے دیکھا، یہاں تک کہ ان کو جلاوطن کیا، گرفتار رکھا اور قید میں رکھ کر زہر دے کر مروا دیا۔ مگر جب عثمانی سلطنت اور خلافت ختم ہونے کو تھی تب جمال الدین افغانی کے ویژن پر عمل کرنے میں سب سے زیادہ جلدی بھی ترکی کو تھی۔ نیرنگئ سیاست شاید اسی کا نام ہے)
عبیداللہ سندھی کابل پہنچنے کے بعد حکام اور افغان امراء و خوانین سے ملاقاتیں کرتے ہیں۔ جن میں امیر حبیب اللہ خاں، اُن کے بیٹے سردار عنایت اللہ خاں، اور سردار نصراللہ خاں شامل تھے۔ ان سیاسی ملاقاتوں کا مقصد کابل میں ہندوستان کی آزادی کے حوالے سے عالمی رائے عامہ کو ہموار کرنا اور عبوری حکومت کا قیام تھا۔ اس دوران جرمن اور ترک اعلیٰ سطحی وفود کابل میں موجود رہے۔ اسی دوران جاپان، ترکی اور جرمنی مختلف وفود بھیجے گئے۔ ان خطوط و مراسلت میں مولانا عبیداللہ سندھی کی مکمل معاونت شامل رہی۔ افغانستان میں ایک سیاسی جماعت جنود اللہ قائم کی اور اس کی تنظیم سازی میں شامل رہے۔ اسی طرح کابل میں ہندوستانی جامعہ کے قیام کی کوشش بھی کرتے رہے اور اجازت بھی حاصل کرلی تھی، جس کو برطانیہ نے زور دے کر مسترد کروا دیا۔
مولانا عبیداللہ 1923ء میں ماسکو گئے جہاں سے ترکی (استنبول) سے گزرتے ہوئے مکہ معظمہ چلے گئے، اور پھر 1939ء میں ہندوستان واپس آگئے۔
مولانا عبیداللہ سندھی اور ان کے جذبۂ جہاد کی تشریح کے لیے ان کے اپنے شاگردوں سے کیے گئے ایک خطاب سے اقتباس ملاحظہ کیجیے، کہتے ہیں: ’’’ہم نے اخروٹ (ضلع سکھر) میں چار طلبہ کی ایک جماعت بنائی تھی جس کا مقصد جہاد کرنا تھا۔ اور میں اس جماعت کا امیر تھا۔ یہ جماعت مولانا اسماعیل شہید کے اسوۂ جہاد پر بنائی گئی تھی۔ ہم نے اس جماعت کے ساتھ جہاد کا کام شروع کردیا، اور جب ہم بعد میں دیوبند گئے تو حضرت شیخ الہند سے اس کا تذکرہ ہوا۔ حضرت شیخ نے اس پر مسرت کا اظہار فرمایا اور ہمیں اپنی جماعت میں شامل کرلیا‘‘۔
اسی خطاب میں ایک مقام پر کانگریس اور گاندھی جی کی سیاست کی وضاحت اس طرح کی کہ’’ہمارا اور گاندھی کا ایک مسئلے پر اشتراک ہے، اور وہ ہے عدم تشدد کا مسئلہ۔ لیکن اس میں بھی ہمارے اور گاندھی جی کے درمیان فرق ہے۔ وہ کسی صورت میں تشدد کے روادار نہیں۔ جبکہ ہم ضرورت پڑنے پر اعلان کرکے تشدد کرنے کے حق میں ہیں۔‘‘
انہوں نے مزید وضاحت کی کہ ’’شروع شروع میں ہم عدم تشدد کو گاندھی جی کا فلسفہ سمجھتے تھے، مگر بعد میں ہمیں معلوم ہوا کہ ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ معظمہ میں قیام کے زمانے میں عدم تشدد کے پابند تھے۔ اب اگر ہم عدم تشدد کی بات کرتے ہیں تو گویا فقط امام ولی اللہ کی اتباع کی دعوت دے رہے ہیں۔ جس طریقے پر یورپی قوموں نے انقلاب منظم کیا اسی طریقے پر میں امام ولی اللہ کی دعوتِ انقلاب کو منظم کروں گا۔‘‘
آزادی کی جدوجہد کا آغاز ہوچکا تھا، یاغستان میں جہاد بھی منظم ہوچکا تھا۔ امیر حبیب اللہ خاں کے بارے میں عبیداللہ سندھی کا گمان بالکل درست ثابت ہورہا تھا کہ امیر حبیب اللہ خاں انگریزوں کے زیراثر ہے اور وہ کھل کر کبھی بھی جہاد کا اعلان نہیں کرے گا۔ عبیداللہ سندھی سمجھتے تھے کہ انگریز کے دیے ہوئے پیسے سے ہی حبیب اللہ خاں قبائلی مجاہدین کی مدد کرتا ہے۔ انگریز نے بھانپ لیا تھا کہ یاغستانی قبائل کو جہاد کے لیے منظم کیا جارہا ہے تو اس نے منفی پروپیگنڈا پھیلانا شروع کیا کہ جہاد تو امیر کی اجازت کے بنا ہو ہی نہیں سکتا۔ اور اس کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے۔
عبیداللہ سندھی 15 اگست 1915ء کو اپنے وطن سے نکلے اور 25 سال جلاوطنی میں گزارے، اور آزاد ہندوستان کی وکالت میں دن رات ایک کیے۔ جب کابل میں حالات ان کے خلاف ہوئے تب مولانا اپنے ساتھیوں کے ساتھ روس چلے گئے اور سات ماہ تک وہاں کے نظام اور انقلاب کا مطالعہ کیا۔
(جاری ہے)

حصہ