(مسلم دنیا کو کیا حاصل ہوگا؟(سید وجیہہ حسن

200

سال 2017ء کا آغاز ہم اس طرح کررہے ہیں کہ دنیا میں طاقت کے ایک نئے مرکز نے جنم لے لیا ہے۔ 90کی دہائی میں روس کی افغانستان میں شکست کے بعد یہ دنیا امریکہ کے رحم و کرم پر رہ گئی تھی۔ امریکیوں نے ایک ’’نئے ورلڈ آرڈر‘‘(New World Order) کا اعلان کردیا تھا جس کے مطابق ’’حق‘‘وہ قرار پایا تھا جسے امریکی ’’حق‘‘ قرار دیں، اور ’’باطل‘‘ اسے کہا جاتا تھا جسے امریکی ’’باطل‘‘ کہیں۔ سچ اور جھوٹ، صحیح اور غلط، سیاہ و سفید سب کی تعریف امریکہ ہی سمجھاتا تھا اور پوری دنیا اسے ماننے پر مجبور تھی۔ امریکہ کی ہاں میں ہاں نہ ملانے والا امریکہ کا دشمن کہلاتا تھا۔ دنیا نے امریکہ کی ’’ہمارے ساتھ ہو یا ہمارے خلاف‘‘ کی فرعونی للکار سنی تھی اور اس کے آگے سر جھکا دیا تھا۔ امریکہ نے سراسر جھوٹ کی بنیاد پر عراق و افغانستان پر حملہ کیا، لاکھوں لوگوں کو قتل کردیا، لاکھوں بے گھر ہوگئے، پورے پورے ملک آثارِ قدیمہ کا منظر پیش کرنے لگے، لیکن اقوام عالم میں کوئی بھی امریکہ کا ہاتھ پکڑنے والا نہ تھا۔
لیکن آج 2017ء کے اوائل میں عالمی افق پر ایک نئی عالمی طاقت کا ظہور دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ طاقت روس اور چین کے اتحاد سے وجود میں آئی ہے جس کا اشتراک اب پاکستان اور ترکی کے ساتھ بھی ہوچکا ہے۔ اس چار ملکی اتحاد کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ ملک جغرافیائی طور پر ایک دوسرے سے قریب ہیں، جس کی وجہ سے اس اتحاد کا مشترکہ دفاع اور معاشی تعاون بآسانی ممکن ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ دنیا کے وہ ممالک جہاں امریکہ پچھلے 15 برس سے آگ اور خون کا کھیل کھیلنے میں مصروف ہے، جغرافیائی لحاظ سے ان اتحادی ممالک سے متصل ہیں۔ افغانستان، عراق، شام، لیبیا سب اس اتحاد کی زمینی دسترس میں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب جب اس اتحاد نے خطے کے حالات کے سدھار کے لیے اپنا کرادر ادا کرنے کی کوشش کی ہے تو اسے خاطر خواہ پذیرائی ملی ہے۔

حصہ