(امیر جماعت اسلامی پاکستان (قاضی حسین احمد پروفیسر خورشید احمد

217

اس کے بعد اپنی خاندانی روایات کا احترام کرتے ہوئے کاروبار (فارمیسی) کو ذریعۂ معاش بنایا اور 1970ء میں جماعت اسلامی کی رکنیت اختیار کرلی۔ جلد ہی پشاور اور پھر اُس وقت کے صوبہ سرحد کے امیر منتخب ہوئے۔ سرحد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری میں بھی بھرپور شرکت کی اور اس کے صدر کے عہدے پر بھی خدمات انجام دیں۔ 1978ء میں جماعت اسلامی پاکستان کے سیکرٹری جنرل مقرر ہوئے اور اس حیثیت سے 1987ء تک خدمات انجام دیں۔
جماعت اسلامی میں امیرکا انتخاب ارکان نے ہمیشہ اپنی آزاد رائے کے ذریعے کیا ہے۔ کسی بھی سطح پر امیدواری کا کوئی شائبہ کبھی بھی نہیں پایا گیا۔ 1972ء سے مرکزی شوریٰ ارکان کی رہنمائی کے لیے تین نام ضرور تجویز کرتی ہے مگر ارکان ان ناموں کے پابند نہیں اور جسے بہتر سمجھیں اسے اپنے ووٹ کے ذریعے امیر بنانے کے مجاز ہیں۔ الحمدللہ یہاں نہ وراثت ہے اور نہ وصیت، نہ امیدواری ہے اور نہ کنویسنگ۔ اسلام کے حقیقی جمہوری اصولوں کے مطابق قیادت کا انتخاب ہوتا ہے اور بڑے خوش گوار ماحول میں تبدیلیِ قیادت انجام پاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ اس روشن راستے پر قائم رکھے۔
1987ء کے امیر جماعت کے انتخاب کے موقع پر شوریٰ نے جو تین نام تجویز کیے تھے، ان میں محترم قاضی صاحب کے علاوہ محترم مولانا جان محمد عباسی اور میرا نام تھا۔ اُن دنوں میں جنوبی افریقہ میں ختمِ نبوت کے سلسلے میں ایک مقدمے کی پیروی کے لیے کیپ ٹاؤن میں تھا، اور قاضی صاحب کے امیرجماعت منتخب ہونے کے لیے برابر دعائیں کررہا تھا۔ مجھے ان کے انتخاب کی خبر کیپ ٹاؤن ہی میں ملی اور مَیں سجدۂ شکر بجالایا۔ اس طر ح 1987ء میں 49 برس کی عمر میں جماعت اسلامی پاکستان کے امیر منتخب ہوئے۔ الحمدللہ، قاضی صاحب نے اپنی صلاحیت کے مطابق اللہ کی توفیق سے جماعت کی بڑی خدمت کی اور جس تحریک کا آغاز سید مودودی نے کیا تھا اور جس پودے کو میاں طفیل محمد صاحب نے اپنے خون سے سینچا تھا، اسے ایک تناور درخت بنانے میں گراں قدر خدمات انجام دیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی تمام مساعی کو شرفِ قبولیت سے نوازے اور ان کے لیے بلندئ درجات کا ذریعہ بنائے، آمین!
قاضی حسین احمد صاحب سے میری پہلی ملاقات 1973ء میں مرکزی شوریٰ کے موقع پر ہوئی۔ میں اُس زمانے میں انگلستان (لسٹر) میں مقیم تھا اور اسلامک فاؤنڈیشن کے قیام میں لگا ہوا تھا۔ شوریٰ کے اجتماع کے بعد رات کو دیر تک باہم مشورے ہماری روایت ہیں۔ جس کمرے میں قاضی صاحب ٹھیرے ہوئے تھے، اس میں ڈاکٹر مراد علی شاہ کی دعوت پر ہم تینوں مل کر بیٹھے اور آدھی رات تک افغانستان کے حالات پر بات چیت کرتے رہے۔ قاضی صاحب افغانستان کا دورہ کرکے آئے تھے۔ جو نوجوان وہاں دعوتِ اسلامی کا کام کررہے تھے، وہ ظاہرشاہ کے زمانے ہی میں ظلم و ستم کا نشانہ بننے لگے تھے اور اشتراکی تحریک اور قوم پرست دونوں اپنا اپنا کھیل کھیل رہے تھے، لیکن سردار داؤد کے برسرِاقتدار آنے کے بعد حالات اور بھی خراب ہوگئے۔ مجھے اس علاقے کے بارے میں پہلی مفصل بریفنگ قاضی حسین احمد صاحب نے دی جو کئی گھنٹوں پر پھیلی ہوئی تھی۔
افغانستان کے حالات پر جس گہری نظر اور وہاں کے لوگوں سے تعلق کی جو کیفیت میں نے قاضی صاحب میں دیکھی، اس کی مثال نہیں ملتی۔ مجھے جہادِ افغانستان کے پورے دور میں اُن کے ساتھ ان معاملات میں شرکت کی سعادت حاصل رہی ہے۔ 1993ء میں، افغان مجاہدین کی تنظیموں میں اختلافات دور کرنے کے لیے مصالحتی کمیشن میں ان کے ساتھ ایک ماہ مَیں نے بھی افغانستان میں گزارا اور اُس وقت جس مجوزہ دستوری نقشے پر اتفاق ہوا تھا اور جسے میثاقِ مکہ کی بنیاد بنایاگیا تھا، اس کی ترتیب میں کچھ خدمت انجام دینے کی سعادت مجھے بھی حاصل رہی ہے، لیکن تحریکِ اسلامی نے افغانستان کے سلسلے میں جو کردار بھی ان40 برسوں میں ادا کیا ہے اور اس کے جو بھی علاقائی اور عالمی اثرات رونما ہوئے ہیں، ان کی صورت گری میں کلیدی کردار محترم قاضی حسین احمد ہی کا تھا۔ اپنے انتقال سے پہلے بھی وہ اس سلسلے میں بہت متفکر تھے اور اس مسئلے کے حل کے لیے بڑے سرگرم تھے، اور فاٹا میں ان پر خودکش حملے کے علی الرغم وہ افغانستان کے لیے خود افغانوں کے مجوزہ، (یعنی افغان based) حل کے لیے کوشاں تھے، اور پاکستان اور افغانستان کو یک جان اور دو قالب دیکھنا چاہتے تھے۔ 2012ء میں جماعت اسلامی کے جس وفد نے افغان صدر حامدکرزئی اور ان کی ٹیم سے مذاکرات کیے تھے، وہ بظاہر میری سربراہی میں گیا تھا لیکن اصل میرِ کارواں قاضی صاحب ہی تھے اور ہم سب ان کے وژن کی روشنی میں اصلاحِ احوال کی کوشش کررہے تھے۔
قاضی صاحب کی اصل وفاداری اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے تھی اور اس وفاداری کے تقاضے کے طور پر اُمتِ مسلمہ اور اس کے احیا کو اپنی زندگی کا مشن سمجھتے تھے۔ اس کے لیے انھوں نے سوچ سمجھ کر وہ راستہ اختیار کیا تھا جس کی طرف ہمارے دور میں علامہ محمد اقبال اور مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی نے رہنمائی دی تھی اور وہ ان خطوطِ کار پر یقین رکھتے تھے۔ اس کے مقصد، طریق کار اور دستور کی وفاداری کا جو حلف انھوں نے اٹھایا تھا، اسے عمربھر نبھانے کی انھوں نے مخلصانہ اور سرگرم کوششیں کیں۔ وہ لکیرکے فقیر نہ تھے مگر اُس فریم ورک کے وفادار تھے جسے انھوں نے سوچ سمجھ کر قبول اور اختیار کیا تھا۔
قاضی حسین احمد صاحب ایک سچے انسان، اللہ کے ایک تابع دار بندے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق، اُمتِ مسلمہ کے بہی خواہ، تحریکِ اسلامی کے مخلص خادم، کلمۂ حق کو بلند کرنے والے ایک اَن تھک مجاہد اور پاکستان کے حقیقی پاسبان تھے۔ اللہ کے دین کے جس پیغام اور مشن کو طالب علمی کی زندگی میں دل کی گہرائیوں میں بسا لیا تھا اسے پورے شعور کے ساتھ قبول کیا، اپنی جوانی اور بڑھاپے کی تمام توانائیاں اس کی خدمت میں صرف کردیں۔ اس دعوت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا، اس کی خاطر ہر مشکل کو بخوشی انگیز کیا، ہر وادی کی آبلہ پائی کی، ہر قطرے کو خوش آمدید کہا، ہر قربانی کو بہ رضا و رغبت پیش کیا اور پورے خلوص، مکمل دیانت، اور ناقابلِ تزلزل استقامت کے ساتھ زندگی کے آخری لمحے تک اس کی خدمت میں لگے رہے۔ ملتِ اسلامیہ کا یہ فرزند اور رہنما 6جنوری 2013ء کو اپنے رب کے حضور پیش ہوگیا، اللہ تعالیٰ مغفرت فر مائے۔
nn

حصہ