(ساتو دہرا اعزاب اور راہ نجات(سید مہر الدین افضل

332

 اں حصہ۔ (ماخوذ ازحاشیہ نمبر:30)
آج ہی اصلاح کر لیں :۔
سورہ الاعراف میں روزِ حساب کا انتہائی دل دکھا دینے والا منظر دکھایا گیا ہے۔۔۔ جب اِنسان اپنی بد اعمالیوں کا الزام اپنے سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں ( یعنی اپنے باپ، دادا) پر لگا رہے ہوں گے (وہی بلیم گیم جِس کے دنیا میں عادی رہ چکے ہیں)۔۔۔ اور ان کے لیے اللہ سے دوہرے عذاب کا مطالبہ کریں گے۔ یہ منظر ہمیں اس لیے دکھایا گیا ہے کہ ہم آج ہی اپنی اصلا ح کر لیں۔ جنیٹکس کا علم ہمیں بتاتا ہے کہ بہت سی عادتیں نسل در نسل منتقل ہوتی ہیں۔۔۔ بہت سی بیماریوں کے خدشات ہمیں اپنے والدین سے ملتے ہیں۔۔۔ اور یہ کہ ہم کن احطیاطی تدابیر کو اختیار کر کے ان بیماریوں اور بری عادات سے چھٹکارا پا سکتے ہیں۔۔۔ افسوس کا مقام ہے کہ ہم اپنے بعد آنے والوں کو اپنی بیماریوں سے بچانے کے لیے تو فکر مند ہیں، اور کوشش بھی کرتے ہیں لیکن اپنی بری عادتوں سے بچانے کے لیے کوئی کوشش نہیں کرتے۔۔۔ بچوں کی اِصلاح اس طرح نہیں ہو سکتی کہ آپ اپنی زبان سے نصیحت کچھ کریں اور آپ کا عمل کچھ اور ہو۔۔۔ اِس سے بچّہ یہ ہی سیکھتا ہے کہ کچھ باتیں صرف کہنے کے لیے ہوتی ہیں۔۔۔
ایک تجویز:۔
اَگر آپ اپنی اور بچوں کی اِصلاح چاہتے ہیں! تو اس کا آغاز اس طرح بھی ہو سکتا ہے کہ اپنی کمزوریوں (یہاں بری عادات اور رویہ مراد ہیں، سابقہ گناہ نہیں)کو اپنے بچوں کے ساتھ شیئر کریں اور مل کر انہیں دور کرنے کی کوشش کریں۔۔۔ آخر ہم اپنی شوگر کی رپورٹ بھی تو اپنی اولاد سے شیئر کرتے ہیں اور انہیں احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا مشورہ بھی دیتے ہیں۔کسی حد تک سختی بھی کرتے ہیں۔ بہت سے نیک کاموں کا آغاز یہ سوچ کر کریں کہ یہ آپ کے والدین کے لیے صدقہ جاریہ ہوں گے۔۔۔ اور آپ کی اولاد کی تربیت کا ذریعہ بنیں گے۔ کیا آپ نہیں چاہتے کہ آپ کی اولاد خوش قسمت، نیک، اور فرماں بردار ہو لیکن صرف خواہش سے کچھ نہیں ہو گا اس کے لیے خود بھی صالح اور نیک بننے کی ضرورت ہے۔۔۔ تو اپنے آپ کو صالح اور نیک بنائیے اور اپنی زندگی کا کچھ حصہ معاشرے کی اصلاح اور فلاح میں لگائیے اس لیے کہ ارشاد نبویؐ کے مطابق اللہ اُس وقت تک بندے کی مدد میں رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے۔ یاد رکھیں اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو معاشرے سے کاٹ کر آپ انہیں برائیوں سے نہیں بچا سکتے، جلد یا کچھ دیر میں یہ جراثیم آپ کے گھر میں داخل ہو جائیں گے اس لیے سب کی اصلاح کی فکر کریں اور اس کے لیے عملی اقدام کریں۔۔۔ اصلاح کا کام اپنی ذات، اور اپنے قریبی حلقے، خاندان اور احباب سے کریں، اپنے بچوں کے دوستوں کو ہر گز نظر انداز نہ کریں۔
دوہرا عذاب :۔
آیت نمبر 38 میں ارشاد ہوا:۔ (ہر گروہ جب جہنم میں داخل ہوگا تو اپنے پیش رو گروہ پر لعنت کرتا ہوا داخل ہوگا، حتٰی کہ سب وہاں جمع ہو جائیں گے تو ہر بعد والا گروہ پہلے گروہ کے حق میں کہے گا کہ اے ربّ، یہ لوگ تھے جنہوں نے ہم کو گمراہ کیا لہٰذا اِنہیں آگ کا دوہرا عذاب دے۔۔۔ جواب میں اِرشاد ہوگا، ہر ایک کے لیے دوہرا ہی عذاب ہے، مگر تم جانتے نہیں ہو۔)
حقیقت یہ ہے کہ ہم سے پہلے اگر ہمارے باپ، دادا گزرے ہیں اور انہوں نے ہمارے لیے فکر وعمل کی گمراہیوں کا ورثہ چھوڑا تھا تو خود اگر ہم بھی اپنے بعد آنے والوں کے لیے ویسا ہی ورثہ چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہوں گے تو۔۔۔ ان کے گمراہ ہونے کی کچھ ذمہ داری ہم پر بھی عائد ہو گی۔ اِسی لیے فرمایا کہ ہر ایک کے لیے دو ہرا عذاب ہے۔ ایک عذاب خود گمراہی اَختیار کرنے کا اور دوسرا عذاب دوسروں کو گمراہ کرنے کا۔ حدیث میں اِس مضمون کی وضاحت اس طرح کی گئی ہے کہ:۔ جس نے کسی نئی گمراہی کا آغاز کیا، جو اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک نا پسندیدہ ہو، تو اس پر ان سب لوگوں کے گناہ کی ذمہ داری عائد ہوگی جنہوں نے اِس کے نکالے ہوئے طریقے پر عمل کیا، بغیر اِس کے کہ خود ان عمل کرنے والوں کی ذمہ داری میں کوئی کمی ہو۔ دوسری حدیث میں ہے:۔ دنیا میں جو انسان بھی ظلم کے ساتھ قتل کیا جاتا ہے اس کے خونِ نا حق کا ایک حصہ آدم کے اس پہلے بیٹے کو پہنچتا ہے جس نے اپنے بھائی کو قتل کیاتھا، کیونکہ قتلِ انسان کا راستہ سب سے پہلے اسی نے کھولا تھا۔۔۔ معلوم ہوا کہ ہر شخص اپنی نیکی یا بدی کا صرف اپنی ذات کی حد تک ہی ذمہ دار نہیں ہے۔۔۔ بلکہ اِس بات کا بھی جواب دہ ہے کہ اس کی نیکی یا بدی کے کیا اثرات دوسروں کی زندگیوں پر مرتب ہوئے۔
بد ی کے دور رس اثرات :۔
مثال کے طور پر ایک زانی کو لیجیے۔ جن لوگوں کی تعلیم و تربیت سے۔۔۔ جن کی صحبت کے اثر سے۔۔۔ میڈیا پر جن لوگوں کی بنائی ہوئی، اور سوشل میڈیا پر پوسٹ کی ہوئی بری، فحش فلمیں اور تصاویر دیکھنے سے۔۔۔ اور سر راہ اور سر بازار جِسم کے قابل شَرم حصوں کی نمائش کر تی ہوئی خواتین سے۔۔۔ اس شخص کے اندر زنا کاری کی بدی نے جنم لیا کیا وہ سب لوگ اس کے زنا کار بننے میں حصہ دار ہیں۔ اور خود ان لوگوں نے اوپر جہاں جہاں سے اس بَد نظری وبدنیتی اور بدکاری کی میراث پائی ہے وہاں وہاں تک اس کی ذمہ داری پہنچتی ہے۔۔۔ یہاں تک کہ یہ سلسلہ اس پہلے اِنسان پر ختم ہوگا جس نے سب سے پہلے اِنسانوں کوخواہش نفس کی تسکین کا یہ غلط راستہ دکھایا۔ یہ اس زانی کے حساب کا وہ حصہ ہے جو اس کے زمانے اور اس کے بعد آنے والے لوگوں سے تعلق رکھتا ہے۔ پھر وہ خود بھی اپنی زنا کاری کا ذمہ دار ہے۔۔۔ اس کو بھلے اور برے کی جو تمیز دی گئی تھی۔۔۔ اس میں ضمیر کی جوطاقت رکھی گئی تھی۔۔۔ اس کے اندر ضبطِ نفس کی جو قوت ودیعت کی گئی تھی۔۔۔ اس کو نیک لوگوں سے خیر و شر اور حیا اور پاکیزگی کا جو علم پہنچا تھا۔۔۔ اس کے سامنے نیک لوگوں کی جو مثالیں موجود تھیں۔۔۔ اس کو صنفی بدعملی کے برے نتائج سے جو واقفیت تھی۔۔۔ ان میں سے کسی چیز سے بھی اس نے فائدہ نہ اٹھایا !!! اور اپنے آپ کو نفس کی اس اندھی خواہش کے حوالے کر دیا جو صرف اپنی تسکین چاہتی تھی خواہ وہ کسی طریقے سے ہو۔ یہ اس کے حساب کا وہ حصہ ہے جو اس کی اپنی ذات سے تعلق رکھتا ہے۔ پھر یہ شخص اس گناہ کو جسے یہ اپنے دل میں پالتا رہا۔۔۔ اور اپنی آزاد مرضی سے کیا، دوسروں میں پھیلانا شروع کرتا ہے۔ کسی مرضِ خبیث کی چھوت کہیں سے لگا لاتا ہے اور اِسے اپنی نسل میں اور خدا جانے کن کن نسلوں میں پھیلا کر نہ معلوم کتنی زندگیوں کوخراب کر دیتا ہے۔کہیں اپنا نطفہ چھوڑ آتا ہے اور جس بچے کی پرورش کا بوجھ اسے خود اٹھانا چاہیے تھا اسے کسی اور کی کمائی کا ناجائز حصہ دار۔۔۔ اس کے بچوں کے حقوق میں زبردستی کا شریک۔۔۔ اس کی میراث میں ناحق کا حق دار بنا دیتا ہے۔۔۔ اور اِس حق تلفی کا سلسلہ نہ معلوم کتنی نسلوں تک چلتا رہتا ہے۔ کسی بچی کو پھسلا کر بد اخلاقی کی راہ پر ڈالتا ہے اور اس کے اندر وہ برائی ابھار دیتا ہے جو اس کی ذات سے نکل کر نہ جانے کتنے خاندانوں اور کتنی نسلوں تک پہنچتی ہے اور کتنے گھروں کو بگاڑ دیتی ہے۔ اپنی اولاد، اپنے رشتہ دار، اپنے دوستوں اور اپنی سوسائٹی کے دوسرے لوگوں کے سامنے اپنے اخلاق کی ایک بری مثال پیش کرتا ہے۔۔۔ اور نہ معلوم کتنے آدمیوں کے چال چلن خراب کرنے کا سبب بن جاتا ہے۔۔۔ جس کے اثرات بعد کی نسلوں میں لمبے عرصے تک چلتے رہتے ہیں۔ یہ ساری برائیاں جو اس شخص نے پھیلائیں۔۔۔ اِنصاف چاہتا ہے کہ یہ بھی اس کے حساب میں لکھی جائیں اور اس وقت تک لکھی جاتی رہیں جب تک اس کی پھیلائی ہوئی خرابیوں کا سلسلہ دنیا میں چلتا رہے۔
نیکی کے دور رس اثرت:۔
اسی طرح نیکی کے اثرات بھی دور تک جاتے اور دیر تک اثر دکھاتے ہیں۔ اس لیے جو نیک ورثہ ہمیں اپنے بزرگوں سے ملا ہے اس کا اجر ان سب لوگوں کو پہنچنا چاہیے جو نیکی کے آغاز سے ہمارے زمانے تک اس کے منتقل کرنے میں حصہ لیتے رہے ہیں۔۔۔ اِس ورثے کو لے کر اسے سنبھالنے اور ترقی دینے میں جو خدمت ہم انجام دیں گے اس کا اَجر ہمیں بھی ملنا چاہیے۔۔۔ ہم اَچھائی پر عمل کرنے کی کوشش کے جو نِشانات و اَثرات دنیا میں چھوڑ جائیں گے انہیں بھی ہماری بھَلائیوں کے حساب میں اس وقت تک برابر درج ہوتے رہنا چاہیے جب تک یہ نقوش باقی رہیں اور ان کے اثرات کا سلسلہ انسانوں میں چلتا رہے اور ان سے خلقِ خدا فائدہ اٹھاتی رہے۔
جزا وسزا کے لیے یَومْ الحِساب:۔
انسانی اعمال کے نتائج اتنی دورر تک پہنچتے ہیں کہ ان کا بدلہ دنیا کی اس مختصر زندگی میں نہیں ہو سکتا۔۔۔ عَقل تقاضا کرتی ہے کہ اِس کے لیے ایک الگ ہی جہان ہونا چاہیے۔۔۔ جہاں نہ ختم ہونے والی زندگی ہو۔ مثلا حضرت محمدؐ کی حیات مبارکہ کی برکات روز بہ روز بڑھتی ہی چلی جاتی ہیں کیا کوئی انہیں بدلہ دے سکتا ہے۔۔۔ اسی طرح وہ شخص جس نے عالمی جنگ کی آگ بھڑکائی۔۔۔ ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم برسائے جس کے برے اَثرات ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتے کیا اِسے اِس دنیا میں کوئی سزا دی جا سکتی ہے؟؟؟ اِسی طرح ہر نیکی اور بدی کے اثرات دیر تک رہتے اور دور تک جاتے ہیں۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اَعمال کا بدلہ اِسی دنیا کی زِندگی میں مل جاتا ہے!!! وہ کتِنے نَا سمجھ ہیں؟ یا جان بوجھ کر ناسمجھ بن گئے ہیں! بدلے کے لیے دوسری زندگی تو عقل اور اِنصاف کا تقاضا ہے۔۔۔ ہر مظلوم کی پکار، اور آس ہے۔۔۔ ہاں ظالموں اور ان کے آلہ کار فلسفی اور دانشوروں نے جھوٹے نظریات گڑھ کر اپنے آپ کو اطمینان دلایا ہے کہ کچھ نہیں ہو گا۔۔۔ ہو گا کیوں نہیں!!! موت آتے ہی فرشتے اِنہیں گھسیٹتے ہوئے لے جائیں گے اور حقیقت بے نقاب ہو جائے گی۔۔۔ اور روزِ حشر تمام اگلی اور پچھلی نسلیں جمع ہوں گی۔۔۔ تمام اِنسانوں کے کھاتے بند ہو چکے ہوں گے۔۔۔ حِساب کرنے کے لیے عَلیم و خَبیر خدا انصاف کی کرسی پرہو گا۔۔۔ اور اَعمال کا پورا بدلہ پانے کے لیے اِنسان کے پاس غیر محدودزندگی اور اس کے گردوپیش جزا و سزا کے غیر محدوداِمکانات موجود ہوں گے۔ راہ نجات یہی ہے کہ آج اِصلاح کرلیں ورنہ دوسروں پر اپنا ملبہ ڈالنے کی کوشش وہاں کامیاب نہ ہو گی۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہم سب کو اپنے دین کا صحیح فہم بخشے اور اس فہم کے مطابق دین کے سارے تقاضے اور مطالبے پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔
وآخر دعوانا انالحمد و للہ رب العالمین

حصہ