(موٹیویشنل اسپیکرز (بنتِ اسلام

739

ایک طالب علم کا انٹرویو چھپا اخبار میں کہ وہ کیا بننا چاہتا ہے۔۔۔؟ پاکستان میں بہت زیادہ تو کچھ لوگ بننا چاہتے بھی نہیں ہیں، ڈاکٹر بننا چاہتے ہیں یا انجینئر یا اب مارکٹینگ کی طرف رجحان پایا جانے لگا ہے اور کسی پیشے میں ایسی کوئی خاص کشش نوجوانوں کو دکھائی دیتی ہے نہ ان پیشوں کا تقدس؟ حالاں کہ استاد ہونا بجائے خود کتنی سعادت کی بات ہے کہ اللہ کے آخری نبیؐ معلم بنا کر بھیجے گئے تھے، مگر ہمارے سماج میں اس معتبر پیشے کا بس اتنا اکرام ہے کہ جو کچھ نہ بن سکے، وہ استاد بن جاتا ہے۔۔۔بلکہ جو استاد ہوتا ہے اس سے لوگ تعلقات بھی سوچ سمجھ کر ہی استوار کرتے ہیں کہ کہیں ہماری یا بیٹی کی شادی کے موقع پر قرض نہ طلب کربیٹھے۔۔۔!! ( یہ ایک انتہائی محترم استاد کی آپ بیتی کا ایک جملہ ہے، جو انہوں نے سنائی جب وہ کسی اسکول میں پڑھایا کرتے تھے۔) رہے سیاست دان۔۔۔تو وہ یہاں بننے کی چیز نہیں ہے، وراثت میں ملتی ہے۔ سائنس کے دیگر شعبوں کا اسکوپ ہے نہ تحقیق کے ایسے اعلیٰ سطح کے ادارے ہیں کہ نوجوانوں کے خوابوں کی تعبیریں وہاں سے وابستہ ہوں۔۔۔!!
ارے بات آگے نکل گئی۔ بات تھی اس انٹرویو والے طالب علم کی۔ وہ کیا بننا چاہتا ہے۔ اس سوال کے جواب میں وہ بولا: میں Motivational Speaker بننا چاہتا ہوں۔ مجھے اس شعبے کے نوجوان بہت اچھے لگتے ہیں۔ تب میں حیران ہوئی کہ موٹیویشنل اسپیکنگ کب سے کیریئر شمار ہونے لگا؟ تب حقیقت کھلی کہ واقعی جس پیشے میں دولت بھی ہو، عزّت اور شہرت بھی تو نوجوان اس کو بحیثیت کیریئر کیوں نہ اپنائیں گے۔۔۔!!
تعلیمی اداروں میں ہمیشہ سے مباحثے ہوا کرتے ہیں۔ جو اچھے مقرر ہوتے ہیں، وہ زیادہ مشہور ہو جاتے ہیں،شہر کی سطح پر، کچھ ملک کی سطح پر۔ کوئی خوش نصیب بین الاقوامی مقابلوں کے قابل ہو جاتا ہے تو ملک کا نام روشن کر کے نوجوانوں کو نیا حوصلہ عطا کرتا ہے، مگر یہ موٹیویشنل اسپیکرز کی اصطلاح ذرا نئی نئی سی ہے۔ جب آپ کا اس کا مطلب سمجھ گئے ہیں تو میں اس کا ترجمہ کیوں کروں؟ دوسرے یہ کہ یہ اصطلاح اسی طرح معروف ہے، اس کا ترجمہ کوئی نہیں کرتا، جس طرح پیسٹری، برگر، پیزا، لذانیا، سینڈوچ، چکن بروسٹ، فنگر چپس، آئس کریم، کافی اور سوپ وغیرہ کا ترجمہ نہیں ہو سکتا بالکل اسی طرح یہ لفظ اسی طرح معروف ہے۔
کسی کے مثبت جذبات کو ابھارنا یقیناًقابلِ قدر کام ہے بلکہ کسی درجہ میں عبادت سے گردانا جائے گا۔ مشاعرے، مباحثے، سیمینار، مذاکرے وغیرہ ہوتے ہی صحت مند معاشرے کی علامت ہیں۔ زمانہ طالب علمی میں تعلیمی ادارے بالخصوص، ایسی سرگرمیوں کا انعقاد کرتے ہیں تاکہ نوجوانوں کے ذہن صحت مند خطوط پر نشوونما پائیں، مگر تقریر کا پیشہ سوشل میڈیا کے اس دور میں بنتے ہوئے دیکھا بلکہ انتہائی مہنگا پیشہ۔ یہ موٹیویشنل اسپیکر ہر صوبے، ہر شہر میں پائے جاتے ہیں، عموماً نوجوان ہوتے ہیں، ذہین ہوتے ہیں، پُراعتماد ہوتے ہیں۔ بہت کچھ رٹے ہوئے ہوتے ہیں اور کچھ حاضر دماغ۔۔۔مگر بڑے شہروں میں لاکھوں میں بک ہوتے ہیں۔ ہم بھی بیٹے کے تعلیمی ادارے کی ویڈیو بڑے انہماک سے دیکھ رہے تھے، جس میں نوجوان اسپیکر بتا رہے تھے کہ پیسے کی زندگی میں کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔ نہ پیسے کو کم زوری بنائیں، اپنی ذات کو پہچانیں، اسے بَلند پروازی سِکھائیں۔ بَلندیوں پر اُڑنے والے پرندے پیسوں کے لیے نہیں جیتے، جو شے آنی جانی ہے، اسے زندگی کا روگ کیوں بنائیں وغیرہ (میں نے تو سادہ سے لفظوں میں لکھ دیا، وہ کافی مرقع اور مسجع گفتگو کر رہے تھے) لمبے چوڑے اسٹیج پر ٹہل رہے تھے، کبھی نیچے اُتر رہے تھے، کبھی اسٹیج پر کوئی وڈیو چلا دیتے اپنی دلیل میں وزن پیدا کرنے کے لیے، کبھی کوئی نغمہ گنگنا دیتے! اب وہ نامعلوم اس مشق کو کتنی دفعہ کرچکے ہوں گے کہ خاصہ منجھ چکے تھے۔ باتیں تو ان کی ہمیں بھی اچھی لگیں، اعتماد بھی۔ جب ہم نے صاحبزادے سے سوال کیا کہ یہ کسی بھی تعلیمی ادارے میں جاتے ہیں اپنی خدمات پیش کرنے۔۔۔؟ تو وہ بولا جی ہاں، مگر ان کا معاوضہ دو لاکھ روپے ہوتا ہے۔۔۔ ہمارا تو منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ پھر واقعی ڈاکٹری یا انجینئری کا پیشہ نوجوان کیوں اپنائیں، جب دو، ڈھائی گھنٹے کی مشق سے ایسا پُرکشش معاوضہ مل جاتا ہو۔۔۔شہرت اور عزّت تو اس کے علاوہ بونس کے طور پر مل ہی جاتی ہے!!
ایک بات جو سمجھ میں آتی ہے کہ سیکھنے کے لیے علم کی ضرورت ہوتی ہے، تجربہ کی ضرورت ہوتی ہے، مشاہدے کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ سب چیزیں حاصل کرتے کرتے اکثر کے بالوں میں چاندی جھلک آتی ہے۔ اگر آپ ڈاکٹر آف فلاسفی ہیں یا پروفیسر کے درجے پر فائز ہیں تو اس کے لیے ایک عمر، علم، تجربہ، گہرائی گہرائی مطلوب ہوتی ہے۔ وہ عمر جو خود سیکھنے کی ہے، اپنا آپ خود کس طرح پیش کیا جاسکتا ہے کہ ہم اپنے خطیر معاوضے پر آپ کو سکھانے کے لیے دستیاب ہیں اور اگر واقعی اللہ نے آپ کو یہ غیرمعمولی صلاحیت ودیعت کی ہے تو آپ سماج کو رضا کارانہ طور پر یہ خدمت پیش کرتے، مگر کیا کیجیے کہ نوجوان جو ق در جوق ان کی گفتگو سُننے مہنگے معاوضے پر جاتے ہیں۔ چاہے فائیو اسٹار ہوٹلز میں ان کے پروگرامز ہوں یا تعلیمی اداروں میں۔۔۔ وہاں داخلے کے عوض خاصی رقم ادا کرنا ہوتی ہے۔ مثلاً کسی بڑی یونیورسٹی کے آڈیٹوریم میں ان کا پروگرام ہے تو ہونا تو یہ چاہیے کہ سماعت گاہ کے دروازے اس ادارے کے سب طلبا و طالبات کے لیے کھلے ہوں، جو مستفید ہونا چاہیں، مگر ایسا نہیں ہوتا، جس طالب علم نے ہزار یا دو ہزار کا ٹکٹ خریدا ہو وہی ان کی جذبات کو میسجز دینے والی گفتگو سے استفادہ کر سکتا ہے۔ کئی دن بچّے اس گفتگو کے سحر سے نکل نہیں پاتے۔ اور میرے مشاہدے کی حد تک ہر طالب علم اور طالبہ یہ سوچتی ہے کہ وہ بھی ایسا کرسکتی ہے یا کرسکتا ہے۔۔۔!! یہ انسان کی فطرت ہے کہ وہ جِسے پسند کرتا ہے، اس کی تقلید کی کوشش کرتا ہے۔۔۔ وہ تصوراتی ہیرو کا درجہ اختیار کر لیتا ہے۔
اب کوئی تو وجہ ہے کہ کوئی نوجوان اپنی دو یا تین گھنٹہ کی ایک طلسماتی سرگرمی کا معاوضہ لاکھوں میں وصول کرتا ہے۔۔۔!! نوجوان لڑکے لڑکیاں عاشق ہو جاتی ہیں ان کی، جس ادارے میں وہ آئے، اس دوران کلاس رومز خالی ہو جاتے ہیں، کئی دن فخر سے تذکرہ ہوتا ہے کہ ہمارے ادارے میں فلاں موٹیویشنل اسپیکر صاحب تشریف لائے تھے۔ اب اگر آپ سنجیدگی سے وجہ تلاش کریں تو بہت سی چیزوں کی کوئی عقلی دلیل آپ کو نہیں ملے گی۔ بس ٹرینڈ سیٹ ہو گیا ہے، ایک بھیڑ چال ہے۔ آسان ہے یہ کہ۔۔۔ چلو تم ادھر کو، ہوا ہو جدھر کی۔۔۔ یہ تو مشکل ہے ناں کہ۔۔۔ ہم بدلتے ہیں رخ ہواؤں کا۔۔۔ یہ حوصلہ کہاں سے آئے جب تو زمانے کو نہ بنا سکا تو زمانہ تجھے بنا گیا۔۔۔ سو زمانے نے بہت سوں کو موٹیویشنل اسپیکر بنادیا۔۔۔ ہاں تو سوال یہ ہے کہ آپ نوجوانوں کے جذبات کی اُبھار رہے ہیں۔ انہیں عمل اور تحریک کی طرف دعوت دے رہے ہیں۔ آپ کا پیغام سب کے لیے ایک جیسا ہے، مگر حالات سب کے ایک جیسے نہیں ہوتے۔۔۔ آپ نے نوجوانوں کو کہا کہ انہیں شاہین بننا ہے۔۔۔ ان کو مستقبل کا ہیرو بننا ہے، اب کراچی جیسے شہر میں پرائیوٹ میڈیکل کالجز کھلتے چلے جا رہے ہیں۔ ادارے M-Catاور E-Cat کے نام پر کروڑوں کا کاروبار کررہے ہیں۔۔۔برانڈڈ کمپنیاں لان اور کاٹن کے جوڑے دس ہزار سے بیس ہزار میں فروخت کررہی ہیں۔ دلہن کا عروس جوڑا جو اتنے ہی داموں میں آجاتا تھا، اب نامی گرامی بوتیکیس لاکھوں میں بیچ رہے ہیں۔ دلہن جس کو سہلیاں مل کر تیار کر دیتی ہیں، اب شہر کے نام ور بیوٹی پارلرز شادی، ولیمے کے پیکیجز کے نام پر لاکھوں روپے بٹور رہے ہیں۔ ایک متوسط گھر کی لڑکی کا بھی یہ خواب ہوتا ہے کہ فلاں بیوٹی پارلر سے دلہن بنے اور فلاں ڈیزائنر کا بنا ہوا لباس پہنے۔ یہ سب ٹرینڈز ہیں، جو سیٹ کیے جاتے ہیں۔ نوجوان جذبات کی رو میں بہہ کر اِنہیں اختیار کر لیتے ہیں۔ اب نوجوان جن موٹیویشنل اسپکرز کے فین ہیں تو سوال یہ ہے کہ ان اسپیکرز کی اپنی پروفائل کیا ہے؟ جب کہ گاہے بگاہے ان کو یہ درس دیتے سُنا گیا ہے کہ اگر تمہیں کالج سے نکال دیا گیا تو کوئی بات نہیں، اگر تم اپنی کلاس کے بدھو طالب علم ہو تو کوئی بات نہیں، دنیا کا امیر ترین آدمی بل گیٹس بھی کالج کا نکلا ہوا تھا۔ اسٹیو جابز بھی تعلیمی ادارے کا دھتکارا ہوا تھا۔ اس ڈگری و گری کی انسانی زندگی میں کوئی اہمیت نہیں۔۔۔ عزائم بَلند ہوں تو ہارورڈ یونیورسٹی کا بے دخل کیا جانے والا بل گیٹس کیسے ترقی کی اتنی منازل طے کر گیا؟؟ تو یہ رول ماڈلز سیٹ ہوتے ہیں ان دانش وروں کی مجلس میں۔۔۔!!
دوسری بات یہ کہ جن جذبات کو آپ نے اُبھار دیا، اب ان کا استعمال کیا ہوگا؟ استعمال شاید یہی ہے کہ فیس بک پر ہر ایک خود کو ہیرو سمجھ رہا ہے۔ اپنا چہرہ (جس کو بنانے میں اس کا کوئی کمال نہیں) دنیا کو دکھا دکھا کر خوش ہو رہا ہے، ہر ایک خود کو ہیرو سمجھنے لگا، بڑی چیز سمجھنے لگا۔ جذبات کو مصنوعی طور پر اُبھارنا کب فائدہ دے سکتا ہے؟ حالات خود جذبات پیدا کرتے ہیں۔ آپ کا کوئی عزیز جدا ہو جائے دل خود بخود صدمے سے دوچار ہو جاتا ہے، آنکھیں خود بھیگ جاتی ہیں، دل کے غم میں رونگٹا رونگٹا بغیر کسی تعلقین و تبلیغ کے خود شریک ہوجاتا ہے۔ پاکستان میں زلزلہ آیا، سیلاب آیا، نوجوانوں کے جذبات قابلِ ستائش تھے، کوئی حکومتی اپیل نہیں تھی، نہ کوئی معاشی مفاد، مگر قوم نے دیکھا کہ نوجوانوں نے چاہے وہ فورسز سے وابستہ ہوں یا سول سوسائٹی سے عزیمت کی مثالیں قائم کیں، جب پچھلے برس ہیٹ اسٹروک کی وبا پھیلی تھی کراچی میں تو ہمارے محلّے کے نوجوان اپنے جیب خرچ سے جُوس، ٹھنڈے پانی کے کولرز وغیرہ لے کر سرکاری اسپتالوں میں پہنچ گئے۔ کوئی حادثہ ہوتا ہے اپنی مدد آپ کا جذبہ لوگوں میں خود بیدار ہو جاتا ہے۔ الحمدلِلہ، ہمارے ملک خدا داد میں تو یہ جذبہ عروج پر ہے اور پاکستان چیریٹی کے حوالے سے دنیا کے صف اوّل کے ممالک میں آتا ہے۔ کہنے کا مقصد یہ کہ قوموں کو جذبات کو ہنگامی بنیادوں پر ابھارنے کی ضرورت ہنگامی مواقعوں پر ہی پیش آتی ہے۔ اللہ نے قدرتی طور پر ہر انسان کو جذبات کی ایک خاص مقدار عطا فرمائی ہے، ایک متوازن زندگی دے کر اپنا خلیفہ بنایا ہے۔ ہاں، جن کو زیادہ جذبات دیے گئے ہیں، ان سے خاص کام لینا قدرت کا مقصود ہوتا ہے، مثلاً علامہ اقبال کا سوز وگداز صدیوں کے لیے کافی ہے۔۔۔!
تیسری بات یہ کہ یہ خدمت نوجوانوں کو متحرک کرنے کے لیے ہے۔ یہ جذبہ اگر اتنا ہی مخلص ہے تو یہ اسپیکرز اپنی تقاریر اپنی فیس بک اور یوٹیوب پر کیوں نہیں شیئر کرتے، جو ایسا کرتے ہیں، وہ یقیناً قابل قدر ہیں، مگر اکثر ایسا نہیں کرتے، اگر وہ اس طرح نوجوانوں کو مستفید کرنے لگیں تو انہیں لاکھوں روپے میں بک کون کرے گا؟؟ ہماری معلومات کی حد تک ان کی اکیڈمک پروفائل بھی سوالیہ نشان ہے؟؟ ہاں البتہ ملٹی نیشنل کمپنیاں اور بڑے ادارے ہمیشہ اپنے ملازمین کی صلاحیتوں کو جَلا دینے کے لیے اس طرح کی ورکشاپس وغیرہ کا اہتمام کرتے رہے ہیں اور انہیں بھاری معاوضے ادا کرتے ہیں۔ اس کے عوض مگر وہ معاوضے خود کمپنیاں ادا کرتی ہیں، کمپنیوں کے ورکرز نہیں۔ دوسرے یہ کہ کمپنیاں خطیر منافع کماتی ہیں، انہیں ایسی سرگرمیاں اپنے ملازمین کی صلاحیتوں کو نشوونما دینے کے لیے ترتیب دنیا بھی چاہیں۔ ہماری معلومات کی حدتک ان کی سرگرمیوں کو کنڈکٹ کرنے والے خود قابل ترین لوگ ہوتے ہیں، جو دوسرے ملکوں سے انتہائی اعلیٰ تربیت بھی لے کر آتے ہیں۔
چوتھی بات یہ کہ وہ شہر کراچی کے نوجوان ہی تھے، جنہیں چاہے کسی لسانی تنظیم نے اپنے مقاصد کے لیے ہی استعمال کیا، مگر ان کے جذبوں کو مثبت انداز میں مہمیزبھی دی گئی۔۔۔ ماضی میں ہم نے کراچی کی سڑکیں، گلی کوچے ان ہی نوجوانوں کے ہاتھوں مثالی حد تک صاف دیکھے ہیں۔ اگر یہ موٹیویشنل اسپیکرز کراچی کے نوجوانوں کو متحرک کرنے میں کام یاب ہوجاتے اور کراچی سے کچرے کے ڈھیر صاف ہو جاتے تو ہم بھی اعتراف کرلیتے کہ جذبے یوں جوان کیے جاتے ہیں، نوجوانوں کو خدمت کے کاموں میں کیسے متحرک کیا جاتا ہے؟ ملک بھر کے ان اسپیکرز صاحبان کو بلالیں اور وہ نوجوانوں کو متحرک کرکے کراچی سے کچرا صاف کرادیں تو جو معاوضہ وہ مانگیں، وہ اس کے حقدار ہیں!!
ممکن ہے یہاں کچھ باتوں سے آپ اتفاق نہ بھی کریں، مگر حقیقت یہ ہے کہ قوم کے مصلح کبھی اصلاح کا معاوضہ طلب نہیں کرتے۔ ان کا معاوضہ ہی قومی بیداری ہوتی ہے۔ اس وقت معروف مبلغ طارق جمیل صاحب نوجوانوں کو بیدار کرنے کا کام بہت تندھی سے انجام دے رہے ہیں۔ جنید جمشید یہ کام کرتے کرتے داعی اجل کو بے شک لبیک کہہ گئے۔ اس صدی کے سب سے بڑے مجتہد مولانا مودودیؒ سے زیادہ یہ کام کسی نے نہیں کیا۔ ساری دنیا کی اسلامی تحریکیں اور نوجوان آج بھی متحرک ہو رہے ہیں ان کے پیغام سے 5-A ذیلدار پارک میں روز نشستیں ہوتیں، دروس ہوتے تھے، سوال جواب اور نوجوانوں کے مشکلات و مسائل پر بات کرتے تھے، ان کے ایک ایک منٹ کا معاوضہ واقعی قابلِ قدر ہوتا اور ان کا معاوضہ امت کی بیداری کی صورت میں ان کو مل رہا ہے۔ ان کے صدقہ جاریہ کا سلسلہ نہ ختم ہونے والا ہے۔ آج اسلامی تحریکوں سے وابستہ ہزاروں نوجوان روز و شب بلا معاوضہ یہ فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ جن کا مجموعی معاوضہ سالانہ لاکھوں ڈالر بنتا ہے، مگر وہ نہ صرف یہ کہ معاوضہ نہیں لیتے بلکہ سفری اخراجات تک خود برداشت کرتے ہیں۔ کس چیز کو کہاں تک تجارت بنانا ہے، اس کا فیصلہ ہمیں ٹھیر کر کرنا ہو گا۔ ایک کارپوریٹ کلچر ہے، جس نے ہم سب کو اپنے حصار میں لے رکھا ہے۔ منڈی ہے اور تجارت ہے، ہر چیز کی قیمت لگ رہی ہے۔ دانائی اور بینائی و دانش مندی، ہر چیز بکاؤ مال ہے۔ ہر چیز یہاں بکتی ہے۔بولو جی، تم کیا کیا خریدو گے؟؟

حصہ