خوابوں کا صورت گر

350

جمعہ 23 دسمبر کو ڈاکٹر توصیف احمد خان کا پیغام ملا کہ طاہر مسعود کے لیے کراچی پریس کلب میں ایک تقریب پزیرائی ہے۔ پزیرائی پر حیرت ہوئی کہ یہ تو استقبال، قبولیت، منظوری وغیرہ کے معنوں میں آتا ہے۔ طاہر مسعود کو برسوں سے علمی و صحافتی حلقوں میں پزیرائی حاصل ہے، پریس کلب کو اب معلوم ہوا۔
اصل میں یہ تقریب پزیرائی نہیں تھی بلکہ جامعہ کراچی کے شعبہ ابلاغ عامہ سے 32 سال تک وابستہ رہ کر سبکدوشی پر ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کی تقریب تھی۔ اس کا اہتمام کراچی پریس کلب کی طرف سے کیا گیا تھا اور ڈاکٹر توصیف احمد خان نے اس موقع پر طاہر مسعود کے چاہنے والوں کی ایک کہکشاں سجا ڈالی تھی۔ نظریاتی اعتبار سے ڈاکٹر توصیف احمد خان اور ڈاکٹر طاہر مسعود ایک ہی ندی کے دو کنارے ہیں، لیکن درمیان میں بہنے والا پانی کناروں کو ملائے رکھتا ہے۔ ڈاکٹر توصیف نے اس نظریاتی بعد کا کھل کر اظہار بھی کیا، اس خوب صورت خیال کے ساتھ کہ نظریاتی اختلافات کے باوجود دوستی کے رشتے مضبوط رہ سکتے ہیں، اختلاف کو دشمنی میں نہیں بدلنا چاہیے۔
توصیف احمد خان نے یہ واقعہ بھی بیان کیا کہ جامعہ کراچی میں تعلیم کے دوران جب طلبہ کے دو دھڑوں میں تصادم ہوا اور توصیف احمد خان مار کھانے لگے تو طاہر مسعود نے ان کو بچایا اور ایسا ایک نہیں، تین بار ہوا۔
تقریب پزیرائی میں ہر مقرر نے بطور استاد، بطور شاعر اور بطور دوست ماضی کی یادیں تازہ کیں۔ ان میں استادوں کے استاد ڈاکٹر نثار زبیری، شاہدہ قاضی، ڈاکٹر معین الدین عقیل، پروفیسر انعام باری، اسامہ شفیق اور سلیم مغل شامل تھے۔ سلیم مغل کا اندازِ بیاں ہمیشہ دل چسپ ہوتا ہے اور طویل مقالے بور کردیتے ہیں۔ نثار زبیری خود بھی شعبہ ابلاغ عامہ کے صدر نشین رہ چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جس ہمت اور جرأت کا مظاہرہ اپنے شعبے کے لیے طاہر مسعود نے کیا، وہ مجھ سمیت کوئی اور صدر شعبہ نہیں کرسکا۔ طاہر مسعود اپنے عہد کے بڑے انسان ہیں۔ یہ ایک بہت بڑے آدمی کا دوسرے بڑے آدمی کو خراج تحسین ہے۔
ڈاکٹر طاہر مسعود کے کالموں کے ہم بھی مداح ہیں۔ یہ کالمی تعلق کم از کم 37 سال پرانا ہے۔ طاہر مسعود میں ادبی جراثیم تو شاید لڑکپن ہی میں سرائیت کر گئے ہوں۔ جسارت میں آنے سے پہلے انہوں نے ایک ادبی جریدے ’’عقاب‘‘ میں اپنی صلاحیتوں کا اظہار کیا۔ پھر وہ 1978-79ء میں جسارت کے شعبہ میگزین سے وابستہ ہوگئے۔ ان دنوں وہ ’’عمر خیام‘‘ کے قلمی نام سے کالم بھی لکھتے تھے۔ ایک کالم کا معاوضہ 10 روپے ہوتا تھا جو بعد میں صلاح الدین مرحوم نے 15 روپے کر دیا۔ اس زمانے میں ویج بورڈ ایوارڈ کے تحت جونیئر سب ایڈیٹر کی تنخواہ 750 روپے ہوتی تھی۔ یہ اضافی آمدنی بڑے کام کی تھی۔ پھر طاہر مسعود رپورٹنگ میں چلے گئے۔ لیبر رپورٹنگ کے ساتھ وقتِ ضرورت کرائم رپورٹنگ بھی کی اور اس میں بھی ادبی رنگ بھر دیا۔ لیبر رپورٹنگ کی وجہ سے طاہر مسعود لیبر کونسلر بھی بن گئے اور پھر یوں ہوا کہ جب محمد صلاح الدین نے جسارت چھوڑ کر ہفت روزہ ’’تکبیر‘‘ نکالنا شروع کیا تو کئی لوگ جسارت کو خیر باد کہہ گئے۔ طاہر مسعود نے کچھ دن جنگ میں کالم لکھے تو مخالفین نے میر خلیل الرحمن کو طعنہ دیا کہ ’’کیا جنگ جماعت اسلامی کے حوالے کردیا گیا۔‘‘ یہ تنگ نظری کی انتہا تھی۔
اور پھر 32 سال پہلے طاہر مسعود جامعہ کراچی کے شعبہ ابلاغ عامہ سے وابستہ ہوگئے۔ وہ صحیح مقام پر پہنچ گئے تھے جہاں اُن کے جوہر کھل کر سامنے آئے۔ انہوں نے کالم نگاری سے زیادہ صحافت کے طالبانِ علم کے لیے کئی مفید کتابیں لکھ ڈالیں۔ ہم تو سمجھ رہے تھے کہ ان کی بس ایک ہی کتاب ’’ہم صورت گر کچھ خوابوں کے‘‘ ہوگی لیکن پریس کلب جا کر دیکھا تو ان کی متعدد کتابیں رکھی ہوئی تھیں اور اس موقع پر یہ بھی معلوم ہوا کہ مزید 10 کتابیں اشاعت کی منتظر ہیں۔
ہم جب پریس کلب پہنچے تو ایک بڑا ہجوم صدر دروازے کے باہر جمع تھا‘ اس طرح کہ اندر جانے کا راستہ بھی نہیں تھا۔ ہمیں طاہر مسعود کی ایسی مقبولیت پر حیرت ہوئی اور رشک بھی آیا لیکن جلد ہی اندازہ ہوا کہ یہ ہجوم تو پریس کلب کے دروازے پر کھڑا برما کی حکومت کو للکار رہا تھا۔ آواز اتنی بلند تو تھی کہ برما تک پہنچ رہی ہوگی‘ البتہ قریب والوں کے کان میں برما کر رہی تھی۔ ذیلی دروازے سے اندر پہنچے تو طاہر مسعود اپنے احباب کے ساتھ لان ہی میں فروکش تھے اور باہر کے شور کی وجہ سے ایک دوسرے کے کان سے منہ لگا کر تبادلہ بے خیالی میں مصروف تھے۔ استاد نثار زبیری کا انتظار تھا۔ وہ آئے تو سب ابراہیم جلیس ہال میں جمع ہوئے اور ڈاکٹر توصیف نے تقریب کے آغاز کا اعلان کیا۔
محفل میں بٹھانے کا انتظام کچھ یوں تھا کہ تقریب کے دولہا طاہر مسعود اسٹیج پر تھے اور مقررین کے سامنے سامعین تھے۔ طاہر مسعود کے سامنے نہ ہونے کا فائدہ یہ ہوا کہ مقررین نے ان کی خوب خوب تعریفیں کیں اور منہ پر تعریف کرنے کے الزام سے بچ نکلے۔ یہ اور بات ہے کہ کسی مقرر نے طاہر کی ذات کے بارے میں مبالغہ نہیں کیا بلکہ جو کہا وہ بھی کم تھا۔ نثار احمد زبیری تو یہ کہہ رہے تھے کہ میں بھی شعبہ ابلاغ عامہ کا صدر نشین رہا ہوں لیکن جو کام طاہر مسعود کر گئے‘ وہ میں بھی نہیں کرسکتا تھا۔ بڑی دبنگ شخصیت ہے۔
شعبہ ابلاغ عامہ میں طاہر مسعود کے ہونے کا ایک بڑا فائدہ یہ ضرور رہا ہوگا کہ طالبانِ علم کی اردو صحیح ہوگئی ہوگی جو صحافت میں نوواردوں کا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ایک مقرر نے بتایا کہ طالبان علم کا سب سے زیادہ رش طاہر مسعود کے کمرے میں رہتا تھا جس میں لڑکے بھی ہوتے تھے۔ اب اس میں کیا شک کہ شخصیت بھی پُرکشش ہے۔ ہمارا ان سے تعلق اس وقت کا ہے جب ان کا تعلق جسارت سے ہوا۔ ادبی جراثیم تو ان میں پہلے ہی سے تھے۔ ایک جریدے عقاب میں اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرچکے تھے۔ جسارت میگزین میں آنے سے میگزین بھی نکھر گیا۔ انہی دنوں محترم معین الدین عقیل بھی میگزین سے وابستہ تھے اور ’’رشید شکیب‘‘ کے قلمی نام سے لکھتے تھے۔ پریس کلب میں انہیں پہچاننے میں تھوڑا سا تکلف ہوا کیونکہ ہم تو ان کے چہرے میں 37 سال پرانے جوان معین الدین کو تلاش کر رہے تھے۔ ان دنوں معروف ادیب انور سدید مرحوم بھی جسارت میگزین کی رونق میں اضافہ کرتے تھے۔ لیکن جسارت کی ادبی شان تو مشفق خواجہ کے دم سے تھی جو ’’خامہ بگوش کے قلم سے‘‘ ادبی اور فکاہی کالم لکھتے تھے اور ادارتی صفحے پر ’’غریبِ شہر‘‘ کے نام سے گل افشانی کرتے تھے۔
طاہر مسعود میگزین سے رپورٹنگ میں چلے گئے۔ وقتِ ضرورت کرائم رپورٹنگ بھی کی۔ عملی صحافت میں بھی طاہر مسعود نے کئی سال لگائے یا گنوائے اور پھر جامعہ کراچی کے شعبہ صحافت سے وابستہ ہوگئے گویا عمر بھر کی بے قراری کو قرار آ ہی گیا۔ اس شعبے کو انہوں نے اپنی عمر کے 32 سال دے دیے۔ اس اثنا میں کالم نگاری بھی جاری رہی اور بے مثال کالم لکھے جنہیں پڑھ کر رشک آتا ہے۔ بیشتر مقررین نے مشورہ دیا کہ اب استادی چھوٹ گئی تو لکھنے پر توجہ بڑھا دیں‘ امید ہے کہ ایسا ہی ہوگا۔
طاہر مسعود نے بڑی کٹھن زندگی گزاری ہے اور ان پر ’’سیلف میڈ‘‘ کی اصطلاح کا بھرپور اطلاق ہوتا ہے۔ انہوں نے خود بتایا کہ وہ مشرقی پاکستان میں پیدا ہوئے اور خونریزی اپنی آنکھوں سے دیکھی۔ خون کے دریا سے گزر کر کراچی پہنچے تو یہاں چھوٹا موٹا کام کیا۔ فٹ پاتھ پر بیٹھ کر کھلونے بھی بیچے‘ لیکن تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ جامعہ ملیہ ملیر میں داخلہ لیا تو ان کو تقریری مقابلوں میں حصہ لینے کی ہدایت کی گئی۔ طاہر مسعود گزر بسر کے لیے ایک پولٹری فارم میں بھی کام کرتے تھے جہاں ان کے بقول ہزاروں مرغیاں تھیں اور وہ تنہا۔ کہتے ہیں کہ میں نے مرغیوں کو سامع قرار دے کر ان کے سامنے پُرجوش انداز میں تقریر کی مشق شروع کردی۔ ظاہر ہے کہ مرغیاں سہم جاتی ہوں گی۔ کسی نے چپکے سے تبصرہ کیا کہ مرغیوں میں آج بھی ان کی تقریروں پر ’’ڈسکشن‘‘ ہو رہا ہے۔ اس میں یقیناًمبالغہ ہے۔
طاہر مسعود نے اپنی اہلیہ اور بچوں کا بھی شکریہ ادا کیا کہ ان کی وجہ سے انہیں لکھنے پڑھنے کے وسیع مواقع حاصل رہے۔ ہوسکتا ہے بچے بھی مطمئن ہوں کہ اچھا ہے‘ بابا جان اپنے کام میں لگے رہیں۔ تقریب کے اختتام پر ہم نے طاہر مسعود کی اہلیہ کو ان کے حوصلے پر داد بھی دی۔ لیکن ان کا کہنا تھا خود ان کا تعلق بھی ادبی گھرانے سے ہے‘ ان کی والدہ بھی لکھنے کی شوقین ہیں اور خود انہوں نے شادی سے پہلے ہی طاہر مسعود کی انٹرویوز پر مشتمل کتاب ’’ہم صورت گر کچھ خوابوں کے‘‘ پڑھ رکھی تھی۔
طاہر مسعود کی پہلی کاوش ہی ہٹ ہوگئی۔ وہ خوابوں کے صورت گر تھے اور یقیناًان کے اور بہت سے خواب تعبیر کے منتظر ہوں گے۔ توقع ہے کہ صورت گری کا سلسلہ بڑھے گا۔ مقررین ہی سے معلوم ہوا کہ انہوں نے صحافت کے طالبان علم کے لیے بھی کئی مفید کتابیں لکھ ڈالی ہیں۔ اللہ ان کی تحریروں میں برکت دے۔ ہمیں تو ان کے شگفتہ کالموں سے دلچسپی رہی ہے جس میں بہت کمی آئی ہے۔ صحافت سے ہمارا بھی تعلق رہا ہے لیکن صورت حال یہ ہے کہ ’’پہنچے وہ فلک پر‘ میں زمیں پر ٹھہرا۔‘‘ اور پھر پریس کلب کی روایت کے مطابق سیکرٹری اے ایچ خانزادہ نے اجرک بھی پہنائی۔

حصہ