(بھارتی فلمیں نہیں چلنے دیں گے (عارف رمضان جتوئی

350

بھارت ہر محاذ پر پاکستان کے خلاف مہم جاری کیے ہوئے ہے۔ کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے، تاہم بھارت نے وہاں پر مظالم کے پہاڑ توڑے۔ پاکستان کے پانیوں پر قبضے کی مودی دھمکیاں آئے روز اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہے۔ میڈیا پر بھی بھارتی صحافیوں نے خوب پروپیگنڈے کیے۔ اپنی صحافتی یلغار کو پاکستان پر اس طرح مسلط کیا کہ ہمارے گھروں تک میں بچے ان کے گن گانے لگے ہیں۔ ان کے ٹی وی چینلز، ان کی ثقافت اور ان کی پوچا پاٹ پاکستان کے قریباً ہر گھر میں دیکھی جارہی تھی۔ پاکستان نے بہترین اقدام کیا اور ان تمام بھارتی ٹی وی چینلز کو بند کردیا۔ پاکستان میں بھارت نواز افراد کو بھی متنبہ کیا گیا کہ اب بھارت کا پاکستان میں کچھ نہیں چلے گا۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق بھارت سالانہ پاکستان کے سنیماؤں سے اپنی فلموں کے ذریعے اربوں روپے کمارہا ہے۔ پاکستان کے دو بڑے ڈسٹری بیوٹرز اور ایگزی بیوٹرز نے بھارت کی 37 فلموں کو پاکستان کے 16بڑے سنیماؤں میں نشر کرکے خود بھی اربوں کمائے اور بھارت کو بھی اربوں کا منافع فراہم کیا۔ اعدادو شمار کے مطابق پاکستان میں نمائش پر ایک بھارتی فلم اوسطا 50 کروڑ سے 60 کروڑ روپے منافع حاصل کرلیتی ہے۔ اسی طرح پاکستانی فلم انڈسٹری بھی انہیں وجوہ کی بنا پر بری طرح ناکام ہوچکی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارتی اداکار، جن کو پاکستان میں عزّت و مقام دیا جاتا ہے، پاکستان مخالف سرگرمیوں میں بڑے پیمانے پر بھارتی مہم کا حصہ رہے ہیں۔ انہیں اداکاروں نے پاکستان کے خلاف جنگ مسلط کرنے کے مودی فنڈ مہم میں ٹھیک ٹھاک فنڈ جمع کرایا۔
مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کا رد عمل
کنول ریاض
اگر پاکستان میں بھارتی فلمیں چلائی جاتی ہیں تو یقیناً یہ ایک غلط فیصلہ ہوگا۔ بھارت سے دوست نبھاتے نبھاتے اپنی نسلوں کو ہندومت کی ترغیب تو نہیں دے سکتے اور ان کے کارٹون بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہیں، اس لیے پاکستان میں بھارتی مواد کو بالکل اجازت نہیں دینی چاہیے۔
قدسیہ ملک
میرے خیال سے بھارتی فلموں اور ڈراموں کی تشہیر اور اجازت کا فیصلہ عوام پر چھوڑ دینا چاہیے۔ میں تو صرف ایک بات جانتی ہوں کہ اگر ہم دوستی کریں اور خطّے میں امن کی بات کریں تو دو فریقین کے درمیان برابری کی سطح ہی پر دوستی و امن قائم ہوسکتا، اسی طرح ہم اپنا الگ تشخص برقرار رکھ سکیں گے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم اپنا تشخص تک کھو بیٹھیں ۔
نوشین اسد
بھارت کی جانب سے آنے والا مواد خصوصاً ہماری نوجوان نسل اور بچوں پر بُرے اثرات مرتب کررہا ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہماری ماؤں کے پاس بچوں کے لیے وقت نہیں، اس صورت میں بھارتی کارٹونز بھی ہمارے بچوں کا ذہن پراگندہ کررہے ہیں، ان کارٹونز سے ان کی کردارسازی کیسی ہورہی ہے، ان بچوں کے شب و روز دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
منیرہ عادل
پاکستان میں بھارتی فلموں اور ان کے ڈراموں کو چلائے جانے کا فیصلہ درست نہیں ہے۔ ان کے ڈراموں اور فلموں کو دیکھ کر ہماری نوجوان نسل اور بچے اپنی تہذیب و ثقافت سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ زبان و انداز میں واضح فرق آتا جارہا ہے، لہذاپاکستان میں ان پر پابندی ہی ہونی چاہیے۔
عمارہ کنول
بزنس کے لحاظ سے بھارت کے حق میں بہترہے، لیکن پاکستان کی معیشت اور اخلاقی لحاظ سے فیصلہ غلط ہے۔
آسیہ شاہین
فلموں پر پر پابندی تھی تو اچھا تھا۔ ٹی وی چینلز نے تو بچوں کا ستیاناس کرکے رکھا ہوا تھا۔ اب دوبارہ فلموں کو کھولنا درست اقدام نہیں ہے۔ حکومت اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرتے ہوئے ان پر دوبارہ پابندی عائد کرے۔
اریشہ فاروق
بہت غلط فیصلہ ہے، حکومت کو ملکی سلامتی پر اپنا رویّہ سخت رکھنا چاہیے۔
حسین احمد محمود
پاکستان میں بھارتی فلموں کو اجازت دینے کا فیصلہ حیران کن ہے۔ حکم راں بھارت سے دوستی، نہیں ملک سے محبت کا ثبوت دیں۔
نعمان حیدر
حکومت کا یہ فیصلہ انتہائی غیردانش مندانہ ہے، اس پر بھرپوراحتجاج ہونا چاہیے۔ میاں صاحب اپنے آقاؤں کے بجائے پاکستان کے مفاد کو ملحوظ خاطر رکھیں۔کہیں ایسا نہ ہو کہ شوکت عزیز کی طرح پاکستان میں وزارت عظمیٰ کے بعد رہنا بھی نصیب نہ ہو۔
سائرہ حسین
بھارتی فلموں کو دوبارہ پاکستان میں اجازت نامہ دینے کے فیصلہ غلط ہے۔ بھارت کی جانب سے آنے والے مواد پر پاکستان میں پابندی رہنی چاہیے اور اسے ختم نہیں کرنا چاہیے۔
عدیلہ سلیم
میرے خیال سے انڈین چینلز کو دوبارہ کھولنا بالکل درست نہیں اور جہاں تک پاکستانی عوام میں سے 50 فی صد لوگ انڈین چینلز دیکھنے کی عادت میں مبتلا ہے، وہ تو آج بھی دیکھتے ہیں ۔ حکومت نے صرف چینلز پر پابندی لگائی ہے، انٹرنیٹ پر موجود انڈین چینلز ویب سائٹس پر پابندی کا رتّی برابر سوچا نہیں گیا۔ لوگ تو انٹرنیٹ پر آج بھی انڈین ڈرامے دیکھتے ہیں، البتہ پابندی ہی رہنی چاہیے تاکہ پاکستان کے بچے ایک بہتر تہذیب و تمدن کے معیار کو مدنظر رکھتے ہوئے زندگی گزاریں۔ انڈین چینلز پر سے پابندی ختم کرنا انڈیا کے حق میں بزنس کے لحاظ سے مثبت پوائنٹ ہوگا۔
آر ایس مصطفی
فلموں اور ڈراموں پر پاکستان میں پابندی رہنی چاہیے۔ ان کی فلموں کی وجہ سے پاکستانی فلم انڈسٹری بُری طرح متاثر ہورہی ہے۔
ریما نور رضوان
بھارتی چینل بند رہنے چاہئیں۔کھلے بھی تو میں نہیں دیکھتی، بند ہی رہنا چاہیے۔ پاکستان کے ڈرامے پوری دنیا میں دیکھے جاتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے یہاں بہت ہی عمدہ ڈرامے نگار موجود ہیں اور اب جو فیلمیں بن رہی ہیں، پہلے کی نسبت بہت ہی بہتر ہیں۔ ان فیوچرز مزید ہمیں اچھی فلمیں دیکھنے کو ملیں گی۔ ہمارے ملک میں ٹیلنڈ کی کمی نہیں ہے، بس سپورٹ کرنے والوں کی کمی ہے ۔ہمیں اپنے ملک کی فلاح و بقا کے لیے ایک ہونا چاہیے۔
دشمنوں سے تعلقات قائم نہیں رکھنے چاہیے۔
اریشہ سہیل
فلموں پر پابندی سے فیصلہ ختم کرنا بہت غلط ہے۔ اس سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ ہمارے اندر سے غیرت ختم ہوچکی ہے۔ کیا اب ہم صرف اور صرف پیسوں کے لیے اپنا دین ، ایمان اور اپنی ثقافت کو قربان کردیں گے۔
ثناء واجد
بھارتی مواد کو پاکستان میں دوبارہ اجازت دینے کے حکومتی فیصلے سے میں متفق نہیں ہوں اور اگر دیکھا جائے تو ایک اسلامی ملک ہونے کی حیثیت سے انڈین ٹی وی چینلز اور فلمز پر پابندی بہت اچھا قدم تھا، کیوں کہ ملتی جلتی زبان کے سبب ہمارے بچوں پر بہت برا اثر پڑرہا تھا اور سچ پوچھیں تو انڈین ٹی وی چینلز اور فلمز پر سے دوبارہ پابندی اٹھا کر اخلاقی لحاظ سے یہ گھاٹے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
قدسیہ مدثر
بھارت کے ڈرامے اور فلمیں پاکستانیوں کو نظریاتی طور پر کھوکھلا کررہے ہیں۔ایک طرف ان کی سرحد پر جارحیت جاری ہے، دوسری طرف ہم سے ثقافتی جنگ۔
نمرہ فرقان
بھارتی فلموں کو پاکستان میں اجازت دینے کے فیصلے سے دکھ ہورہا ہے۔ بھارت کی پے در پے درندگی اور اس کے بعد ہمارا یہ نرم برتاؤ سراسر بے وقوفی ہے۔ ان چینلز کو بند ہی رہنا چاہیے۔ یہ بھی ایک جنگ ہی ہے، اگر ہمارے حکام سمجھیں تو۔۔۔!!
نعمان احمد
ہماری روایات، رسم و رواج کا بیڑا غرق کیا جارہا ہے اور ان سب کے پیچھے بھارت کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ ہمارے بچے جو قرآن کریم پڑھنے والے تھے، تو وہی بچے آج کل ہندوانہ رسم و رواج کو اپنانے لگے ہیں۔ ہم انڈیا کے چینلز کو لے کر اپنی نسلوں کو خراب کررہے ہیں۔ہمارے بیٹے، بیٹیاں جو کہ اردو ادب پڑھ کر بہت اچھا مقام حاصل کر سکتے تھے، اس ساری ہندی نے اردو ادب کا بیڑا غرق کر دیا، ان پر پابندی لگنی چاہیے ورنہ عوام کو یہ فیصلہ اپنے ہاتھ میں لینا پڑے گا۔
ایڈووکیٹ سعدیہ ہما شیخ
حکومت کی جانب سے بھارت کی واہیات فلموں پر پابندی ہٹانے کا فیصلہ بھی واہیات ہی ہے۔
علی رضا
یہ بالکل افسوس ناک امر ہے۔ اب پاکستان جیسے اسلامی ملک میں دشمن ملک کا مواد چلایا جائے گا، یہ تو سیدھا سیدھا ہماری روایات پر وار کے مترادف ہے۔
سارہ فردوس
بہت افسوس کی بات ہے کہ ہماری فوج تو بارڈر پر لڑ تی ہے اور عوام اسی ملک کے ڈرامے اور فلمیں دیکھتی ہے۔ ان کے ایکٹرز کوعوام اپنا ہیرو مانتی ہے،جب کہ ہمارے ہیرو عزیز بھٹی، راشد منہاس ہیں۔ یہ سب پیسہ کشمیر اور ہمارے خلاف ہی استعمال ہوتا ہے۔ وطن کی حفاظت فوج کا نہیں عوام کا بھی فرض ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ عوام میں اس بات کا شعور دیا جائے نہ کہ بھارتی فلمیں دکھائی جائیں۔
فری ناز خان
بھارتی چینلز اور فلموں پر پاکستان میں مکمل پابندی ہونی چاہیے۔ انہیں یہاں پر اجازت دینا درست فیصلہ نہیں ہے۔ حکومت کو نظر ثانی کرنی چاہیے یا پھر اس کے خلاف عدالت کو ایکشن لینا چاہیے۔
سعدیہ عابد
نہایت غلط فیصلہ ہے۔ کسی بھی قوم کی خودداری اس کی انا بہت معنی رکھتی ہے اور اپنی عزّت نفس کی خود حفاظت کرنی ہوتی ہے۔ انڈین چینلز کو کھولنا ایسا ہی ہے، جیسے تھوک کر چاٹنا۔ اپنی عزّت نفس کو دوسروں کی غلامی میں دینا۔ اللہ ہمارے حکم رانوں اور عوام کو ہوش کے ناخن دے اور اقبال کا فلسفہ خودی ذہنوں میں تازہ کرکے عمل کی توفیق دے، آمین!
علی رضا منگی
حکومت کو ہوش کے ناخن لینے چاہییں۔ اپنے ملک کے خلاف ہی فیصلے کیے جارہے ہیں۔ اپنے دشمن کو اپنے ہی ملک میں لاکر ان کی بولی اپنی عوام کو سنانا کون سی عقل مندی کی بات ہے؟
اقصیٰ مبین
بھارتی فلموں اور ڈراموں کو پاکستان میں بند رہنا چاہیے۔ کچھ روز بند رہنے سے بہت ٹائم بچا ہے۔ حکومت کو بھی فیصلہ عوام سے پوچھ کرکرنا چاہیے۔ حکومت کو عوام کی رائے سے گویا کوئی سروکار ہی نہیں رہا۔ جہاں تک عوام کی ذاتی زندگی ہے تو عوام اپنے ایمان پر قائم ہیں۔ عوام فیصلہ کریں کے اب یہ سب نہیں دیکھنا اور اس پر ڈٹ جائیں۔
ارم فاطمہ
حکومتی فیصلے حکومت کے اپنے ہوتے ہیں، جس حد تک عوام کی زندگی متاثر ہونی تھی، وہ ہوتی ہے اور ہوتی رہے گی۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ انہیں اپنے مؤقف پہ قائم رہنا چاہیے اور بھارتی جارحیت کو روکنا اور احتجاج اور اپنے دفاع کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے ۔
تانیہ مہر
بھارتی چینلز اور ان کی فلمیں پاکستان میں ہرگز نہیں چلنی چاہئیں۔ان فلموں، کارٹونز اور ڈراموں کی وجہ سے ہماری نسل پر بہت بُرے اثرات مرتب ہوئے ہیں، یہاں تک کہ ثقافت کے ساتھ ساتھ زبان تک خراب ہوئی ہے۔
عامر خان
اچھا اقدام تو نہیں ہے لیکن اگر بند ہوں بھی سہی تو ہم عوام کون سا ان سے پرہیز برت رہے ہیں؟ انٹرنیٹ سب سے بُری بیماری ہے آج کی۔ بے چارے سینمامالکان کے بزنس تباہ ہو رہے تھے، اگر پابندی برقرار رہتی تو بہتر تھا۔
nn

حصہ