2017 (کیا ہوگا (محمد انور

201

پاکستان کے لیے ختم ہونے والا سال 2016 امن و امان کے حوالے سے بہتر تھا، مگر سیاسی اور معاشی لحاظ سے یہ سال گزشتہ سالوں کی طرح ہی غیر مستحکم رہا۔ پنجاب اور کے پی کے میں ترقیاتی کام دیکھنے میں آئے، تاہم سندھ اور بلوچستان میں اس حوالے سے صرف بیانات اور باتیں چلتی رہیں ۔ اب فکر یہ ہے کہ 2017 کیسے رہے گا؟ملک کی سیاست میں کیا کچھ ہوگا؟ معاشی صورت حال کیسی رہی گی اور سب سے اہم یہ کہ کیا امن و امان میں بھی مزید بہتری آئے گی یا پھر خدانخواستہ حالات ماضی کی طرح خراب ہوجائیں گے۔۔۔؟
امن وامان کے حوالے سے کے ہرکوئی خوش ہے، لیکن ہمیشہ کی طرح فکر مند بھی ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ امن و امان کے حوالے سے حالات قابو میں رہنے کی وجہ سے کراچی کے نام پر یا لسانی بنیادوں پر سیاست کرنے والی جماعتیں مشکلات کا شکار ہے ۔خصوصاً ایم کیوایم ٹکڑوں میں بٹنے کے بعد اپنے مستقبل سے شاکی ہے۔ کراچی میں امن و امان ہوجانے کے بعد سے یہ بات واضح ہورہی ہے کہ کئی برسوں تک شہر کے حالات کی خرابی کی ذمّے دار یہی لسانی جماعتیں تھیں، جو ان دنوں مختلف نوعیت کے مسائل کا شکار ہیں۔
امن و امان کے حوالے سے کراچی سمیت ملک بھر کے باشندے اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ملک کی عسکری قیادت کی پالیسی سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف کی پالیسی اور فیصلوں کے تحت چلتی رہی تو ملک بھر میں امن و امان کے ساتھ ساتھ حالات بھی روز بروز بہتر ہوتے جائیں گے، اس لیے نئے برس میں بھی لوگ نئے آرمی چیف جنرل قمر باجوہ سے بھی اسی طرح کی توقعات باندھے ہوئے ہیں، جیسے جنرل راحیل شریف سے رکھتے تھے۔کراچی کے شہری بھی نہ صرف یہ سمجھتے ہیں بلکہ ان کی خواہش بھی ہے کہ کراچی میں امن و امان کے لیے رینجرز اسی طرح مسلسل کارروائی کرتی رہے، جیسے گزشتہ تین سال سے کررہی ہے۔ مثالی امن و امان قائم کرنے اورہر روز کسی بھی وجہ سے ٹارگٹ کلنگ اور پھر احتجاج کے نام پر شہر کو بند کرنے کے سلسلے کے خاتمے پرعروس البلاد کراچی کے شہری رینجرز کو قدر اور احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، بالکل اسی طرح جیسے ملک بھرخاص طور پر کے پی کے اور بلوچستان میں امن و امان کے حالات بہتر کرنے پر فوج کودیکھا جارہا ہے۔
لوگوں کو عسکری قیادت سے کرپشن کے سدباب کے لیے اقدامات کی بھی توقعات ہے، جو ملک کی سیاسی قیادت کی مرضی کے بغیر ممکن نہیں ہے، اس لیے نئے سال میں سیاسی جماعتوں کو حکومت کی تبدیلی کی جدوجہد سے زیادہ حکومتی اداروں سے کرپشن کے خاتمے پر مرکوز رکھنی چاہیے۔ عام لوگوں کو یقین ہے کہ ملک کے جمہوری نظام میں ’’ووٹوں یا لوٹوں‘‘ کی خریداری کے وجہ سے کرپشن کی ابتدا ہوتی ہے، اس لیے نئے سال میں کوئی ایسی قانون سازی کرنے کی ضرورت ہے، جس کے تحت ووٹ کو نوٹ کے ذریعے خریدنے پر پابندی ہو۔
ملک کی نمبر دو، لیکن دوسری بڑی پارٹی پیپلز پارٹی گزشتہ سال کے آغاز کے ساتھ ہی مفاہمت کی سیاست کے لیے کرپشن اور دیگر معاملات پر سڑکوں کے بجائے اسمبلیوں کے اندر سیاست کا عندیہ دے چکی ہے، اس مقصد کے لیے پی پی پی کے چیئرمین بلاول زرداری اور ان کے صاحبزادے رواں سیشن میں ہی قومی اسمبلی کی نشستیں حاصل کرنے کااعلان کرچکے ہیں۔ یہ دونوں نشستیں پیپلز پارٹی کے پاس ہی موجود ہے، لیکن اگرووٹر چاہیں تو ایمان داری اور دیانت داری سے کسی اور پارٹی کے امیدوار کو بھی منتخب کراسکتے ہیں۔ ایسی صورت میں سیاست میں بڑی تبدیلی رونما ہوسکتی ہے، لیکن اس مقصد کے لیے عسکری قوت کو اپنا غیر جانبدارنہ کردار ادا کرکے ووٹرز کے تحفظ کی یقین دہانی کرانی ضروری ہوگی۔
حکومت کے خلاف لانگ مارچ کے حوالے سے پیپلز پارٹی کے مرکزی ترجمان فرحت اللہ بابر یہ کہہ چکے ہیں کہ 90 کی دہائی کے آغاز میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی چیئرپرسن اور سابقہ وزیراعظم بینظیر بھٹو نے پارٹی کارکنوں اور رہنماؤں کے ہمراہ پاکستان مسلم لیگ (نواز) کی حکومت کے خلاف دو بار اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کیا، اس بار پی پی پی دارالحکومت کی جانب کسی مارچ کا ارادہ نہیں رکھتی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس بار مختلف شہروں میں ریلیوں اور عوامی اجتماعات کا سلسلہ شروع کیا جائے گا۔ یہ بیان مفاہمت کی پالیسی اور حکومت کے ساتھ نرم رویّہ اختیار کرنے کے اعلان کے مساوی ہے۔
قوم کو پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری کے اسمبلیوں کی سیاسی میں شرکت کے اعلان کے بعد سے ہی یہ امید ہوگئی تھی کہ اب پاناما لیکس سمیت تمام ایشوز کو دبانے کا سلسلہ شروع کردیا جائے گا، جسے جمہوریت کے استحکام کے لیے مفاہمتی پالیسی کا نام دیا جائے گا ۔ مفاہمتی پالیسی سے جمہوریت کو فائدہ جمہور کا گلا گھونٹ کر اس کی آواز کو دباکر پہنچایا جاتا ہے، جو کسی بھی طرح مناسب نہیں ہے۔
ملک کی سیاسی جماعتوں میں تحریک انصاف بھی قوم کی توقعات پر پوری اترتی ہوئی نظر نہیں آرہی۔ لوگوں کو امید تھی کہ تحریک انصاف جلد ہی اپنی سیاست سے لوگوں کے دلوں میں جگہ بنالے گی، لیکن ایسا تاحال ہوتا نظر نہیں آرہا۔ وجہ تحریک انصاف کی غیر واضح پالیسی اور عہدوں کے چناؤ کے لیے غیر منصفانہ طرز عمل ہے۔ سیاسی جماعتوں کے حوالے سے نیا سال شروع ہونے کے باوجود مسلم لیگ ق اور جے یو آئی فضل الرحمان کی آئندہ کی حکمت عملی کے بارے میں کوئی رائے دینا قبل ازوقت ہے ،کیوں کہ یہ جماعتیں آخری وقت میں بھی اپنی سیاسی حکمت عملی تبدیلی کرلیتی ہیں۔ رہی بات جماعت اسلامی پاکستان کی اس بارے میں کچھ لکھا جائے تو لوگ اسے ’’ اپنے منہ میاں مٹھو ‘‘ بننا قرار دیں گے، حالاں کہ اگر لوگ مکمل ایمان داری ، دیانت داری اور حقیقت پسندیدی سے سیاسی جماعتوں کا جائزہ لیں تو ملک کی قومی سیاسی جماعتوں میں واحد جماعت اسلامی ہی نظر آتی ہے، جو لفظ’’ ایمان دارنہ سیاست ‘‘ پر پوری اُترتی نظر آتی ہے ۔ جماعت کی جدوجہد نہ صرف ملک کے استحکام بلکہ ملک کو حقیقی مسلم ملک بنانے کے لیے ہے، جہاں انصاف بھی ہو اور کرپشن سے پاک نظام بھی۔
ملکی ترقی کے منصوبوں کے حوالے سے ختم ہونے والے سال میں ’’سی پیک‘‘ کا شور شروع ہوا، جو نئے سال کے آغاز پر عروج پر پہنچ چکا ہے۔ ہر طرف سے سی پیک کی آوازیں آرہی ہیں، حالاں کہ اس منصوبے کے منفی پہلو بھی سامنے آرہے ہیں۔ فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس انڈسٹریز (ایف پی سی سی آئی )کی رپورٹ کے مطابق اس منصوبے سے بلوچستان میں غیر ملکی کی آمد بڑھنے سے مقامی آبادی اقلیت میں تبدیل ہوسکتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق منصوبے سے خطّے میں طویل مدت میں سیاسی وسماجی تبدیلی آسکتی ہے، جب کہ حکومت کو مقامی معیشت اورصنعتوں کومنفی اثرات سے بچانے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔ سی پیک کا مشرقی اور مغربی روٹ بعض اہم علاقوں سے دور ہے، راہداری منصوبے کا کام کئی مقامات پرتیزی سے جاری ہے، تاہم بعض علاقوں میں اس کی رفتارکم ہے، جب کہ دوسری طرف بیجنگ میں سی پیک کی مشترکہ تعاون کمیٹی کا اجلاس ہوا ، جس میں سی پیک سے متعلق تنازعات کو ختم کرتے ہوئے کراچی سرکلر ر یلوے، کیٹی بندر اور دھابیجی اسپیشل اکنامک زون منصوبوں کو سی پیک میں شامل کرلیا گیا، اسی طرح سندھ سمیت چاروں صوبوں میں اقتصادی زون بنائے جائیں گے، جن کی چینی حکام نے منظوری دے دی ہے۔
سی پیک کا منصوبہ اپنی جگہ، لیکن نئے سال میں بھی اگر پنجاب اور سندھ کے بلدیاتی اداروں کو اختیارات ماضی کی طرح نہیں دیے گئے تو خصوصاً کراچی میں مسائل میں اضافہ ہوسکتا ہے، کیوں کہ پنجاب حکومت تو اپنے شہروں کی ترقی کے لیے کوشاں ہے مگر سندھ حکومت کراچی کے منصوبوں میں دل چسپی لینے کے بجائے انہیں کسی بھی طرح التوا میں ڈالنے میں زیادہ متحرک نظر آتی ہے۔
نئے سال میں عدلیہ کا کردار کیسا ہوگا؟ قوم اس سوال کا جواب جاننے کے لیے بھی دل چسپی رکھتی ہے ۔ قوم کو عدلیہ سے توقعات ہے کہ وہ فیصلے کرے نہ کہ ریمارکس پاس کرے اور فیصلوں کے لیے مہلت دے۔ ایک آزاد عدلیہ کا کردار اسی صورت میں واضح ہوسکتا ہے، جب وہ جلد سے جلد تمام مقدمات کے حوالے سے منصفانہ فیصلے کرے۔ بہرحال، دیکھتے ہیں کون کیا کرتا ہے اور نئے سال میں کیا کچھ مثبت اور منفی ہوتا ہے؟
nn

حصہ