(محمد علی گوہر کا نعتیہ شعری مجموعہ’’قلزِم کیف و سُرور‘‘ (محمد ابوبکر صمدانی

332

اس کایا پلٹ منظر سے استغنا بھی کفران اور سوءِ ادب ہے اور یقیناًاس کا نذرِ نسیان ہوجانا بھی بدبختی کا قرینہ ہے۔
ادارۂ فکرِ نو کی پاکیزہ، معطر فضا میں ایک زریں طشت میں گلاب کی پتیوں کے طور نما میں ایک تجلی رکھی تھی۔ سو جب کلیاں چٹکیں اور پتیاں مہکیں تو برسوں سے سنگِ دل پر ضربِ کلیمی کے وار سے پھوٹنے والے چشموں کا بند ’’قلزم کیف و سرور‘‘ زم زم اور کوثر سے کسبِ فیض کرتے ہوئے بہہ نکلا۔ جو اس عاشق کی سندِ عشق تھی جس کی آنکھوں میں شکر و نشاط کے نسبتی اشک تھے جو قلزم کی نورانی سیپیوں میں طویل ’’پابندئ سلیقہ اظہار‘‘ پاکر اب گوہر آب دار کی طرح سراپا بیان تھے۔ ’’گوہر کو قلزم‘‘ کرنے کا سہرا تو بقول استاذی عبدالصمد تاجیؔ حضرت قمر وارثی کے سر ہے، جو دبستانِ وارثیہ کے سرخیل ہیں۔ آج کی بہار کے پیچھے اسی درویش کے ماہ وسال ہیں جس کے ’’نعتیہ ردیفی مشاعرے‘‘ آج بھی جاری ہیں۔
دے رہا ہے یہ خبر آئینۂ فکر و شعور
ہے ورق اندر ورق جلوہ فگن شانِ حضورؐ
اس حقیقت کے تناظر میں قمرؔ ایک ایک حرف
ہے کمال عشق آقا ’’قلزم کیف و سرور‘‘
(قمر وارثی)
اور اسی قلزمِ کیف سروور سے اٹھ کر یہ معطر ہوائیں کائنات کو مخمور کرنے والی ہیں۔
معطر معطر منور منور شگفتہ شگفتہ
ہے خاک در مصطفی مشک و عنبر شگفتہ شگفتہ
ڈاکٹر شاداب احسانی کا احساس:
’’مجھے قمر علی گوہر کی نعتوں میں روحانی کیفیات کے ساتھ زندگی بھی رواں دواں دکھائی دیتی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق اور دربارِ رسالت پر حاضری ان کی شاعری کی اساس قرار پائی ہے۔‘‘
کرم کی ایک نظر ہو تو بات بن جائے
نصیب طیبہ نگر ہو تو بات بن جائے
کرم کی اس نظر پر پروفیسر سحر انصاری صاحب نے یوں نظر فرمائی:
’’محمد علی گوہر نے مجموعہ غزلیات سے پہلے مجموعہ نعت لانے کا فیصلہ کرکے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے والہانہ عشق کا برملا اظہار کیا ہے۔ مجموعے کا نام ’’قلزم کیف و سرور‘ ‘ بھی اپنے اندر گہری معنویت رکھتا ہے۔ ان کی نعتیہ شاعری بلاشبہ سچے جذبوں سے عبارت ہے۔ ان کے ہر شعر میں خود سپردگی کی کیفیت پائی جاتی ہے۔‘‘
محمد علی گوہرؔ کے فکر و فن کی ’’قابلیت و قبولیت‘‘ کی بابت ڈاکٹر عزیز احسن ’’شعرِ عقیدت‘‘ کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں:
’’جناب محمد علی گوہرؔ بھی ایسے ہی شعرا کی صف میں شامل ہیں جو اپنا تخلیقی سرمایہ نعتیہ مضامین کی شعری شبیہ (Image) میں پیش کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ میں خود کو اس مجموعے میں شامل نعتیہ غزلوں کے معنوی ارژنگ میں موجود پاتے ہوئے احساساتی ہالے کی روشنی میں محسوس کررہا ہوں۔‘‘
درِ نبیؐ سے جڑے ہوئے ہیں تمام روشن خیال رشتے
حضورؐ ہی کے کرم سے قائم ہوئے ہیں سب بے مثال رشتے
اس بے مثال رشتے کی گواہی حضرت ماجد خلیل ؒ یوں دیتے ہیں:
’’اس کی بیشتر نعتوں میں ایک دو اشعار ایسے ضرور ہیں جن کی ادائیگی کے دوران اس پر بے اختیاری کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔۔۔ اس صورت حال کے باعث اکثر مشاعروں میں وہ نعت مکمل کیے بغیر ہی اٹھ جاتا ہے اور خاصی دیر تک اس عالم بے اختیاری کے حصار سے باہر نہیں نکل پاتا ہے۔‘‘
رابطہ صرف گوہر کا ہو آپؐ سے
اور پھر کٹ جائے ہر رابطہ
پروفیسر جاذب قریشی ’’قرطاس و قلم کی روشنیاں‘‘ کے زیرعنوان لکھتے ہیں:
’’ہمارے عہد کی نعت گوئی کوئی رسمی چیز نہیں ہے۔ یہ ہمارے سنجیدہ ترین ابلاغ اور پُرخلوص جذبات سے دہکی ہوئی شاعری ہے۔ نعتیہ شاعری صنفِ سخن نہیں ہے، ایک عظیم موضوع ہے۔‘‘
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ محمد علی گوہر کی نعتیہ شاعری رسم و رواج کی بت گری نہیں ہے بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مقصدِ بعثت میں شامل ’’بت شکنی‘‘ کے مضامین ہمیں ان کی شاعری میں جا بہ جا ملتے ہیں۔
رہے نسبت اگر بابِ نبی سے
نکل آئے زمانہ تیرگی سے
دیدۂ اختر سعیدی علم و عرفان کے ڈوروں سے اپنے رفیقِ دیرینہ محمد علی گوہر کے شعری کمالات کو یوں دیکھتی ہے:
’’محمد علی گوہر اب دیا نہیں رہا، چراغ بن گیا ہے۔ اس کے ہاتھ میں اب وہ چراغ ہے جس کو بجھانے والوں کے ہاتھ خود لہولہان ہوجائیں گے۔ اب محمد علی گوہر کو کسی استاذ کی ضرورت نہیں۔ وہ فارغ اصلاح ہوچکے ہیں۔ فن پر ان کا درک بتاتا ہے کہ دس پندرہ برس میں وہ خود درجۂ استاذی پر فائز ہوں گے۔‘‘
آئینہ دارِ خودی ہے ’’قلزم کیف و سرور‘‘
زندگی ہی زندگی ہے ’’قلزم کیف و سرور‘‘
آگہی جس نے عطا کی ذرے ذرے کو رشیدؔ
ایک ایسی روشنی ہے ’’قلزم کیف و سرور‘‘
(رشید خان رشیدؔ )
محمد علی گوہر صہبا اختر کے باقاعدہ شاگرد رہے۔ یقیناًاگر صہبا اختر زندہ ہوتے تو اس گوہرِ آب دار کو اپنے سے منسوب پاکر خود کو امیر ترین انسان تصور کرتے۔ سو حاجی صوفی محمد صدیق دہلوی کا سب سے چھوٹا پوت محمد علی گوہر آج بڑا سپوت ہوچکا ہے اور قمر وارثی اور دبستانِ وارثیہ کے ردیفی مشاعروں میں شرکت کرتے ہوئے جب وہ نعت گنگناتا ہے تو فضا سابونی سے زیادہ شیریں اور صدا سارنگی سے زیادہ دل نشین ہوجاتی ہے۔
تصور میں جب تک ہیں طیبہ کے جلوے
مجھے پا سکیں گے نہ دنیا کے جلوے
وہ ادارۂ فکرِ نو کے بانی حضرت نور احمد میرٹھی سے عقیدت کا اظہار یوں کرتے ہیں:
’’انہوں نے ہمیشہ شفقت و محبت سے مجھے نوازا، ان سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا، ان کی خواہش تھی کہ ان کی زندگی ہی میں میری کتاب آجائے۔‘‘
سو اب نعت کے عظیم محقق نور احمد میرٹھی کی روح اپنی خواہش کی تکمیل پر تسکین پاچکی ہوگی کہ ان کا ایک چہیتا شاگرد مجموعہ نعت ’’قلزم کیف و سرور‘‘ کا خالق بن چکا ہے۔
حضرت عائشہؓ روایت کرتی ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حسان بن ثابتؓ کے لیے منبر لگواتے اور نعت پڑھنے کی تلقین کرتے۔ حضرت حسانؓ کھڑے ہوکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے مدافعت کرتے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ’’بے شک اللہ تعالیٰ حسان کی مدد جبریل ؑ سے فرماتا ہے۔‘‘
اسی کو علامہ اقبال نے یوں بیان فرمایا:
ہم سایہ جبریل امین بندۂ خاکی
ہے اس کا نشمین نہ بخارا نہ بدخشان
سو محمد علی گوہر بھی براقِ عشق پر سوار نعت کی معراج پر چل نکلے ہیں اور ان کے ہم سایہ فرشتے ہیں۔ صاحبِٖ قصیدہ بردہ اور علامہ جامی کی مدح سرائی ان کے لیے توشہ آخرت بنی اور یقیناًمحمد علی گوہر کو بھی دربارِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی خلعت ملے گی جو ان کی سعیوں کا حاصل اور ان کے زخموں کا مرہم ہوگی، مگر اب کے یہ درماں ابدالآباد کے لیے ہوگا۔
اس دعا میں آپ بھی شامل ہوں:
اگر میرا مدفن ہو خاکِ درِ مصطفی تو پھر گوہرؔ
رہے تابہ محشر یقیناًمرا بھی کفن مہکا مہکا

حصہ