(معلم ااخلاق(محمد عنایت اللہ سبحانی

483

دنیا کی مختلف قوموں اور مختلف ملکوں میں ایک سے ایک مصلح گزرے ہیں، جنھوں نے انسانی معاشرے کو سدھارنے کی جدوجہد کی، جنھوں نے اچھائیوں کی دعوت دی اور برائیوں سے روکا، لیکن ان میں سے ہر ایک کا حال یہ تھا کہ اس نے کچھ خاص خاص اچھائیوں پر زور دیا اور چند ایک برائیوں کے خلاف آواز اٹھائی۔
ایسا کوئی مصلح نہیں پاؤگے، جس نے پوری انسانی زندگی کو اچھائی کے سانچے میں ڈھال دیا ہو، جس نے زندگی کے تمام پہلووؤں کا گہرا مطالعہ کیا ہو۔ ہر شعبۂ زندگی میں جتنی اچھائیاں ہوسکتی تھیں، ان سب کی تاکید کی ہو اور جتنی برائیاں ہوسکتی تھیں، ان سب کے خلاف آواز اٹھائی ہو۔
یہ خصوصیت بس محمد عربیؐ کو حاصل تھی، جنھیں ربّ العالمین نے رحمۃ اللعالمین بنا کر بھیجا تھا اور تورات وانجیل میں جن کی خصوصیات میں سے یہ خصوصیت خاص طور سے ذکر فرمائی تھی:
’’وہ انھیں اچھائیوں کا حکم دے گا اور برائیوں سے روکے گا۔‘‘ (الاعراف 7:157)
چنانچہ اس پیش گوئی کے مطابق آنے والا نبی آیا تو اس نے ایسا نہیں کیا کہ وہ عام انسانوں سے الگ تھلگ رہتے ہوئے کچھ اچھائیوں کی تلقین کردے اور کچھ برائیوں سے دور رہنے کی نصیحت کردے، بلکہ اُس نے عام انسانوں کے درمیان اور مسائل کے منجدھار میں رہتے ہوئے اپنی زندگی گزاری اور قدم قدم پر پیش آنے والے معاملات میں بتایا کہ خیر کیا ہے؟ شر کیا ہے؟ جائز کیا ہے؟ ناجائز کیا ہے؟ کیا کرنا ہے؟ اور کیا نہیں کرنا ہے؟
تاجر کو ہدایت
اس نے بتایا اگر تجارت کی جائے تو اس طرح کی جائے کہ کسی کو دھوکا نہ دیا جائے۔ اُس نے تاکید کی کہ جو چیز لوگوں کو دکھاؤ، وہی چیز ان کے ہاتھ فروخت کرو۔ ایسا نہ ہو کہ سامنے تو اچھا مال رکھ دو اور دیتے وقت غلط مال دے دو۔
ایک بار آپؐ نے دیکھا کہ ایک شخص غلّے کی تجارت کر رہا ہے اور سامنے غلّے کا ڈھیر لگا ہوا ہے۔ آپؐ نے اس غلّے کے اندر اپنا ہاتھ ڈال دیا۔ دیکھا تو اوپر جو غلہ تھا، اندر کا غلہ اس سے مختلف تھا۔ اوپر تو سوکھا ہوا غلہ تھا مگر اندرکا غلہ بھیگا ہوا تھا۔
آپؐ نے فرمایا: ’’اے گندم بیچنے والے یہ کیا ہے؟‘‘
’’اللہ کے رسولؐ! یہ بارش سے بھیگ گیا ہے۔‘‘ گندم بیچنے والے نے عرض کیا۔
آپؐ نے فرمایا: ’’تو اس بھیگے ہوئے غلّے کو اوپر کیوں نہیں رکھا کہ لوگ اسے دیکھ سکیں۔ یادرکھو، جو لوگوں کو دھوکا دیتا ہے وہ ہم میں سے نہیں۔‘‘(مسلم:102)
اس طرح آپؐ نے حیاتِ انسانی کے ایک ایک گوشے کا جائزہ لیا اور زندگی کی کوئی ایسی اچھائی نہیں، جس کی تاکید نہ کی ہو اور کوئی ایسی برائی نہیں، جس سے خبردار نہ کیا ہو۔
ایمان کا دلکش تصور:
حد یہ ہے کہ آپؐ نے ایک مومن کے ایمان کی علامت ہی یہ قرار دی کہ اسے اچھائی کرکے خوشی ہو اور برائی سرزد ہو جائے تو تکلیف ہو۔
آپ نے مومن کی شان ہی یہ بتائی کہ لوگ اس کی طرف سے پرامن رہیں۔ اس سے کوئی اندیشہ نہ رکھیں۔
آپؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے ہاں بندے کا نام مومنین کے رجسٹر میں لکھا ہی نہیں جاتا، جب تک لوگ اس کے ہاتھ اور زبان سے محفوظ نہ ہوں، اور وہ مومنین کا درجہ نہیں حاصل کرسکتا جب تک اس کا پڑوسی اس کی اذیتوں سے محفوظ نہ ہو۔
آپؐ نے فرمایا: ’’تین چیزیں ایسی ہیں، جو کسی کے اندر بھی ہوں تو وہ منافق شمار ہوگا، چاہے وہ روزے رکھتا ہو اور نمازیں پڑھتا ہو حتیٰ کہ اس نے حج اور عمرہ بھی کرلیا ہو اور یہ دعویٰ کرتا ہو کہ وہ مسلم ہے۔ وہ شخص جو بات کرے تو جھوٹ بولے، وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے، اس کے پاس امانت رکھی جائے تو اس میں خیانت کرے۔‘‘
آپؐ نے فرمایا: ’’وہ شخص ہم میں سے نہیں، جو عصبیت کی دعوت دے۔ وہ شخص بھی ہم میں سے نہیں، جو عصبیت کی بنیاد پر جنگ کرے۔ اور وہ شخص بھی ہم میں سے نہیں جو عصبیت پر جان دے۔‘‘
کیا قوموں کی پوری تاریخ میں کوئی بھی مصلح ایسا گزرا ہے، جس نے زندگی کے ایک ایک شعبے کی اصلاح کی ہو؟
کیا ایسا کوئی مصلح گزرا ہے، جس کی پوری دعوت کی بنیاد عام امن و محبت ہو؟
کیا ایسا کوئی مصلح گزرا ہے، جس کی دعوت کا طرۂ امتیاز ہی اچھائیوں سے محبت اور برائیوں سے نفرت ہو؟
اب آیئے ذرا تفصیل سے دیکھیے، زندگی کا کون سا گوشہ ہے، جس کی رحمت عالمؐ نے اصلاح نہیں کی؟ حیاتِ انسانی کا کون سا شعبہ ہے، جس کی برائیوں کا سد باب نہیں کیا اور اس میں بھلائیوں کو فروغ نہیں دیا؟
ظلم کا خاتمہ:
انسانی زندگی کی سب سے بڑی برائی ظلم ہے۔ ظلم کے خلاف بے شمار لوگوں نے آواز اٹھائی، لیکن رحمۃ اللعالمین نے ظلم کی جڑوں پر جس طرح تیشہ چلایا، اس کی کوئی نظیر نہیں پاؤگے۔
آپؐ نے فرمایا: ’’اگر کوئی کسی کے بارے میں جانتا ہے کہ وہ ظالم ہے، اور پھر وہ اس ظالم کے ساتھ اس کی مدد کے لیے چند قدم بھی چلتا ہے، تو وہ اسلام کے دائرے سے خارج ہے۔‘‘
آپؐ نے فرمایا: ’’اگر کوئی ظلم و زیادتی سے کسی کی زمین پر قابض ہو جاتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ تعالیٰ اس پر سخت غضب ناک ہوگا۔‘‘
ظلم تو بہت دور کی بات ہے، آپؐ نے تو یہ تاکید فرمائی کہ ’’اگر کسی مزدور سے تم نے خدمت لی ہے تو اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے پہلے اس کی مزدوری ادا کردو۔‘‘
آپؐ نے یہاں تک تاکید فرمائی کہ اگر کوئی آدمی کسی سے کوئی سودا کر رہا ہو تو تم اس کے بیچ میں نہ کودو۔ اگر کسی نے کسی کونکاح کا پیغام دیا ہے تو تم اس کے قریب نہ پھٹکو، اور اس کا معاملہ خراب نہ کرو۔ غرض آپؐ نے ظلم اور حق تلفی کے تمام دروازے، بلکہ یوں کہو کہ ظلم اور حق تلفی کے تمام رخنے بند کردیے۔ کوئی بھی ایسی بات، کوئی بھی ایسا معاملہ، کوئی بھی ایسا انداز، جس سے ظلم کی بوآتی ہو، اس سے آپؐ نے کبھی چشم پوشی نہیں کی۔
حیوانوں کے ساتھ شفقت:
انسان تو انسان، آپؐ نے کسی حیوان کو بھی مظلومی کی حالت میں دیکھنا پسند نہیں فرمایا۔ آپؐ کا ارشاد ہے: اگر کسی نے کوئی ننھی سی چڑیا بھی ناحق ماری تو قیامت کے دن وہ اللہ کے یہاں جواب دہ ہوگا۔
آپؐ نے فرمایا: ’’لعنت ہے اُس شخص پر، جو کسی حیوان کا مُثلہ کرے۔ محض اپنی تفریح کے لیے اس کے جسم میں چیر پھاڑ کرے۔‘‘
آپؐ نے ظلم و زیادتی کو، چاہے وہ کسی پر کسی بھی شکل میں ہو، ایک لمحے کے لیے بھی برداشت نہیں کیا۔ اس کے برعکس آپؐ نے اخوت اور محبت کا درس اور شفقت اور دل سوزی کا پیغام دیا۔
ایک موقع پر آپؐ نے مہاجرین و انصار کو مخاطب کرکے فرمایا:
’’اے گروہ مہاجرین! اور اے گروہِ انصار! تمھارے کچھ بھائی ایسے بھی ہیں، جن کے پاس نہ مال ہے، نہ ان کا کوئی گھر بار ہے، تو تم میں سے ہر شخص دودو تین تین آدمیوں کو اپنے ساتھ ملا لے‘‘۔
ایک اور موقع پر صحابہ کرامؓ سے فرمایا:
’’جس کے پاس دو آدمیوں کا کھانا ہو، وہ ایک تیسرے آدمی کو بھی اپنے ساتھ لے جائے۔ جس کے پاس چار آدمیوں کا کھانا ہو، وہ اپنے ساتھ ایک پانچواں، بلکہ چھٹا شخص بھی لے جائے۔‘‘
ایک دوسرے موقع پر آپؐ نے ساتھیوں کو نصیحت کی:’’جس کے پاس فاضل سواری ہو وہ اپنی سواری اسے دے دے، جس کے پاس سواری نہ ہو اور جس کے پاس ضرورت سے فاضل کھانا ہو، وہ اس شخص کو کھلادے، جس کے پاس کچھ کھانے کو نہ ہو‘‘۔
اخوت ومحبت اور ہمدردی و غم خواری کا کتنا زبردست پیغام ہے یہ!
پیغام محبت
آپؐ کا پیغام محبت مسلمانوں کے لیے خاص نہ تھا بلکہ ہر ہر انسان سے آپؐ نے محبت کرنا سکھایا ہے۔ ہر انسان کے دکھ درد میں شریک ہونے اور مصیبت میں اس کا ساتھ دینے کا پیغام دیا۔
آپؐ نے فرمایا: اگر کوئی آسودہ اور سیر شکم ہوکر سوتا ہے اور اس کے بغل میں اس کا پڑوسی بھوکا رہتا ہے، اور ایسا وہ جانتے بوجھتے کرتا ہے تو اس کا ایمان قابل قبول نہیں۔
وہ پڑوسی، جس کے ساتھ ہمدردی و غم خواری کو آپؐ نے ایمان کے لیے ضروری قرار دیا، اس کا مسلم ہونا ضروری نہیں ہے۔ وہ یہودی بھی ہوسکتا ہے، عیسائی بھی ہوسکتا ہے، ہندو بھی ہوسکتا ہے، سکھ بھی ہوسکتا ہے۔ وہ کسی بھی قوم، کسی بھی نسل اور کسی بھی مذہب کا ہو سکتا ہے۔
آپؐ نے پڑوسی کے حقوق کی مزید تاکید کرتے ہوئے فرمایا:تم میں سے کوئی شخص اپنی زمین یا گھر یا کھیت یا باغ بیچنے کا ارادہ کرے تو پہلے اپنے پڑوسی کو اس کی اطلاع دے۔
یہاں بھی آپؐ نے کسی پڑوسی کو خاص نہیں کیا۔ یہ پڑوسی کوئی بھی ہو سکتا ہے۔ کسی بھی طبقے اور کسی بھی مذہب کا ہوسکتا ہے۔ جو بھی پڑوسی ہو اسے یہ حق حاصل ہوگا۔
حقیقت یہ ہے کہ رحمۃ للعالمین کی یہ محبت و شفقت ہر ایک کے لیے عام تھی۔ مسلم ہو یا غیرمسلم، دوست ہو یا دشمن، انسان ہو یا حیوان کوئی بھی آپؐ کی اس محبت سے محروم نہ رہا۔ سب سے آپؐ نے خود محبت کی اور ساتھیوں کو بھی اسی محبت کی تعلیم دی۔
آپؐ نے ساتھیوں کو تاکید فرمائی: لوگوں کی نقالی نہ کرو۔ یہ نہ کہو کہ لوگ اچھا سلوک کریں گے تو ہم بھی اچھا سلوک کریں گے، لوگ ظلم کریں گے تو ہم بھی ظلم کریں گے۔ تم اپنا یہ اصول بنا لو کہ لوگ تمھارے ساتھ اچھا سلوک کریں تو ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ وہ براسلوک کریں، تو تم بْرا سلوک نہ کرو۔ تم کبھی کسی پر ظلم نہ کرو۔
کیا باہمی سلوک اور انسانی تعلقات کے سلسلے میں اتنی جامع اور مکمل تعلیمات کہیں اور ملتی ہیں؟ کیا انسانی تعلقات کے لیے اس سے زیادہ خوب صورت ہدایات کسی اور مصلح کے یہاں موجود ہیں؟
(جاری ہے)

حصہ