(ایک دوست ۔ایک محتسب ۔ایک مدد گار(تحسین فاطمہ چیئر پرسن جامعۃ المحصنات)

289

میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھاکہ کبھی صبیحہ کے دنیا سے جانے کے بعد اُس کے بارے میں لکھنا پڑے گا۔ مگر یہ ربِ کریم کے منصوبے ہیں۔ کس کو کس وقت واپس بلانا ہے، وہ خوب جانتا ہے۔
صبیحہ سے میری دوستی بہت پرانی ہے۔ صبیحہ کی ایک کزن یاسمین میرے ساتھ اسکول میں پڑھتی تھی۔ ہم نے نویں جماعت سے BSc تک ساتھ پڑھا۔ یہ دوستی گہری دوستی میں تبدیل ہوگئی۔ فیملی ایک دوسرے کے قریب آگئی۔ ہم لوگوں کا ایک دوسرے کے گھر میں بار بار جانا ہوتا۔ امتحان سے کچھ پہلے کمبائنڈ اسٹڈی ہوتی۔ انہی دنوں میری صبیحہ سے واقفیت ہوئی۔
ماشااللہ صبیحہ کو باہمت، شگفتہ مزاج، جو کچھ دل میں ہو کہہ دینے والی صفات سے متصف پایا۔ کبھی خالہ کے گھر شادی میں صبیحہ اور اس کی سہیلیاں شادی کی رونق دوبالا کررہی ہیں، نمایاں آواز صبیحہ کی ہے، کبھی صبیحہ کی امی آپا اُم اکبر میلاد کی محفل میں روحانی سرور پیدا کررہی ہیں۔
مگر کسی کو کیا پتا کہ جب ایک بندہ اللہ کی محبت میں اپنا قبلہ تبدیل کردے تو وہ اس کی طرف پلٹ کر بھی نہیں دیکھے گا۔ پھر صبیحہ نے MSc کیا۔ اکثر بتایا کرتی تھی کہ امی ابا جاب بالکل پسند نہیں کرتے، سوچتی ہوں کیا ایسا کام کروں! اور بڑے مزے مزے کی باتیں کرتی۔
پھر اسے جاب مل گئی۔۔۔ ایسی جاب جس کی تنخواہ آخرت میں ملے گی۔ اللہ تعالیٰ نے مومنین کے جان مال جنت کے عوض خرید لیے ہیں۔
’’دنیا میں اسلامی نظام کا قیام میری زندگی کا نصب العین ہے اور آخرت میں اللہ کی رضا کے سوا کچھ اور مطلوب نہیں۔۔۔ اور اسی مقصد کے حصول کے لیے میں اسلامی اجتماعیت میں شامل ہورہی ہوں۔‘‘
زندگی کا یہ نصب العین طے کرنے کے بعد وہ مطمئن اور یکسو ہوکر اسی مقصدِ زندگی کے حوالے ہوگئی اور ’’میرا مرنا، میرا جینا، میرا ہنسنا، میرا رونا، میرا کھانا، میرا پینا سب اللہ کے لیے ہے‘‘ کی تفسیر ہوگئی۔ ہر آن اللہ کی رضا کی فکر، ہر آن نیکی میں سبقت لے جانے کا شوق دیوانگی کی حد تک۔ اللہ کے لیے اپنے آپ کو فنا کرنے کی دیوانگی، جس پر فرزانگی کو قربان کیا جا سکتا ہے۔
میرا اور ان کا ساتھ دوست کی حیثیت سے رہا۔ ضلع کی شوریٰ کی رکن، پھر ناظمہ کراچی ہوگئیں۔ میں نائب ناظمہ کراچی۔ رکنِ صوبائی و مرکزی شوریٰ۔۔۔ قریب ترین دوست کی حیثیت سے بے شمار پروگرام کراچی کی مرکزی سطح سے صوبائی سطح تک رہے، بے شمار سفر میں ساتھی رہے۔ ہم ایک دوسرے کے معاون و مددگار تھے۔
میرے پاس اکثر شعبۂ تربیت کی ذمہ داری رہی۔ اپنی اور دوسروں کی تربیت کیسے کریں، کارکنان کے لیے کون سے موضوعات پر گفتگو ہونی چاہیے، اس پر ہم اکثر شریکِ مشورہ رہتے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو چھ بچوں سے نوازا تھا۔ ایک بچہ اپنے ماں باپ کے لیے جنت کا دروازہ کھولنے کے لیے ان کی زندگی میں ہی روانہ ہوگیا۔ لوگوں نے جب اُن سے تعزیت کی تو انہوں نے بڑی اچھی بات کہی ’’یہ بھی میرے رب کا بڑا احسان ہے۔ سورہ کہف میں بتایا گیا ہے کہ وہ بچہ بڑا ہوکر اپنے ماں باپ کے لیے مشکل کا باعث ہوتا، اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اسے پہلے بلا لیا۔‘‘
میرے اور صبیحہ کے بچے کچھ آگے پیچھے مہینوں کے فرق سے پیدا ہوتے رہے اور جماعت کا کام بھی بچوں کے ساتھ چلتا رہا۔ اس وقت نوجوانی کے جوش و جذبے میں پتا نہیں چلا، لیکن اب لگتا ہے کہ ایک مشکل کام تھا، جو اللہ تعالیٰ نے بڑی آسانی کے ساتھ اچھے ساتھیوں کی رفاقت سے کروادیا۔ یہ دور خواتین کے لیے مشکل ہوتا ہے۔ بچہ ابھی سال ڈیڑھ سال کا ہوا، دوسرے کی آمد۔۔۔ ان حالات میں بعض خواتین کو بڑی ناشکری والے الفاظ ادا کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ مگر جو لوگ اللہ ہی کے ہوکر رہنے کا عہد کرلیں، ان کے لیے ہر وقت آنے والی سوچوں کا بھی جائزہ لیتے رہنے کی ضرورت ہے۔ ایک بار ہم ایسی ہی گفتگو کررہے تھے کہ اب ماشاء اللہ نئے بندے کی آمد ہے مگر کیونکہ پہلا بچہ چھوٹا ہے، دل میں ایک فکر اور پریشانی کی کیفیت ہے۔ اُس نے کہا: اسی کو شُح نَفس کہتے ہیں۔ ہمیں لگا کہ یہی دل کی تنگی ہے۔ پھر اپنے رب کے حضور خوب استغفار کیا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہر معاملے میں دل کی تنگی سے بچائے۔ ’’جو نفس کی تنگی سے بچا لیا گیا، اس نے فلاح پائی۔‘‘ (الحشر) دل کی خوشی سے ہر کام ہو۔ نیکی صرف نیکی کرلینے کا نام نہیں بلکہ دل کی خوشی، جوش و خروش، کشادہ دلی، صرف اللہ سے اجر کی امید اور توکل کا نام ہے۔ نیکی کرنے میں جو مزا ہے وہ بادل نخواستہ کام کرنے میں نہیں۔
صبیحہ کی ایک بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ اپنے اوپر کیے جانے والے احتساب کو دل میں رکھ کر ساتھی سے دور ہونے کے بجائے اس سے اور زیادہ قریب ہوجاتی۔ بحیثیت انسان میں نے اس کو خدا کا خوف رکھنے والا، نیکیوں میں سبقت اختیار کرنے والا، سنتِ نبوی ؐ پر عمل کرنے کی کوشش میں دیوانگی کی حد تک متحرک پایا۔ آج کے مادی دور میں اچھا ساتھی اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ ہم اکثر کہا کرتے کہ اللہ تعالیٰ جہنم سے بچا دے۔ جس کا درجہ جنت میں بلند ہو وہ اپنے ساتھی کو ضرور کھینچے۔ ہم اکثر ایک دوسرے سے قوت لیتے چل رہے ہیں۔ دھکے لگا کر دین کا کام کررہے ہیں۔ جنت میں بھی ان شاء اللہ ایک دوسرے کو کھینچ لیں گے۔ صبیحہ کی زندگی ابتدا ہی سے بیماریوں، پریشانیوں سے عبارت تھی۔ مگر اس کے منہ سے ناشکری، بے صبری، بے بسی کا رونا کبھی نہیں سنا۔ دیگر خاندانی مسائل اور صحت کی خرابی کے باوجود اس نے اپنے عہد کو خوب نبھایا۔ شاہد بھائی (شوہر) کی بھی خوب خدمت کی۔ مجھے بتایا کہ آج مجھے اسپتال میں داخل ہونا ہے۔ میں نے اپنے میاں کو نہلاکر ان کے سارے کام کردیے ہیں۔ اللہ تعالیٰ شاہد بھائی پر بھی اپنا کرم کرے۔ زندگی کا ایک ساتھی ساتھ چھوڑ جائے تو ایسا لگتا ہے کہ مسائل کو بہت زیادہ سمجھنے والا نہیں رہا۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بندے کے دنیا سے چلے جانے کے بعد اس کی قدر ہوتی ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ نیکیوں میں آگے بڑھنے والے اکابر صحابہؓ کو پیش نظر رکھتے تھے۔ مجھے لگتا ہے کہ صبیحہ بھی نیکیوں کو پانے میں بہترین لوگوں کے عمل کو اپنے سامنے رکھتی تھی۔ اس کے لاہور چلے جانے کے بعد میرا رابطہ رہتا۔ لاہور پروگرام میں جاتی تو میری کوشش ہوتی کہ اس سے ضرور ملاقات ہو۔ کراچی آتی تو اس کی بیٹی کے گھر ملا قات ہوتی۔ صبیحہ کو بڑا صابر پایا۔ شوہر کی بیماری کی وجہ سے اس کی شرکت کم ہو پاتی۔ ایک بیٹی دو بچوں کے ساتھ اس کے ساتھ ہی رہ رہی ہے۔ ماں پر کیا گزرتی ہوگی! مگر وہ پیکر ہمت اور عزم۔ میرا اس سے بیس، پچیس دن پہلے تک رابطہ رہا۔
’’تحسین آٹھ بار پیٹ سے پانی نکل چکا ہے، دعا کرنا‘‘۔ اس کی بہت کمزور اور تھکی ہوئی آواز سن کر میں نے اسے فون کرنا چھوڑ دیا۔ مگر دلی رابطہ کبھی نہ ٹوٹا۔ اس کی خبر اس کی بیٹی مریم سے لیتی رہتی۔ ایک رات بہت بے چین تھی تو میں نے رات ہی میں مریم کو فون کیا۔ اس نے بتایا کہ بس امی کے لیے دعا کیجیے۔ آخری میسج میرے پاس صبیحہ کا یہ آیا:’’اللہ تم سے ہمیشہ راضی رہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ اُس کی دعا کو میرے حق میں اور میری دعا کو اُس کے حق میں سن لے۔ اس زندگی میں جو تکالیف اٹھائیں، ان کا بہترین اجر عطا فرمائے۔ ان تمام لوگوں کو اُس کے حق میں صدقۂ جاریہ بنائے جو اُس کی رہنمائی سے بہترین دعوتِ حق دینے والے بنے۔ جنت میں اعلیٰ درجات عطا فرمائے۔ اولاد اُس کے لیے صدقۂ جاریہ ہو اور پیچھے رہ جانے والے زندگی کے ساتھی کا حامی و ناصر ہو، آمین۔

حصہ