(چکن گونیا قاضی (عمران احمد

260

چند روز قبل ذرائع ابلاغ کے ذریعے ایک خبر عام ہوئی کہ ملیر کے مختلف علاقوں میں تیز بخار اور جوڑوں کے شدید درد کے نامعلوم مرض نے لوگوں کو اچانک اپنی لپیٹ میں لینا شروع کردیا ہے۔ ہسپتال ذرائع اور علاقہ مکینوں سے علم ہوا کہ یہ نامعلوم بخار قریباً تین ماہ سے علاقے میں پھیلا ہوا ہے۔ سندھ گورنمنٹ ہسپتال سعود آباد سے رجوع کرنے والے اس نامعلوم بخار میں مبتلا افراد کی یومیہ تعداد قریباً ایک ہزار تھی۔ اس دوران المیہ یہ رہا کہ ہسپتال انتظامیہ کی جانب سے اس معاملے کو سنجیدہ نہیں لیا گیا اور معمول کا بخار سمجھ کر علامات کے مطابق ادویات دی جاتی رہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اتنی بڑی تعداد میں ایک ہی مرض کے اتنے لوگ آرہے ہیں تو ان کے ٹیسٹ کرائے جانے چاہیے تھے اور محکمہ صحت کو مطلع کرنا چاہیے تھا۔ اگر بروقت یہ تمام اقدامات کرلیے جاتے تو شاید لوگ اتنی بڑی تعداد میں متاثر نہ ہوتے۔ ذرائع ابلاغ میں اس خبر کے عام ہوتے ہی محکمہ صحت نے اس جانب توجہ دی اور اسلام آباد سے طبی ماہرین کی ٹیم سندھ گورنمنٹ ہسپتال سعود آباد پہنچی۔ ڈاؤ یونی ورسٹی، نیشنل انسٹی ٹیوٹ ہیلتھ، جناح ہسپتال اور آغا خان ہسپتال کے ڈاکٹروں نے مریضوں کا معائنہ کیا۔ 5متاثرہ مریضوں کے خون کے نمونے اسلام آباد بھیجے گئے اور جمعرات 22 دسمبر کو نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ نے ان پانچ مریضوں میں سے تین 45 سالہ اخلاق، 11 سالہ عمر اور 9 سالہ زوہیب کے خون میں ’’چکن گونیا‘‘ وائرس کی تصدیق کردی۔ 19 دسمبر سے سندھ گورنمنٹ ہسپتال سعود آباد میں محکمہ صحت نے ڈینگی کنٹرول پروگرام کے ڈپٹی منیجر ڈاکٹر فضل میمن کو تعینات کیا جو وہاں آنے والے مریضوں کا ڈیٹا جمع کررہے ہیں اور جن مریضوں پر شبہ ہوتا ہے ان کے ڈینگی کٹس بھی لگا رہے ہیں۔
طبی ماہرین کے مطابق یہ چکن گونیا کا وائرس ڈینگی سے مماثل ہے اور اس سے ملتے جلتے مچھروں کے ذریعے ہی پھیلتا ہے۔ یہ ایک ایسا مرض ہے جو ایڈیج اجپٹی مچھروں کے کاٹنے سے ہوتا ہے، جس میں تیز بخار کے ساتھ جسم اور سر میں تیز درد ہوتا ہے، پٹھوں اور جوڑوں میں شدید درد اٹھتا ہے، اسی وجہ سے اسے ’’ہڈی توڑ بخار‘‘ بھی کہتے ہیں۔ بعض صورتوں میں جسم پر سرخ ددوڑے بھی پڑ جاتے ہیں جو سب سے پہلے پیروں، پھر سینے اور کبھی کبھی پورے جسم پر پھیل جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ پیٹ کا خراب ہونا، پیٹ میں درد ہونا، کم زوری، اجابت کی شدت، مسلسل چکر آنا اور بھوک نہ لگنا بھی اس کی خاص علامات ہیں۔ اس خاص مچھر کے کاٹنے سے اس کے ڈنک پر موجود وائرس انسانی جسم میں داخل ہوکر جلد میں موجود امیون سیلز کو متاثر کرتے ہیں، جس کے بعد یہ وائرس جسم کے انتہائی اہم لیمفیٹک نظام میں داخل ہوکر اس پر اثرانداز ہوتے ہیں اور مریض تیز بخار میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ ابتدا میں بشن پیریڈ میں اس کا کچھ اثر ہوتا ہے لیکن اس کے بعد یہ اعصاب میں داخل ہوکر خون کے ذریعے پورے جسم میں پھیل جاتا ہے، اسے ویرمیا کہتے ہیں۔ یہ مرض دوسرے مچھر کے ذریعے دیگر لوگوں کو متاثر کرنا شروع کردیتا ہے۔ یہ اکثر اُن علاقوں میں پھیلتا ہے جہاں ملیریا پھیلتا ہے۔ یہ مرض خاص طور پر برازیل، سنگاپور، تائیوان، انڈونیشیا، فلپائن، ہندوستان اور پاکستان میں پایا جاتا ہے اور اس کا ہر وائرس اتنا مختلف ہوتا ہے کہ ایک سے منتقلی کے بعد بھی دیگر کے خلاف تحفظ نہیں ملتا ہے۔
ڈینگی کنٹرول پروگرام کے منیجر ڈاکٹر مسعود سولنگی کے مطابق چکن گونیا کی وجہ سے تیز بخار اور جوڑوں میں شدید درد اچانک شروع ہوتا ہے، یہ جان لیوا تو نہیں ہے لیکن اس کی بعض علامات معذوری کی صورت میں برآمد ہوسکتی ہیں۔ یہ وائرس لوگوں کو مچھر کے کاٹنے سے منتقل ہوتا ہے جو زیادہ تر دن کے اوقات میں کاٹتے ہیں۔ یہ مچھر اُس وقت متاثر ہوجاتے ہیں جب وہ وائرس سے متاثرہ کسی شخص کو کاٹ کر اپنا پیٹ بھرتے ہیں، اس کے بعد یہ متاثرہ مچھر دوسرے لوگوں کو کاٹ کر وائرس پھیلا سکتے ہیں۔ ڈاکٹر مسعود سولنگی نے بتایا کہ یہ وائرس متاثرہ شخص سے کسی اتفاقی رابطے، ہاتھ ملانے، گلے ملنے یا ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے نہیں پھیلتا اور نہ کسی دوسرے فرد کو منتقل ہوتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ چکن گونیا کی علامات کسی متاثرہ مچھر کے کاٹنے کے 3 سے 7 دن کے بعد ظاہر ہونا شروع ہوتی ہیں اور یہ ہر فرد میں مختلف بھی ہوسکتی ہیں۔ متاثرہ شخص کو اچانک تیز بخار چڑھ جاتا ہے، اس کے جوڑوں خصوصاً بازوؤں اور ٹانگوں میں شدید درد، سر میں درد، عضلات میں درد، کمر میں درد ہونے لگتا ہے، بعض صورتوں میں ددوڑے یعنی سرخ نشانات بھی پڑنا شروع ہوجاتے ہیں جو کبھی کبھی پورے جسم پر پھیل جاتے ہیں۔ اس وائرس سے متاثرہ مریض چند دنوں یا ہفتوں کے بعد صحت یابی کی طرف پلٹنے لگتا ہے، جب کہ کچھ لوگوں میں جوڑوں کا درد طویل عرصے تک رہ جاتا ہے۔ لیکن یہ مرض جان لیوا نہیں ہے۔ ڈاکٹر مسعود سولنگی کا کہنا تھا کہ اس مرض کے اتنے مریضوں کا اچانک آنا انتہائی تشویش ناک امر تھا اور اس میں سندھ گورنمنٹ ہسپتال سعود آباد سمیت نجی ہسپتالوں اور کلینکس کی انتظامیہ بھی ذمے دار ہے کہ اگر بروقت ان مریضوں کے ڈینگی اور ملیریا کے ٹیسٹ کرا لیے جاتے اور محکمہ صحت کو آگاہ کیا جاتا تو یہ مرض اچانک اتنا نہ پھیلتا۔ انہوں نے کہا کہ ملیر کے علاقے سے پھیلنے والا یہ وائرس اب شہر کے مختلف علاقوں میں بھی رپورٹ ہو رہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ وہی ہے کہ اسے بروقت تشخیص نہیں کیا جا سکا تھا جس کی وجہ سے اسے پھیلنے کا موقع ملا۔ ڈاکٹر مسعود سولنگی کا کہنا تھا کہ شہر میں صفائی ستھرائی کی صورت حال انتہائی ابتر ہے۔ بلدیاتی اداروں کی نااہلی، غفلت اور کوتاہی کے باعث شہر کی شاید ہی کوئی گلی، بازار یا چوک ایسا ہوگا کہ جہاں کچروں کے ڈھیر نہ لگے ہوں، اس پر مستزاد یہ کہ ایک طرف گٹر ابل رہے ہیں تو دوسری جانب سیوریج کا گندا پانی پینے کے صاف پانی کی لائنوں میں مل رہا ہے۔ یہ گندا پانی اور جا بہ جا لگے کچرے کے ڈھیر ان مچھروں کی افزائش میں انتہائی ممد و معاون ثابت ہوتے ہیں، اس پر مزید ستم یہ ہے کہ شہری ہی نہیں بلدیاتی اداروں کے ملازمین بھی اپنی جان چھڑانے کے لیے کچرے کے ان ڈھیروں میں آگ لگا دیتے ہیں جو انسانی صحت کے لیے انتہائی مضر ہے، ان کچروں سے اٹھنے والا دھواں ایک طرف ماحولیاتی آلودگی میں اضافے کا سبب بنتا ہے تو دوسری جانب گلے، سانس کی نالیوں اور پھیپھڑوں کے کینسر میں بھی مبتلا کردیتا ہے۔ بہت عرصے سے شہر میں جراثیم کُش اسپرے بھی نہیں کیا گیا ہے۔ پھر تو عوام اس طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہوں گے۔ اس کے ذمے دار بلدیاتی ادارے بھی ہیں۔ اگر اب بھی فوری طور پر ہنگامی اقدامات نہیں کیے گئے اور شہر سے کچرے کے ڈھیروں کا خاتمہ نہیں کیا گیا، ابلتے گٹروں کی صفائی نہیں کی گئی اور مستقل بنیادوں پر جراثیم کُش اسپرے نہیں کیا گیا تو اس طرح کے وائرس شہریوں پر حملہ آور ہوکر ان کی جانوں کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔
ایکسپریس ڈاٹ پی کے کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستانی ماہرِ حشریات پروفیسر ڈاکٹر امتیاز احمد کہتے ہیں کہ انہوں نے آج سے 10 سال پہلے ہی چکن گونیا کے ممکنہ حملے سے متعلقہ حکام کو خبردار کردیا تھا جب وہ پاکستان میں ڈینگی کے پھیلاؤ سے متعلق ماہرین کی ایک ٹیم کی قیادت کررہے تھے۔ ڈاکٹر امتیاز کا یہ بھی کہنا تھا کہ چکن گونیا سے گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں، کیوں کہ یہ شدید بخار اور جوڑوں میں درد ضرور پیدا کرتا ہے لیکن عام طور پر ہلاکت کا باعث نہیں بنتا اور قریباً ایک ہفتے میں اپنی مدت پوری کرکے ختم ہوجاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میڈیا کو سنسنی پھیلانے سے باز رہنا چاہیے لیکن اس بات کا بھی قوی امکان ہے کہ یہ نامعلوم بیماری درحقیقت چکن گونیا ہی ہے۔ کیوں کہ اس بیماری کی تمام علامات وہی ہیں جو چکن گونیا کی ہوتی ہیں، جب کہ چکن گونیا وائرس اسی مچھر (ایڈیز البوپکٹس) میں پروان چڑھتا ہے جس میں ڈینگی کا وائرس پایا جاتا ہے اور کراچی میں اس مچھر کی بہتات ہے۔
کیا یہ بیماری وائرس کی کسی تبدیل شدہ قسم (Strainmutated) کا نتیجہ ہوسکتی ہے؟ اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر امتیاز احمد کا کہنا تھا کہ اگرچہ یہ پہلو خارج از امکان نہیں، لیکن بہ ظاہر بہت کم ہے، جب کہ زیادہ شواہد چکن گونیا ہی کی طرف اشارہ کررہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ملیر کے دیہات اور گردونواح کے علاقوں میں صفائی ستھرائی کی صورت حال باقی شہر کے مقابلے میں کہیں زیادہ خراب ہے، جب کہ وہاں باغات اور کھیتوں کے علاوہ گلیوں اور سڑکوں پر بھی جا بہ جا پانی بہتا دکھائی دیتا ہے، اور یہ کیفیات ایڈیز البوپکٹس (ڈینگی اور چکن گونیا پھیلانے والے مچھر) کی نشوونما کے لیے بہترین ہیں۔ اگر اس وقت بھی ایڈیز البوپکٹس مچھر کے پھیلاؤ پر قابو پانے کے لیے ضروری اقدامات کرلیے جائیں اور عوامی سطح پر آگہی کا اہتمام کرلیا جائے تو حالات جلد بہتر ہوجائیں گے۔
nn

حصہ