(کراچی ایکسپو میں کتابیں ہی کتابیں(عارف رمضان جتوئی

254

کراچی میں کتاب دوستی مثالی ہے۔ انٹرنیشنل بک فیئر کا اعلان سنتے ہی کتاب دوست افراد کی خوشی کی انتہا نہیں رہی۔ انتظار کے بعد لاکھوں کی تعداد میں افراد مختصر سی جگہ پر موجود تھے اور کتب کا چناؤ کرتے دکھائی دیے۔ کراچی میں بک فیئر کا یہ سلسلہ گزشتہ 12 سال سے جاری ہے۔ اس میلے میں ہر سال لاکھوں افراد انٹرنیشنل اور نیشنل سطح پر دورہ کرتے ہیں۔ امسال یہ میلہ کراچی ایکسپو سینٹر میں منعقد کیا گیا۔ ایکسپو کے دو داخلی دروازوں سے میلے میں جایا جاسکتا تھا۔ پیدل چلنے والے مین یونیورسٹی روڈ کی جانب سے، جبکہ گاڑی والے مشرق سینٹر کی طرف والے روڈ پر موجود گیٹ سے داخل ہوسکتے تھے۔ کتب میلے کے لیے مختص جگہ کو تین ہالز میں تقسیم کیا گیا ہے۔ داخل ہوتے ہی الٹے ہاتھ کی جانب ہال نمبر 1، سامنے والا ہال نمبر 2، جبکہ سیدھی جانب ہال 3 موجود تھا۔ ان تینوں ہالز میں 104,106,104 بالترتیب کتابوں کے اسٹال لگائے گئے۔ پاکستان پبلشرز اینڈ بک سیلرز ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام 5روزہ بارہویں کراچی انٹرنیشنل بک فیئر کا افتتاح 15دسمبر ہوا۔ تقریب کے مہمان خصوصی وزیر تعلیم سندھ جام مہتاب ڈہر، میئر کراچی وسیم اختر، معروف صحافی محمود شام و دیگرتھے۔ کتب میلے میں بھارت، ایران، ترکی، سنگاپور، ملائشیا اور متحدہ عرب امارات سمیت دیگر ممالک کے ناشرین اپنی مطبوعات کے ساتھ شریک ہوئے۔
عوامی دلچسپی
کتب میلے میں نئی کتابیں، بچوں کے لیے بہت سی سرگرمیاں، خواتین، طلبہ اور بڑوں کی پسند کی کتابیں موجود تھیں جنہیں بڑی تعداد میں افراد دیکھ رہے تھے اور اپنے ذوق کے مطابق کتب خرید بھی رہے تھے۔ دوسری جانب پاکستان کی اہم علاقائی زبانوں مثلاً سندھی، بلوچی، پشتو اور دیگر زبانوں میں بھی کتابیں رکھی گئی تھیں۔ قرآن کریم کے بھی نسخے رکھے گئے تھے۔ اسلامی کتب کے لیے بھی مختلف انداز سے اسٹال سجائے گئے تھے۔ قرآن پاک کی خریداری کے لیے جامعہ کراچی کے ایک طالب علم محمد فاروق کا کہنا تھا کہ ہم نے گروپ سمیت ترجمہ قرآن لیا ہے، جس کا مقصد سائنس اور اسلام کا تقابلی جائزہ لینا ہے۔ قرآن پاک ہماری زندگی کا مکمل ضابطہ ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے آج کے دور کی تمام تر سائنسی ایجادات کا تذکرہ قبل ہی کردیا ہے۔ جامعہ اردو کی سعدیہ بتول کا کہنا تھا کہ وہ یہاں پر ناول خریدنے کے لیے آئی ہیں۔ انہیں نمرہ احمد، حمیرہ احمد اور ہاشم ندیم کے ناول پسند ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ناول ہوں یا کتابیں، اگر انتخاب اچھا ہو تو اردو کو بہت اچھا بنایا جاسکتا ہے۔ بھارت سے تعلق رکھنے والے ایک کالم نگار وجے کمار کا کہنا تھا کہ ادب کے لحاظ سے پاکستان ایشیا میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔ پاکستان میں ادیبوں کی کمی نہیں، اور جو چیز میں نے یہاں محسوس کی ہے وہ یہ کہ ان کے پاس اوپر والے کی عطا کردہ صلاحیتیں موجود ہیں کہ جیسے یہاں کے ادیب پیدائشی ہی ادیب ہوتے ہیں۔
آنے والوں کی آراء
ناولوں اور مختلف مطالعاتی کتب کے اسٹالز پر رش دیکھ کر وہاں پر موجود افراد سے رائے لی گئی۔ محمد مستقیم بخاری نے کہا کہ اس قسم کے کتب میلے وقت کی اہم ضرورت ہیں۔ سالانہ بنیادوں کے بجائے انہیں زیادہ سے زیادہ لگانا چاہیے۔ نسیم بہار کا کہنا تھا کہ کتب بینی سے دوری اور سوشل میڈیا کے غیر ضروری استعمال سے بچوں سمیت نوجوان نسل میں جنریشن گیپ بڑھتا جارہا ہے۔ ہماری نئی نسل خود کو کمرے میں بند کرکے رکھتی ہے۔ بچے کارٹون اور ویڈیو گیمز کی وجہ سے کسی سے بھی بات نہیں کرتے بلکہ ان سے الگ تھلگ ہوکر رہنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ ان کی بول چال اور اٹھنے بیٹھنے کے انداز پر بھی بہت برے اثرات مرتب ہورہے ہیں۔
بچوں کا رش
بچوں کی بڑی تعداد بک اسٹالز پر نظر آئی۔ قطار میں لگے پورے پورے اسکول اپنی ٹیچرز کی پیروی میں چلتے ہوئے اسٹالز سے گزرتے رہے۔ اسکول کی ٹیچرز کا کہنا تھا کہ وہ اپنے اسکول کے بچوں کو یہاں پر اس لیے لائی ہیں تاکہ انہیں کتب سے متعلق آگاہی ہو۔ آج کے یہ بچے کل بڑے ہوکر کتاب سے دوستی کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس طرح ہم نے بچوں کو کہانیوں کی مختلف کتابیں بھی دلائیں جو کہ بچوں کے لیے بہت مفید ہیں۔
اسٹال مالکان کیا کہتے ہیں
انجمن ترقی اردو پاکستان کے انچارج شعبہ فروخت نسیم احمد کا کہنا تھا کہ ہمیں اردو کے فروغ میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ عدالتِ عظمیٰ کی جانب سے اردو کو سرکار سطح پر رائج کرنے کے حوالے سے نوٹس ہماری اردو کی سب سے بڑی جیت ہے۔ ہم نے وفاقی جامعہ اردو میں مختلف اقسام کی ورکشاپس کا انعقاد کیا ہے جس کا مقصد نوجوان نسل میں اردو کو فروغ دینا ہے، اور انجمن ترقی اردو پاکستان کا یہ سلسلہ ہر طرح سے جاری رہے گا۔
کتب کے اسٹالز پر خواتین کے لیے بھی بے شمار کتابیں موجود تھیں، جبکہ باقاعدہ طور پر خواتین کی کتب سے متعلق کام کرنے والے نجی اداروں کی جانب سے بھی اسٹال لگائے گئے تھے۔ حریم ادب پاکستان کی جانب سے لگائے گئے اسٹال پر بھی خواتین کا رش دیکھنے میں آیا۔ حریم ادب کی صدر عالیہ شمیم کا کہنا تھا کہ ہم نے یہاں پر کتب، سی ڈیز اور سفرنامے رکھے ہیں۔ بچوں کی اصلاح کے لیے بھی یہاں پر بہت سی کہانیاں موجود ہیں۔ قلم ایک طاقت ہے جس کے ذریعے ہم معاشرے کی اصلاح کرسکتے ہیں۔ ہمارا مقصد خواتین قلمکاروں کی قلمی معاونت کرنا ہے۔ اس سلسلے میں ہم گاہے بگاہے میڈیا ورکشاپس اور مقابلہ جات کراتے رہتے ہیں۔
احسن الکلام کے سیلز منیجر فیضان صدیقی کا کہنا تھا کہ ان کے پاس نوجوان طبقہ بڑی تعداد میں آرہا ہے جو کہ قرآن پاک کے مختلف نسخے خریدتے بھی ہیں اور کچھ دیگر معلومات بھی لیتے ہیں۔ اگر آنے والوں کے مجموعی رجحان کی بات کی جائے تو گزشتہ برسوں کی نسبت اِس سال بہت بڑی تعداد ہے جو آرہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں کبھی حیران بھی ہوتا جب مجھ سے قرآن پاک کا نسخہ لینے والا یہ کہتا کہ میں پہلی بار قرآن پاک پڑھوں گا، اس وجہ سے مجھے آسان سے آسان ترجمے والا نسخہ دیجیے۔ ان کا کہنا تھا کہ رجحان بھی بدل رہا ہے اور اسی طرح پبلشرز نے جدت اختیار کرتے ہوئے اچھے سے اچھے پرنٹ کا اہتمام کیا۔
بچوں کے نصاب سے متعلق کتب کے ادارے بک سینٹر کی مارکیٹنگ منیجر ریحانہ گلفام نے کہا کہ ہمارے اوپر ثقافتی جنگ مسلط کردی گئی ہے جس کی وجہ سے بیرونی مواد کارٹونز اور ویڈیو گیمز کی صورت میں ہماری نئی نسل کے اذہان میں انڈیلا جارہا ہے۔ یہ بہت خطرناک بات ہے، جس کے توڑ کے لیے ہم نے اپنے طور پر انتہائی سادہ اور آسان اردو اور انگلش میں بچوں کے لیے نصیحت آموز کہانیاں اور نصاب تشکیل دیا ہے، اس سے ہمارے بچے آسانی سے نصاب کو سمجھ سکیں گے اور یہ نصاب ان پر مسلط نہیں بلکہ انہیں سمجھانے کے لیے بہترین ہوگا۔
کراچی انٹرنیشنل بک فیئر (کے آئی بی ایف) اور پاکستان پبلشرز اینڈ بک سیلرز ایسوسی ایشن کے رکن احسن عباس نے بتایا کہ اس مرتبہ بک فیئر میں کتابوں کے تقریباً 314 اسٹال لگائے گئے ہیں۔ توقع ہے کہ ہمیشہ کی طرح لاکھوں کی تعداد میں افراد شرکت کریں گے۔
پاکستان پبلشرز اینڈ بک سیلرز ایسوسی ایشن کے ترجمان نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ عالمی کتب میلے سے دنیا کو یہ پیغام ملا ہے کہ پاکستانی امن سے محبت کرتے ہیں۔ وہ کتابوں سے الفت رکھتے ہیں اور تعلیم کی اہمیت سے آگاہ ہیں۔ یہ نمائشیں عالمی طور پر پاکستان کا سافٹ امیج اجاگر کرتی ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ علم کے فروغ اور معیاری کتب کی اشاعت کی حوصلہ افزائی کے لیے حکومتی مراعات میں اضافہ اور کاغذ پر ڈیوٹی میں کمی ہونی چاہیے۔
کتب کا میلہ سجادیا گیا تھا۔ اس ادبی دریا سے لاکھوں افراد سیراب ہوئے۔ لیکن ایسے بے شمار افراد ہیں جنہیں آج بھی کتب اور علم سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اگر وہ اپنے علم کو فروغ دینا چاہتے ہیں توانہیں مختلف چیدہ چیدہ کتب کے مطالعے کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لینا چاہیے۔ ایسی بے شمار کتابیں ہیں جن کو زندگی میں ایک بار ضرور پڑھنا چاہیے۔ اسکرین پر نہیں، اپنے ہاتھ میں پکڑ کر، سامنے رکھ کر کتاب پڑھنے کا لطف شاید کہیں نہیں ہے۔

حصہ