(کیا تاریخ خود ہو دہرا رہی ہے؟(اعظم علی

213

گھنٹوں کی تقریر پر عمل کا ایک لحمہ بھی بھاری ہوتا ہے۔
موجودہ آرمی چیف اپنے عہدے کا چارج لینے کے بعد مزارِ اقائد فاتحہ خوانی کے لیے تشریف لائے، ہمارے تقربیاً تمام ہی اعلی حکومتی عہدیدار اور حکمران مزارِقائد پر فاتحہ خوانی کا فرض انجام دیتے ہیں کاش یہ حضرات قائد کے مزار پر حاضری کے ساتھ اُن کے خیالات اور پاکستان کے بارے میں اُن کے ارادوں کو پورا کرنے کو اپنی زندگی کا مشن بنالیں۔
جب سے کراچی میں رینجر فعال ہوئی ھے رینجر کے سربراہ اور اُس کے ترجمان نے ایک بار بھی یہ نہیں کہا کہ کسی کو شہر کے امن وامان سے کھیلنے کی اجازت نہیں دی جائے گی یا کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی یا قانون شکنوں سے آہنی ہاتھ سے نمٹا جائے گا، کسی کوبھی کسی قمیت پر بھی لاقانونیت کی اجازت نہیں دی جائے گی، رینجر نے واقعے کے بعد وضاحتی بیان تو جاری کیا ہے لیکن عزائم کا اظہار کبھی نہیں کیا، یوں تو اپنے عزّم کا اظہار کرنا مثبت عمل ہے اور امید کا سبب ہے لیکن جس بیان کے عقب میں اپنے کہے پر عمل کرنے کا ارادہ ہی نہ ہو بلکہ بیان کو صرف زبان کے چسکے اور عوام کو دھوکا دینے کے لیے استمعال کیا جائے تو پھر کہنا ہی پڑتا ہے کہ یہ سب زبانی جمع خرچ ہے اور اس طرح کے بیانات سے نہ الفاظ کا وقار رہتا ہے اور نہ ہی قائدین کا اعتبار رہتا ہے۔
جناب قمر باجوہ نے کوئی ایسا کام تو نہیں کیا ہے کہ جس سے یہ خطرہ جھلکتا ہو کہ کراچی آپریشن کی بساط لپٹنے والی ہے یا ایان علی اور اس کے پالن ہاروں کو کوئی رعایت ملنے والی ہے لیکن گزشتہ کئی دنوں سے کراچی میں چھینا جھپٹی اور قتل کی خبریں پھر سے آنا شروع ہوگئی ہیں، اس کا بہت کم امکان ہے، لیکن کراچی نے گزشتہ تیسں برس جس اذیت اور تباہی کا سامنا کیا ہے اس کے نتیجے میں ہر کھڑکتا پتا دل بٹھا دیتا ہے، اللہ خیر کرے، کہیں کراچی زرداری کی مفاہمتی پالیسی اور نوازشریف کے اقتدار پر جمے رہنے کی خواہش کے نتیجے میں کراچی پھر سے تباہی کی طرف نہ پلٹ جائے۔
کراچی آپریشن، سی پیک، ایان علی، شرجیل ممین ہو ڈاکڑ عاصم کا معاملہ یا کچھ اور ہو ان سب میں عوام کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
زرداری صاحب اپنی ہی سیاہ کاریوں کے ممکنہ نتائج سے خوف زدہ ہوکر دبئی فرار ہوگئے اور اٹھارہ مہینے عیش وعشرت میں گُزار کر آج پاکستان واپس تشریف لائے ہیں جناب زرادی ضرور اپنے گھر کو آئیں لیکن اُنھوں نے ایسا کیا کیا ہے کہ اُن کا استقبال کیا جائے؟ جناب زرداری دوبئی سے چارٹر جہاز میں بیٹھ کر کراچی آئے اور ائرپورٹ پر بے ربط بونگی بے مقصد تقریر کے بعد ہیلی کاپڑ میں بیٹھ کر روانہ ہوگئے نہ جانے زرداری صاحب سرکاری ہیلی کاپڑ کس حیثت سے استمعال کررہے ہیں عوام کو معلوم ہونا چاہیے کہ زرداری صاحب کے جہاز کا خرچہ اور ہیلی کاپڑ کے اخراجات عوام کی روٹی چھین کر ادا کیے جائیں گے۔
اعتزاز احسن، قمرالزمان کائرہ، سعید غنی جیسے لیڈروں کو اپنی عزت کا پاس کرنا چاہیے یہ لوگ بھی زرداری کے پیچھے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہیں اور جناب رضاربانی جن کی کل طبعیت خراب ہوگئی جب اُنھوں نے سُنا کہ بلوچستان کے سابق سیکڑیری خرانہ کو نیب نے پلی بارگین کرکے دوارب روپیہ لے کر کلین چٹ دینے کا فیصلہ کیا ہے رضا ربانی جیسے حساس آدمی کی یہ سُن کر طبعیت خراب ہونا اچھی بات ہے لیکن کیا اُن کی ناک بند ہے جو زرداری کی بدعنوانیوں کی سڑاند اُنھیں سنگھائی نہیں دیتی، یہ رضاربانی جیسے لوگ ہیں جن کی وجہ سے بے ایمانی پھلتی پھولتی ہے۔
اگرکوئی صدر پاکستان، وزیرآعظم پاکستان، وزراء اعلی اور دیگر سیاسی و سرکاری حضرات کے بیانات، احکامات اور دعوے مرتب کرے تو یقیناً ایک ضخیم کتاب تیار ہوجائے گی اور اگر یہ کتاب پاکستان سے ناواقف فرد کو پڑھا دی جائے تو وہ ہمارے حکمرانوں کی چابک دستی اُن کی عوام دوستی، اُن کی انصاف پسندی پر عش عش کر اُٹھے گا اور اگر یہی کتاب پاکستان سے واقف فرد کو پڑھا دی جائے تو ممکن ہے اس کا دل بند ہوجائے یا وہ کپڑے پھاڑ کر جنگل کی طرف نکل جائے اور اگر کوئی مضبوط اعصاب رکھتا ہو اور جھوٹ پر ہنسنے کی ہمت رکھتا ہو تو وہ بھی ضرور ہنس ہنس کر مرجائے گا، یعنی ان کے اعمال ہمارے لیے موت کا پروانہ ہیں۔
جناب نثار کھوڑو فرماتے ہیں کہ سندھ پولیس میں امن امان قائم کرنے کی صلاحیت پیدا ہوگئی ہے قربان جائیے ان کی خوش فہمی کے اُنھوں نے پولیس کو سنوارنے کا ایک کام بھی نہیں کیا اور دعویٰ کررہے ہیں کہ پولیس قابل ہوگئی ہے۔
مجھے یقین نہیں آتا کہ کوئی ایمان دار بھی ہے اور پولیس میں ترقی کی منازل طے کرتا ہوا آئی جی بن جائے لیکن زبانِ خلق کو نقارہ خدا سمجھتے ہوئے ہم یقین کرتے ہیں جناب اے ڈی خواجہ ایمان دار آدمی ہیں، ہماری حکومت سندھ کو اُن کی ایمان داری ایک آنکھ نہیں بھائی لہذا اُن کو رخصت پر بھیج دیا گیا ہے اصول پسند جناب رضا ربانی کی جماعت نے اپنے قائد کو اے ڈی خواجہ کی چھٹی کا تحفہ دیا ہے۔
ہمارے ملک میں اب کوئی ادارہ کوئی عدالت عام آدمی کے دکھوں کا مداوا نہیں کرسکتی اب صرف عوام کو اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا، سندھ کے ہاریوں وہاں بسنے والے بھیل، کولھیوں کو دیکھ کر فرعون صفت لوگوں کا دل پسیج جاتا ہے لیکن پیپلز پارٹی کو اپنے ان بے دام کے غلاموں کی حالت پر رحم نہیں آتا، اب عوام کو اپنے ہونے کا ثبوت دینا ہوگا نہ کوئی زرداری کے استقبال کو جائے۔ اب ہمیں بلاول زرداری کے مذکر مونث کے فرق سے خالی اور ماضی حال مستقبل میں تمیز نہ کرنے والی اوٹ پٹانگ باتوں کا بائی کاٹ کرنا ہوگا، خود کو بدلو اور اپنی گردن پر مسلط حکمرانوں کو بدلو تب بدلے گی تمہاری قسمت۔
nn

حصہ