(حضرت دل کا انٹر ویویو(مہہ جبین رمضان

220

(عالمیہ اولیٰ جامعتہ المحصنات کراچی)
آج اپنی بزم میں انٹرویو کے لیے جس ہستی کو ہم نے دعوت دی ہے قارئین ان سے یقیناًمتعارف ہوں گے وہ ہماری محفل میں شریک ہوا چاہتے ہیں ۔
المحصنات: تو جناب تشریف لائیے ہمارے قارئین آپ کا تعارف چاہتے ہیں۔
دل: میں گوشت کا ایک چھوٹاسا نرم ٹکڑا ہوں لوگ مجھے ’’دل‘‘ کے نام سے جانتے ہیں۔
المحصنات: آپ کی رہائش کہاں ہے۔
دل: میں جسم میں سینے کے اندر پسلیوں سے بھی اندر محفوظ غلاف میں مزے سے رہتا ہوں۔
المحصنات: آپ تو انسانی جسم میں رہتے ہیں یہ بتائیں کیا آپ بھی کسی کا مسکن ہیں؟
دل: اگر میری رہائش مومن کے جسم میں ہو تو میرا وجود اللہ تبارک وتعالیٰ کا مسکن ہے مومن کا دل اسرار کا خزینہ ہوتا ہے جب دل اسرار خداوندی کا حامل ہو تو آدمی کی گفتگو میں لطافت اور پاکیزگی آجاتی ہے ان کی زندگی بھی پاکیزہ اور دل آویز ہوجاتی ہے یہی لوگ ہیں جنہیں دیکھ کر خدا کی یاد آجاتی ہے۔
حضرت وہاب ابن منبہؓ سے روایت ہے کہ حضرت محمدﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی فرماتا ہے آسمان و زمین میری سمائی سے عاجز ہیں میری سمائی مومن کے دل میں ہوتی ہے۔ (رواہ احمد)
اور اگر میں کافر کے جسم میں رہوں تو نفسانی خواہشات، ڈھیروں تمناؤں، لا تعداد غموں اور مایوسی کے اندھیروں کی آماجگاہ ہوں۔
المحصنات: آپ کی مصروفیات کیا ہیں؟
دل: بس کچھ نہ پوچھیے۔۔۔
المحصنات: وہ کیوں جناب؟؟؟
دل: بڑی ہی انوکھی مصروفیت ہے میری نا تمام خواہشات، جذبات، تمناؤں کا بوجھ میرے نا تواں کندھوں پر ہے۔۔ بس ہر دم حرکت کو بے تاب ہوں میں۔
المحصنات: آپ کو اکثر اٹیک کیوں ہوتا ہے کبھی تو آپ فیل بھی ہوجاتے ہیں؟
دل: صنعتی اور تکنیکی انقلاب سے پہلے جب سڑکیں اور گاڑیاں نہیں تھیں تو لوگ کئی کئی کلو میٹر پیدل چلا کرتے تھے زمینوں میں ہل چلاتے،کنوؤں سے پانی نکالنا، گندم پیس کر آٹا بنانا، کپڑے دھونا، مردوں اور عورتوں کے عام کام سمجھے جاتے تھے۔ جسمانی تندرستی کا راز اسی میں تھا۔ مشینی زندگی نے انسان کو سہل پسند بنا دیا ہے۔ آپ کے علامہ اقبال نے اسی پہ تو کہا تھا:
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
المحصنات: آپ کا فیملی ڈاکٹر کون ہے؟
دل: میں اگر متاثر ہو جاؤں تو میرا علاج قرآنی تعلیمات، نبی کریمؐ کی سیرت و کردار میں پنہاں ہے خوفِ خدا مجھے روحانی طور پر صحت مند رکھتا ہے نیک اعمال ہی میرے حقیقی معالج ہیں ورنہ برائیوں کا بوجھ مجھے مارے ڈالتا ہے۔
المحصنات: آج کل اشتہاری کمپنی کا نعرہ ہے ’’داغ تو اچھے ہوتے ہیں‘‘ آپ پر داغ لگتا ہے تو آپ کون سا واشنگ پاؤڈر استعمال کرتے ہیں؟
دل: ارے بھئی! داغ اچھے کیسے ہو سکتے ہیں؟ ہمیں تو بچپن سے یہ حدیث سکھائی جاتی ہے
الطھور شطر الایمان (صفائی نصف ایمان ہے)
رہی بات واشنگ پاؤڈر کی تو۔۔۔؟
نبی مہربان ﷺنے فرمایا تھا: ’’جب کوئی مومن گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ دھبا پڑجاتا ہے پھر اس گناہ سے توبہ کر لیتا ہے اور استغفار کرتا ہے تو اس کا دل (اس سیاہ دھبے سے) صاف کر دیا جاتا ہے اور اگر زیادہ گناہ کرتا ہے تو وہ سیاہ نقطہ بڑھتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کے دل پر چھا جاتا ہے‘‘۔
المحصنات: ہمیں کبھی سر درد ہوتا ہے تو کبھی جسم میں درد کیا آپ کا واسطہ درد سے ہوتا ہے؟
دل: جی ہاں بالکل! مگر دل کے درد کو ڈاکٹر بجا طور پر ایک بیماری سمجھتے ہیں لیکن خدا کی مخلوق کے لیے درد دل رکھنے والوں کو بے شک عظیم سمجھا جاتا ہے۔ چونکہ ہمارا ایمان ہے کہ!
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں
المحصنات: اب ذرا دل کی محبت و الفت قائم کرنے کا طریقہ تو بتائیں؟
دل: دل میں کینہ، حسد، بغاوت اور بخل جیسی اشیاء بالکل نہ رکھیں یہ سب میرے لیے کولیسٹرول سے بھی زیادہ خطرناک ہیں۔ بلکہ شفقت، رحمت اور پیار سے مجھے سجائیے۔ اس کی وجہ سے مجھ سے نکلنے والی لہریں مخالف شخص تک جائیں گی تو law of attraction کی وجہ سے الفت و محبت پیدا ہوجائے گی۔
انسان کا انسان سے کینہ نہیں اچھا
جس سینے میں ہو کینہ وہ سینہ نہیں اچھا
المحصنات: آپ کے دشمن کون کون ہیںآپ ان سے دو دو ہاتھ کیسے کرتے ہیں؟
دل: پریشانی، فکر، غم میرے پکے دشمن ہیں میں اپنے دشمنوں سے صبر، توکل اور دعا کے ذریعے نبٹتا ہوں اس سے مجھے اطمینان، خوشی اور انبساط حاصل ہوتا ہے جو میری صحت کے لیے بہت ضروری ہے۔
المحصنات: مصروف زندگی میں ہر شخص کی طرح کیا آپ بھی سکون کے متلاشی ہیں؟
دل: جی ضرور! جو لوگ اللہ کی یاد سے خود کو منور رکھتے ہیں وہ مجھے بھی سکون مہیا کرتے مگر جو لوگ دنیاوی خواہشات کے پیچھے دوڑتے ہیں وہ خود بھی بے چین رہتے ہیں اور مجھے بھی بے قرار رکھتے ہیں مجھے بنانے والا خود کہتا ہے:
الا بذکر اللہ تطمئن القلوب
المحصنات: خواتین کا پردہ تو دیکھا ہے کیا آپ بھی پردہ کرتے ہیں؟
دل: میرے پردے کی اصطلاح روشن خیال معاشرے میں بہت مشہور ہے اس معاشرے کا مقصد دل کے پردے کی آڑ میں بے مہار آزادی اور بے پر دگی کا جواز حاصل کرنا ہے یہ دل کا پردہ نہیں بلکہ دل پر جہالت کا پردہ ہے۔
المحصنات: کیا آپ کی طبیعت میں حساسیت کا عنصر شامل ہے؟
دل: بالکل جناب! کیا ایسا بھی کوئی ہے جس میں جان ہو مگر حساسیت نہ ہو میری حساسیت تو کبھی بہت فائدہ مند ہوتی ہے جس کی وجہ سے لوگ اپنی اور معاشرے کی بہتری پر توجہ دیتے ہیں جبکہ کبھی میری حساسیت انسان کو تباہی کے کنارے کھڑا کر دیتی ہے اور انسان مایوسی کے اندھیرے میں ڈوب کر خالقِ حقیقی کی لازوال رحمت کو فراموش کر دیتا ہے۔
المحصنات: کیا آپ پر کوئی دباؤ ڈالتا ہے؟
دل: جب انسان اپنی توقعات بڑھا دیتا ہے تو مجھ پر بہت دباؤ پڑتا ہے میری stress کی اصل وجہ یہی ہے۔
المحصنات: جو لوگ اللہ تبارک تعالی کی راہ میں ہر طرح کی قربانی دینے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں آپ انہیں دنیاوی لذتوں کی طرف مائل کرنے میں کیوں کامیاب نہیں ہوتے؟
دل: ہا ہاہا۔۔ میری یہ ناکامی عام فہم نہیں بس اتنا سمجھ لیجیے۔
جو تعلق ہے عشق سے دل کا
عقل سے ماورا تعلق ہے
المحصنات: اب قارئین کے لیے اچھا سا کوئی پیغام دیں۔
دل: (گلا صاف کرتے ہوئے)
قارئین کے لیے میرا پیغام یہ ہے کہ
تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے ترا آئنہ ہے وہ آئنہ
کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئنہ ساز میں
میں مجلہ المحصنات کے انٹرویو پینل کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں جنہوں نے میری روداد سنی ورنہ کون پوچھتا ہے ہمیں۔۔بقول شاعر:
کون سنتا ہے دل کی بات ایسے
آپ سنتے ہیں جس طرح، جیسے
المحصنات: جناب لوگ نفس کی بات مان کر آپ کا ہی تو نام لیتے ہیں؟
دل: آپ کے کرپشن زدہ معاشرے میں یہ کرپشن کی ایک بہت بڑی مثال ہے۔
nn

حصہ