(سانحہ کوئٹہ کمیشن رپورٹ اور حکومتی بوکھلا ہٹ (سلمان عابد

269

یہ عجیب طرزعمل ہے کہ ہماری بالادست قوتوں اور حکمران طبقات کو جب عدالتوں سے فیصلہ اپنے حق میں ملے تو وہ آزاد عدلیہ، قانون کی حکمرانی اور اس کے فیصلوں کے گن گاتے نظر آتے ہیں۔ لیکن جب فیصلہ ان کے خلاف آجائے تو فوری طور پر انھیں عدالت یا ججوں کے فیصلے میں انتقامی کارروائی یا سیاست کی بو آتی ہے۔ اپنے خلاف فیصلوں پر انھیں نہ صرف تحفظات ہوتے ہیں بلکہ اس کا ردعمل بھی شدید انداز میں دے کر عدلیہ یا ججوں کے بارے میں غلط ریمارکس یا سخت تنقید کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ کچھ ایسی ہی صورت حال ہمیں حالیہ دنوں کوئٹہ سانحہ پر بننے والے عدالتی کمیشن کی رپورٹ پر بھی دیکھنے کو ملی ہے۔ کیونکہ سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی، سانحہ کوئٹہ پر بننے والے عدالتی کمیشن کی رپورٹ نے وفاقی و صوبائی حکومت سمیت وزارت داخلہ کو ایک مشکل صورت حال سے دوچار کردیا ہے۔ یہ رپورٹ عملی طور پر وفاقی و صوبائی حکومت اور وزارتِ داخلہ پر عدم اعتماد کی مظہر ہے اور کمیشن کی110صفحات پر مبنی رپورٹ اور 26 نکات پر مبنی تجاویز نے حکومتی ساکھ پر نئی بحث کو جنم دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کمیشن کی رپورٹ کو وزارت داخلہ اور حکومت نے مسترد کرتے ہوئے اسے سپریم کورٹ سمیت ہر فورم پر چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔ وزیر داخلہ کے بقول جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کمیشن کے مینڈیٹ سے تجاوز کرکے سیاست کرنے کی کوشش کی ہے۔ کیونکہ رپورٹ میں مجھ پر ذاتی الزامات لگائے گئے اور میرا مؤقف بھی نہیں سنا گیا، جو انصاف کے منافی ہے۔ حالانکہ کمیشن نے وزیرداخلہ کو بھی طلب کیا تھا، لیکن وزیر موصوف پیش نہیں ہوئے تھے۔ اب وزیر موصوف کی جانب سے عدلیہ یا جج پر تنقید کی جارہی ہے کہ انہوں نے ان کا مؤقف سنے بغیر فیصلہ دیا ہے۔ یہ کہنا کہ کمیشن نے اپنی حدود سے تجاوز کیا ہے اس کا فیصلہ بھی وزیر داخلہ چودھری نثار یا حکومت کو نہیں کرنا بلکہ یہ کام تو خود سپریم کورٹ کا ہے کہ وہ دیکھے کہ اس کی ہدایت پر بننے والا عدالتی کمیشن اپنی حدود کے اندر تھا یا باہر نکلا ہے۔ ایسا واقعہ پہلی دفعہ نہیں ہوا بلکہ ہماری حکمرانی کی تاریخ ایسے ہی کئی عوامل سے بھری پڑی ہے۔ اس سے قبل اسی حکومت میں لاہور میں ڈاکٹر طاہرالقادری کے دفتر پر پولیس کا حملہ اور اس کے نتیجے میں 14معصوم افراد کی ہلاکت جن میں عورتیں بھی شامل تھیں، پر بننے والا عدالتی کمیشن جو جسٹس باقر نجفی کی سربراہی میں بنا تھا، حکومت نے اس کمیشن کے فیصلے کو بھی نہ صرف ماننے سے انکار کردیا تھا بلکہ اس کمیشن کی رپورٹ کو ابھی تک شائع بھی نہیں کیا گیا۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ فیصلہ حکومت کے حق میں نہیں تھا۔
سانحہ کوئٹہ کمیشن کی رپورٹ میں جو نکات اٹھائے گئے ہیں وہ توجہ طلب ہیں۔ اول: وفاقی اور صوبائی قانونی، انتظامی اداروں کی نااہلی، دوئم: وسائل کی کمی، سوئم: دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے صوبائی حکومت بالخصوص وزارت داخلہ کی غیر ذمہ داری اور موجود پالیسیوں پر عملی اقدامات یا عملدرآمد کا فقدان، چہارم: حادثات سے نمٹنے کے لیے ایس او پی کا فقدان، پنجم: فوری نوعیت کے اقدامات کا مؤثر نہ ہونا، ششم: سیاسی اداروں میں مداخلت کے مسائل اور ہفتم: نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے مسائل سمیت دیگر امور کی نشاندہی کی گئی ہے۔کمیشن کے بقول جب تک اس واقعہ کی تحقیقات میں خود کمیشن نے مداخلت نہیں کی خودکش حملہ آور کی شناخت نہیں ہوسکی تھی۔ کمیشن نے پولیس کو ہدایت کی کہ وہ پہلے ان کی فورنزیک طریقہ کار کے ذریعے تصاویر لیں، اخبارات کو جاری کریں، اس پر انعام مقرر کریں تب جاکر دہشت گردوں کی شناخت ممکن ہوسکی۔ عدالتی کمیشن نے برملا کہا ہے کہ کوئٹہ میں یہ پہلا سانحہ نہیں تھا۔ اگر ریاست اور اس کے ذمہ دار ادارے گزشتہ حملوں کا فورنزیک ریکارڈ محفوظ رکھ کرمقدمہ آگے بڑھاتے تو شاید 8 اگست کا واقعہ نہ ہوتا۔کمیشن نے یہ بھی حوالہ دیا کہ2012ئکے دہشت گردی کے واقعے کے بعد آنے والے عدالتی فیصلوں پر بھی عملدررآمد نہیں ہوسکا تھا۔ اسی طرح رپورٹ میں کوئٹہ ہسپتال کے ناقص انتظامات، بنیادی سہولتوں کے فقدان اور ہسپتال کے سیکورٹی انتظامات پر بھی شدید تنقید کی گئی ہے۔ ان کے بقول وسائل اور عملے کی عدم موجودگی کے باعث بھی بہت سے زخمیوں کی موت واقع ہوئی۔ صوبائی حکومتوں کے طرزِ حکمرانی پر بھی سوال اٹھائے گئے ہیں جہاں اقرباپروری، میرٹ سے ہٹ کر بھرتیوں کے مسائل نے اداروں کو تباہ کردیا ہے۔ کمیشن نے صوبے کو اے اور بی کیٹگری میں پولیس اور لیویزکے درمیان تقسیم کرنے پر بھی سوال اٹھایا ہے کہ وہ بھی مسائل کی وجہ بن رہا ہے۔ وزیر اعلیٰ، صوبائی وزیر داخلہ اور ان کے ترجما ن کے میڈیا میں غیر ذمہ دارانہ بیانات کو بھی تحقیقاتی عمل میں خلل ڈالنے اور حقائق کو چھپانے کا عمل قرار دیا گیا ہے۔ کمیشن کی یہ رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومت کے ماتحت اداروں کو بنیادی سہولتوں سے آراستہ کرنے میں حکومت ناکام رہی ہے۔ کمیشن نے وفاقی وزارت داخلہ اور وزیر داخلہ چودھری نثارکو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کے بقول وزارتِ داخلہ کی جانب سے قومی سیکورٹی پالیسی پر عملدرآمد نہیں کیا جارہا۔ یہ وزارت غیر واضح قیادت، اور ہدایت کے بغیر چل رہی ہے اور اپنے کردار کے بارے میں عملی طور پر کنفیوژن کا شکار ہے۔ اسی طرح سے نیشنل ایکشن پلان کے اہداف پر نگرانی اور عملدرآمد کا فقدان ہے۔ وزیر داخلہ نے وزارتی ذمہ داری کم نبھائی ہے۔ وہ ساڑھے تین برسوں میں نیکٹا کی ایگزیکٹو کمیٹی کا محض ایک اجلاس منعقد کرسکے۔ نیکٹا کا ایکٹ عملاً ختم ہوگیا ہے اور وزارت نے نیکٹا کے فیصلے کی خلاف ورزی بھی کی۔ وزیر داخلہ کالعدم تنظیموں کے سربراہان سے ملے، ان کی تصاویر شائع ہوئیں، کئی کالعدم تنظیمیں اب بھی فعال ہیں اورکئی دہشت گرد تنظیموں کو ابھی تک کالعدم قرار نہیں دیا گیا، حالانکہ ان تنظیموں کی جانب سے دہشت گردی کے واقعات کے اعترافی بیان میڈیا میں آچکے ہیں۔ انسداد دہشت گردی قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی جارہی ہے۔ مغربی سرحدوں، صوبائی مذہبی امور کی وزارت، مدارس کی رجسٹریشن اور نگرانی کے مسائل نے بھی صوبے میں دہشت گردوں کو محفوظ راستہ دیا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے کمیشن کی رپورٹ میں جو 26 نکات سفارشات کی صورت میں پیش کیے ہیں وہی اس رپورٹ کا خلاصہ ہے۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم حادثات کی ذمے داری ایک دوسرے پر ڈال کر اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ حکومتی وزراکی جانب سے یہ کہا جارہا ہے کہ یہ ایک رکنی جج پر مشتمل کمیشن تھا اور یہ محض ایک جج کی رائے ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ کمیشن ایک رکنی ہو یا دورکنی، یہ کمیشن کا فیصلہ ہے۔ اگر واقعی حکومت کو پہلے ہی اس جج پر اعتراض تھا تو وہ کمیشن بنتے وقت ہی اس پر اعتراض کرتی۔ اس رپورٹ پر جو تنقید ہورہی ہے وہ کسی بھی طور پر حکومت کے شایانِ شان نہیں ۔ جس انداز سے وزیر داخلہ سینہ تان کر اس کمیشن کی رپورٹ کے خلاف سامنے آئے ہیں وہ بھی تنقید کے زمرے میں آتا ہے۔
nn

حصہ