(قائدانہ شخصیت(عالیہ خالد

312

جماعت اسلامی کی دیرینہ رکن اُم اکبر کے آنگن کا چاند صبیحہ شاہد عارضی دنیا میں ہم سے جدا ہو کر ہمیشہ کی زندگی کی سفر پر روانہ ہوگئیں۔ حیات مستعار کے سفر میں جذبۂ عمل سے بھرپور پارہ صفت صبیحہ شاہد‘ چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کر چلو کی مجسم تصویر‘ ہمہ جہت محاذوں پر کام کرتی نظر آتیں۔
وہ ہر میدان مین آگے تھیں‘ لفظ ان کے سامنے دربان کی طرح قطار باندھے کھڑے ہوتے‘ گفتگو کرتیں تو بلبل و مینا کے قصّے پیچھے رہ جاتے۔ وہ بولتیں اور سنتے جائیں۔ بارعب مگر انتہائی مشفقانہ انداز‘ الفاظ تول کر گفتگو کرتیں اور سامنے والے کو متاثر کر جاتیں۔
سادگی‘ بروقت فیصلہ کرنا‘ چوکس رہنا‘ مشکل چیزوں میں سے اہم چیز کو پہلے تلاش کر لینا اور اس کے لیے جلدی کرنا، ان کی شخصیت کا خاصا تھا۔ وہ خوش اخلاق‘ ہر دم مسکرانے والی‘ بزلہ سنج‘ نیکیوں میں سبقت کرنے والی اور انتہائی مشفق مربّی تھیں۔ شفقت کے ساتھ سکھانے والی‘ سکھانے کا یہ انداز ہوتا گویا دو سہیلیاں ہیں جو آپس میں ہنسی مذاق بھی کر رہی ہیں اور سیکھ بھی رہی ہیں۔ ایک جھجکتے ہوئے نئے آنے والے فرد کی کمر پر محبت سے ہاتھ رکھ کر سکھا سکھا کر آگے بڑھانا۔ تحریک کے اندر کتنی بچیاں ان کی تیار کی ہوئی ہیں، جو ذمے داریوں پر موجود ہیں۔ رہنما کا جو تصور پڑھا یا سنا ہے‘ وہ اس کی عملی تصویر تھیں۔
خدمت اور انتہائی محبت اور خلوص کے ساتھ خدمت ان کی شخصیت کا ایک انمٹ پہلو تھا۔ اجتماع عام کے موقع پر ناظمہ اجتماع (امتل رقیب) کے پیروں پر ورم آجاتا تھا چل چل کر‘ تو رات کو پلنگ پر بٹھا کر خود زمین پر بیٹھ کر صبیحہ شاہد ان کی ٹانگوں کی مالش کیا کرتی تھیں اور اتنے ہنسی مذاق اور ایسے تعلق کے ساتھ کہ کبھی ماحول میں کوئی بوجھل پن محسوس ہی نہیں ہونے دیتی تھیں۔
سکھر کا تنظیمی دورہ ہوتا تھا۔ ہم چھ لوگ سکھر ایکسپریس میں بیٹھے ہوتے تھے اور وہ دورہ کبھی ہمیں بوجھل نہ لگا۔ ایسی پیاری رفاقت و محبت ہمیں کچھ کرکے نہیں لانے دیتی تھیں۔ ہر چیز کا انتظام ان کے پاس موجود ہوتا تھا۔
انہوں نے قرآن کو بھرپور طور پر جذب کیا تھا‘ انہوں نے دورہ قرآن کے ذریعے افراد میں اسلام کو بہترین عام فہم انداز میں بیان کیا۔
مؤثر انداز گفتگو اور پُراعتماد انداز بیاں‘ علم کا بہتا دریا تھیں۔ ان کی محبت سے لی گئی قرآن کلاسز میں نئے آنے والے پہلی کلاس میں ہی دل ہار بیٹھتے‘ لوگ ان کے گرویدہ ہوجاتے‘ جب وہ مخاطب کو پیار سے میری چاند اور چندا کہہ کر پکارتیں۔
جب بچے چھوٹے تھے، تو وہ درس دے رہی ہیں، دو چھوٹی چھوٹی بچیاں ان کے کاندھے پر چڑھی ہوئی ہیں‘ ان کے ساتھ جو بیگ ہے، اس میں کاپیاں اور کتابیں بھی ہیں‘ فیڈر بھی ہے‘ کھلونے بھی ہیں۔ بچے مسلسل ان کو ستا رہے ہیں، لیکن وہ مسلسل درس کا کام کر رہی ہیں۔
ایک دفعہ لیاقت آباد والوں نے کہا صبیحہ باجی آپ نے لیاقت آباد والوں کو چھوڑ دیا ہے۔ کہنے لگیں، اچھا میں دوپہر میں دورۂ قرآن لے لوں گی۔ اس سال انہوں نے دو ٹائم دورۂ قرآن کرایا، صبح گلشن معمار میں اور دوپہر میں کمال محبت سے لیاقت آباد والوں کو ٹائم دیا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ بیمار تھیں، لیکن تڑپ اور لگن نے کبھی انہیں شکست نہ دی۔
کبھی گاڑی ہوتی کبھی واپسی میں نہیں آتی، لیکن کچھ ہو جائے، وہ رکنے والوں میں نہیں تھیں۔ اپنے مقصد کے لیے ایک جنونی کیفیت ان پر سوار رہتی۔
لڑکپن کے دور میں بڑے اجتماعات میں کبھی کبھار امی کے ساتھ جانا ہوتا تو میں ان کا خطاب شوق سے سنتی اور دل ہی دل میں ان کو ’’جماعت کی شیرینی‘‘ کا خطاب دے ڈالا تھا۔
میری ساس ہمیشہ صبیحہ باجی کی مثالیں دیتی تھیں کہ صبیحہ کی گھر میں اتنا کام ہوتا ہے۔ (بڑی سسرال تھی) وہ تین تین چولہے ایک ساتھ جلا کر اور جلدی جلدی کام نمٹا کر دعوت کے کام کے لیے جاتی تھیں۔ون ڈش میں ہم ڈشوں میں چیزیں لاتے‘ ان کی گھر میں ڈرائیور کئی کئی دیگچیاں لاتا۔ ایک ساتھی نے کہا شوہر کی تنخواہ کچھ گھر میں بھی رکھتی ہیں تو بولیں: اس کا مال ہے اس کی راہ میں حاضر ہے۔
سندھ کی بہنوں کے دلوں میں ان کا پختہ گھر ہے‘ میں نے کہا ہم دورے کرتے ہیں صبیحہ باجی مگر وہاں تو ہر شہر کی فصیل پر آپ کا نام کندہ ہے۔ ہنس کر کہتیں: اور لے جانے کے لیے ہے ہی کیا میرے پاس۔
میں نے اتنی خوبیاں کسی ایک انسان میں شاید ہی مجتمع دیکھی ہوں، ان کا عجز‘ ان کا سرمایہ تھا۔ میری جیٹھانی بتا رہی تھیں کہ وہ اجتماع اور اسٹیج ہی پر نہیں، گھروں میں آکر بھی فعالیت سکھاتی تھیں‘ انہوں نے مجھے بچوں کے ساتھ اجتماعیت کے تقاضے سکھائے۔
ایک پروگرام میں ملیں، کہنے لگیں: بے چارے شوہر چاہے دنیا جہاں کی نعمتیں لا کر فریج میں ڈھیر کر دیں، میکے کی گلی مڑتے ہی ایسی بھوک لگتی ہے کہ جیسے کھانے کو ملتا ہی نہ ہو۔ عمر کوئی بھی ہو میکے کی اپنائیت برقرار رہتی ہے۔ یہ جمعیت‘ جماعت بھی آپ کا میکا ہی ہے‘ اپنی اپنائیت اور اجتماعیت کی بھوک ختم مت ہونے دیجیے گا۔
جمعیت طلبہ جامعہ کراچی کے بچے ان کو یاد کرتے ہوئے بتا رہے تھے کہ دورِ طالب علمی کے وہ دن یاد آتے ہیں، جب متحرک اور جذبہ عمل سے سرشار صبیحہ آنٹی ہمارے ساتھ مالی مسائل کا حل ہوا کرتی تھیں۔ پیسے تو اور بھی لوگ دیتے ہیں مگر وہ شفقت‘ حوصلہ‘ نرمی اور امید میں لپیٹ کر دیتی تھیں۔
وہ نصب العین کی چلتی پھرتی تصویر تھیں۔ وہ آیت ہے’’منافقین کہتے ہیں کہ ان کو تو ان کے دین نے پاگل کر دیا ہے۔‘‘ اس آیت کا عملی نقشہ ان کی ذات میں نظر آتا تھا۔ فنا فی تحریک دیوانگی کی حدوں کو چھونے والی۔۔۔ صبیحہ کی ذات میں عذر نام کی چیز نہیں تھی، اتنے اتنے مشکل حالات آئے‘ بہت سی باتوں میں اللہ تعالیٰ نے انہیں آزمایا، مگر جو کوئی آزمائش میں اسے تسلّی دلانے جارہا ہوتا وہ تسلّی واپس لے کر آتا۔
پوتے کا غم۔۔۔ ایک سال کا پوتا اپنی گاڑی کے نیچے آکر فوت ہوگیا، ہمیشہ کہا کرتی تھیں، بیٹے سے زیادہ پوتا پیارا ہوتا ہے۔ بہو جو بچہ کی ماں تھی‘ اس کا کہنا ہے کہ میں نے صبر کرنا صبیحہ خالہ سے سیکھا۔ میں سوچ رہی تھی کہ امی کا پتا نہیں کیا حال ہوگا؟ لیکن وہ مسکرا کر مجھے اندر لے گئیں اور کہا اللہ کی امانت تھی‘ اللہ کے حوالے ہوگئی‘ تم صبر کرو۔ خود ان کا بیٹا گیارہ سال کی عمر میں بخار میں انتقال کرگیا، لوگ تعزیت کرنے گئے تو کہنے لگیں کہ وہ اللہ جو چاہتاہے کرتا ہے، مجھے تو اس بات سے بڑا قرار آگیا کہ سورہ کہف میں وہ قصہ ہے ناں کہ وہ لڑکا اپنے ماں باپ کا تنگ کرنے والا ہوتا تو اس لیے اللہ نے اسے اٹھالیا۔ کیا پتا میں بیٹے کی آزمائش میں پوری نہ اترسکتی تو اللہ نے میرے لیے یہ والا معاملہ کیا تاکہ میرے ساتھ آسانی پیدا کرے۔ کس حوصلے سے یہ غم سہا۔۔۔
علم کی عاشق تھیں۔ اکیڈمی کی کوئی نئی کتاب صبیحہ باجی سے پہلے کسی کے پاس ہونا ناممکن تھی۔ اکیڈمی پابند تھی اپنی ہر تصنیف یا نئی آنے والی کتاب ان کو بھیجنے کی۔ ہزاروں کتابوں کا سمندر ہے وہاں۔۔۔ آتے جاتے اکیڈمی کا چکر لگانا ان کا معمول تھا۔ایک دن کہنے لگیں: اس وقت اکیڈمی میں کوئی ایسی کتاب نہیں، جو میں نے نہ پڑھی ہو۔ کوئی نشست ہو، وہ اتنی کتابوں کو تعارف کراتیں کہ میں سوچتی یہ انسان ہیں کہ جن۔۔۔ جب ملتیں، ایک نئی کتاب کا تحفہ دیتیں۔ جو بھی انہیں جانتا، ناممکن ہے کہ اس کے پاس ان کی دی ہوئی کوئی کتاب نہ ہو۔
رشک آتا تھا واقعی کیا خاتون تھیں‘ ایک ایک کتاب کے پیرا گراف‘ لائنیں تک یاد تھیں ان کو۔ ان کے گھر والوں کا کہنا ہے کہ ہمیں بخاری شریف بغیر دیکھے پڑھاتی تھیں اور گھر میں سب سے مشکل کام ان کی کتابوں کو سنبھالنا تھا۔
وہ اپنے لیے خود حالات پیدا کرتی تھیں۔ وہ ایک ایسی مضبوط خاتون تھیں، جو ہمیں سِکھا گئیں کہ ایک مضبوط عورت دین کے اندر کہاں کہاں فائدہ مند ہوسکتی ہے۔ جتنی اچھی وہ آپ سے تھیں، اس سے کہیں زیادہ اچھی وہ گھر والوں سے تھیں۔ جتنا انہوں نے آپ کو سِکھایا، اس سے کہیں زیادہ انہوں نے ہمیں سِکھایا۔ انہوں نے ہمیں اپنے عمل سے سِکھایا۔ وہ بہترین ماں تھیں‘ ہماری بہترین دوست‘ بہترین استاد‘ بہترین ساتھی اور بہت پیاری تربیت کرنے والی مربّی تھیں۔ جہاں سختی کی ضرورت تھی، وہاں سختی سے ہماری تربیت کی اور جہاں پیار دیا تو اتنا پیار دیا کہ ہمیں کسی اور پیار کی ضرورت نہیں پڑی۔
بہت مصروف زندگی تھی، لیکن اس کے باوجود کبھی ہمیں احساس نہیں ہونے دیا کہ وہ ہمارے پاس نہیں ہیں۔ تھک کر آتی تھیں تو اپنے دونوں ہاتھ پھیلا دیتی تھیں۔ تین بچے ایک ہاتھ اور تین بچے دوسرے ہاتھ کو پکڑلیتے۔ پھر پوری رُوداد سنتی تھیں کہ آج کیا کیا کیا‘ دن کیسا گزرا؟
کبھی کوئی ضرورت ہو تو کہنے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ زبردستی کچھ نہیں کرایا پیار سے محبت سے سِکھایا۔ جب تربیت کا وقت تھا تو گھر میں ٹی وی نہین رکھا، تربیت ہوگئی تو ساتھ بیٹھ کر دیکھا۔ جوائنٹ فیملی سسٹم تھا کہ بچے اِدھر اُدھر جا کر بیٹھیں گے تو خود لے کر آئیں، ہمارے ساتھ بیٹھ کر دیکھا، تنقید برائے تنقید نہیں کرتی تھیں، بہت پیار سے سمجھاتی تھیں کہ کیا دیکھنا ہے اور کیا نہیں۔
جب ہم کبھی امی کی مصروفیات سے اکتا جاتے تو وہ ایسا پلان بنالیتیں‘ کوئی ٹِرپ بنا لیتیں‘ پکنک کا کہ ہمارے ساتھ کچھ وقت گزاریں، اس میں بھی وہ ہمیں کشمیر لے جاتیں‘ بارڈر پر جارہے ہیں، وہ جہاد، وہ تحریک وہ اس کے ساتھ ساتھ ہمارے اندر اتارتی جاتیں۔ بارڈر پر تھرل اتنا کہ فائرنگ بھی ہورہی ہی‘ سرنگوں سے بھی گزر رہے ہیں۔
غالباً 1998ء کی بات ہے، بارڈر پر تھے‘ غلطی سے بارڈر کراس کرگئے، معلوم ہوا تو بہادری سے کھڑی رہیں کہ خوف ان کی رگوں میں نہ تھا۔
ہم نے اپنی امی سے سیکھا کہ بندے راضی ہیں تو رب راضی ہے۔۔۔اور امی سے لوگ راضی تھے، چاہے وہ سسرالی رشتے دار ہوں ‘ چاہے شوہر‘ چاہے وہ اولاد ہو یا دیورانی اور نندیں، سب امی سے راضی تھے۔ ہم رات ڈھائی بجے بھی اٹھ رہے ہیں تو مشین لگی ہوئی ہے‘ امی کپڑے دھو رہی ہیں اور صبح جارہی ہیں تو دوپہر کا کھانا تیار ہے۔ چالیس چالیس افراد کا کھانا۔۔۔جوائنٹ فیملی تھی اور پھر واپس آرہی ہیں تو ان کے انتظار میں کام رکھا ہے، وہ کر رہی ہیں۔ بہت مشکل زندگی گزاری، لیکن خوشی خوشی سب کچھ کیا۔
ہم نے امی کو کبھی حالات سے گھبراتے نہیں دیکھا۔ امی کا اللہ پر بھروسہ بہت قوی تھی۔ انتقال سے پندرہ بیس دن پہلے چھوٹے بیٹے حسن کی شادی کی۔ تاریخ طے کردی، 16 دسمبر اور ولیمہ 18 دسمبر کو۔ امی سے پوچھا: امی، لڑکی کہاں ہے کہ ابھی تو رشتہ تک نہیں دیکھا کہیں۔ کہنے لگیں وہ اللہ دے گا۔ میں نے اپنا کام پورا کیا، اللہ اپنا کام کرے گا۔ نکاح سادگی سے کرنا، جہیز کے نام پر ایک سوئی بھی مت لینا، خود کپڑے بنانا‘ پھر امی کے سامنے ہی بات طے ہوگئی۔ آنکھ بند کرکے توکل اللہ۔ ہم سے پوچھتیں تم کب آؤ گی لاہور؟ ہم کہتے امی حالات ابھی۔۔۔۔۔۔ کہتیں تم ارادہ تو کرو اللہ خود راستہ کھول دے گا۔ امی کا پسندیدہ شعر تھا:
توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے
یہ بندہ دو عالم سے خفا میرے لیے ہے
ہم نے امی کو کبھی بیٹھے نہیں دیکھا۔ جلسہ ہے‘ فائرنگ شروع ہوگئی‘ ہم نے دیکھا، لوگ بھاگ رہے ہیں، امی سمجھا رہی ہیں، لوگوں کو روک رہی ہیں کہ یہ تو وقت ہے کھڑے رہنے کا‘ گولی پیٹھ پر کھانے سے بہتر ہے، سینے پر کھاؤ۔
صبر سے شکر سے آخر وقت میں بھی چاہے وہ شعور میں تھیں یا لاشعوری میں قرآن ان کے لبوں پر جاری تھا۔ سب سے زیادہ سورۃ الرحمٰن کی تلاوت کرتیں۔
چار‘ پانچ ماہ قبل لگتا تھا کہ انہیں اندازہ ہوگیا ہے کہ وقت اب بس بہت کم ہے،کہتی تھیں: بس اب خوف آنے لگا ہے‘ پریشانی ہونے لگی ہے‘ موت کا فرشتہ مجھے اپنے سامنے نظر آتا ہے اور میری تو کوئی بھی تیاری نہیں ہے، پتا نہیں، وہ لمحات کیسے گزریں گے‘ کیا ہوگا۔۔۔ کیسے سامنا ہوگا۔۔۔ قبر میں کیا ہوگا‘ تم سب سے کہتی ہوں دعا کرتی رہنا کہ میں ثابت قدم رہوں۔ دو دن پہلے موت کے فرشتے نظر آئے، کہنے لگیں کہ میری موت کھڑی ہے، خالہ کہنے لگیں، خیر کی بات کرتے ہیٍں باجی۔۔۔کہنے لگیں، موت سے بڑھ کر خیر کسی چیز میں نہیں۔ آخر وقت میں کھڑکی میں غور سے دیکھ رہی تھی،ں پوچھا: امی کیا دیکھ رہی ہیں؟ کہتی ہیں: اندر آجاؤ۔پوچھا: کس سے کہہ رہی ہیں؟ کہنے لگیں: دو لوگ ہیں، موت کے فرشتے ہیں، مجھے لینے آئے ہیں ان سے پوچھو یہ کس کام کے لیے آئے ہیں۔ بھائی کلمہ پڑھاتا رہا‘ پڑھتی رہیں، اس کا ہاتھ پکڑ کر کہنے لگیں: میرا جانا مشکل نہ کرو، اب مجھے جانے دو۔ بھائی نے کہا، جب آپ کا وقت آئے گا ہم سے کوئی نہیں روکے گا اور آپ چلی جائیں گی۔ بہت بے چینی تھی امی کو، بھائی سے کہا کہ نماز فجر کا وقت ہے‘ امی کو نماز پڑھا دو کہ سکون آجائے‘ نمازوں کی بہت حفاظت کرتیں، ایک ایک نماز کو دو دو تین تین دفعہ پڑھتی تھیں کہ یاد نہیں رہتا تھا۔ نقاہت انتہا سے زیادہ تھی، لیکن وضو کھڑے ہو کر کرتیں‘ آخری وقت کہا: تمیمم کرلیں۔ کہا: نہیں پانی سے وضو کروں گی۔ پانی سے وضو کرایا۔ نماز کی نیت باندھی‘ نماز میں کافی دیر ہوگئی۔ بھائی کو لگا، امی بے ہوش ہوگئی ہیں، آوازیں دیں‘ پڑھتی رہیں، نماز کے بعد کہا: فکر مت کرو، میں نے ساری زندگی نمازوں کی حفاظت کی ہے، تم لوگوں کو نصیحت ہے، اپنی نمازوں کی حفاظت کرنا، یہ کہہ کر لیٹ گئیں۔ نماز کے بعد عجیب سکون آگیا تھا اور پتا ہی نہیں چلا امی لمحوں میں ہمیں چھوڑ کر چلی گئیں۔ امی ہماری محبوب ہستی تھیں، لیکن ہم اللہ کی رضا میں راضی ہیں‘ ہم نے انہیں اس کے سپرد کردیا۔ ہم سے کہتیں: تم لوگوں کا احسان ہوگا کہ تم لوگ مجھے خود نہلانا۔ امی کے بعد ہمیں کچھ کرنا مشکل نہیں لگا، ہر چیز وہ سکھا گئی تھیں کہ کیسے کفن دینا ہے، کیسے میت کو رسیو کرنا ہے۔ وراثت میں امی کے پاس ناک کی ایک لونگ بھی نہیں تھی، جس کو ترکہ میں دیا جاتا، بس کتابیں ہی کتابیں تھیں یا چند جوڑے‘ جوڑے بھائیوں کے حصّے میں آئے، بہنوں کے حصّے میں آیا۔ ہمیشہ کہتیں: تیسرے دن سنت کے مطابق تقسیم کردینا لہٰذا خالہ کے ذریعے تیسرے دن بٹوا دیا۔

حصہ