میرے نبی ﷺرضوانہ قائد

235

ربیع الاوّل کا ماہِ مبارک، اس عظیم الشّان انسانؐ کی ولادتِ با سعادت کا مہینہ ہے جو زمین پر بسنے والے تمام انسانوں کے لیے رحمت بن کر آیا۔۔۔ جس کی اطاعت میں ہر فرد قوم و ملت اور تمام بنی نوع انسان کے لیے بِلا امتیاز سلامتی ہی سلامتی ہے۔ یہ ماہ ہر سال حیاتِ مصطفیؐ کی ایمان افروز یادیں لیے ہوئے آتا ہے۔ عاشقانِ رسولؐ اپنے اپنے انداز سے اس بہارِ رحمت پر خوشیاں مناتے ہیں اور اس یاد سے گویا آپؐ سے محبت و عقیدت کا حق ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
یاد یا تذکرۂ رسولؐ کا طریقہ دورِ نبویؐ سے لے کر آج کے زمانے تک بتدریج بدلا۔ مگر تذکرۂ رسولؐ نہیں صرف طرز ہی بدلے ہیں۔۔۔ صحابۂ کرامؓ کی محفل میں حضورؐ کے ذکر کی ایک آیت ہی پڑھ دینا کافی تھا اور سارا قرآن ان کے سامنے روشن ہو جاتا تھا۔ پھر اس آئینے میں نبیؐ کے اٹھنے بیٹھنے، چلنے پھرنے، کھانے پینے اوردیگرمعمولات کے تمام ہی انداز ان کی آنکھوں سامنے متحرک ہوجاتے۔۔۔ یہ چیز آپؐ کے عقیدت مندوں کے لیے ایک جانب تذکرۂ رسولؐ تھا تو دوسری طرف آپؐ کی فرماں برداری کے لیے کامل ترغیب بھی۔۔۔ لیکن پھر بعد کے آنے والے، جو آپؐ کی زیارت اور صحبت سے فیض یاب نہ تھے، ان کے سامنے تذکرۂ رسولؐ کا حق ادا نہیں ہو سکتا تھا، جب تک کہ آپؐ کی باتیں پوری تفصیل کے ساتھ بیان نہ کی جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ مُحبّانِ رسولؐ نے اپنے محبوبؐ کی ایک ایک بات محفوظ کی۔ آپؐ کی ہرہر ادا،انداز اور حلیۂ مبارک تک نہایت وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ قرآن پاک میں انبیا و مرسلین کا تذکرہ اللّٰہ تعالیٰ نے نہ صرف خود بار بار کیا ہے بلکہ حکم دیا ہے: ’’ان کو یاد کرو اور دوسروں کو یاد دلاؤ اور جو کچھ تم نے ان سے پایا ہے، وہ دوسروں تک پہنچاؤ‘‘۔
چناں چہ حجۃ الوادع کے موقع پر حضورؐ نے ایک لاکھ سے زائد مسلمانوں کو مخاطب فرما کر ہدایت دی اور اختتام پر فرما یا: ’’جو لوگ یہاں موجود ہیں وہ ان ہدایات کوان لوگوں تک پہنچائیں، جو حاضر نہیں ہیں‘‘۔
اس حکمِ نبویؐ کی تعمیل صحابۂ کرامؓ نے جس اہتمام اور عشقِ رسولؐ سے سرشار ہو کر کی، اس کی مثال تا قیامت ناممکن ہے۔صحابۂ کرامؓ کے ابتدائی زمانے میں روایتِ احادیث کا طریقہ ہی ابلاغِ حق، امر بالمعروف و نہی عنِ المنکر اور تذکرۂ رسولؐ تھا۔۔۔ یہی تاریخِ اسلام بھی ہے اور اسوۂ حسنہ بھی۔۔۔ لہٰذا صحابہؓ و صحابیاتؓ کی محفلوں میں حضورؐ کی تعلیم اور سیرت النبیؐ کے بیان کو دعوت و تربیت کا اہم کام سمجھا جاتا تھا۔ عہدِ رسالت کے بعد ،نبی کریمؐ کی زیارت وصحبت سے محروم نئے آنے والے مسلمان اسوۂ حسنہ اور دعوتِ حق کے متلاشی ہوئے۔ صحابہ کرامؓ نے حضورؐ کی ذات اقدسؐ کو مرکزی حیثیت سے پیشِ نظر رکھ کر آپؐ کا اسوہ، طریقۂ تعلیم اور دعوتِ دین کے ابلاغ کا کام جس قوت کے ساتھ شروع کیا، وہ بِلا شبہ رفع ذکرؐ اور حبِ رسولؐ کی بہترین مثال ہے۔ اس کا لازمی اثر یہ نکلا کہ بات تقریر سے تحریر تک پہنچی۔ یہ مرحلہ (بَلِغوعنیِ) ’’پہنچاؤ مجھ سے‘‘کے حکم کی پیروی میں ’’عشقِ رسولؐ سے سر شاری اور جواب دہی کے احساس کے ساتھ طے ہوا کہ ایک طرف مستند تفاسیر سامنے آئیں تو دوسری جانب احادیث کے مستند مجموعے ترتیب دیے گئے۔۔۔ پھر ان کی مدد سے اسلامی اصول و قوانین، ’’فقہ‘‘ کی صورت میں مرتب ہوئے۔ یقیناً، آج دنیا کے انسانوں کا اس دینِ رحمت کی طرف لپکنا اور مسلمانوں کا اپنے دین کو آسانی کے ساتھ پھیلانا، ان ہی اصحابؓ کے عشقِ رسولؐ کا ثمرہ ہے۔
تذکرۂ رسولؐ کی ان بے پایاں مساعیِ جمیلہ کے باوجود ایسا وقت آتا ہے کہ اسوۂ حسنہ جیسا مؤثرترین ذریعۂ علم واصلاح، غیرمؤثر ہوجاتا ہے۔۔۔ جیسا کہ مشترکہ پاک وہند کی تاریخ میں نظر آتا ہے۔ کہیں کارِنبوّت اور منصبِ رسالت سے متعلق خودساختہ تصورات قائم کرکے اسوۂ رسول کے ایک بڑے حصّے کو قابلِ اتّباع نہ سمجھا گیا۔۔۔کہیں آپؐ کی تعلیمات میں اسرار و رموز کا عقیدہ سامنے لایاگیا۔۔۔ اور طریقت کے نام پر تعلیماتِ نبویؐ کو عام لوگوں کے لیے ادھورا کیا گیا۔۔۔کہیں آپؐ کی طریقوں کو زمانوں کے فرق سے متصادم ظاہر کر نے کی کوششیں ہوئیں۔۔۔ پھر ایسے حالات ہوئے کہ عاشقانِ رسولؐ آپؐ کے ساتھ اندھی بہری اور جذباتی عقیدت میں مبتلا بھی ہوئے ہیں۔ وہ متعیّن اوقات میں مخصوص طریقوں پر عقیدت و محبّت کا اظہار بلکہ پرچار کرکے اپنی دانست میں گویا عشقِ رسولؐ کے ادائے حق سے خود کو سبکدوش کرلیتے ہیں۔۔۔ افسوس، آج ہمارے معاشرے میں نبیؐ سے محبت اور اظہارِ محبت کی زیادہ تر یہی روایات عام ہورہی ہیں۔ ان روایات کے قیام، ان کو تقویت دینے، ان کوجاری وساری رکھنے اور ان کی رونقیں بڑھانے میں، ایک جانب، بے علم مولویوں اور خانقاہ پسند صوفیوں کا اہم کردار ہے۔۔۔ تودوسری طرف اہلِ علم طبقے کا سخت تنقیدی رویّہ اور ناکافی ابلاغِ دین ہے۔
حبِ رسولؐ کے سلسلے میں علامہ اقبال، جذبۂ عمل قائم رکھنے کے تین طریقے بتاتے ہیں:
پہلا طریقہ درود سلام ہے، جو مسلمان کی زندگی کا جزوِلاینفک ہے۔
دوسرا طریق اجتماعی ہے کہ مسلمان کثیر تعداد میں جمع ہوں اور کوئی حضور آقائے دوجہاںؐ کے سوانح حیات بیان کرے۔
تیسرا طریقہ اگرچہ مشکل ہے، لیکن بہرحال اس کا بیان کرنا نہایت ضروری ہے۔ وہ طریقہ یہ ہے کہ یادِ رسولؐ اس کثرت اور ایسے انداز میں کی جائے کہ انسان کا قلب، نبوت کے مختلف پہلوؤں کا خود مظہر ہو جائے، یعنی آج سے تیرہ سو سال پہلے جو کیفیت حضور سرور کائناتؐ کے وجود مقدس سے پیدا ہوتی تھی، وہ آج ہمارے قلوب کے اندر پیدا ہو جائے۔
(آثار اقبال مرتبہ غلام دستگیر رشید، ص306 (جلسۂ میلادالنّبیؐ)
آج کی جدید دنیا کے طول و عرض میں ہم آپ سمیت ایک ارب سے زائد عاشقانِ رسولؐ موجود ہیں، نبیؐ سے محبت و اطاعت کو اپنے ایمان کی تکمیل جانتے ہیں، عقیدت و احترام سے آپؐ کی کامل سلامتی کے ذریعے گویا دل و جان سے آپؐ کا ساتھ دینے، آپؐ کی مخالفت سے بچنے اور سچی فرماں برداری کا اظہار کرتے ہیں۔ آپؐ کی سنت اور اسوہ پر ثواب کی نیت سے عمل بھی کرتے ہیں مگر عام طور پر اس حد تک کہ آپؐ جیسا لباس، کھانے پینے، سونے جاگنے، چلنے پھرنے، اٹھنے بیٹھنے کے آداب اختیار کرلیتے ہیں۔ یقیناً، اپنے اخلاق آپؐ کے رنگ میں رنگنا باعث سعادت ہے۔۔۔ لیکن اگر ہم آپؐ کی سب سے بڑی اور اہم سنت دعوتِ دین کونہ اپنا سکیں تو آپؐ سے محبت اور آپؐ کی سلامتی کے حقیقی دعوے دار نہیں بن سکتے؟
آپؐ اپنے رب کے رسول تھے اور اسی رب کی طرف سے اس کے بندوں کو دعوت دینا ہی آپؐ کا مقصدزندگی تھا۔۔۔ غارِ حرا میں وحی اور اوّلین ہدایت سے لے کر زندگی کے آخری لمحے تک، آپؐ کارِ دعوت و رسالت کی متحرک تصویر بنے رہے۔۔۔ ہر ہر لمحہ یہی فکر، اسی کی دھن، اسی کا احساس، اسی کے لیے تمام تر تعلقات و معاملات، اسی کے لیے ہر جدوجہد۔۔۔کہ رب کی دعوت اس کے بندوں تک بلا کم و کاست پہنچ جائے۔۔۔ پھر اس عظیم مشن کے مقابلے میں مشکلات پر صبر کی ایک داستان سامنے آتی ہے۔۔۔
قریبی عزیز و اقارب کی بے وفائی، شہرِ عزیز کی گلیوں میں رسوائی، کوہِ صفا سے دلیرانہ دعوتی پکار، عکاظ کے میلوں میں دعوتی گشت، شعب ابی طالب کی سختیاں، طائف کی پتھریلی وادی میں آبلہ پائی، بدرو حنین اور احدو حدیبیہ کے میدان کارزارمیں ثابت قدمی۔۔۔ پھر امت کی بخشش کے لیے نالۂ نیم شب۔۔۔ کچھ بھی تو آپؐ کو اپنے مشن سے پیچھے نہ ہٹا سکا۔
پھر حیاتِ مبارکہ میں عرفات کا وہ میدان بھی ہے۔ یہاںآپؐ حجۃ الوداع کے موقع پر قریباً سواً لاکھ کے مسلمانوں کے مجمع سے مخاطب ہیں۔ اپنی دعوت و رسالت کے حق کو ادا کرنے پر رب کے سامنے جواب دہی کے لیے امت سے معلوم کرتے ہیں۔۔۔ تمام مجمع یک زبان ہے: ’’ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپؐ نے رسالت کا حق ادا کر دیا، نصیحت کا کام پورا کردیا، امانتِ الہی (دعوتِ دین) کو کماحقّہ ہم تک پہنچا دیا۔۔۔‘‘ آخر میں آپؐ تین بار انگشتِ شہادت اٹھا کر اپنے رب کو بھی اس پر گواہ بناتے ہیں۔
قرآن کی رو سے مسلمان اور آپؐ کے امّتی ہونے کی حیثیت سے ہم اسی دعوتِ دین کی ادائیگی کے لیے اپنے گرد و پیش کے انسانوں کے سامنے خدا کے حضور گواہی کے جواب دہ ہوں گے۔
آج آپؐ کی آمد کی خوشی میں ایک جانب عقیدت و محبت کا روز افزوں اور چکاچوند پرچار ہے۔۔۔ درود و سلام کے نذرانے کی رنگا رنگ پر تکلّف محافل ہیں، دوسری جانب۔۔۔کشمیر، فلسطین، برما۔۔۔ شام، حلب اور دنیا کے بیش تر حصّوں میں ظلم کے نظام تلے سِسکتی دم توڑتی انسانیت ہے۔ ایک طرف کم زوروں کہ آہ و فغاں ہے تو دوسری جانب طاقت وروں فرعونیت و چنگیزیت ہے۔
انسانی گروہوں کے درمیان اس بڑھتے ہوئے فرق کو ختم کرنے کے لیے، آپؐ کی حیاتِ مبارکہ کسی پہلو کی یاد۔۔۔ ہمیں بھی کبھی آپؐ کی طرح لرزاتی ہے۔۔۔؟ انسانیت کو تکالیف سے بچانے کی خاطر، آپؐ کے لہولہان جسم کی کسک نے، ہمیں بھی کبھی اسی طرح تڑپایا۔۔۔؟
انسانوں کے غموں کے مداوے کی خاطر۔۔۔ رات کی تاریکی یا دن کے اُجالے میں کم ازکم پانچ مرتبہ نمازوں میں درود و سلام پڑ ھتے ہوئے۔۔۔ دلِ گرویدہ نے۔۔۔ آپؐ کی سنت…آپؐ کی امّت کی سلامتی کے لیے کمر بستہ کیا۔۔۔؟
سلام اسؐ پر جو دنیا کے لیے رحمت ہی رحمت ہے
سلام اسؐ پر کہ جس کی ذات فخرِ آدمیت ہے
درود اسؐ پر کہ جس کے تذکرے ہیں پاک بازوں میں
درود اسؐ پر کہ جس کا نام لیتے ہیں نمازوں میں
nn

حصہ