16 (دسمبر پھر آگیا (تنویر اللہ خان

234

ماضی یا تو عبرت ہے یا سبق ہے، لیکن ہمارے لیے ماضی یا تو رونے کا سبب ہے یا اترانے کا ذریعہ ہے اس کے سواکچھ نہیں، ہمارے کچھ میڈیائی دانشور اپنی بات کا آغاز ہی خلافتِ راشدہ سے کرتے ہیں، حضرتِ عمر فاروق کے کُرتے کی لمبائی کچھ زیادہ ہوگئی تھی لہذا ایک عام شہری نے کھڑے ہو کر خلیفۂ وقت کا احتساب کرلیا کہ اے عمرؓ آپ کے کُرتے کی عبائی آپ کو ملنے والے کپڑے سے زیادہ ہے، جنابِ عمرؓ نے جواب دیا میں نے اپنے اور اپنے بیٹے کا کپڑا ملا کرکُرتا سلوایا ہے اور یہ کہ جناب حضرت ابوبکرؓ جب ذاتی کام کرتے تھے توبیت المال کے تیل سے جلنے والا چراغ بجھا دیا کرتے تھے اور یہ کہ حضرت عمرؓ کی حکومت بائیس لاکھ مربع میل پر قائم تھی لیکن جب کوئی اجنبی عمرؓ کو دیکھتا تو پہچان نہیں پاتا تھا کہ وہ مسلمانوں کے امیر ہیں یا کوئی عام آدمی ہیں اور یہ کہ آج کی تمام سائنسی ترقی کی بنیاد مسلمانوں نے رکھی تھی، ایسے نہ جانے کتنے قصّے بیان کیے جاتے ہیں بلاشبہ یہ سارے قصّے سو فیصد سچ ہیں لیکن ان سارے قصّوں سے ہم سیکھنے کے بجائے اترانے کا کام لیتے ہیں۔
دوسرا طبقہ، امام حسینؓ کو کربلا میں بے قصور بے دردی سے قتل کردیا گیا، امام کا سر سجدے میں قلم کردیا گیا، امام کے چھ ماہ کے بچے کے حلق میں تیر ترازو کردیا گیا، امامؓ کے خاندان کی پاک دامن بچیوں کو ننگے سر ننگے پاؤں گلیوں میں پھرایا گیا۔
چنگیز خان نے مسلمانوں کا علمی ذخیرہ نیست ونابود کردیا اُ س نے مسلمانوں کی کھوپڑیوں کے مینار بلند کردئیے، ٹیپوسطان اپنوں ہی کی غداری کا شکار ہوا، ہمارابازو بنگلہ دیش ہم سے کٹ گیا، آرمی اسکول پشاور کے واقعے کو میڈیا بار بار دکھا رہا ہے، اقرار الحسن اور وسیم بادامی المیہ اشعار پڑھ رہے ہیں، ماضی کے یہ واقعات ہمارے ماتمی شوق کی تسکین کررہے ہیں۔
سولہ دسمبر 1971ء ہو یا سولہ دسمبر 2014ء ہو دونوں واقعات دکھ کا سبب ہیں لیکن یہ دکھ بھی مرثیہ خوانی کے سوا کچھ نہیں دے رہا۔
سولہ دسمبر1971ء کو مشرقی پاکستان ہم سے جُدا ہوکربنگلہ دیش بن گیا، یہ سانحہ اس لیے ہوا کہ پاکستان کے دارلخلافے کا سلوک مشرقی پاکستان سے اچھا نہیں تھا، بنگالیوں کا خیال تھا کہ مغربی پاکستان اُن کے وسائل ہڑپ کر جاتا ہے، بھاشانی اور مجیب الرحمان کو اسلام آباد کی سڑکوں سے مشرقی پاکستان میں کاشت ہونے والی پٹ سن کی خوشبو آتی تھی، مشرقی پاکستانیوں کو بنگالی ہونے کی وجہ سے عزت نہیں دی جاتی اُن کی ہتک کی جاتی ہے، اُن کے چھوٹے قد کا مذاق اُڑایا جاتا ہے اور ان کی قدوقامت کو بہانہ بناکر اُنھیں افواج میں رائٹ شیئر نہیں دیا جا تا، بنگالیوں کی پاکستانیت پر شبہ کیا جاتا ہے یہ چند ایک وجوہات ہیں جو بنگالیوں کی ہم سے بیزاری اور ہم سے الگ ہونے کی بیان کی جاتی ہیں ۔
ہر سولہ دسمبر کو پاکستان کا ایک بازو کٹ جانے کا زخم ہرا ہوجاتا ہے پھر سال بھر میں بازو کٹ جانے کے زخم کوکھرنٹ ڈھانپ لیتا ہے لیکن اگلے سولہ دسمبر پھر اس کھرنٹ کو کھرچ دیا جاتا ہے لیکن بات زخم بھرنے اور کھرچنے سے آگے نہیں بڑھ پاتی۔
آج بھی کراچی سے سندھی حکمرانوں کا سلوک بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ تھرپارکر اور چولستان میں شکار کے لیے آنے والے عرب شہزادوں کا ہوتا ہے، رحیم یار خان میں رہنے والے میرے ایک دوست نے بتایا کہ اس سال عرب شہزادوں نے تیتراور تلور کا ایسا شکار کیا کہ ہماری کھڑی فصلیں تباہ ہوگئیں۔
ہمارے سندھی شہزادوں کا عالم بھی عرب شہزادوں کا سا ہے وہ کراچی کو کھانے کمانے کا ذریعہ سمجھتے ہیں اور یہاں رہنے والوں کو اپنا کمّی کمار سمجھتے ہیں۔
جناب نواز شریف بھی بیرونی حکمرانوں کی طرح مہمان بن کرکراچی آتے ہیں رسمی سلام دعا کرتے ہیں چائے کھانا کرتے ہیں اور اپنے وطن لاہور کو لوٹ جاتے ہیں، مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے میں بھارت ایڑی چوٹی سے شریک تھا اورآج کراچی اور بلوچستان میں بھارت اُسی طرح سے سرگرم ہے، بلوچ بھی بنگالیوں کی طرح سمجھتے ہیں کہ اسلام آباد اُنھیں عزت نہیں دیتا اور ان کا جائز حق نہیں دیتا بلوچستان اور اسلام آباد کی بیچ کمزور اور طاقت ور کا رشتہ ہے آج اسلام آباد طاقتور ہے لہذا بلوچستان پاکستان کا ایک صوبہ ہے کل اگر بلوچستان اسلام آباد سے زیادہ طاقتور ہوگیا تو وہ بھی الگ ملک ہو سکتا ہے، سولہ دسمبر 1971ء کے سانحے سے ہم نے کیا سیکھا، ہم ہر برس اس زخم کو تازہ ضرور کرتے ہیں لیکن حاصل حسرت، ملامت، ناامیدی، مایوسی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔
جو محب وطن پاکستانی مشرقی پاکستان کی حسین یادوں میں گُم ہیں اور مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بن جانے پر غمگین ہیں وہ بھی اپنا درد دوسرے پاکستانیوں کو منتقل نہیں کرپائے ہیں، مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے میں ذوالفقار علی بھٹو کا پورا نہیں تو بڑا ہاتھ ضرور تھا لیکن اُن کی جماعت آج بھی پاکستانیوں کی چوائس ہے وہ سندھ میں طویل عرصے سے برسر اقتدار ہے اور مرکز میں بھی گاہے بہ گاہے حکمران رہی ہے اور آئندہ کے بارے میں بھی پُرامید ہے، کراچی کے رہنے والے ایک گجراتی بھائی مجھ سے کہہ رہے تھے کہ یار کیا ماضی میں الجھے ہوئے ہو جو موجود ہے اُس کی فکر کرو۔
ہماری سیاست اور مذہب دونوں ماضی میں اٹکی ہوئی ہیں، ابوطالب نے کلمہ پڑھا تھا یا نہیں یہ ہماری اہم مذہبی بحث ہے اور ہر ایک عدالت سجا کر فیصلہ دینے کے لیے تیار بیٹھا ہے، ہماری سیاست میں بھٹو مرکر نہیں دے رہا، کوئی روٹی مانگتا ہے تو اُسے زندہ ہے بھٹو زندہ ہے کا وظیفہ کرنے پر لگا دیا جاتا ہے، ترقی پسندوں سے کوئی سوال کرو تو وہ کئی دھائیوں پہلے گُزر جانے والے ضیاء الحق کو تمام تباہیوں کا ذمہ دار قرار دے دیتے ہیں، موجودہ حکمرانوں سے کو سوال کرو تو وہ مشرف کو برائی کی جڑ بتاتے ہیں۔
پاناما اکاونٹ کا واویلہ ہورہا لیکن اس سے بھی شور شرابے کے علاوہ کچھ برآمد نہیں ہورہا جو لوگ مثالیں دیتے نہیں تھکتے کہ جب حضرت ابوبکرؓ خلیفہ بنے تو حضرت عمرؓ فاروق نے اُنھیں کاروبار سے روک دیا کہ جب تک آپ خلیفہ ہیں اپنی دکان بند رکھیں گے آج ساری ترقی یافتہ دُنیا میں اس پر عمل ہو رہا ہے لیکن ہمارے ہاں عمران خان جو چاہتے ہیں کہتے ہیں لیکن اس کی کوشش نہیں کرتے کہ آئندہ جو بھی حکمران بنے اُس پر ہر طرح کا کاروبار کرنے پر پابندی ہو اور اگر پھر بھی کسی حکومت کرنے والے کے روزشپ سے اچانک دولت مندی ظاہر ہوتی ہو تو اُس کے حساب کتاب کا کوئی طریقہ وضع کیا جائے، عمران خان کو بھی ماضی کی دُم پکڑ کر سیاپے کے سوا کچھ نہیں کرنا۔
اگر ہمیں ماضی کی غلطیوں سے کچھ سیکھنا نہیں ہے تو اِنھیں یاد کرنے سے مایوسی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا، ہم سے سوال ہمارے آج کا ہوگا اور ہم سے مطالبہ بھی اپنے آج کو اچھا بنانے کا ہے، اپنے بچوں کے لیے حسرت، پچھتاوا نہ چھوڑ کر جائیں اور نہ ہی اُنھیں ماضی میں اٹکا کر رکھیں ، عملی زندگی نسیم حجازی کا ناول نہیں تلخ حقیقت ہے۔
nn

حصہ