(جنتا کے حبیب (نجیب ایوبی

262

رات کس پہر آنکھ لگی، اندازہ نہیں۔ سینے پر رکھی کتاب بدن سے ڈھلک کر بستر پر آگری تھی۔ وہ کتاب کیا، اک داستان تھی۔۔۔ گزرے ہوئے اچھے برے دنوں کی بے شمار یادیں، سامراجی برہمنوں اور متعصب ہندوؤں کی عیاری و مکاری سے پردہ اٹھاتی حقائق پر مبنی خونچکاں داستان۔۔۔ ایک ایسا سچ جو سانحہ سقوط مشرقی پاکستان کے پینتالیس سال بعد بھی اپنوں میں اجنبی بن گیا اور غیروں میں معتوب ٹھیرا۔ وفاداری اور غداری کی اس داستان کو پڑھتے وقت جانے کتنی مرتبہ آنکھوں سے آپ ہی آپ آنسو رواں ہوئے اور پھر ایک وقت ایسا بھی آیا جب پپوٹے بوجھل ہوتے چلے گئے اور آپ ہی آپ بند بھی۔
آنکھ کھلی تو کچھ نہ تھا بجز چند حسین یادوں اور ایک باوقار ملاقات کے، جو میرے سابقہ مشرقی پاکستانی بھائیوں سے ہوئی۔
قارئین کو بتاتا چلوں کہ میں بسلسلہ ملازمت تین سے زائد مرتبہ بنگلہ دیش جا چکا ہوں۔ ڈھاکا،کھلنا، چٹاگانگ، سلہٹ، رانگا ماٹی، کومیلا اور راجشاہی کے علاقے ایک سے زائد بار دیکھے۔ (عبدالقادر ملا اور میر قاسم علی سے بھی ملاقا ت کا شرف حاصل رہا)، مقامی بنگالیوں سے ملاقاتیں بھی کیں اور ان سے اس سانحے پر تفصیلی گفتگو بھی ہوتی رہی۔ ان ملاقاتیوں میں بزنس مین کمیونٹی کے افراد بھی تھے اور سابقہ پاکستان آرمی (موجودہ بنگلہ دیش کے سابق فوجی بھی) اور عوامی لیگی ایکٹوسٹ (سابقہ مکتی باہنی) کے افراد بھی، کہ جن کے گھر کے مرکزی دروازے پر ایسی تصویر فریم کرکے لگائی گئی تھی جس میں صاحبِ خانہ کندھے پر بندوق رکھے آزادی کی جنگ میں شریک دکھائی دے رہے ہیں۔ مختصر یہ کہ بنگلہ دیش میں گزرے حسین لمحات اور یادداشتیں میرے ذہن کے کینوس پر اپنا رنگ جما چکی ہیں۔ میری سیلانی طبیعت اور سیمابی مزاج نے ان یادوں کو ایک انتہائی خوبصورت منظر میں ڈھالنے کے بعد حسین و جمیل پورٹریٹ تشکیل دے دیا۔ رانگا ماٹی کا گھنا جنگل، چٹاگانگ کا گہرا پُرسکون ساحل جو سال میں ایک بار ضرور اپنے جوبن پر آکر نشیبی آبادی پر قہر بں کر ٹوٹتا ہے۔ بل کھاتے ندی نالے، گیلی نرم مٹی اور جا بہ جا خشکی پر موجود چھوٹی چھوٹی کشتیاں، جو سیلابی حالات میں استعمال ہوتیں۔ آبادی کے وسط میں قدرتی تالاب، پانی کے جوہڑ جو بستی والوں کی آبی ضروریات کو پورا کرنے کے علاوہ بھی بہت کام آتا۔ ڈھاکا شہر میں لاکھوں کی تعداد میں سڑک کے بیچوں بیچ چلتے سائیکل رکشہ اور رنگ برنگی لنگیوں سے اپنا بدن چھپاتے سائیکل رکشہ ڈرائیور سواریوں کو کھینچنے میں مصروف۔ دھان منڈی، موتی جھیل، میرپور، گلشن، بونانی اور جامع مسجد بیت المکرم، اس کی بغل میں کرکٹ اسٹیڈیم جس کے اطراف بھرے بازار۔
16 دسمبر1971ء کو مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ مگر سب پہلے کی طرح اپنی جگہ موجود ہے۔کچھ بھی تو نہیں بدلا۔ ہاں اگر کچھ تبدیل ہوا ہے تو وہ ہے پرچم، شناخت، لہجہ، سوچنے اور دیکھنے کا زاویہ۔۔۔ جس کو واپس لانا، تبدیل کرنا اب شاید ہمارے لیے ممکن نہیں۔ اب ہمیں سمجھوتا کرنا ہوگا حالات سے۔۔۔ اپنے آپ سے۔۔۔ اپنے اطراف پیش آنے والی حقیقتوں سے۔
اس صبح میں نے اپنی آنکھ کھلنے سے پہلے جو منظر دیکھا اس کو بیان نہ کرنا آپ کے ساتھ زیادتی کے مترادف ہوگا۔ اسی خیال کے پیش نظر آپ بھی اس منظر میں شریک ہوجائیں۔ اس رات میں اپنے بہت سے احباب کے ساتھ کسی دوست کے مہمان خانے میں موجود ہوں۔ مہمان خانہ دوستوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا ہے۔ مزید احباب بھی آتے جارہے ہیں۔ بیٹھنے کے لیے فرشی نشست کا اہتمام کیا گیا ہے، مہمانِ خاص کے لیے دو صوفے دیوار کے ساتھ لگائے گئے ہیں جن پر مولانا عبدالقادر شہید اور میر قاسم علی شہید تشریف رکھے ہوئے ہیں۔ میری گود میں میرا سب سے چھوٹا بیٹا بھی ہے جو ماحول کو سمجھنے کی اپنی سی کوشش کررہا ہے۔ اس کو یوں بے کل دیکھتے ہوئے میر قاسم علی نے آگے بڑھ کر اپنی گود میں بٹھا لیا اور مجھ سے بولے ’’بالکل میرے پوتے جیسا ہے، اس کا خیال کرنا، حافظ قرآن بنانا‘‘۔ میں نے جواب دیا ’’الحمدللہ حفظ کررہا ہے‘‘۔ اس جواب پر بے انتہا خوش ہوئے۔ تقریب میں سوال و جواب کی نشست بھی تھی۔ شرکائے محفل یکے بعد دیگرے اپنے ذہن کے مطابق سوالات کررہے تھے۔ تمام سوالات کا تعلق بنگلہ دیش جماعت اسلامی، وہاں کے موجودہ حالات، سیاسی کشمکش، مصائب و مشکلات، اور حسینہ واجد کی جانب سے تازہ ترین مظالم، پھانسیوں اور گرفتاریوں کے حوالے سے تھا۔ کچھ سوال سقوط مشرقی پاکستان اور پاکستانی فوج کے کردار اور جماعت اسلامی کے مزاحمت کے فیصلے کے حوالے سے بھی کیے گئے۔ ہر سوال کا جواب دونوں ذمہ داران نے نہایت تسلی بخش انداز میں دیا۔
ایک سوال کے جواب میں جو جماعت اسلامی بنگلہ دیش پر موجودہ آزمائش کے تناظر میں کیا گیا تھا، عبدالقادر ملا شہید نے بتایا کہ ’’آپ کس آزمائش کی بات کررہے ہیں؟ ہمارے اوپر تو اس سے بڑی آزمائشیں ماضی میں دو مرتبہ پہلے بھی گزر چکی ہیں۔ پہلی آزمائش اُس دن آئی تھی جب پاکستان دولخت ہوا تھا۔ اُس رات تو ہم تمام ہی آزمائے گئے تھے۔ بہت سے اپنی مراد پا گئے، بہت سے گرفتار ہوئے۔ ڈھاکا، چٹاگانگ، سید پور،کھلنا کا کوئی میدان ایسا نہیں تھا جہاں ہمارا خون نہ بہا ہو، مکتی باہنی کے غنڈے ڈھونڈھ ڈھونڈھ کے ہمیں گھروں سے باہر لاتے، برہنہ کرنے کے بعد مارتے، تصویر بنواتے، اس طرح جیسے ہرن کا شکاری ہرن مارنے کے بعد شکار کیے گئے جانور کے ساتھ فوٹو بنواتا ہے۔ جب فوٹو سیشن پورا ہوجاتا تو جئے بنگلہ کے نعروں کی گونج میں سنگین بھونک کر سانس اور زندگی کا رشتہ ختم کردیا جاتا۔ عالم یہ تھا کہ ایک ایک میدان میں سو سو لاشیں بے کفن پڑی ہوتیں۔ کتے بلیاں اپنی بھوک مٹانے کو لاشیں سونگھتے اور مکتی باہنی کے غنڈے زندہ رہ جانے والے غیر بنگالیوں اور جماعت کے کارکنوں کو سونگھتے۔ پاس پڑوس کے رہنے والے بھی اپنی جان کے خوف سے ہماری مخبری کرنے میں آسرا نہیں کرتے تھے۔ گھر کے ملازم بھی کسی نہ کسی کام کے بہانے سے گھر سے باہر نکلتے اور واپسی میں مکتی باہنی کے غنڈوں کو لے کر آجاتے۔ غیر بنگالی آبادیوں میں جو قتلِ عام مکتی باہنی کے ہاتھوں ہوا اس کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔ تین ساڑھے تین لاکھ غیر بنگالی لاشیں اسکولوں اور پناہ گزین کیمپوں سے ملیں۔ کلاس روم میں خون کی تہہ سخت پپڑیوں کی شکل میں جم چکی تھی۔ غیر ملکی صحافیوں میں سے جس نے ان مناظر کی تصویر بنائی اس کو مکتی باہنی کے غنڈوں نے مار مار کر بھاگنے پر مجبور کردیا، کیمرے چھین لیے۔ چٹاگانگ میں ایک ایک میدان میں اوپر تلے بیسیوں لاشیں پڑی تھیں۔ زندہ بچنے والے اس طرح زندہ بچے کہ ان میں سے بہت سے لاشوں کے نیچے چھپ گئے اور ان کے جسم سے بہنے والے خون کو اپنے اوپر مَل لیا تاکہ انہیں بھی مُردہ سمجھ کر نالے میں پھینک دیا جائے۔
متحدہ پاکستان سے محبت کرنے والے بہت سے جوان رانگا ماٹی کے پہاڑوں میں چلے گئے۔ چکما قبائل نے ان کو پناہ تو دی مگر جو بھی بارڈر فورسز کے ہاتھ آیا، زندہ نہیں بچ سکا۔ زمین ہم پر تنگ ہوچکی تھی، آسمان نے اپنا دامن ہمارے لیے وا کردیا تھا۔ کچھ ساتھیوں نے بھیس بدلا اور ہاتھ میں لوٹا، مصلی پکڑ کر تبلیغ پر نکل گئے۔ کچھ جیل چلے گئے۔ جیل قدرے بہتر جگہ تھی، اس لیے کہ فوری طور پر سنگینوں سے نہیں مارے جارہے تھے۔ وہاں پر غداری کا مقدمہ بن رہا تھا جس سے بچنا نسبتاً آسان تھا۔ ‘‘
عبدالقادر ملا بے تکان بول رہے تھے۔ میرے بیٹے نے میرے کان میں کھسر پھسر کرنی شروع کی۔ مولانا کہتے کہتے رک گئے اور پوچھا ’’یہ بچہ کیا پوچھ رہا ہے؟‘‘ میں نے بات کا رخ موڑنے کے لیے کہا کہ ’’کچھ نہیں، آپ گفتگو جاری رکھیں‘‘۔ مولانا نے بچے سے ہی پوچھ لیا ’’بیٹا آپ کیا پوچھ رہے ہیں اپنے ابو سے؟‘‘ بچے نے معصومیت سے کہا ’’انکل آپ تو مرچکے تھے، آپ کو تو پھانسی ہوگئی تھی، پھر ادھر کیسے؟‘‘ عبدالقادر ملا بہت زور سے ہنسے، بولے ’’بیٹا آپ کو آپ کے ابو نے یہ نہیں بتایا کہ جو اللہ کے راستے میں مارے جاتے ہیں ان کو موت نہیں آتی، وہ ہمیشہ زندہ رہتے ہیں‘‘۔ اس کے بعد سلسلۂ تکلم وہیں سے جُڑ گیا جہاں سے منقطع ہوا تھا:
’’اللہ نے اتنے سخت اور ناسازگار حالات میں بھی ہم میں سے بہت سوں کو زندہ رکھا۔ ہم نے جیل میں ہی موقع غنیمت جان کر اپنی تنظیم جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے نام سے منظم کرنا شروع کی، اور جو رہائی پاچکے تھے انہوں نے جیل سے باہر نکلنے کے ساتھ ہی موتی جھیل کے پاس ایک پارک میں چار کارکنوں سے دوبارہ اقامتِ دین کی جدوجہد شروع کردی۔ اندرون ڈھاکا ہم منظم ہورہے تھے۔ شیخ مجیب الرحمن طاقت کے نشے میں اپنے ہندوستانی سرپرستوں کی گود میں جا بیٹھا تھا۔ ون پارٹی سسٹم کے جنون نے اُس کی آمریت کو طشت ازبام کردیا تھا۔ عین ممکن تھا کہ بھارت اُس کے ذریعے ہندوستان سے الحاق کا اعلان کروا دیتا۔ عام بنگالی پاکستان سے علیحدہ تو ہوگیا تھا مگر اس کو یہ ہرگز منظور نہ تھا کہ بنگلہ دیش اب اپنی شناخت کھو کر ہندوستان بن جائے۔
بنگلہ دیش میں شیخ مجیب الرحمن کی ڈکٹیٹرشپ کے خلاف تحریک جنم لے چکی تھی۔ اور یہ وقت بھی ہم نے دیکھا کہ بھارت کے یوم آزادی 15 اگست 1975ء کو بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمن کو اُس کے اپنے گھر میں 37 افراد بشمول اہلِ خانہ سمیت قتل کردیا گیا۔ صرف اس کی دو بیٹیاں شیخ حسینہ اور شیخ ریحانہ زندہ بچیں جو اُس وقت جرمنی میں زیرتعلیم تھیں۔ ڈھائی دن تک اس کی لاش بے گور و کفن پڑی رہی۔ پھر فوج نے ہی اس کی لاش اس کے آبائی گاؤں فرید پور پہنچائی اور اسے بنا کفن کے دفن کیا۔ اور سونار بنگلہ کا خالق اپنے ہی لوگوں کے ہاتھوں اپنے بھیانک انجام کو پہنچا۔ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے لیے شیخ مجیب کی موت بھی ایک آزمائش تھی۔ عوامی لیگی ایک مرتبہ پھر جان کے دشمن بن گئے۔ وہ مجیب کے خلاف بنگالی فوج کی بغاوت کے پیچھے جماعت اسلامی کا ہاتھ تلاش کرنے لگے۔ فسادات میں جماعت اسلامی کے افراد کو اپنا نشانہ بنایا۔ مگر اللہ نے اس بار بھی ہماری مدد کی اور عام انتخابات میں ہمیں بھرپور عوامی تائید میسر آئی۔ پھر ہم نے مخلوط حکومت بھی بنائی اور پوری تندہی کے ساتھ بنگلہ دیش کے استحکام کے لیے اپنا کردار ادا کرنا شروع کیا۔ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے لیے حالات جب جب خراب ہوئے اس کے نتیجے میں عوامی تائید کا وزن ہمارے حق میں آتا چلا گیا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس وقت جو آزمائش ہم پر آئی ہوئی ہے اس میں بھی بہتری کی کوئی نہ کوئی سبیل اللہ ہمارے لیے نکال دیں گے۔ ہم نہ پہلے مایوس ہوئے تھے اور نہ ہی اب۔ مایوسی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ زندگی اور موت اللہ کے اختیار میں ہے، وہ جیسے اور جب چاہے واپس لے۔‘‘
میر قاسم علی شہید سے سوال کیا گیا کہ ’’پاک فوج نے ہتھیار ڈال کر آپ لوگوں کو تنہا کردیا، اس پر آپ کیا کہتے ہیں؟‘‘
جواب بہت مد لل تھا۔ میر قاسم بولے: ’’دیکھیں جناب جہاں تک نظریہ پاکستان اور اس نظریے کی حمایت میں متحدہ پاکستان کو بچا نے کی جدوجہد کا تعلق ہے، جماعت اسلامی نے کبھی فوج کی طرف نہیں دیکھا۔ ہماری اپنی سوچ تھی کہ جس طرح بھی ممکن ہو پاکستان کو ٹوٹنے سے بچایا جائے۔ پاکستان کو ہماری ضرورت تھی۔ ہم کیسے پیچھے رہ سکتے تھے! ہندوستان نظریاتی محاذ پر پاکستان بننے کے بعد سے مسلسل نفرت آمیز پروپیگنڈا کررہا تھا، جس کا جواب مشرقی پاکستان میں اسلامی چھاترو شبر اور جماعت اسلامی نے ہر موقع پر دیا۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ جب عملی میدان میں نکلنے کا وقت ہو تو ہم اپنے مؤقف سے روگردانی کریں۔ پاک فوج نے ہتھیار ضرور ڈالے مگر ہم نے آخری سانس تک اپنا کردار ادا کیا۔ ہمارا وعدہ اللہ سے تھا، فوج سے نہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ متحدہ پاکستان کی فوج پاکستان بچانے کی جدوجہد کررہی تھی اس لیے اس کا ساتھ دے کر ہم نے کوئی غلطی نہیں کی۔اب جب کہ بنگلہ دیش بن گیا ہے اور ہم وہاں کے شہری ہیں تو ہم وہاں کے بھی اسی طرح وفادار ہیں جیسے متحدہ پاکستان کے تھے۔ ہمارا مؤقف دوٹوک اور واضح ہے۔
قائداعظم نے دو قومی نظریے میں اسلامی نظام اور دستورِ پاکستان کے سوال پر وضاحت کرتے ہوئے قرآن پاک کو ہاتھ میں اٹھاکر لوگوں سے کہا تھا کہ یہی ہے اس نئی مملکت کا دستور اور منشور! اب آپ ہی بتائیے قائداعظم کے اس جواب کے بعد بھی کسی اور سوال کی گنجائش باقی رہ جاتی ہے؟‘‘
رات بہت بیت چکی تھی۔ میرا بیٹا میری گود میں ہی سوچکا تھا۔ سوالات تو اور بھی بہت ہوئے مگر ان دونوں شہدا کو کہیں اور بھی جانا تھا۔ ان کی سواری آچکی تھی، انہوں نے شرکائے محفل سے اجازت طلب کی اور پھر ملنے کا وعدہ کرکے رختِ سفر باندھ لیا۔ جنت کے مسافر اپنے سفر پر روانہ ہوگئے۔

حصہ