(دنیا کے اسے مسافر :تیری قبر ہے(رمشا جاوید

228

حویلیاں کے قریب پہاڑی علاقے میں چترال سے اسلام آباد جانے والا طیارہ گر کر تباہ ہوگیا یہ حادثہ طیارے کے انجن میں خرابی کے باعث پیش آیا، جس میں47 افراد کی جانیں گئیں، ان افراد میں معروف نعت خواں جنید جمشید بھی اپنی اہلیہ سمیت شامل ہیں۔
نجی ٹی وی کے مطابق پی آئی اے کا طیارہ PK-661 چترال سے 47 مسافروں کو لے کر اسلام آباد کے لیے اڑا تھا، لیکن انجینئرز نے اس طیارے کو کلیئرنس نہیں دی تھی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ انجینئرز نے طیارے کو اڑان کے قابل قرار نہیں دیا تھا،تاہم ڈائریکٹر فلائٹ آپریشن نے زبردستی طیارے کو آپریٹ کروایا اور ان کے دباؤ کی بنا پر طیارے کو اسلام آباد کے لیے روانہ کیا گیا تھا۔
افسوس تو اس بات کا ہے کہ اس غیر ذمے داری پر کئی معصوم جانوں میں ہم نے جنید جمشید کو بھی کھو دیا۔ جنید جمشید کے فراق نے دل کو غمگین کر دیا:
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے ‘ تماشا نہیں ہے
ہوئے نام ور بے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے
خدا نے اپنے اس محبوب بندے کو پہلے ہدایت سے سرفراز کیا اور اب اپنے دربار میں بلا لیا۔ ارشاد نبویؐ ہے: ’’موت ایسا پُل ہے ،جو انسان کو سب سے مہربان ذات سے ملا دیتا ہے‘‘۔
بقول مولانا طارق جمیل کے کہ ایک دن میں بیٹھا تھا۔ سامنے ٹی وی چل رہا تھا اور آواز بند تھی۔ میں نے دیکھا کہ ایک نوجوان ڈانس کررہا ہے اور دائرے بنائے اس کے گرد لڑکیاں بھی ڈانس کر رہی ہیں تو میرے دل میں خیال آیا کہ اے اللہ! اس بندے کو کون ہدایت دے گا، کون اس جگہ پر جائے گا اور اسے ہدایت دے گا؟ پھر مولانا طارق جمیل کہتے ہیں کہ میں وہاں سے اُٹھ گیا۔ پھر یہ کوئی 1997ء کی بات ہے کہ کراچی اجتماع میں‘ میں تھا کہ ایک نوجوان نے مجھ سے کہا کہ پاکستان کا مشہور گلوکار جنید جمشید اس کی آپ سے ملاقات کروانی ہے تو۔۔۔ میں نے کہا: ’’لے آؤ‘‘ جب وہ نوجوان اسے لے کر آیا تو میں نے دیکھا کہ یہ وہی شخص تھا ،جسے میں نے ٹی وی پر لڑکیوں کے دائرے میں ڈانس کرتے دیکھا تھا۔ اسے دیکھ کر میں ششدر رہ گیا کہ واہ مولا، تیری قدرت۔ پھر ہماری اس سے تھوڑی بہت بات چیت ہوئی تو اس نے مجھ سے کہا کہ آپ کی باتیں۔۔۔جیسے میرے زخموں پر مرہم لگا رہی ہوں۔ پھر جنید نے مجھ سے ایک سوال پوچھا ’’پاکستان کے نوجوان جس گلیمر کو‘ جن عیاشیوں کے خواب دیکھ رہے ہیں‘ وہ مجھے حاصل ہے لیکن اس کے باوجود میرے دل میں اندھیرا ہے اور (اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر بولے) یہاں خلا ہے‘ مجھے لگتا ہے میری کوئی منزل نہیں‘ میں وہ کشتی ہوں جس کا کوئی ساحل نہیں۔۔۔ ایسا کیوں ہے؟؟
مجھے تفصیلی بات تو یاد نہیں، فقط اتنا یاد ہے کہ میں نے کہا اس کی ایک مثال سمجھو کہ تمہارے ایک گھٹنے میں درد ہے اور تم دوسرے گھٹنے میں دوا لگا رہے ہو۔ دوا تو لگ رہی ہے لیکن فائدہ نہیں پہنچ رہا کہ جہاں درد ہے، وہاں دوا نہیں اور جہاں دوا ہے، وہاں درد نہیں۔ یہ جو خلا ہے‘ درد ہے یہ تمہاری روح کے اندر ہے اور تم غذا پہنچا رہے ہو اپنے جسم کو۔ یہ میوزک‘ گلیمر‘ فائیو اسٹار ہوٹلوں کی رنگینیاں یہ سب تو جسم تک پہنچتی ہے۔ روح کو ان سے کوئی مناسبت نہیں ،جس دن اپنی روح کو غذا پہنچاؤ گے، اس دن اس کو سکون آجائے گا‘ چین آجائے گا۔ یہاں سے ان کی کایا پلٹنی شروع ہوئی اور پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جو شخص شہرت کی بلندیوں پر تھا‘ اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اللہ کی راہ میں نکل کھڑا ہوا‘ اس کے پاس بچوں کی فیس کے پیسے بھی نہیں تھے، اس آزمائش سے گزارنے اور اپنے محبوب بندے کو صبر کے بعد اللہ نے ہاتھ پکڑا اور دوبارہ سب کچھ دے دیا۔ ان کی وجہ سے کتنے نوجوان اسلام کی طرف راغب ہوئے۔ انہوں نے کبھی کسی کے خلاف کچھ نہ کہا۔ وہ معاف کر دینے اور درگزر سے کام لینے والے تھے، حالاں کہ مخالفین بہت کچھ بول جاتے‘ ان پر طرح طرح کے الزامات لگائے گئے اور یہ وہ وقت تھا جب میرا دل سوچتا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ بدظن ہو کر اپنی سابقہ عادتوں کو اپنا لیں، لیکن ایسا نہیں ہوا اور وہ دعوتِ دین میں مشغول رہے ، حتیٰ کہ اللہ کی راہ میں جان‘ جان آفریں کے سپر دکردی اور شاید یہ اخلاق اور بلندیون کی برکت ہوتی ہے کہ خون کے رشتے نہ ہونے کے باوجود کسی کا غم‘ کسی موت سب کو خون کے آنسو رلا دیتی ہے۔ آج ہر مکتبہ فکر کے لوگ ان کی شہادت پر غم زدہ ہیں۔
اور یہ ان کے نیک اعمال کا نتیجہ ہے کہ مولانا طارق جمیل نے نجی ٹی وی پر انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ بیرون ملک سے ان کے ایک دوست کی کال آئی اور اس نے انہیں بتایا کہ میں نے خواب میں پیارے نبیؐ کی زیارت کی اور انہوں نے مجھے آکر بتایا ک طارق جمیل سے کہہ دو کہ ان کے دوست (جنید جمشید)ہمارے پاس پہنچ چکے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف کر دیا۔ جنید جمشید کو اکرام و عزّت سے نوازا گیا ہے۔ مولانا طارق جمیل نے کہا کہ اس کی اس بات پر مجھے بہت خوشی ہوئی۔
کڑے سفر کا تھا مسافر تھکا ہے ایسا کہ سو گیا
خود اپنی آنکھیں تو بند کرلیں‘ ہر ایک آنکھ لیکن بھگو گیا ہے

حصہ