(مشکل میں صبر سے کام لو(طاہرہ کامران

220
دروازپر گھنٹی بجتی ہی چلی گئی، جیسے کوئی ہاتھ رکھ کر اٹھانا بھول گیا ہو۔ فائزہ نے احمد سے کہا ’’جاؤ بیٹا جلدی سے جا کر دروازہ کھولو کوئی بہت جلدی میں لگتا ہے۔‘‘
احمد بھاگ کر گیا اور دروازہ کھولا تو سامنے فاریہ کھڑی تھی۔
’’السلام علیکم باجی! کیوں اتنی جلد مچا رہی ہیں؟‘‘ لیکن فاریہ کوئی جواب دیے بغیر ہی اندر گھستی چلی گئی اور سیدھی ماں کی گود میں سر رکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ فائزہ ہکا بکا سی بیٹی کو دیکھنے لگیں لیکن سنبھل کر بیٹی کا سر اٹھایا اور پیار سے پوچھا ’’فاریہ! میری جان رونا بند کرو اور مجھ سے بات تو کرو۔‘‘ احمد نے بھی بہن کو دلاسا دیا اور پانی پلایا۔ پانی پی کر فاریہ کا رونا بند ہوگیا اور وہ خاموش ہو کر ماں اور بھائی کی طرف خاموش نظروں سے تکنے لگی کہ بات کس طرح شروع کرے۔
فائزہ ایک سمجھ دار ماں ہونے کے ساتھ اپنی بیٹی کے مزاج سے بھی خوب واقف تھی۔ ضد اور جلد بازی دونون ہی فاریہ کے مزاج کا خاصا تھے۔ ’’امی! بس اب بہت ہوچکا، اسکول میں نوکری کرنے کی اجازت خوابوں میں بھی نہ مل سکے گی۔ حسن کی تنخواہ بچوں کے اخراجات اٹھانے کے قابل نہیں ہے اور میں حسن کو قائل نہیں کرسکتی اسی لیے کڑھ کڑھ کر ساتھ رہنے سے اچھا ہے کہ ہم الگ ہی ہوجائیں۔‘‘ فاریہ ایک ہی سانس میں ساری بات کہہ گئی۔
فائزہ کے لیے فاریہ کا غصہ تو کوئی نئی بات نہ تھی لیکن شوہر سے علیحدگی کی بات ایک ایسا تیر تھا جو فائزہ کے دل میں جا لگا۔ لیکن اس نے اپنی تکلیف کا اظہار نہ کیا بلکہ بیٹی کو سینے سے لگایا‘ خوب پیار کیا اور پھر اپنے ہاتھ سے قمیص کے آستین کو اوپر چڑھایا۔
’’دیکھو فاریہ تم نے جب سے ہوش سنبھالا ہے ،ہمیشہ میرے ہاتھ میں اس چوٹ کے نشان کو دیکھ کر مجھ سے سوال کیا ہے کہ امی یہ چوٹ کیسے لگی اور میں نے ہمیشہ یہی جواب دیا کہ میں سیڑھی سے گر گئی تھی،لیکن میری بیٹی! آج تم اپنا گھر چھوڑنے کی بات کر رہی ہو تو میں چاہتی ہوں کہ تم میرے ہاتھ کے اس نشان کی اصل حقیقت سے آگاہ ہوجاؤ۔‘‘
اس لمحے فاریہ جیسے اپنا غصہ بھول گئی اور ماں کے ہاتھ کو غور سے دیکھنے لگی۔ ’’بیٹا تم جانتی ہو کہ میں اپنے والدد کی اکلوتی اولاد ہوں ۔ انہوں نے دوسرے ماں باپ کی طرح مجھے نہایت پیار سے پالا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ میری تربیت سے بھی غافل نہ ہوئے اور اسی تربیت کا نتیجہ ہے کہ میرا گھر بھی بسا رہا۔‘‘ فاریہ کے ساتھ احمد بھی اپنی ماں کی جانب حیران نظروں سے دیکھنے لگا کیوں کہ اس سے پہلے یہ باتیں اس نے بھی نہ سنی تھیں۔
’’بچو! جب میری شادی ہوئی تو میں صرف اٹھارہ برس کی تھی۔ دوسری طرف تمہارے والد دو بہنوں سے کافی چھوٹے تھے اور ان کے والدین وفات پا چکے تھے‘ بہنیں شادی شدہ تھیں‘ وہ اپنی بوڑھی خالہ کی ساتھ رہا کرتے تھے لہٰذا یہ پہلو ہمیشہ میرے سامنے رہا۔ شادی کے ایک سال بعد خالہ بھی چل بسیں اور گھر میں کوئی بڑا نہ رہا۔ بہنیں بھی دوسرے شہروں میں مقیم تھیں۔ ان حالات میں تمہارے والد کی شخصیت پر گہرا اثر ڈالا ان میں غصہ بے تحاشا تھا۔ دوسری طرف پیسہ کمانے کی دھن نے انہیں چڑچڑا بھی بنا دیا۔ ان حالات میں وہ تربیت ہی کام آئی جو مجھے میرے والدین سے ملی تھی‘ میں نے صبر اور خوش دلی کے ساتھ تمام معاملات کو سنبھالا۔
راتوں کو دیر سے آنا تھا تمہارے والد کا معمول شروع سے ہی رہا ،رہی سہی کسر دوستوں نے پوری کردی۔ تم دونوں کی پیدائش سے بھی معمولاتِ زندگی تبدیل نہ ہوئے جب کہ میری ذمے داریاں مزید بڑھ گئیں۔
یہی وہ دن تھے جب یہ نشان میرے ہاتھ کی زینت بنا۔ تمہارے والد ایک رات نشے کی کیفیت میں گھر آئے یہ بات میرے لیے نہایت اذیت ناک تھی۔ پہلی بار میں نے تمہارے والد کو سمجھانے کی کوشش کی تاکہ بات مزید نہ بڑھے لیکن نشہ کا جادو بھی سر چڑھ کر بولتا ہے۔ وہ مزید غصے میں آگئے اور مجھے دھکا دے دیا۔ میں شیے کی میز پر جا کری اور شیشہ ٹوٹ کر میرے بازو میں گھس گیا۔‘‘
یہ کہہ کر فائزہ نے ایک لمبا سانس لیا۔ احمد اور فاریہ آنکھوں میں آنسو لیے سن رہے تھے۔ فائزہ دوبارہ گویا ہوئی: ’’اس وقت تمہارے نانا‘ نانی کی ہمت اور ان کی تربیت نے میرے گھر کو اجڑنے سے بچا لیا۔ بازو میں کئی ٹانکے آئے، مرہم پٹی چلتی رہی۔ کچھ دن والدین کے گھر رہ کر میں واپس آگئی، کیوں کہ میرے والدین بھی یہی چاہتے تھے کہ میں تمہارے والد کے ساتھ رہوں۔ میں نے واپس آکر تمہارے والد سے کچھ نہ کہا بلکہ معمول کے مطابق ذمے داریاں ادا کرتی رہی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تمہارے والد کے مزاج میں بھی تبدیلی آتی گئی۔ میرے بچو، شاید اس نشان کی حقیقت کبھی نہ کھلتی لیکن فاریہ تم نے مجھے مجبور کردیا۔‘‘
’’یہ کہہ کر کہ تم حسن سے الگ ہونا چاہتی ہو‘ بیٹی وقت کبھی ایک جیسا نہیں رہتا۔ ماں گھر کو بناتی ہے‘ تم بھی ماں ہو‘ اپنے حالات کو دیکھو تمہارے ساس‘سسر بوڑھے ہیں اور تمہاری ایک ہی نند ہے، جو ابھی چھوٹی ہے۔ تم نوکری کروگی، ان بوڑھے ماں باپ کو گھر کے کئی کام کرنے پڑیں گے اور جب تم تھک ہار کر آؤ گی تو تمہاری ذمّے داری مزید بڑھ جائے گی۔
حسن صحیح فیصلہ کررہا ہے‘ وہ دوسری جگہ نوکری کی کوشش بھی تو کر رہا ہے۔ ذرا صبر کے ساتھ اس وقت کو گزار لو اللہ تمہارے ساتھ ہے‘ تمہارا گھر بسا رہے یہی اہم ہے۔ میری تربیت بھی یہی تھی اور آج میں اپنی بیٹی کو اس کا گھر جوڑ کر رکھنے کی نصیحت کرتی ہوں‘ میرے بازو کا زخم مجھ سے گھر چھوڑنے کا تقاضا کر رہا تھا، لیکن والدین کی تربیت سے ملا صبر مجھ سے گھر جوڑنے کا تقاضا کر رہا تھا اور جیت تربیت ہی کی ہوئی۔ تمہارے والد کی تربیت میں کمی رہ گئی تھی‘ وہ ماں باپ سے محروم تھے۔ آج وہ اس دنیا میں نہیں ہیں، لیکن وہ میرے احسان مند ہوگئے تھے کہ میں نے انہیں اکیلا نہ چھوڑا اور انہیں ان کے بچوں سے جدا نہ کیا۔ تم بھی حسن کے حالات کو سمجھو اور صبر سے کام لو‘ تمام مسئلے حل ہوجائیں گے۔۔۔ان شا اللہ۔‘‘
فاریہ اب دوبارہ رونے لگی: ’’امّی، آپ نے یہ باتیں پہلے کیوں نہ بتائیں آپ نے واقعی صبر کی مثال قائم کی ہے۔ میں بھی آپ کی بیٹی ہوں اور آپ کو مایوس نہیں کروں گی۔ چلو احمد مجھے گھر چھوڑ آؤ بچے اسکول سے آنے والے ہیں‘‘۔
بیٹی سے یہ سن کر فائزہ کے رگ و پے میں اطمینان بھر گیا اور اس نے آنسو پونچھ لیے۔ نیکی کا سفر منزل بہ منزل آگے بڑھ رہا تھا اور یہی اصل کام یابی ہے۔
حصہ