(اللہ داد نظامی (محمد رفیق نظامی ایڈووکیٹ

256

’’وہ امت کا اثاثہ تھے۔ وہ تحریک کا اثاثہ تھے۔ ان کا ایمان و عشق کامل تھا۔ وہ ولی اللہ تھے۔ ان کی شخصیت اپنے فکر و کردار کے لحاظ سے بے مثال تھی۔ ان کا چھوڑا ہوا خلا پُر نہیں ہوسکے گا۔ ایسے انسان صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں۔ کوئی ان کی جگہ لینے والا نظر نہیں آتا۔ صالحیت و صلاحیت میں بھرپور تھے۔ وہ حق کہتے ہوئے بڑی سے بڑی قوت سے نہیں ڈرتے تھے۔‘‘
پورے پاکستان سے دور و نزدیک سے تعزیت کرنے والے خواتین و حضرات جناب اللہ داد نظامی مرحوم و مغفور کے پسماندگان سے انہی الفاظ میں سوگوارانہ تبصرے کررہے تھے۔ گویا ایک مردِ مومن کے کردار پر یہ واضح شہادت ہے۔ سب سے بڑی گواہی گھر والوں کی ہوتی ہے اور میں، جو ہمیشہ ان کی خدمت میں رہا، تصدیقی شہادت دیتا ہوں کہ ان باتوں میں کوئی مبالغہ نہیں۔ قضائے الٰہی نے ان کو عمر کا 54 واں سال مکمل نہیں کرنے دیا۔ مگر بقول جناب لیاقت بلوچ، سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی پاکستان، وہ اپنے حصے کا کام کرچکے تھے۔ مڈل تک تعلیم انہوں نے خود اسکول تک پیدل جاکر حاصل کی۔ اگرچہ اس وقت بھی دوڑنے کی قوت نہ رکھتے تھے مگر بعد ازاں موروثی بیماری کی علامات پوری ہوگئیں اور وہیل چیئر پر بیٹھ کر میٹرک، ایف اے اور پھر بی اے کا پرائیویٹ امتحان دیا۔ بعد ازاں ریلنگ بیڈ (پہیوں والی چارپائی) پر تمام عمر گزار دی جو کہ اس مردِ درویش کی سلطنتِ فقر کا تخت تھا، جس پر بیٹھ کر وہ فقیری میں بادشاہی کرتا رہا۔ جس انداز میں انہوں نے زندگی بسر کی اور اپنے آپ کو ایک ہمہ پہلو شخصیت کے طور پر پیش کیا، اقبال کے سینکڑوں اشعار ان کے نام کیے جا سکتے ہیں۔
یونین کونسل کے ریکارڈ میں ان کی تاریخ ولادت 14 اکتوبر1963ء اور نام محمد شفیق درج ہے، جو کہ بعد میں والد محترم میاں محمد مراد نظامی علیہ الرحمہ نے اپنے مرشدِ عظیم خواجہ نظام الدین خان تونسوی علیہ الرحمہ کے حکم پر اللہ داد نظامی رکھا۔ ہمارے والدین اور سب بھائی بہنوں نے خواجہ نظام الدین خانؒ تونسوی کے دستِ مبارک پر بیعت کر رکھی تھی۔ خواجہ صاحب کا سلسلہ بیعت خواجہ نظام الدین اولیاء دہلویؒ سے جا ملتا ہے۔ خواجہ صاحب جماعت اسلامی اور مولانا مودودیؒ کے مشن اور نظریات کو بہت پسند فرماتے تھے۔ اور 1965ء کے صدارتی الیکشن میں پورے ملک کا دورہ کرکے اپنے مریدوں کو حکم دیا کہ ایوب خان کے مقابلے میں محترمہ فاطمہ جناح کا بھرپور ساتھ دیں۔ فرماتے تھے کہ مولانا مودودی کا مشن میرا مشن ہے۔ ڈیرہ غازی خان کے جلسہ عام میں محترمہ فاطمہ جناح کی مہم کے دوران مولانا مودودی اور خواجہ صاحب ایک اسٹیج پر تشریف فرما تھے۔ فرقہ بندی سے بھی سخت نفرت کرتے تھے۔ ڈاکٹر نذیر شہید کے بھائی میاں محمد رمضان نے ایک موقع پر مجھے بتایا کہ انہوں نے اپنے دونوں صاحبزادوں خواجہ فخرالدین خان اور خواجہ معین الدین خان مرحومین مغفورین کو حکم دے رکھا تھا کہ جہاں بھی مولانا مودودی صاحب کا پتا چلے کہ تشریف لائے ہوئے ہیں، ان کی خدمت میں حاضر ہوکر قدم بوسی کریں۔ میاں رمضان صاحب فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ جب مولانا مودودیؒ ملتان ریلوے اسٹیشن پر تشریف لائے تو میں بھی وہاں موجود تھا، دونوں صاحبزادے تشریف لائے اور مولانا مودودیؒ کے قدموں پر گر پڑے۔
جناب اللہ داد نظامی رائج الوقت تصوف اور جماعت اسلامی پاکستان کے دنیوی نظام ہائے تربیت سے بھرپور استفادہ رکھتے تھے جس نے ان کی شخصیت کو چار چاند لگا دیے تھے۔ ان کی زبان میں عجب تاثیر اور شخصیت میں انوکھی کشش پیدا ہوگئی تھی۔ جس شخص نے فون پر ہی ان سے گفتگو کرلی تھی وہ بھی ان کی وفات پر پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا۔ ہمارے پاس ملک کے گوشے گوشے سے تعزیتی فون، خطوط اور وفود آرہے تھے۔ ان کا جنازہ علاقے کی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ تھا۔ جہاں فکر و دانش کے حلقوں میں ان کے جاننے والوں میں صفِ ماتم بچھی ہوئی تھی، وہاں علاقے کے عوام بھی زار و قطار آنسو بہا رہے تھے۔ اس لیے کہ ایک بہت بڑا اہلِ دردِ دل، جہان سے اٹھ گیا تھا۔ لوگ ایک نہایت مخلص خادمِ خلق سے محروم ہوچکے تھے۔ فقراء، مساکین اور یتیموں کے سر پر ہاتھ رکھنے والا، ضروریات میں ان کے ہمیشہ کام آنے والا، بیواؤں اور بیماروں کی دادرسی اور خبر گیری جس کا روزانہ کا معمول تھا، سب کو روتا بلکتا چھوڑ کر اپنی مستقل اور دائمی منزل کی جانب سفر کا آغاز کرچکا تھا۔ خدا اور خلقِ خدا سے اس کی محبت اور خدا اور خلقِ خدا کی اس سے محبت دیکھو کہ لوگ اس کے پسماندگان سے کہہ رہے تھے کہ آپ ہم سے تعزیت کریں کہ بہت بڑا دردمند ہم سے جدا ہوچکا ہے۔ اس سے بڑی اپنائیت اور ہردلعزیزی اور کیا ہوگی؟
یہ بھی دیکھیے کہ جن کو ان کی وفات کا علم نہ ہوسکا، وہ دوہرے صدمے کا شکار تھے کہ ان کے آخری دیدار سے محروم رہ گئے۔ اور جنہوں نے ان کا نورانی چہرہ دیکھا، وہ کہہ رہے تھے کہ ایسا نور ہم نے کسی کے چہرے پر نہیں دیکھا۔ اللہ داد نظامی عمر بھر یہی سبق دیتے رہے کہ سب فانی ہے، کسی کو بقا نہیں، مگر ایک اللہ وحدہٗ لاشریک کی ذات ہی باقی رہنے والی ہے۔ آج ان کا یہ سبق امرِ خداوندی سے انہی پر نافذ ہوچکا تھا۔
وہ اتنے ہردلعزیز کیوں تھے؟ اس لیے کہ قرآن و سنت کو سمجھ کر اس پر گہرا غور و خوص کرچکے تھے۔ اسلام کو انہوں نے صحیح تناظر میں دیکھ اور سمجھ لیا تھا اور اس کی روشنی میں وہ انسان کی قدر پہچان چکے تھے۔ ممکن نہیں کہ ایک شخص اللہ اور اس کے بندوں کو پہچانتا ہو اور خلقِ خدا ہر طرح سے اس سے فیض یاب نہ ہو۔
ہر شخص کے ساتھ گہری محبت نے ان کو ہر ایک کا محرم راز بنا دیا تھا۔ کتنے ہی لوگ تنہائی میں ان سے اپنے دل کی باتیں شیئر کرتے تھے اور اپنے سنجیدہ تر مسائل بلا کم و کاست بیان کرکے ان سے مشورہ، راہنمائی اور مدد و تعاون حاصل کرتے تھے۔ آج ان کے بغیر ہر شخص اپنی جگہ پر اپنے آپ کو تنہا محسوس کررہا ہے۔ جینا ہو تو ایسا اور مرنا ہو تو ایسا۔ ’’بے شک میری نماز، میری قربانی، میرا جینا اور میرا مرنا سب رب العالمین کے لیے ہے‘‘۔ (القرآن)
گفتگو میں عجب تاثیر اور مٹھاس تھی۔ کسی سے سخت خوئی سے پیش نہیں آئے، کسی پر تہمت نہیں لگائی۔ نصیحت کی خاطر بھی کسی کو جھڑکتے نہیں تھے۔ بڑے عجیب انداز میں بڑے پیار سے شاگردوں پر سزا نافذ کیا کرتے کہ ان کو غلطی کا احساس ہوجاتا۔
آئیے مختلف شعبہ جات کے تحت ان کی خدمات کا جائزہ لیں:
طلبہ کی تعلیم و تربیت
کوئی اٹھارہ سال قبل اسکول کے بچوں سے تھوڑی بہت ٹیوشن فیس لے لیتے تھے، بعد ازاں وہ بھی ترک کردی تھی اور مفت پڑھایا کرتے تھے۔ اعلیٰ کلاسوں میں پہنچانے کے لیے ہر طرح کی راہنمائی اور مدد بھی کرتے تھے۔ غریب اور پسماندہ خاندانوں کے کتنے چشم و چراغ ان کی گود میں پل کر آج اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے اپنے اپنے روزگار میں مصروف ہیں۔ یا پھر کسی نہ کسی سطح پر تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ ان کی شخصیت ایک تربیتی ادارے کی حیثیت رکھتی تھی۔ انہوں نے طلبہ کی اسلامی خطوط پر مسلسل ذہن سازی کی اور انہیں فرائضِ دینی کا پابند بنادیا۔ نصیحت اور درس کے سلسلے وہ جاری رکھتے تھے اور طلبہ کے لیے الگ سے تربیتی نظام قائم کررکھا تھا جس کے تحت مسلسل اجتماعات منعقد کرکے ان کی حاضری کو یقینی بنایا جاتا اور ان کو لٹریچر کی فراہمی کی سہولت دیتے اور بزم پیغام اور اسلامی جمعیت طلبہ کے نظم سے ازخود رابطہ کرکے طلبہ کو تنظیمی نظام تربیت اور دیگر سرگرمیوں کا باقاعدہ حصہ بنادیا تھا۔ جس کے نتیجے میں انہوں نے ان دونوں تنظیموں کو قائدین اور فعال کارکنان کی ایک کھیپ فراہم کررکھی تھی۔ ان تنظیموں کی مالی معاونت کرنے اور کروانے میں انہوں نے ہمیشہ بہت بڑا کردار ادا کیا۔
اسلامی جمعیت طلبہ اور بزم پیغام کے ہر سطح کے نظم سے اکثر و بیشتر رابطہ رکھتے اور مختلف امور میں اپنی مفید تجاویز اور قیمتی مشوروں سے نوازا کرتے تاکہ یہ تنظیمیں اپنے اپنے دائرۂ کار میں ہر لحاظ سے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرسکیں۔ قدرت نے انہیں ایک بڑے دماغ سے نوازا تھا جس کو انہوں نے ہمیشہ اسلام کی سربلندی، اسلامی تحریکوں کی تنظیم و تربیت اور اہلِ اسلام کی تائید و نصرت کے لیے استعمال کیا۔
عوام کی تعلیم و تربیت اور توسیعِ دعوت
درسِ قرآن، مطالعہ ترجمہ قرآن، قرآنی عربی کی تعلیم کے کئی سلسلے انہوں نے عرصۂ دراز سے شروع کررکھے تھے۔ اپنی مسجد ’مسجد بلالؓ ‘ جھوک نواز، ضلع وہاڑی میں اجتماعی اعتکاف کئی سالوں سے شروع کررکھا تھا، جس کے تحت قرآن فہمی کی غرض سے خود شرکا کی روزانہ کلاسیں شروع کررکھی تھیں۔ ہر جمعرات کو اپنی رہائش پر نماز مغرب و عشاء کے مابین پندرہ بیس افراد کو کھانے پر بلا کر اپنے بزرگوں اور اعزہ و اقارب کے ایصال ثواب کے لیے دعا بھی کراتے اور بعد ازاں درسِ قرآن مقامی زبان میں دیا کرتے تھے۔ دروسِ قرآن کا یہ سلسلہ انہوں نے اس طرح چلایا ہوا تھا کہ ان کے پاس مقررہ وقت پہ جتنے افراد موجود ہوتے تھے، درسِ قرآن شروع کردیتے تھے، اور لوگ دلچسپی سے سنتے رہتے۔ بہت کم ایسا ہوا ہے کہ کوئی شخص ان کی تقریر کے دوران اٹھ کر چلا گیا ہو۔
بلال اسلامک سینٹر کی ریفرنس لائبریر ی میں کئی مفسرین کی کتبِ تفسیر موجود ہیں۔ ایک عرصے کے دوران اپنے ساتھیوں کو جمع کرکے ایک موضوع پر کئی کئی تفاسیر کا مطالعہ کروایا جو کہ بعد نماز جمعہ منعقد ہوتا تھا۔ عوام کو جماعت اسلامی کے دعوتی و تربیتی پروگرامات میں شریک کروانے کے لیے ٹرانسپورٹ اور کھانے کی سہولیات مفت فراہم کرنے کا بندوبست کررکھا تھا، جس کی وجہ سے بڑی تعداد میں علاقہ کے عوام کو ایسے اجتماعات سے مستفید ہونے کا موقع ملا جس سے رائے عامہ مقامی طور پر اسلام اور جماعت اسلامی کے حق میں متاثر کرنے میں بہت کامیابی حاصل ہوئی۔ عوام کی تعلیم و تربیت کی غرض سے یونین کونسل کی جماعت کے زیراہتمام سالانہ اجتماعاتِ عام کا موضوع ’’عاشقانِ رسول کا اجتماعِ عام‘‘ رکھا گیا تھا۔ یہ نام رکھنے کی بنیادی وجہ ناموسِ رسالت اور میلاد النبی تھا۔
ان اجتماعات میں جماعت اسلامی کے مرکزی قائدین اور اعلیٰ معیار کے حامل دوسرے خطبا کو بلایا جاتا تھا جس کے نتیجے میں یہاں کے عوام اسلام اور ناموسِ رسالت کے حوالے سے بڑے پیمانے پر تعلیم و تربیت سے روشناس ہوئے اور ان کے خیالات میں بڑے پیمانے پر تبدیلی کے آثار نظر آنے لگے۔ جناب اللہ داد نظامی نے دعوت و خدمت کا سب کام اس خلوص اور سرگرمی سے انجام دیا کہ پچھلے دو عام انتخابات، لوکل گورنمنٹ اور PP-232کے ضمنی انتخابات میں عوام کی اکثریت نے کہا کہ جس طرف نظامی صاحب حکم دیں گے اس طرف ووٹ ڈالیں گے۔ اور ایسا ہی ہوا۔ ان کے مخالفین ان کی یونین کونسل سے دونوں مرتبہ بری طرح ہار گئے۔ 2013ء کے قومی انتخاب میں NA-167 میں جماعت اسلامی کی انتخابی مہم کے دوران ان کے ذاتی روابط میں سے مستقل اور ہنگامی 50کارکنان نے حصہ لیا۔ ان انتخابات میں 90 ہزار گھروں تک جماعت اسلامی کی دعوت ہینڈ بل اور پمفلٹ کی صورت میں پہنچائی اور ایک ہزار تحریکی رسائل تقسیم کیے گئے۔ انہوں نے اس الیکشن کو توسیع دعوت مہم کے طور پر لیا اور اتنی کثیر تعداد میں گھر گھر لٹریچر پہنچوایا۔
خدمتِ خلق
مرحوم و مغفور اپنی ذات میں خدمتِ خلق کا ایک نیٹ ورک تھے۔ بیواؤں اور فقرا و مساکین کے لیے ماہانہ سودا سلف کے ایک پیکیج کی فراہمی مستقلاً کئی سال سے جاری ہے۔ غریب اور مستحق مریضوں کا مفت علاج کرانے کا آپ نے بندوبست کیا ہوا تھا۔ کئی ڈاکٹروں کے پاس مریضوں کو بھیجا کرتے تھے اور ادویات کی قیمت اور فیس وغیرہ خود ادا کرنے کا بندوبست کررکھا تھا۔ مختلف سرکاری و غیر سرکاری ہسپتالوں میں ذاتی روابط قائم کررکھے تھے اور بیمار غریبوں کے مفت آپریشن کروانے اور ادویات فراہم کرنے کا انتظام بطور خاص کیا ہوا تھا۔ وہ اپنی جگہ پر ایک بلڈ بینک کی حیثیت رکھتے تھے اور جس شہر میں جس ہسپتال میں کسی مریض کو خون چاہیے ہوتا تھا، وہاں سے ایک فون کال آنے پر اپنے رابطہ کے کئی نوجوانوں کو بھجوا دیتے، جو مطلوبہ گروپ کا خون مہیا کردیتے۔
اسی طرح غربا و مساکین کے نقد وظائف بھی ماہانہ بنیاد پر جاری کروا رکھے تھے تاکہ کسی حد تک ان کی ضروریات کا خیال رکھا جا سکے۔ غریب بچیوں کے لیے جہیز کا ایک پیکیج مقرر کررکھا تھا جو مستحقین کو بوقتِ ضرورت دکانداروں سے دلوایا کرتے اور قیمت کا انتظام کرکے ان کو دیتے۔ ہر مرد و عورت کے استحقاقِ صدقہ و زکوٰۃ و خیرات کے بارے میں بڑی چھان پھٹک کے بعد اس کی مدد کرتے تھے۔ محض کسی شخص کی سفارش پر بغیر استحقاق کے کسی کو کچھ دینے کے لیے تیار نہ ہوتے تھے اور نہ اس بارے میں خوامخواہ کوئی رعایت دیتے تھے۔ غریب آبادیوں میں دورانِ لوڈشیڈنگ پانی کے ہینڈ پمپ لگوا دیئے۔ خلقِ خدا پانی کی تنگی کے وقت وہاں سے سیراب ہوتی تھی۔ نلکوں کی دیکھ بھال اور مرمت وغیرہ بھی اپنے ذمے لی ہوئی تھی۔ کسی غریب آدمی کو وقتی طور پر اگر تھوڑی بہت رقم کی ضرورت ہوتی تو وہ بھی صدقہ یا ادھار کے طور پر فراہم کرنے کو تیار بیٹھے ہوتے تھے۔
گویا لوگوں کی ضرورتیں ہر وقت ان کے پاس پوری ہوتی تھیں۔ کتنی ہی غریب بچیوں کو انہوں نے سلائی مشینیں خرید کر دے رکھی ہیں۔ ایک سلائی سینٹر یا دستکاری اسکول ہمارے گھر جاری کروا رکھا ہے جہاں ایک ٹیچر سلائی کڑھائی کا فن سکھانے اور ضروری تعلیم و تربیت کے لیے مقرر ہے۔ طالبات سے کوئی ماہانہ فیس نہیں لی جاتی اور ان کو بھی مشینیں مفت فراہم کی جاتی ہیں۔ چھ ماہ کے کورس سے بدرجہ احسن فارغ ہونے والی خواتین کو ایک ایک سلائی مشین مفت دی جا رہی ہے۔ مریضوں کو لے جانے اور دیگر ضروری کاموں کے لیے دو عدد موٹر سائیکل مستقل طور پر ہر وقت بلال اسلامک سینٹر میں موجود ہیں، جو عوام اپنی مدد آپ کے تحت پیٹرول ڈال کر لے جاتے اور ضرورت پوری کرکے واپس چھوڑ جاتے ہیں۔ جس شخص کے پاس پیٹرول کے پیسے نہ ہوں اس کے لیے پیٹرول فراہم کرنا نظامی صاحب نے فرض سمجھ رکھا تھا۔
عیدین کے موقع پر خصوصی پیکیج تیار کرواکے بڑی تعداد میں عید کی رات غریبوں کے گھروں میں پہنچوایا کرتے تھے۔ مستحقین کے گھر صدقہ و خیرات کا گوشت بھی مناسب مقدار میں بھجوایا کرتے۔ اس مقصد کے لیے صاحبِ حیثیت حضرات خود ہی ان سے رابطہ کرکے چھوٹا بڑا گوشت مقررہ مقدار میں فراہم کرنے کے لیے رقم مہیا کرکے درخواست کرتے کہ وہ غریبوں میں تقسیم کروا دیں۔
پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں انکم سپورٹ کی رقم سال ہا سال نظامی صاحب کے ہاتھوں سے تقسیم ہوتی رہی، کیونکہ اربابِ اختیار بخوبی جانتے تھے کہ اس میں ایک روپے کی بھی بددیانتی نہ ہوگی۔ پارٹی کے بعض لوگوں کی شکایت کے باوجود، جو جماعت اسلامی سے سیاسی و مذہبی تعصب رکھتے تھے، سرکاری حکام نے اللہ داد نظامی صاحب سے یہ کام واپس لینا درست نہ سمجھا۔ اور ATMکے ذریعے تقسیم کا نظام آنے تک انہی کے ذریعے یہ رقوم تقسیم ہوتی رہیں۔ غریبوں کی مدد کا ایک اور ذریعہ آپ نے یہ اختیار کررکھا تھا کہ اگر کسی غریب کی دیوار یا چھت گر گئی ہے تو تعمیر کا بندوبست کردیتے۔ الغرض ایسی بے شمار انفرادی و اجتماعی خدمات کے نتیجے میں انہوں نے دلوں میں گھر کر رکھا تھا۔ جو ان کی مجلس میں ایک بار بیٹھتا وہ انہیں بھول نہ سکتا تھا، اور ان کی یادداشت اس قدر مضبوط تھی کہ جس شخص سے ایک مرتبہ تعارف حاصل کرلیتے تھے، سالہا سال گزر جانے کے باوجود اس کا نام تک یاد رکھتے تھے، بلکہ وہ تفصیلی تعارف لینے کے عادی تھے اور ملنے والے کے بچوں اور آباو اجداد کے نام تک یاد رکھتے تھے۔
علمی و فکری قومی کانفرنسوں کا انعقاد
آپ نے مجلسِ فکر و تدبیر کے نام سے ایک سال میں دو دو تین تین قومی سطح کی کانفرنسیں بلال اسلامک سینٹر، جھوک نواز، ضلع وہاڑی میں، اور ایک مجلس لاہور میں منعقد کی۔ کم و بیش پندرہ ایسی مجالس میں آپ نے جید علما، سیاسی، مذہبی قائدین، اسکالر اور دانشوروں کو دعوت دے کر شامل کیا جو ہر سیاسی و دینی مسلک کی نمائندگی کرنے والے ہوتے تھے۔ ان میں غیر سیاسی علمی و ادبی شخصیات اور ماہرینِ فن بھی شریک ہوتے رہے۔
ہر کانفرنس کا الگ سے عالمی یا قومی سطح کا موضوع مقرر فرماتے اور ہر خطاب کرنے والے کو بلا کم و کاست کھل کر بات کرنے کا موقع فراہم کرتے تاکہ مختلف الرائے حضرات کو مل بیٹھنے اور ایک دوسرے کی بات وسعتِ قلبی سے سننے اور برداشت کرنے کی فضا پیدا کی جائے اور امت کے حالاتِ حاضرہ کے پیش نظر غلبۂ اسلام کی خاطر صحیح سمت میں فکر وتدبیر اختیار کی جاسکے۔
بلاشبہ کئی شعبوں میں آپ نے جو بھرپور جدوجہد کی ہے، اس پر ڈاکٹریٹ کیا جا سکتا ہے۔ اللہ نے آپ کو بڑا وژن عطا فرمایا تھا۔ وسعتِ نظر اور وسعتِ قلب و ظرف سے نواز رکھا تھا۔ ہر ایک کی کھلے دل کے ساتھ سنتے تھے اور اپنی بات کھل کر کہتے تھے اور اختلافاتِ رائے کو، خواہ کتنے ہی شدید ہوں، کبھی درمیان میں نفرت کا ذریعہ نہ بننے دیتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر مکتبِ فکرکے لوگ ان کی محفل میں پہنچ کر یک گونہ قرار محسوس کرتے۔ یہ اپنی طرح کی منفرد کانفرنسیں تھیں جو ملک کے ایک دور دراز مقام پر مختلف الخیال لوگوں کو جمع کرلیتی تھیں۔
امتِ مسلمہ سے وفاداری اور جماعت اسلامی سے محبت
فرمایا کرتے تھے: ہم سب سے بڑھ کر امتِ مسلمہ کے وفادار ہیں۔ جو شخص شرعی طور پر امت میں شامل ہے اس سے محبت کرنا ہم پر فرض ہے۔ اور اس بارے میں کسی قسم کی تفریق روا نہیں رکھنی چاہیے۔ یہ امت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہے اور اس واسطے سے امت سے ہر چیز سے بڑھ کر وفادار رہنا تقاضائے ایمان ہے۔ اپنے اس نظریے کے تحت وہ سمجھتے تھے کہ تمام دینی جماعتیں ہماری جماعتیں ہیں۔ جو سرگرمیاں مختلف دینی جماعتیں علاقے میں سرانجام دیتی تھیں، سب کی حوصلہ افزائی فرماتے۔ تبلیغی جماعت کے دعوتی مشن کی خاطر اپنی مسجد کا نام ان کے مرکز میں لکھوا رکھا ہے۔ اور سال میں چار مرتبہ مسجد بلالؓ میں یہ جماعتیں آتی رہتی ہیں۔ بریلوی، دیوبندی اور شیعہ مسلک کے اعتدال پسند علما کو بلا کر اپنی مسجد میں عوام سے خطاب کرواتے رہے۔
اسی طرح تنظیم اسلامی، تحریک امتِ مسلمہ اور چودھری رحمت علی صاحب کی جماعت تحریک عظمت اسلام کو علاقہ بھر میں دعوتی کام کرنے میں مکمل سہولت دی اور مہمان نوازی کی تاکہ عوام کے اندر اسلام کی محبت اور خدا و رسول کی اطاعت کرنے کا جذبہ پیدا ہو۔ لیکن سب سے بڑھ کر وہ جماعت اسلامی سے محبت کرتے تھے۔ فرمایا کرتے کہ جماعت اسلامی سے بڑھ کر کسی جماعت کے اندر صلاحیت نہیں کہ وہ انقلاب اسلامی برپا کرسکے۔ جماعت اسلامی کے پاس بہترین پروگرام اور لائحہ عمل ہے اور عالم اسلام میں اپنے مشن اور نظریے کے لحاظ سے ممتاز ترین مقام جماعت اسلامی اور سید ابوالاعلیٰ مودودی کی فکر کوحاصل ہے۔ ان کا نقطہ نظر تھا کہ جماعت کی تنظیم میں موجود خامیوں اور کوتاہیوں کی اصلاح کے لیے کوشش کرتے رہنا چاہیے۔ اور اپنی جگہ پر اپنے فرائض بطریق احسن ادا کرنا چاہئیں۔
روحانیت اور تصوف سے تعلق
تصوف کے سلسلہ چشتیہ نظامیہ سے باقاعدہ بیعت کے ذریعے منسلک تھے اور اہلِ تصوف کا بے حد احترام کرتے تھے اور ان کے ساتھ کامل رابطے میں رہتے اور ان سے تبادلہ خیالات کرتے۔ صفائے قلبی کے لحاظ سے بلاشبہ وہ ایک بڑے مرتبے پر فائز تھے۔ ان کے دم اور تعویذ میں اتنا اثر تھا کہ سارا دن طالبانِ شفا مرد و خواتین آپ کے پاس دم کروانے اور کلام الٰہی کے ذریعے سے شفایاب ہونے کے لیے آیا کرتے تھے۔ بطور خاص جن لوگوں کی اولاد نہ ہوتی ان کے لیے شربت صندل اور چھوہارے دم کرکے دیتے اور تعویذ لکھتے تھے۔ اکثر افراد کو اللہ نے اولاد سے نوازا۔ آپ ٹیلی فون پر اندرون و بیرون ملک دم کیا کرتے تھے اور لوگ امرِ الٰہی سے شفایاب ہوتے۔ اپنے مرشد حضرات کے خانوادے کو تحریکی کتب اور رسائل اور ایس ایم ایس بھی کرتے تھے تاکہ دین کا صحیح تصور واضح ہو۔
علمی پایہ اور قوتِ استدلال
مختلف موضوعات پر بے پناہ مطالعہ کر رکھا تھا۔ قرآن فہمی کی غرض سے کئی تفاسیر سے استفادہ کرچکے تھے۔ ان دنوں بھی تفسیر فاضلی زیر مطالعہ تھی۔ حاصل مطالعہ ایک روز بتانے لگے کہ یہ تفسیر صوفیانہ افکار اور مولانا مودودی کے پیش کردہ نظریاتِ اقامت دین کا حسین امتزاج ہے۔ درس قرآن دیتے تو محسوس ہوتا کہ ایک ایک آیتِ الٰہی کو بڑی گہرائی سے سمجھ چکے ہیں۔بات کوپہنچانے کا انداز بھی بڑا دل نشین تھا۔ مجمع ان کے خطاب کے وقت کامل سکوت کی حالت میں ہوتا تھا۔ قرآنی عربی کو سیکھنے سکھانے میں زندگی کا بڑا حصہ صرف کرچکے تھے۔ علما کی کتب سے استفادہ کرتے، ان کو اپنے پاس بلا کر عربی کی کلاسیں منعقد کرواتے اور خود بھی علم حاصل کرتے رہے۔
شعر و ادب سے بہت لگاؤ تھا۔ جدید و قدیم ادیبوں کی نثر اور شاعری پڑھ چکے تھے۔ شاگردوں کو کلیاتِ اقبال سے تشریح کے ساتھ سبقاً سبقاً الگ الگ اشعار سمجھاتے تھے۔ علامہ اقبال کے ایک ایک شعر پر بھرپور لیکچر دینے کی اہلیت رکھتے تھے۔ بلال اسلامک سینٹر جھوک نواز، ضلع وہاڑی کی ریفرنس لائبریری کے علاوہ ان کی قیام گاہ میں ایک بہت بڑی عام لائبریری ہے جس سے علاقہ بھر کے پڑھے لکھے لوگ مسلسل استفادہ کررہے ہیں۔آپ کا معمول تھاکہ جب بھی کسی بڑی کتاب کا مطالعہ شروع کرتے تو مسلسل مطالعہ کرکے چند روز میں ہی مکمل کرلیتے۔ مختلف موضوعات پر ضخیم کتب کا بنظرغائر مطالعہ کرچکے تھے۔ وسیع المطالعہ اور وسیع النظر ہونے کی وجہ سے نہایت مدلل گفتگو فرمایا کرتے اور کسی بھی اہم موضوع پر بڑے سے بڑا دانش ور اور اسکالر ان سے بات چیت کرتا تو ان کے مؤقف سے مضبوط استدلال کی بنیاد پر اتفاق کرنے پر تیار ہوجاتا۔
میں اس بات کا چشم دید گواہ ہوں کہ کئی حضرات نے ان سے کسی خاص موضوع پر بحث کرنے کے بعد ان کو اپنا مرشد تسلیم کیااور ان کی عظمتِ عقلی اور علمی کو مانے بغیر نہ رہ سکے۔اس وقت وہ جماعت اسلامی صوبائی حلقہ گگو منڈی pp232کے نائب امیر تھے۔سید مودودی اور جما عت اسلامی کا لٹریچر تو شاید ہی ان سے زیادہ پورے پاکستان میں بعض ارکان و کارکنان نے پڑھ رکھا ہو۔تمام مکاتب فکر اور مسالکِ دینی کے رسائل و جرائد ان کے زیر نظر رہتے تھے۔دینی رہنماؤں اورعلمائے کرام سے خاص موضوعات پر تبادلہ خیال کیا کرتے اور ترویج دین کے لیے مفید مشورے اور تجاویز دیا کرتے تھے۔
الغرض ان کی زندگی دعوتی،تنظیمی،تحریکی تجربات اور عوامی خدمت کی گوناگوں سرگرمیوں اور عرق ریزیوں سے عبارت تھی۔جس انداز سے انہوں نے اللہ عزوجل کی عطا کردہ مہلت کو مردِ خدا مست بن کر گزارا، اس میں عوام و خواص کے لیے بہت بڑا سبق ہے۔خدائے غفورورحیم اللہ داد نظامی صاحب کی لغزشوں سے درگزر فرما کر ان کی حسنات کو شرفِ قبولیت بخشے۔آمین۔
nn

حصہ