(یکسااں میں (عابد علی جوکھیو

312

نبی کریم سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم پوری انسانیت کے لیے رحمت بناکر مبعوث فرمائے گئے تھے۔ کتبِ سیرت آپؐ کی نبوت سے پہلے کی زندگی کے متعلق بھی شاہد ہیں کہ آپؐ نے ایک پاک و صاف زندگی گزاری۔ اپنے تو اپنے، مخالفین بھی اس بات پر یکسو تھے اور ہیں کہ آپؐ کی زندگی ہر عیب و نقص سے پاک تھی۔ ہم جب بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو اکثر نبوت کے بعد کی زندگی نقل کرتے ہیں، حالانکہ اس سے پہلے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس معاشرے میں 40 برس کی زندگی گزار چکے تھے۔ آپؐ کی اصل زندگی تو وہی تھی جو آپؐ نے نبوت سے قبل گزاری۔ اس کی بنیاد پر آپؐ صادق و امین کہلائے اور کوئی بھی آپؐ پر انگلی اٹھانے کی جرأت نہیں کرسکا۔ نبوت کے اعلان سے قبل آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو صفا (پہاڑی) پر جمع کرکے ارشاد فرماتے ہیں: ’’اے قریش! اگر میں کہوں کہ پہاڑ کے پیچھے دشمن کی فوج حملہ آور ہونے کو تیار ہے تو کیا تم یقین کرو گے؟‘‘ پوری قوم یک زبان ہوکر کہتی ہے: ہاں! ہم نے آپ میں سوائے صدق اور سچائی کے کچھ نہیں پایا (بخاری)۔ نبوت سے قبل ہی آپؐ کی امانت و دیانت ایسی مشہور تھی کہ مکہ کے بڑے بڑے تاجروں کی خواہش ہوتی تھی کہ آپؐ اُن کا تجارتی سامان لے کر عالمی منڈیوں میں جائیں۔
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لوگوں سے معاملات اور تعاون اپنی مثال آپ تھا۔ آپؐ غریب کی مدد کرتے، مہمان نوازی کرتے، بیواؤں، یتیموں کی دستگیری کرتے، سچ بولتے، امانت کی حفاظت کرتے۔ یہ سب بھی نبوت سے قبل کے معمولات تھے، ایسا نہیں کہ نبوت کے مقام پر سرفراز ہونے کے بعد اس منصب کی وجہ سے یہ کام شروع کیے، بلکہ ولادت سے نبوت تک آپؐ نے پوری زندگی فطرتِ اسلام کے مطابق گزاری۔ اسی لیے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی نازل ہوئی اور آپؐ اس بارِ گراں کی تشویش لے کر گھر آئے، تو اُم المومنین سیدہ خدیجہؓ نے آپؐ کے انہی کاموں کو دلیل بناکر آپؐ کی ڈھارس باندھی کہ اللہ تعالیٰ کی قسم آپؐ کو اللہ تعالیٰ کبھی رسوا نہیں ہونے دے گا۔ آپؐ صلۂ رحمی کرتے ہیں، بے سہاروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، اور بے آسرا لوگوں پر خرچ کرتے ہیں، مہمانوں کی ضیافت کرتے ہیں اور حق کی راہ میں آنے والے مصائب کو برداشت کرنے میں مدد فرماتے ہیں۔ (بخاری و مسلم)
اسی کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی طرف دعوت دیتے ہوئے اپنی پچھلی زندگی کی دلیل کے طور پیش کیا کہ میں تم میں ایک عمر گزار چکا ہوں، کبھی تم نے میری زبان سے جھوٹ سنا؟ کبھی میری ذات سے کسی کو کوئی تکلیف ہوئی؟ کبھی مجھ میں دنیا کی طلب کو پایا۔۔۔؟ ہرگز نہیں۔ تمہیں میری ذات سے سراسر خیر ہی خیر ملا ہے، میں تمہاری خوشی، غم میں شریک ہوتا ہوں، میں بے کسوں کی دستگیری کرتا ہوں، معاشرے کا ہر فرد میرے اعمال، کردار اور اخلاق کی گواہی دے سکتا ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
(ترجمہ) ’’اور کہو ’’اگر اللہ کی مشیت یہی ہوتی تو میں یہ قرآن تمہیں کبھی نہ سناتا اور اللہ تمہیں اس کی خبر تک نہ دیتا۔ آخر اس سے پہلے میں ایک عمر تمہارے درمیان گزار چکا ہوں، کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے؟ پھر اُس سے بڑھ کر ظالم اور کون ہوگا جو ایک جھوٹی بات گھڑ کر اللہ کی طرف منسوب کرے۔‘‘ (یونس 16)
صاحبِ مظاہرِ حق ان اوصاف کی تشریح میں لکھتے ہیں:
’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک بڑا وصف یہ بھی ہے کہ آپؐ اپنے اہل وعیال اور زیرکفالت لوگوں کے خرچ و اخراجات اور ان کی ذمہ داریوں کا بوجھ نہایت خوش دلی کے ساتھ اٹھاتے ہیں اور اس راہ میں پیش آنے والی محنت و مشقت بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بدل نہیں سکتی۔ اگرچہ وہ لوگ کہ جن کا بوجھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھاتے ہیں آپؐ سے ترکِ تعلق اور بے مروتی کا معاملہ کیوں نہ کریں۔ واضح رہے کہ یہاں ’’بوجھ اٹھانے‘‘ کے معنی میں ضعیفوں، یتیموں، بیواؤں اور ناداروں پر خرچ کرنا بھی شامل ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم غریبوں اور مسکینوں کی، کمانے میں مدد کرتے ہیں۔۔۔ یعنی ان کو روپیہ پیسہ اور مال دیتے ہیں تاکہ وہ لوگ اس کے ذریعے کسب وتجارت کی صورت میں اپنی معاشی حالت درست کریں اور افلاس وتنگ دستی سے چھٹکارا پائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے حقیقی حادثات و مصائب میں ان کی مدد کرتے ہیں۔ آپؐ ہر اُس شخص کی مدد واعانت فرماتے ہیں جو کسی حقیقی حادثے اور مصیبت کے سبب درماندہ اور عاجز ہوجاتا ہے، مثلاً جو قرض یا دیت کے مال کی ادائیگی پر قادر نہیں ہوتا اور فقر و افلاس میں مبتلا ہونے کی وجہ سے اپنی مصیبت کو ٹال نہیں پاتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُس کو مالی مدد دے کر اس مصیبت سے نجات دلاتے ہیں۔ ’’نوائب الحق‘‘ کی قید سے معلوم ہوا کہ اسی مصیبت زدہ کی مدد و اعانت مستحسن و مطلوب ہے جو قدرتی طور پر مجبور ولاچار ہو۔ اگر کوئی شخص اپنی مصیبت کا خود سبب بنا ہو، اس نے اپنی حرکتوں اور بے عملیوں سے اپنے اوپر مصیبت نازل کرلی ہو جیسے اسراف کی صورت میں اپنا مال وزر لٹا بیٹھا ہو، یا ناروا اطوار غصب و غصہ کرکے خود کو کسی نقصان اور آفت میں مبتلا کربیٹھا ہو تو اس کی مدد کرنا مستحسن و مطلوب نہیں ہے۔‘‘ (مظاہر حق)
یہی درحقیقت دعوتِ اسلام کا طریقہ ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نبوت سے قبل ہی اس طریقے سے لوگوں کو اپنے قریب لاتے رہے۔ اپنے اخلاق، امداد اور تعاون کے ذریعے لوگوں کے دلوں میں جگہ بنائی۔ ہر مظلوم کا سہارا، مسکین کا دستگیر بننا اور لوگوں کو رزق پہنچانے کا ذریعہ بننا ہی وہ اصل کام ہے جس سے لوگ آپ کے قریب آسکتے ہیں۔ اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نبوت سے قبل جتنے بھی کام کررہے تھے وہ اللہ کی تائید و نصرت کے ذریعے ہی تھے، کیوں کہ جب اللہ تعالیٰ کسی عام انسان سے بھی کوئی عظیم کام لینے کا ارادہ فرماتا ہے تو اس کی پوری زندگی کو لوگوں کے لیے ایک مثال کے طور پر پیش کرتا ہے۔ اللہ ہی اس کا ہاتھ بن جاتا ہے، پاؤں بن جاتا ہے، اس کی آنکھ، کان بن جاتا ہے۔ الغرض اس کا ہر عمل اللہ کے اذن سے ہی ہوتا ہے۔ اور جب بات ہو انسانیت کے اعلیٰ مقام یعنی نبوت کی، تو ایسے انسان کے لیے اللہ کی جانب سے اہتمام کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی لوگوں کے دل جیتے، بے کسوں کی مدد کی، یتیموں، بیواؤں کی دادرسی کی، لوگوں کے لیے رزق کے مواقع پیدا کیے، اجتماعی معاملات میں پیش پیش رہے، لیکن اس کے باوجود اس معاشرے میں پائی جانے والی تمام برائیوں سے بھی بچے رہے۔ لوگوں کے درمیان رہ کر اُن کے مسائل حل کیے۔ اخلاق تو اپنی جگہ، کاروبار میں بھی ایسی عظیم مثال پیش کی کہ نامور تاجر آپؐ کے ساتھ تجارت کرنے کے خواہش مند ہوتے۔ اسی طرح اپنی ذاتی زندگی بھی لوگوں کے لیے ایک نمونے کے طور پر پیش کی، تاکہ کوئی آپؐ کی ذات پر انگلی بھی نہ اٹھا سکے۔
اب جب 40 برس کی عمر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت ملی تو آپؐ نے جہاں اپنی سابقہ زندگی کو اپنی صداقت کی دلیل کے طور پر پیش کیا، وہیں ان تمام اوصاف کو بھی جاری رکھا، بلکہ پہلے سے بھی بڑھ کر کام کرنے لگے اور صحابہؓ کو بھی یہ کام کرنے کا حکم فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’سلام کو عام کرو، بھوکوں کو کھانا کھلاؤ، لوگوں کے ساتھ صلۂ رحمی کرو، رات کے وقت جب لوگ سورہے ہوں تو نماز پڑھو، اس طرح تم سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہوسکو گے‘‘ (ترمذی، ابن ماجہ)۔ یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو کام نبوت سے قبل کررہے تھے انہی کو جاری رکھا اور لوگوں کو اس کے بدلے جنت کی بشارت تک دے دی۔ بلاشبہ انبیاء علیہم السلام کا اصل کام لوگوں کو اللہ کی طرف بلانا تھا لیکن تمام انبیاء نے اس دعوت کے لیے یہی طریقہ اپنایا۔ لوگوں کے کام آئے، ان کے دکھ درد بانٹے، خوشی غمی میں شریک ہوئے، اور خصوصاً معاشرے کے متکبر اور مالدار لوگوں کے برخلاف محرومِ زمانہ لوگوں کے ساتھ تعاون کرکے جہاں ان کا معیارِ زندگی بلند کیا وہیں انہیں اپنا گرویدہ بھی بنالیا۔ پھر چشمِ فلک نے بھی دیکھا کہ یہی بے سہارا لوگ کھجور کی شاخیں لیے اور خالی ہاتھ بھی میدانِ جنگ میں نکلے اور کامیاب و کامران لوٹے۔ اسلام کی اصل دعوت لوگوں کے دل جیتنا ہے، اور جس دن انسانوں کے دل جیت لیے گئے وہی دن انقلاب کا ہوگا۔
nn

حصہ