(احساس محمد(عرفان اقبال

340

13164ہ ایک حقیقت ہے کہ انسان شمار اشرف المخلوقات میں ہوتا ہے۔ کیا انسان ہر وقت، ہر جگہ یا ہر زمانے میں اشرف المخلوقات رہا ہے؟ شاید ایسا نہیں ہے۔ حضرت انسان کو تخلیق کرنے والے خالق کائنات نے مختلف مقامات پر انسان کو جانوروں سے بھی تشبیہ دی ہے۔ آیات کا مطالعہ کرنے کے بعد اس بات کا ادراک ہوتا ہے کہ انسان ہر جگہ ہر زمانے یا ہر معاشرے میں اشرف المخلوقات نہیں ہے بلکہ اس کے اشرف المخلوقات ہونے کے لیے بہت سی چیزوں کے وجود کا ہونا ضروری ہے۔ بقول شاعر
فرشتوں سے بہتر ہے انسان ہونا
مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ
آج اگر ہم شعور کی گہرائی میں جا کر حضرت انسان کا فطرت کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت روشناس ہوتی ہے کہ اللہ رب العزت نے فطرتاََ انسان کو بہت لچکدار پیدا کیا ہے۔ مطلب اس بات کا یہ کہ اس کی فطرت کا وقت ،جگہ یا حالات کے ساتھ تبدیل ہونایا خود کسی جگہ کا مکین ہوکرخود کو اسی جگہ یا کلچر میں ڈھال لیناایک انسان کے لیے کوئی بعید نہیں۔ یہی وجہ تھی کہ اللہ رب العزت نے انسان میں اس کی معاشرتی زندگی کو سنوارنے کے لیے اس میں جذبات رکھے جن کا اظہار خود حضرت انسان کبھی غصے کے انداز میں کرتا ہے تو کبھی رحم دلی کے انداز میں۔ کبھی محبت بھرے لہجوں میں تو کبھی نفر ت کی آگ سلگاتے لفظوں میں۔ یہ ساری وہ کیفیات ہیں جو انسان کے اندر سے وقوع پذیر ہوتی ہیں۔ ان کا کرتا دھرتا انسان کا ضمیر ہوتا ہے۔ یعنی ایک انسان کی نیچر اس کی فطرت میں تبدیلیوں کا سبب یا اس پر ان کیفیات کو لاگو کرنے والا اس کا اپنا ضمیر ہوتا ہے۔ ’’احساس کا تعلق بھی اسی ضمیر سے ہے‘‘۔
سائنس نے آکر متعار ف کروایا کہ ہمارا جسم نیورانز پر مشتمل ہے اور نیورانز ہمارے جسم میں معلومات کی ترسیل کا کام کرتے ہیں جیسے اگر ہمیں جسم کے کسی حصے سے کوئی چیز ٹچ ہو تو دفاع میں فوراََ پتا چلتا ہے کہ کوئی چیز ٹچ ہوئی ہے۔ اگر ہم ضمیر احساس کے وجود کو نیورانز کا نام دے دیں تویہ کوئی بعید عن القیاس نہیں ہوگا۔
احساس انسانی فطرت میں ضمیر کی اس کیفیت کا نام ہے جس کی وجہ سے انسان کے اندر خوف و ہراس پیار محبت،نفرت و بغض ،غصہ وہمدردی وغیرہ کے جذبات جنم لیتے ہیں احساس کہلاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ جب کسی کا ضمیر مرتا ہے تو احساس بھی خودبخود مر جاتا ہے۔احساس کا بذات خود کوئی پہلو نہیں ہوتانہ مثبت نہ منفی یہ تو انسانی فطرت اپنی زندگی میں ڈھالنے اور اس کے اظہار کے خود بھی دو دو پہلو مقرر کرتی ہے۔
-1احساس کمتری
-2احساس برتری
یہ تقسیم احساس کی اپنی نہیں ہے بلکہ ہمارے اسکو سمجھنے کی ہے۔بقول شاعر:
احساس کے انداز بدل جاتے ہیں ورنہ
آنچل بھی اسی تار سے بنتا ہے کفن بھی
کیونکہ اگر ہم اپنی سوچ کے کینوس کو اپنی زندگی پر ڈھالیں تو غربت وافلاس میں ڈوبے لوگوں کو ہم ہمیشہ احساس کمتری میں نہیں دیکھتے بلکہ ان میں سے بہت سے لوگ ایسے مبتلا ہوتے ہیں جو ایک ہی وقت میں باوجود غربت و تنگدستی کے اپنے حالات اپنے معاشرے اور اپنی سوچ تک میں ترقی کی جنگ لڑ رہے ہوتے ہیں۔جن کے پس پردہ بڑی وجہ احساس کی ہوتی ہے کہ وہ اس کا استعمال مثبت کررہے ہوتے ہیں، جیسے اقبال نے اپنے اشعار نے بیان فرمایا۔
مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ، غریبی میں نام پیدا کر
*
تندیِ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اُڑانے کے لیے
ان دونوں اشعار میں علامہ اقبال بھی اسی بات کا اشارہ رکررہے ہیں کہ خود کو احساس کمتری کا شکار نہ کرو بلکہ اگر ترقی چاہتے ہو تو احساس برتری کو اپنا مشعل راہ بنانا ہوگا۔اس ساری بات سے یہ حقیقت بھی روشناس ہوتی ہے کہ انسان کے مستقبل پر سب سے پہلے احساس کا وجود ہے۔پھر یا تو اس کے مثبت یا منفی ہونے کا وجود بہت گہرائی تک اثر انداز ہوتا ہے۔ ایک اور شعر جس میں گویا کسی قوم کی ترقی و تنزلی کا دارومدار احساس کے وجود اور عدم پر رکھا ہے فرماتے ہیں۔
وائے ناکامی متاعِ کاررواں جاتا رہا
کاررواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
یہ تو تھا احساس کے بارے میں وہ تاثر جو اقبال نے پیش کیا لیکن اگر ہم اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کریں تو ہمیں اسی احساس کے شواہد احادیث نبویہ اور تہذیب اسلامی میں نمایاں نظر آتے ہیں۔ ایک مشہور حدیث کا مفہوم ہے کہ ایک بدکردار عورت سفر میں تھی کہ اچانک اس نے پیاس کی وجہ سے ایک کتے کو تڑپتے ہوئے دیکھا۔کتے کی اس نیم خستہ حالت کو دیکھ کرخاتون سے برداشت نہ ہوا چنانچہ اس نے اپنے آنچل کو کنویں میں ڈبو کرپانی سے گیلا کرنے کی کوشش کی تاکہ اسے نچوڑ کر کتے کی تشنگی ختم کرسکے لیکن بدقسمتی سے آنچل پانی تک نہ پہنچ سکاچنانچہ اس عورت کو آنچل پھاڑنے کی ضرورت پیش آئی اور اس عورت نے آؤ دیکھا نہ تاؤاپنے آنچل کو لمبائی کے رخ پھاڑ کر آپس میں جوڑ کر مزید بڑا کیاپس پھر کیا تھاکہ بالآ خر اسکا ایک کونہ پانی کو چھونے لگا اور یوں اس خاتون نے کتے کو سیراب کیا۔اس بدکارہ کا یہ سارا عمل اللہ کو بہت پسند آیا اورحدیث میں ہے کہ اللہ رب العزت نے اس کے اسی عمل کی وجہ سے اس کی مغفرت کردی۔ مسلم شریف کی ایک اور حدیث میں ہے کہ ایک خاتون نے بلی کو باندھ رکھا تھانہ تو اسے خوراک کھلاتی نہ ہی اسے آزاد چھوڑتی کہ وہ حشرات الارض سے اپنا شکار کر سکے نتیجتاً وہ اپنے عابد ہ و زاہدہ نیک کار ہونے کے باوجوداپنے اس عمل کی وجہ سے اللہ کی ناراضگی کا نشانہ بنی اور اسی عمل کی وجہ سے جہنم کی مستحق قرار پائی۔
مذکورہ بالا دو الگ الگ قیاس ہمارے سامنے ہیں جو کہ بالکل مختلف ہیں لیکن ہمیں درس اس چیز کا دیتی ہیں کہ احساس کا راستہ اگر وہ مثبت پہلو میں ہوگا تو گویا جنت کا راستہ ہے اور اگر وہ منفی پہلو میں ہوتو بھی اس کا راستہ ہمارے آگے متعین ہے۔
احساس صر ف اس بات کا نام نہیں کہ وہ اپنی زندگی کے معاملات میں اپنے ہی نفع نقصان کے عوامل کو محسوس کرے اور اپنی زندگی کی شمع گل کرجائیں۔ہرگزنہیں انسان کوہم تب ہی اشرف المخلوقات قرار دیں گے جب وہ مالک حقیقی کی پہچان اور اس کے مع عبادات کے ساتھ اپنے گردونواح دنیا جہان میں موجود رب تعالیٰ کی مخلوقات خواہ وہ انسان کی صورت میں ہوں یا جانوروں اور پرندوں کی صورت میں ان کا احساس کرنا بھی ایک جذبہ ہے جو کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ودیعت کیا ہوا ہے یہ محبت کی علامت ہے اور محبت رب تعالیٰ کا خاصا ہے جو کہ اس نے دنیا جہان میں تقسیم کیا۔میں سمجھتا ہوں وہ انسان بہت خوش قسمت ہے جس کے دل میں رب تعالیٰ نے احساس کا بیج بودیا۔
عموماََ ہوتا یوں ہے کہ ہم اپنے احساس کو پہچان نہیں سکتے۔ احساسات ہی دراصل انسانیت کا دوسرا نام ہے۔ جس میں احساس نہیں گویا اس میں شخص میں اور جانور میں کوئی فرق نہیں رہتا۔ سانس تو دونوں میں ہوتی ہے مگر احساس کے ساتھ فرق واضح ہوجاتاہے۔ ہمارا احساس یہ ہے کہ ہم اپنے ارد گرد دیکھیں اور اپنے ساتھ میں رہنے والوں کا درد محسوس کریں۔ لوگوں کی مشکلات کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ لازمی نہیں ہے کہ کوئی آکر آپ سے اپنے حالات و واقعات بتائے تو ہی آپ اس کی مدد کریں‘ لوگوں کی مشکلات کو سمجھیں گے۔ بلکہ ممکنہ ہے آپ کو صرف محسوس کرنا ہوگا۔ آپ کو سمجھنا ہوگا اپنی چھٹی حس کو استعمال میں لانا ہوگا۔ اگر ایسا کر گئے تو گویا آپ صاحب حس و ہوش رکھنے والے ہیں ورنہ بے ہوش اور مردہ جسم کسی کام کے نہیں ہوا کرتے۔

حصہ