(محبتوں کا سفر(فرحی نعیم

279

’’اور تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو‘‘۔ یہ تھا وہ عنوان سندھ کے اجتماعِ کارکنان کا، جس کی تائید و نصرت کرنے پورے سندھ سے خواتین اور مرد حضرات جماعت اسلامی کی دعوت پر کشاں کشاں محض اللہ کی رضا اور اپنے ایمان کو تازہ کرنے کی غرض سے شرکت کرنے آئے۔
ایک خالی سپاٹ میدان میں ہزاروں افراد کے لیے اجتماعِ عام کی تیاری کرنا، ان کی رہائش، قیام و طعام اور وضو خانے تیار کرنا کوئی کھیل نہیں، لیکن جہاں اللہ کی رضا کی خواہش ہو وہاں کوئی بات مشکل نہیں رہتی، کیونکہ ہمت دینے والا بھی وہی ہے اور کام کروانے والا بھی وہی ہے، لہٰذا جب ہفتہ 26 نومبر کو کنونشن کے پہلے روز ہم اپنی ایک ساتھی کے ساتھ باغ جناح روانہ ہوئے تو راستے میں جگہ جگہ کنونشن سے متعلق بینر آویزاں تھے، اور جیسے جیسے منزل قریب آتی گئی، جماعت کے سبز پرچموں کی بہار بڑھتی چلی گئی، یہاں تک کہ ہم مزارِ قائد کے پہلو میں وسیع و عریض باغ جا پہنچے، جہاں اندرونِ سندھ سے خواتین چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ بڑے بڑے بیگ لیے میدان میں داخل ہورہی تھیں۔ بڑے داخلی دروازے پر اردو اور سندھی میں ’’خوش آمدید‘‘ اور ’’بھلی کری آیو‘‘ کے الفاظ آنے والوں کا استقبال کررہے تھے۔
واک تھرو گیٹ سے گزر کر ہم اندر داخل ہوئے جہاں استقبالیہ پر خواتین نے ہمارا مسکرا کر خیرمقدم کیا۔ دائیں، بائیں دونوں طرف مختلف شعبہ جات سے متعلق خواتین اپنے اپنے اسٹال پر مستعد بیٹھی آنے والوں کو اپنے شعبے سے متعلق معلومات فراہم کررہی تھیں۔ ہم بھی سرخ قالین سے سجے فرش پر اور اسٹال کے اطراف رنگین غباروں کی سجاوٹ کو سراہتے ہر اسٹال پر رکتے رکاتے، شناسا بہنوں سے حال چال پوچھتے آگے بڑھتے چلے گئے۔ یہ اسٹال یوتھ کارنر، شعبۂ دیہات، وکلا فورم، حرم فورم، الخدمت، لیگل ایڈ اور وومن اینڈ فیملی کمیشن وغیرہ پر مشتمل تھے۔ آگے بڑھے تو گہرے گلابی اسکارف سر پر جمائے باحجاب بچیاں میڈیا سیل میں بیٹھی پوری توجہ سے اپنے کام میں مشغول نظر آئیں، اور یہیں ہمارا حریم ادب کا اسٹال بھی تھا جہاں رکھی کتابوں کی کشش مقناطیس کی طرح ہمیں اپنی طرف کھینچ رہی تھی، لیکن چونکہ ہمیں ابھی اندر پنڈال میں بھی جانا تھا لہٰذا نہ چاہتے ہوئے بھی آگے کی جانب اپنے قدم بڑھا گئے۔ اس طرف شہرِ قائد کے تمام اضلاع کی ناظمات اپنے اپنے ضلع کی نمائندگی کے لیے موجود تھیں، ان کے ساتھ ہی یہاں استقبالیہ برائے صوبہ سندھ تھا۔ فراہمئ آب و طعام، صفائی، طہارت، تزئین و آرائش وغیرہ کی منتظم بیٹھی ہوئی اپنی ذمے داریاں بہ خوبی سنبھال رہی تھیں۔ انہی اسٹال کے درمیان اسٹیج کے عقب میں سندھ کے نقشہ اور اجرک سے آرائش کی گئی تھی۔ مزید آگے بڑھے اور پھر دائیں طرف مڑے۔ یہاں جگہ جگہ پانی کی فراہمی کے لیے فائبر کی بڑی بڑی ٹنکیاں رکھی گئی تھیں۔ چونکہ خواتین کا پنڈال مردوں سے بالکل علیحدہ تھا لہٰذا اس کا داخلی دروازہ بھی دور تھا۔ پنڈال میں گھسے تو اتنے وسیع و عریض اور عظیم الشان انتظامات دیکھ کر چند لمحوں کے لیے تو گنگ ہی رہ گئے۔ انتہائی وسیع اور دیدہ زیب اسٹیج جس پر مہمانوں کے لیے صوفے رکھے گئے تھے۔ عقب میں بہت بڑی اسکرین نصب تھی۔ پورے پنڈال میں روشنی اور اسپیکر کا بہترین انتظام تھا۔ اسٹیج کے دائیں بائیں اور سامنے ہزاروں کرسیاں رکھی گئی تھیں اور اس کا پچھلا حصہ فرشی تھا جہاں اندرون سندھ سے آنے والی خواتین اپنے اپنے سامان کے ساتھ بڑے مطمئن اور پُرسکون انداز میں براجمان تھیں۔ انہی میں سے چند خواتین سے ہم نے بات چیت کی جو لاڑکانہ، کوٹری، حیدرآباد اور سانگھڑ سے آئی ہوئی تھیں۔ سب ہی نے یہاں کے انتظامات پر اظہارِ اطمینان کیا۔
یہ تمام خواتین بذریعہ کوچ کراچی پہنچی تھیں۔ وہ پُرجوش بھی تھیں اور انتہائی خوش بھی۔۔۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اللہ کی رضا اور اپنے ایمان کو تازہ کرنے کی غرض سے یہاں آئی ہیں، وہ ملک میں اسلامی نظام کی خواہش مند ہیں اور اقامتِ دین کے لیے جماعت اسلامی کی کوششوں کے ہم قدم بھی ہیں۔ یہ سب ایک ہی منزل کی مسافر تھیں۔
چونکہ یہ اجتماع دو دن جاری رہنا تھا لہٰذا یہاں شرکاء کی چھوٹی سے چھوٹی ضرورت کا بھی خیال رکھا گیا تھا۔ صاف ستھرے وضو خانے، طہارت خانے یہاں موجود تھے، الخدمت کا میڈیکل کیمپ ہر طرح کی ایمرجنسی کے لیے تیار تھا۔ باہر بھی ہم نے درجنوں ایمبولینس ہر طرح کی ایمرجنسی کے لیے تیار کھڑی دیکھی تھیں۔
شرکا کے لیے لذتِ کام و دہن کا بھی پوری طرح خیال رکھا گیا تھا اور ارزاں نرخ پر کھانے پینے کی اشیا دستیاب تھیں۔ اس کے ساتھ ہی حجاب و عبایا کے اسٹال، ملتان کا مشہور سوہن حلوہ اور دینی و دیگر کتابوں کے اسٹال بھی جابہ جا موجود تھے۔ ایک طرف گوشۂ اطفال بھی موجود تھا جس کی سجاوٹ و آرائش بڑی خوب صورتی سے کی گئی تھی۔ ہم نے بھی چائے، پکوڑوں سے اپنی پیٹ پوجا کی اور جماعت اسلامی کے انتظامات کو سراہتے، مختلف تقریروں کو سنتے اور اپنی دینی بہنوں سے ملتے ملاتے واپسی کے لیے روانہ ہوئے۔
اگلے دن یعنی اتوار کو چونکہ بڑے اہم موضوع ’’عورت نسلِ نو کی معمار‘‘ پر ایک خواتین کانفرنس کا اہتمام تھا جس میں قیمہ پاکستان دردانہ صدیقی، رکن اسمبلی عائشہ سید، اسلامی نظریاتی کونسل کی رکن محترمہ سمیحہ راحیل قاضی، اس کے علاوہ محترمہ کوثر فردوس، رخسانہ جبین، فرحانہ اورنگزیب‘ عائشہ منور کو خطاب کرنا تھا، لہٰذا باقی تقاریر اگلے دن پر اٹھا رکھتے ہوئے ہم گھر ہو لیے۔
اتوار کی دوپہر ڈیڑھ بجے خواتین کانفرنس منعقد ہوئی۔ پورے پنڈال میں تل دھرنے کی جگہ نہ تھی، کراچی اور اندرون سندھ کے مختلف شہروں اور قبائل سے تعلق رکھنے والی بہنیں ایک گلدستے میں موجود رنگ برنگے پھولوں کی طرح ہر طرف اپنی خوشبو اور رنگ بکھیر رہی تھیں۔ ہم نے ان خواتین کو ان کی ہمت و حوصلے کی داد دیتے ہوئے اپنی سیٹ سنبھالی۔ پورے پنڈال میں جگہ جگہ مختلف آیات، احادیث اور فرموداتِ مودودیؒ کے بینر آویزاں تھے۔ ڈسپلن کے سلیش سجائے خواتین اور درجنوں لڑکیاں کسی بھی بدانتظامی سے بچانے کے لیے ہزاروں خواتین کو کنٹرول کررہی تھیں۔ محترمہ کوثر فردوس صاحبہ ’’دورِ حاضر میں خاندانی نظام کس طرح متاثر ہورہا ہے‘‘ پر روشنی ڈال رہی تھیں۔ ’’ہم کس طرح اغیار کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں اور اپنے ہاتھوں اپنی نسل کو برباد کررہے ہیں۔‘‘ ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی نے بڑی پیاری بات کی کہ ہماری مائیں ایسی نسل تیار کریں جو باطل کی آنکھ کا کانٹا بن جائے۔ انہوں نے نعیم صدیقی کی طویل نظم سے چند اشعار پڑھے جس کا مطلع تھا:
اے جان اگر تم ساتھ نہ دو
تو تنہا مجھ سے کیا ہوگا
آخر میں انہوں نے سندھی اشعار پڑھے اور سندھ کی خوش حالی کو ایمان دار قیادت سے مشروط قرار دیا۔
امیر جماعت اسلامی محترم سراج الحق صاحب نے بھی خواتین کے پنڈال میں آکر مختصر خطاب کیا اور اس امید کا اظہار کیا کہ اس کنونشن کے اثرات ہم ملک میں اسلام کے اثرات اور رجحانات کے فروغ کے طور پر ان شاء اللہ ضرور دیکھیں گے۔ محترمہ عائشہ منور نے اس بات پر زور دیا کہ عورت معاشرت کی ذمے دار ہے معاش کی نہیں، لیکن ہمارے مقتدر حلقوں نے اُسے اسلامی بنیادی نظریے سے اختلاف کرتے ہوئے معاش کی ذمے دار بنا دیا جو جھگڑوں کا محرک بنا۔ انہوں نے حکومتی پالیسیوں پر تنقید کی اور عورت کو معاشرتی اصلاح کا ذمے دار ٹھیرایا۔ قیمہ پاکستان محترمہ دردانہ صدیقی نے سندھ سے آنے والی بہنوں کا شکریہ ادا کیا کہ وہ جماعت اسلامی پاکستان کی صدا پر لبیک کہتے ہوئے یہاں جمع ہوئیں۔ انہوں نے وادئ مہران کو مدینے سے تشبیہ دی جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار و مہاجرین کا حسین امتزاج بنایا تھا بالکل اسی طرح آج انصار و مدینہ کی سنت تازہ ہوگئی۔ محبتوں کا یہ سفر جاری رہے گا۔ انہوں نے عورت کا سب سے اوّلین مقصد نسلوں کا تحفظ اور اس کی تعمیر قرار دیا۔ خاندانی نظام کا اصل محور اور دل ماں ہے۔ تربیتِ اولاد ایسا فریضہ ہے جس میں غفلت کی گنجائش نہیں۔ اس کے بعد عظمیٰ عمران نے اقلیتوں کے بل جو سندھ اسمبلی نے پاس کیا ہے، کے خلاف قرارداد پاس کرائی۔ ناظمہ کراچی محترمہ فرحانہ اورنگ زیب نے خواتین کے سماجی، تعلیمی، معاشی و تہذیبی تحفظ کے حوالے سے سفارشات پیش کیں۔ آخر میں ناظمہ صوبہ سندھ عطیہ نثار نے اپنے اختتامی خطاب میں عورت کو اپنی طاقت و قوت پہچاننے پر زور دیا اور فرمایا کہ ہم میں سے ہر ایک سکون و خوشی چاہتا ہے اور یہ تب ہی ممکن ہے جب اصول و ضوابط کی پابندی کی جائے۔ ناظمہ صوبہ پنجاب محترمہ رفیعہ فاطمہ کی دعا کے ساتھ یہ کانفرنس اختتام پذیر ہوئی۔
یہ اجتماع خصوصاً سندھ کے عوام کے لیے اسلامی نظام کے نفاذ کی شمع جلانے اور اس کی لو چاروں اطراف پھیلانے کی ایک کوشش تھی۔ یہاں بیشتر افراد جن میں مرد و خواتین دونوں شامل ہیں، اپنا مال، وقت اور سفر کی مشکلات برداشت کرکے جمع ہوئے۔ یہ اجتماع راہِ حق کے مسافروں کے حوصلوں اور جذبوں کو بلند اور مستحکم کرنے کی کوشش تھا۔ سندھ کے عوام ذات پات، رنگ و نسل، زبان اور قبیلے کی تقسیم سے بالاتر ہوکر صرف اپنے اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے بانئ پاکستان قائداعظم کے مزار کے سائے تلے موجود تھے۔ اب سوچ کے زاویے تبدیل ہورہے ہیں۔ امید ہے یہ اجتماع بھی سندھ کے عوام کے لیے امید اور خوش حالی کا پیغام لائے گا اور اس اجتماع سے ملنے والا ایمان، حوصلہ، جذبہ دیرپا ثابت ہوگا جس کے اثرات ان شاء اللہ بہت جلد ظہور پذیر ہوں گے۔

حصہ