اعظم طارق کوہستانی

844

قیام پاکستان کے بعد اُمید کی جا رہی تھی کہ اُردو ادب کو وہ عروج ملے گا جس کی حدوں کو ماپنے کے آلے کم پڑ جائیں گے لیکن یہ سب ایک خواب اور سراب ہی رہا۔ ملک میں آمریت اور جمہوریت کی آنکھ مچولی نے ملک کے حالا ت کو ساز گارہی نہیں ہونے دیا۔ ناسازگار حالات میں بھی ادیب پیدا ہوتے ہیں لیکن ان کے موضوعات پھر ان ہی دائروں میں گھومتے ہیں جہاں ارباب اختیار دکھانا چاہتے ہیں۔ لوگوں نے ان حالات کے باوجود لکھا اور خوب لکھا ۔۔۔ اس میں یقیناًبہت سارے نام موجود ہیں، جو ماؤنٹ ایورسٹ کی طرح ادب پر ایستادہ نظر آتے ہیں لیکن ان لکھنے والوں میں جو مقبولیت نسیم حجازی کے تاریخی ناولوں کو ملی وہ کم کم ہی کسی کے حصے میں آئی ہے۔
اُردو ادب پر ایک الزام یہ بھی لگایا جاتا ہے کہ اس نے ہمیشہ ماضی کے قصے کہانیوں کو کریدا۔ماضی کی باتیں ادب میں گھسیٹ لائے،عشق و عاشقی سے آگے کم ہی بڑھے، ان الزمات پر اگر ٹھنڈے دماغ سے غور کیا جائے تویہ الزامات کسی حد تک درست بھی ہیں۔ادب کے ماضی کی جہتوں کوکھولنے سے ہم روایتوں کے اسیر بن کر رہ گئے۔ جبکہ مغرب نے حال کو ٹٹولااور مستقبل میں تانک جھانک شروع کی۔ اُنھوں نے نئے سیاروں کی خیالی دنیا بسائی اور چاند و مریخ پر اپنے ناولوں کے ذریعے سفر کرنا شروع ہو گئے۔
ناولوں کے ذریعے مریخ پر کمندیں ڈالنے والے بلآخرچاند پر تشریف لے گئے (اگرچہ چاند پر جانے کے باوجود بہت سارے ماہرین کے نزدیک ان کا چاند پر جانا مشکوک ہے اوراس کے اپنے دلائل ہیں لیکن فی الحال وہ میرا موضوع نہیں ہے)۔
یہ حقیقت ہے جب آپ اپنی نئی نسل کومستقبل کا نقشہ بتاتے ہیں اور ایک راہ سمجھاتے ہیں اور وہ اس سمت چل پڑے تو آپ کو یقین رکھنا ہو گا کہ وہ کائنات کی تسخیر کا کارنامہ بھی ضرور سر انجام دیں گے۔
نسیم حجازی نے اگرچہ ماضی کے موضوعات کواپنے ناولوں کا حصہ بنایا لیکن وہیں اُنھوں نے ماضی کو کنگھالتے ہوئے مستقبل کی تصویر دکھائی ہے۔ یہ ماضی کے ان ناولوں سے ہٹ کر ہیں۔جو ماضی کو ماضی میں ہی ختم کر دیتے ہیں۔ ماضی کو دکھاتے ہوئے مستقبل کے خواب دکھانا نسیم حجازی کا ایسا کارنامہ ہے جو بہت لوگو ں سے ہضم نہیں ہوتا۔نوجوانوں کے اندر مقصدیت کو پروان چڑھانا اور ان کے اصل اسلامی تشخص کو اُجاگر کرنا نسیم حجازی کا ہی طرۂ امتیاز ہے۔
یہاں ہم نسیم حجازی کا مختصر تعارف اور ان کے ناولوں کا جائزہ لیں گے۔
تعارف:
محمد شریف کو حجاز مقدس سے والہانہ محبت تھی۔اس لیے اُنھوں نے ادبی دنیا میں جب قدم رکھا تو اپنے لیے حجاز کی معطر ہوا یعنی نسیم حجازی پسند کیا۔ وہ ادیب تھے اور صحافی بھی لیکن ان کو سب سے زیادہ شہرت بطور ناول نگار ملی۔ وہ ۱۹ مئی ۱۹۱۴ء کو مشرقی پنجاب کے ضلع گورداس پور کے ایک گاؤں سوجان پور میں پیدا ہوئے۔ وہ متوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے والد چودھری محمد ابراہیم محکمہ ماہی پروری (fisheries) میں انسپکٹر تھے۔ اُنھوں نے بی۔اے تک تعلیم حاصل کی اور پھر صحافت میں قدم رکھا۔ایوب خان کے دور حکومت میں اپنے کوہستان اخبارمیں ایک خبر کی اشاعت پر گرفتار بھی ہوئے۔
کیا نسیم حجازے اردو کے پہلے تاریخی ناول نگار ہیں؟
نسیم حجازی کا سب سے پہلا ناول ’’داستان مجاہد ‘‘۱۹۴۳ء میں شائع ہوا تھا لیکن یہ اردو کا پہلا تاریخی ناول نہیں تھا۔اس سے پہلے مولانا عبدالحلیم شرر،رشید اختر ندوی اور مولانا صادق حسین صدیقی سر دھنوی بھی اسلام کے عروج و زوال سے متعلق ناول لکھ چکے تھے لیکن نسیم حجازی کے ناول تاریخی اعتبار سے زیادہ دلچسپ سمجھے جاتے ہیں۔
نسیم حجازی منفرد کیوں؟
نسیم حجازی کو انفرادیت ان کے ناولوں کی سادگی نے بخشی،انتہائی آسان اور سلیس زبان کا استعمال زیادہ مرصع و مسجّع زبان کے استعمال سے احتراز برتا ہے، تاریخ کو تاریخ ہی رہنے دیا ہے۔ناولوں کے اندر ذاتی پسند و نا پسند کی بنیاد پر فیصلے نہیں کیے ہیں۔ اکثر ناول نگار حضرات ناول کے اندر کہانی سے نکل کر وعظ اور تلقین پر کئی کئی صفحات خرچ کر ڈالتے ہیں۔شاید صفحات بھرنا مقصود ہوں۔ وہاں کہانی ختم ہو کر مضا مین شروع ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے کہانی بوجھل اور غیر دلچسپ ہو جاتی ہے جبکہ نسیم حجازی کے ناولوں میں اس چیز کا بہت خیال رکھا گیا ہے کہ کہانی کا سحر ختم نہ ہونے پائے۔ ذاتی نظریات کو وعظ اور نصیحتوں کے ذریعے قاری کے دل و دماغ میں منتقل کرنا ایک اذیت ناک مرحلہ ہوتا ہے۔اس میں انسانی نفسیات کو سمجھتے ہوئے قاری کے ذہن مین ڈیرہ جمانا ہوتا ہے اور یہ اتنا آسان کام نہیں ہے۔
ان کے ناولوں کی خاص بات یہ ہے کہ اُنھوں نے نوجوانوں کے اندر خودی کی اس صفت کو اُبھارنے کی کوشش کی ہے۔ جسے علامہ اقبال نے ابھارا تھا۔اگر آپ بغور جائزہ لیں تو آپ کو علامہ اقبال، مولانا مودودی اور نسیم حجازی کی کڑیاں آپس میں ملی ہوئی نظر آئیں گی۔ علامہ اقبال نے اپنی انقلاب آفریں شاعری کے ذریعے،مولانا مودودی نے اپنی سحر انگیز نثر کے ذریعے جبکہ نسیم حجازی نے ناولوں کے اسلامی روپ کے ذریعے قوم کے نو جوانوں کو بیدار کرنے کی کوشش کی۔ تینوں ہی اپنے زمانے(بلکہ ان کا زمانہ ابھی ختم نہیں ہوا) نوجوانوں کے اندر بے حد مقبول رہے ہیں۔
نسیم حجازی نے ثابت کیا کہ اصلاح ادب براے ادب کے ذریعے بھی ممکن العمل ہے۔۔۔ ضروری نہیں کہ ادب براے اصلاح کے ذریعے ہی اپنے پیغام کو منتقل کرنے کی کوشش کی جائے جو کہ پھر ادب نہیں رہتا اسے کوئی اور نام دیا جا سکتا ہے۔
نسیم حجازی کے ناول:
نسیم حجازی کے ناولوں کو درج ذیل حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
نسیم حجازی نے تاریخ اسلام کی دو مشہور شخصیا ت کو اپنے ناول کا حصہ بنایا۔اس میں’’ محمد بن قاسم ‘‘اور ’’یوسف بن تاشفین ‘‘شامل ہیں۔
اسلام کے سیاسی و عسکری محاذ پر کامیابیوں و کامرانیوں کو آخری معرکہ،قیصروکسریٰ اورقافلہ حجاز میں موضوع سخن بنایا۔
مسلمانوں کے عروج و زوال،شکست و یخت کے اسباب سلطان جلال الد ین،محمد خوارزم شاہ اور چنگیز خان کی سیا سی و عسکر ی چپقلش کواپنے مشہورِ زمانہ ناول ’’آخری چٹان‘‘ میں نما یاں کیا گیا ہے۔
یوسف بن تاشفین کے علاوہ شاہین، کلیسا اور آگ، اندھیری رات کے مسا فر اُن کے ناول ہیں۔ اس میں اُندلس کے مسلمانوں کی حالتِ زار کو بیان کیا گیا ہے۔
’’معظم علی ‘‘اور’’ر تلوار ٹوٹ گئی ‘‘ہندو ستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی شر انگیزیوں اور مسلمانوں کے زوال کو موضوع بنایا گیا۔
پاکستان بننے کے بعدخاک اور خون لکھا جس میں قیامِ پاکستان کے مقاصد اور حجرت کے دوران پیش آنے والے واقعات کو لکھا گیا ہے۔
اس کے علاوہ چار ناول اُنھوں نے طنز و مزاح کے موضوع پر لکھے جبکہ حج کی سعادت حاصل کرنے کے بعد وہاں کے پیش آنے والے واقعات کو کتابی شکل دی۔
طنز و مزاح پر مشتمل ناول ’’سفید جزیرہ‘‘ آج کے حالات کی بھر پور عکاسی کرتا ہے۔گزشتہ دورِ حکومت اِن کے اسی ناول کا حقیقی رنگ لگتا ہے۔
نسیم حجازی ٹی۔ وی اسکرین پر:
۱۹۸۰ء کے عشرے میں آخری چٹان اور شاہین ناول پر پاکستان ٹیلی ویژن سے ڈرامے پیش کیے گئے جبکہ خاک اور خون ناول سے لالی ووڈ نے ایک فلم بنائی۔یہ فلم مسلمانوں کی ہندوستان سے ہجرت پر مشتمل تھی۔ اس فلم نے اس زمانے میں بے پناہ مقبولیت حاصل کی۔
نسیم حجازی اب تک زندہ ہیں؟
یہ حقیقت ہے کہ اگر نسیم حجازی ناول نگاری نہ کرتے تو یقیناًآج وہ بہت کم جانے جاتے لیکن ان کے لازوال ناولوں نے اِنہیں زندہ رکھا۔ان کے ہم عصر ساتھی عنایت اللہ صاحب نے بھی تاریخی ناول لکھے لیکن اِن میں وہ درد، چاشنی موجود نہیں ہے۔ جو نسیم حجازی کے ناولوں کا خاصہ ہے۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے کہنے پر نسیم حجازی نے سیاچن اور پاک فوج کی جاں بازی کے موضوع پر لکھنے کی تیاری شروع کر دی تھی لیکن اپنی علالت کے باعث وہ اِسے جاری نہ رکھ سکے۔
نسیم حجازی کے مشہور ناولوں کے اقتباسات:
ہم نے شروع میں ہی کہا کہ نسیم حجازی کے ناولوں کی خاص بات یہ ہے کہ اُنھوں نے کہانی کے سحر میں اپنے قاری کو جکڑ کر رکھا۔قاری نے ہمیشہ اِن کے ناولوں کو پڑھ کر اس میں خود کو جیتا جاگتا محسوس کیا ہے۔نو جو انوں کو ایسا لگتا ہے کہ وہ ناول اِن ہی پر لکھا گیا ہے۔
یہاں پر ہم نسیم حجازی کے ناولوں کے مختصر سے اقتباس پیش کر رہے ہیں اِن اقتباسات سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان کے ناولوں کی روانی، سادگی اورمنظر نگاری نے کس طرح قاری کو اپنے سحر میں رکھا۔
یوسف بِن تاشفین:
کچھ دیر سمندر کی طرف نگاہیں دوڑانے کے بعد اُنھوں نے صبح کی نماز ادا کی اور پھر چھت پر کھڑے ہو کر اُفق کی طرف دیکھنے لگے۔ستارے سحر کی بڑھتی ہوئی روشنی میں گم ہو گئے۔شفق کے نقاب سے سورج کی دمکتی ہوئی پیشانی نمودار ہوئی اور سمندر کی سطح پر نور کی ایک چادر بچھ گئی۔ میمونہ نے نیچے جھانک کر دیکھا ساحل پر سیکڑوں آدمی سمندر کی طرف ٹکٹکی باندھے کھڑے تھے۔
سعد اُفق کی طرف اشارہ کر کے چلایا۔ ’’وہ آگئے، اُندلس کے نجات دہندہ آ گئے۔‘‘ سعد وار فتگی کے عالم میں کہہ رہا تھا ’’میمونہ ! مسکراؤ آج اندلس تمھارا ہے،اپنی بہنوں کو یہ مژدہ سناؤ کہ تمھاری عزت اور عصمت کے رکھوالے آ گئے ہیں۔آج اندلس میں انسانیت ایک نیا جنم لے رہی ہے۔‘‘
آخری معرکہ:
قلعے کے وسیع صحن میں ہندوؤں کے منتشر دستے عمارتوں میں پناہ لے چکے تھے اور نماز کا وقت ہو گیا تھا۔ سلطان نے حکم دیا کہ ہم اِن عمارتوں پر قبضہ کرنے سے پہلے نمازِ جمعہ ادا کریں گے۔ مؤذن نے شمالی دروازے کے برج پر کھڑے ہو کر اذان دی اور مسلمان صفیں باندھ کر کھڑے ہو گئے۔اِن کی نماز کا نظارہ عجیب تھا۔ قلعے کی عمارت سے ہندوؤں کے دستے اندر تیر برسا رہے تھے لیکن مسلمان انتہائی ضبط و سکون سے بارگاہِ الہٰی میں سر بسجود تھے۔ نماز کے بعد سلطان نے اپنے جانبازوں کی طرف نگاہ دوڑائی جن کی پیشانیوں پر فتح و نصرت کی بشارت لکھی ہوئی تھی اور اس کی آنکھوں میں تشکر کے آنسو چھلک رہے تھے۔
داستانِ مجاہد :
وقت دنو ں سے مہینوں اور مہینوں سے برسو ں میں تبدیل ہو کر گزرتا گیا، نعیم کو جنوبی پرتگال کی گورنری کے عہدے پر فائز ہوئے اٹھارہ سال گزر چکے تھے۔اس کی جوانی بڑھاپے میں تبدیل ہو چکی تھی،ڈاڑھی کے بال سفید ہو رہے تھے۔نرگس کی عمر بھی چالیس برس سے تجاوز کر رہی تھی لیکن اس کے حسین چہرے کی جاذبیت میں کوئی نمایاں تبدیلی نظر نہیں آئی تھی۔
کلیسا اور آگ:
میرا گھوڑا کافی مضبوط تھا لیکن اسے راستے میں بہت کم آرام ملاکل بھی اس نے حسبِ معمول اس پر دو منزلیں طے کی تھیں لیکن تیسرے پہر اُس نے ایک بلند پہاڑی عبور کرتے ہوئے اچانک گر کر دم توڑ دیا۔
انسان اور دیوتا :
کنول پر وہ محویت طاری ہو چکی تھی جو کسی انسان میں مایوسی اور بے بسی کی انتہا دیکھنے کے بعد پیدا ہوتی ہے۔جو ایک جیتے جاگتے انسان کو پتھر کا مجسمہ بنا دیتی ہے۔ ایک اضطراب مسلسل اس کے لیے ایک دائمی سکون بن چکا تھا۔ اس کے دل میں جو غم کے سمندر کی آخری گہرائیوں میں غوطے کھا رہا تھا۔ زندگی کے ادنیٰ تفکرات کی کوئی اہمیت نہ تھی۔
نسیم حجازی نے اپنے ناولوں کے ذریعے اُمتِ مسلمہ اور اردو ادب پر جو احسان کیا ہے یقیناًوہ سنہری حروف میں لکھا جانا چاہیے۔ تاریخ کا یہ عظیم ناول نگار ۲ مارچ ۱۹۹۹ء کو اس فانی دنیا سے کُوچ کرگیا۔
nn

حصہ