شکیل خان

208

قومیں اپنی تہذیب و ثقافت سے پہچانی جاتی ہیں۔ ایک مؤثر تہذیب اور فن و ثقافت کی اقدار کا تحفظ معاشروں کو جِلا بخشتا اور انہیں تحفظ فراہم کرتا ہے۔ جو معاشرے تہذیبی ارتقاء سے گزرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں اُن کے لیے اپنی مٹی پر قدم جمائے کھڑے رہنا زیادہ آسان ہوتا ہے۔ زمین میں جڑے ہوئے، اس سے اقدار کا رس کشید کرتے رویّے دلوں میں کشادگی اور ذہنوں میں بالیدگی پیدا کرتے ہیں۔ جو قومیں، گروہ، افراد یا معاشرہ اپنے اندر کے فن کو مار دیتے ہیں تہذیب انہیں اپنے قبرستان میں دفن کردیتی ہے۔
انسانی معاشروں میں کشادگی، اعلیٰ ظرفی، برداشت کی قوت، احترام انسانیت، اور شرفِ آدمیت کی بحالی صرف اچھی تہذیب و ثقافت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
وہ معاشرے جہاں جبر کی گھٹائیں چھائی ہوئی ہوں، لفظ کے بولنے اور لکھنے پر پہرے ہوں، قلم کو پابہ زنجیر کردیا گیا ہو، جہاں کتابوں کی دکانیں کم اور جوتوں کی دکانیں زیادہ ہوں، لائبریریاں نہ ہوں لیکن ڈبو کھیلنے والے بے شمار مل جائیں، ہاتھ کتابوں سے خالی، دل افکار سے نابلد اور ذہن کشادگی سے ناآشنا ہوں، وہ قومیں بانجھ ہوتی چلی جاتی ہیں۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بالشتیے اور بونے باون گز کے لوگ بن جاتے ہیں۔ جو لوگ دانائی سے عاری ہوتے ہیں وہ جگہ جگہ الیکٹرونک میڈیا پر بیٹھ کر الفاظ کی جگالی کرتے ہیں اور اپنی دانشوری کا رعب جماتے ہیں۔
کراچی ایک شہرِ ناپرساں ہے کہ جس کو ہر حکمران سوتیلے بیٹے کی طرح دیکھتا ہے۔ اس شہر کے ذریعے حکومت کرنے والے اور اس کو اپنی طاقت کا مرکز قرار دینے والے ہوں یا یہاں سے اربوں روپے کا ٹیکس حاصل کرنے والی حکومت۔۔۔ کسی کو بھی اس کے مسائل سے دلچسپی نہیں ہے۔ دونوں کے لیے یہ صرف ایک دودھ دینے والی گائے ہے کہ اس سے جو کچھ حاصل ہوسکتا ہے، حاصل کیا جارہا ہے۔
ایسے میں کہ جب ہم اداروں کی پامالی اور ان کی بربادی کا رونا رو رہے ہوتے ہیں، ایک ادارہ اس شہر میں ایسا ہے کہ گزشتہ دس سال سے اس کی کارکردگی کا گراف دن بہ دن بلند ہوتا جارہا ہے۔ اس کے معیار کی بڑھوتری کا اعتراف صرف اہلِ کراچی نہیں بلکہ ساری دنیا کے فن و ثقافت کے ماہرین کرتے ہیں۔
آرٹس کونسل نے گزشتہ دس سال میں جس طرح اس شہر کی پہچان تمام عالم کے علمی و ثقافتی حلقوں تک پہنچائی ہے اس کا ذکر کرنے کے لیے ایک طویل دفتر درکار ہے۔ یوں تو یہ آرٹس کونسل شہرکے قلب میں گزشتہ پچاس سال سے قائم ہے لیکن یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ پہلے یہاں شام ہوتے ہی تالے پڑ جاتے تھے۔ آرٹس کونسل کو ایک سرکاری ادارے کی طرح چلایا جارہا تھا کہ جہاں صرف کلرکی پنپتی تھی۔ شاعر، ادیب، موسیقار، گلوکار اپنے پروگرامات کے لیے کسی کلرک بادشاہ کے سامنے کھڑے گھگھیا رہے ہوتے تھے۔
لیکن اب منظر دوسرا ہے۔ سال کے 365 دن ہوتے ہیں، لیکن آرٹس کونسل میں پروگرام 730 ہوتے ہیں۔ شام ہوتے ہی اس کی رونقیں عروج پر پہنچ جاتی ہیں۔ اور کچھ ایونٹ تو اس کی شناخت بن چکے ہیں۔ سالانہ اردو کانفرنس کہ جس میں تمام اکنافِ عالم سے اردو کے چاہنے والے اس کے ادباء و شعرا مدعو ہوتے ہیں اور لیلیِ اردو کے گیسو سنوارتے ہیں۔ اس کے علاوہ یوتھ فیسٹول، تھیٹر فیسٹول، میوزک فیسٹول، مشاعرے، غزلوں کے پروگرام ہر دن کو عید اور ہر رات کو شب برات بناتے ہیں۔
گزشتہ اتوار آرٹس کونسل میں وہ رونق دیکھنے میں آئی جو انتخاب کے دن اس کا خاصہ ہے۔ اوپن ایئر آڈیٹوریم میں آرٹس کونسل اپنے ارکان کے ہمراہ ایک نئے سنگِ میل کو عبور کررہی تھی۔ گزشتہ پچاس سال سے اس ادارے کے آرٹیکل آف ایسوسی ایشن میں کوئی ترمیم نہیں کی گئی تھی۔ اب ادارے کے پھیلاؤ، اس کے کاموں میں تنوع اور ارکان کے اضافے کے بعد اس بات کی بڑی شدت کے ساتھ ضرورت محسوس ہورہی تھی کہ تبدیلیوں کا آغاز کیا جائے اور جمہوری انداز میں تمام کاموں کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا جائے۔
کمشنر کراچی جو بہ لحاظِ عہدہ آرٹس کونسل کے چیئرمین ہوتے ہیں اُن کی صدارت میں تبدیلیوں کے اس سفر کا آغاز ہوا۔ کمشنر کراچی جناب اعجاز احمد خان اس بات پر شکریہ کے مستحق ہیں کہ جس خوش اسلوبی اور ذمہ داری سے آپ نے اس اجلاس کو چلایا یہ آپ کی بالغ نظری، انتظامی صلاحیت اور اعصابی طور پر مضبوط ہونے کی دلیل ہے۔
محمد احمد شاہ کہ جن کی قیادت میں آرٹس کونسل نے ایک عالمی ادارے کا روپ دھار لیا ہے، اس تمام تبدیلی کے محرک تھے۔ نہایت خوش اسلوبی اور ذہانت کے ساتھ گزشتہ دس سال سے آپ اس ادارے کو لے کر چل رہے ہیں، کام کو آگے بڑھا رہے ہیں، اور ایک خوش خصال، فعال اور ہمدرد قائد کی حیثیت سے آرٹس کونسل میں تبدیلیوں کی بہار لا رہے ہیں۔ تمام ترجیحات کو کثرتِ رائے سے منظور کرلیا گیا۔ اس طرح اب آرٹس کونسل ایک زیادہ جمہوری ادارے کی حیثیت سے سامنے آئی ہے۔
موقع پر موجود کچھ ارکان نے اختلاف کا اظہار بھی کیا، لیکن یہ سب کچھ جمہوریت کا حسن ہے اور اکثریت کی بات کو فوقیت حاصل ہوتی ہے۔
اس موقع پر کراچی کے ہر طبقۂ فکر سے تعلق رکھنے والے ارکان نے بڑی تعداد میں شرکت کی جس میں نمایاں طور پر جناب ایس ایم منیر صاحب، شمیم فرپو، احمد چنائے، عبدالحسیب خان، فرحان الرحمان، خالد آرائیں، وسعت اللہ خان اور دیگر افراد نے شرکت کی۔
nn

حصہ